ابو ظبی کے عظیم اور قدیم تعلیمی ادارے کے پرنسپل کی وفات پرایک تاثراتی تحریر
کمزور جسم میں توانا دل اور چھوٹے قد میں بڑا حوصلہ رکھنے والے عبدالرحیم بھی چپکے سے اس جہان جا پہنچے جس کی طرف لوگوں کو جاتے تو دیکھا ہے مگر وہاں سے واپس آتے نہیں دیکھا۔اللہ کی رحمت سے امید یہی ہے کہ جس طرح اس نے انہیں یہاں عزت و عافیت سے نواز رکھا تھا، وہ وہاں بھی انہیں رحمت و عافیت نصیب فرمائے گا۔ یہی تووہ عزت و عافیت تھی جس کی انہیں بہت فکر رہتی تھی۔ اپنے رخصت ہونے سے چند روز قبل ہی انہوں نے مجھے اور محترم خضرحیات اورعبدالمعز صاحب کو بلا یاتھا اور ہم سے کہا تھا کہ طالبعلموں کی سیر ت سازی پر ہمیں خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اسی گفتگو میں انہوں نے خضر حیات صاحب کی توجہ اس بات کی طرف دلائی تھی کہ ہماری عمریں تو ساٹھ برس سے تجاوز کر چکی ہیں، ہم موت کے کنارے کھڑے ہیں بلکہ بونس پر چل رہے ہیں، اس لیے ہم لوگوں کو تو خصوصا ًاس بات کی فکر کر نی چاہیے کہ یہی آخرت کا سرمایہ ہوگا۔اس موقع پر میں نے کہا تھا کہ حضرت ، موت کے لیے کون سا عمرشرط ہے ۔ صحت، عمر ، بچپن ، جوانی ،بڑھاپا کوئی بھی چیز موت کے آگے رکاوٹ نہیں اسکے لیے تو ہر انسان کو اتنا ہی حساس اور تیار رہنا چاہیے جتنا کہ آپ کو ۔ انہوں نے کہا تھا لیکن پھر بھی اصولاً ہمیں زیادہ تیار ہونا چاہیے۔
٭ کرنل عبدالرحیم ان لوگوں میں سے تھے جن کی طرف زندگی میں کم توجہ کی جاتی ہے مگر موت کے بعد وہ زیادہ یاد آتے ہیں جیسے کہ اب مجھے بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ کرنل تو لکھتے تھے لیکن ان میں کرنیلی و جرنیلی والی روایتی بات کوئی نہیں تھی اور یقینا یہ بہت اچھی بات تھی۔ وہ اصل میں ایک شریف النفس انسان اور اچھے مسلمان تھے خو ف خدا ، موت کی یاد، قرآن مجید کی تلاوت ، نمازوں کے اہتمام اور ذکر و تسبیحات میں انہیں خصوصی اشتغال رہتا تھا۔ ان کی گھریلو، نجی اور معاشرتی زندگی کے دیگر پہلوؤں سے میں واقف نہیں لیکن امید یہی ہے کہ زندگی کے ہر پہلومیں اللہ انہیں یاد رہتا ہو گا اور یہ یقینی امر ہے کہ جس نے زندگی کے ہر موڑ اور ہر نشیب و فراز میں اللہ کو یاد رکھا،موت کے بعد اللہ اسے یاد رکھے گا۔اور جسے موت کے بعد بھی اللہ یاد رکھے وہ یقینی فوز و فلاح پا گیا۔اللہ ہمیں بھی یہ فوزوفلاح نصیب فرمائے اور عبدالرحیم کو بھی۔ اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی اولاد کو نیک اعمال کی توفیق اوراس پر استقامت نصیب فرمائے ۔
٭ میری ان سے شناسائی کی عمر آٹھ نو ماہ سے زیاد ہ نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے پرانے احباب جیسے محترم پروفیسر محمد حسین ملک آگے بڑھیں اور ان کی زندگی کے مختلف گوشوں سے پردہ اٹھائیں کیونکہ مجھے امید ہے کہ ان جیسے سیلف میڈ انسان کی زندگی میں بہت سے لوگو ں کے لیے بہت سے سبق ہوں گے۔