وطن عزیز کو دنیا ایک اسلامی ریاست کے طو رپر جانتی ہے اورویسے بھی یہاں کی اٹھانوے فیصد آبادی چونکہ مسلمان ہے اس لیے مقتدر قوتیں ہر دورمیں، مروتاً ہی سہی ، اسلامیات کے مضمون کو شامل نصاب کر تی رہی ہیں۔اسی طرح اسلامیات کی‘ لا زوال اہمیت’ کے پیش نظر ہر دور میں، بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمیناربھی منعقد ہوتے رہے، بے نظیر مقالے بھی پڑھے جاتے رہے ، خصوصی مجالس میں بھر پور بحث مباحثہ بھی کیا جاتا رہا،اسمبلی ہال اور کابینہ کی محفلوں میں بھی اسلامیات کا غلغلہ گونجتا رہا، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اسلامیات کے نصاب بھی مرتب ہوتے رہے ، ان کے آغاز پر بہت خوبصورت دیباچے بھی لکھے گئے ، اسلامیات کو پڑھانے کے مقاصد بھی وضاحت سے بیا ن کے گئے ، اس کے تعلیمی فلسفے پر بھی روشنی ڈالی گئی ، اسلامیات کو لازمی مضمون بھی قرار دیا گیا،ہر حکومت نے اپنی کوششوں کو اجاگر کر نے کی بھر پور سعی بھی کی ،اور جب بھی کسی حکومت کی طرف سے اسلامیات کو خارج ازنصاب کرنے کی کوشش کی گئی تو دینی سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف بھر پور آواز بھی اٹھائی مگر اس سب کے باوجودنتائج کے اعتبار سے آج بھی صورت حال وہی ہے جوآج سے تیس یا چالیس برس قبل تھی۔
نتائج سے ہماری مراد تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھانے کے مقصد سے ہے یعنی ہم سمجھتے ہیں کہ اس مضمون کو پڑھانے کے دو ہی مقصد ہوسکتے ہیں، طالبعلموں کو اسلام کے بار ے میں معلومات فراہم کرنا اور یا پھر انہیں اچھا مسلمان بنانا۔افسوس یہ ہے کہ ہر دو لحاظ سے نتیجہ صفر ہے ۔دس بارہ برس اسلامیات پڑھنے کے باوجود بھی طالب علم کی معلومات ناقص ہوتی ہیں اور عملی طور پر تو اس کاحال اس چٹان سے کم نہیں ہوتا کہ جس پر بارش برستی تو ہے مگر سبزہ پیدا کرنے سے قاصر رہتی ہے ۔ الا ماشا ء اللہ۔ہمارے خیال میں اس کی بہت سی وجوہات ہیں مگر تین وجوہ ایسی ہیں کہ کم از کم اگر ان کا صحیح ادراک کر کے انہیں دور کر دیا جائے تو شاید بہت سا ازالہ ہو جائے ۔
پہلی وجہ فرد ، خاندان، معاشرے ،اداروں اور حکومتوں کا اس مضمون کے بارے میں بے حس ہونا ہے ۔مراد یہ ہے کہ اگر پانچ سات برس میڈیکل ، انجنیرنگ یا سائنس کی تعلیم حاصل کر نے کے باوجود اچھا ڈاکٹر ، بہتر انجنیر، اور اعلی سائنسدان نہیں بن پاتا تو خاندان سے لے کر معاشرے تک اور اداروں سے لے کر حکومتوں تک سب فکر مند ہوجاتے ہیں، ہر سطح پر سر جوڑ کر مشورے ہوتے ہیں اور جہاں کمی ہوتی ہے اسے دور کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے اوریہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے ۔مگر کیا اسلامیات کے سلسلے میں بھی ایساہوتا ہے؟ نہ ہی فرد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اورنہ ہی خاندان کے دماغ میں،اسی طرح نہ ہی متعلقہ اداروں کو یہ فکر نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی حکومتوں کو ،کہ آخر ایک طالب علم نے دس بارہ برس اسلامیات کا مضمون پڑھا ہے تو اس پر کوئی اثر کیوں نہیں ہوا؟دس بارہ برس فزکس کیمسٹری پڑھ کر بھی اگر ایک طالب علم کو ان مضامین میں مہارت حاصل نہ ہو تو وہ کف افسوس ملتا رہ جاتاہے کہ ہائے میرا وقت ضائع ہو گیا ۔کیا کسی طالب علم نے دس بارہ برس اسلامیات پڑھ کر بھی کف افسوس ملاہے کہ ہائے اتنے برس بعد بھی میں اچھامسلمان کیوں نہ بن پایا؟ اورہائے اتنے برسوں بعد بھی میرا اسلامی علم وہیں کا وہیں رہا جہاں سے میں شروع ہوا تھا۔باقی مضامین اور شعبوں میں تو کم ا ز کم احساس زیاں باقی ہے مگر اس میداں میں تو احساس زیاں بھی باقی نہیں رہا۔چنا نچہ ہمارے خیال میں اسلامیات کی تعلیم سے فائد ہ اٹھانے کی اولین شرط احساس زیاں کا پیدا کرناہے اور اس کے لیے پورے معاشرے میں ہر سطح پرسنجیدہ کوششیں درکا رہیں ۔دینی سیاسی جماعتیں مل کر اس سلسلے میں ایک ہمہ گیر تحریک پیدا کر سکتی ہیں مگر شاید یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ جب کوئی امر کسی کا مسئلہ بن جاتا ہے تو پھر وہ سود و زیاں سے بے نیاز، ہر وقت اور ہر سطح پر اس کو حل کرنے کی سعی کرتارہتاہے ۔ دینی سیاسی جماعتیں باہر آتی ہیں اور تحریک بھی پیداکرتی ہیں مگر مخصوص وقت پر اورشاید مخصوص مفادات کے لیے۔
دوسری بڑی وجہ طریقہ تعلیم ہے جس میں اصلاح کی اشد ضرورت ہے مگر اس ضرورت کااحساس بھی عنقا ہے ۔اسلامیات کو بھی باقی مضامین کی طرح ایک سادہ ، بے حس اور سیکولرمضمون سمجھ کر محض معلومات منتقل کرنے پر زور دیاجاتا ہے جو ایک ایسی غلطی ہے کہ جس کا ازالہ کیے بغیر اسلامیات کی تعلیم سے نتائج کی توقع کرناعبث ہے ۔یہاں معلومات منتقل کرنے سے زیادہ اہم نظریات ،تصورات اور عقائدکی درستی ہے اور عملی طو ر پر اچھا مسلمان بنانے کی سعی کرنا ہے جس کی طرف تعلیمی اداروں کا کم ہی دھیان جاتا ہے۔ باقی مضامین میں ہر سوچ اور ہر فکر کا استاد کام کر لے گا مگر اسلامیات میں صرف وہی استاد نتائج پیدا کرنے کااہل ہو گا کہ جس کی نہ صرف اس مضمون کے ساتھ جذباتی وابستگی ہو بلکہ وہ خود بھی اسلامی اصولوں پر عامل ہو۔اس مضمون میں کتابوں سے زیادہ استاد کی شخصیت طالب علم پراثر انداز ہوتی ہے اگر استاد کو اسلام سے جذباتی وابستگی نہیں ہے اور اسے عمل کی فکر نصیب نہیں ہے تو ممکن نہیں کہ طالب علموں کو یہ نصیب ہو۔اس لیے اسلامیات کی تعلیم میں مجرد معلومات پہنچانے کی سعی کر نا ایک بے کارر کوشش ہے جو ہم پچاس برسوں سے کر رہے ہیں۔اس میں اصل ٹارگٹ طالب علم کی شخصیت کو تبدیل کرنا ہونا چاہیے۔ اور اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں خود تعلیمی اداروں کا اپنا رویہ آڑے آ رہا ہے چنانچہ ہمارے خیال میں تیسر ی وجہ خود تعلیمی اداروں کارویہ ہے اسے بدلے بغیر بھی اسلامیات کی تعلیم سے کماحقہ فوائد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔تعلیمی اداروں میں تین قسم کے ادارے کام کر رہے ہیں ۔ایک توحکومتی سکول ، کالج اوریونیورسٹیاں ہیں، جولگے بندھے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ان سے کوئی بڑی توقع کرنا عبث ہے دوسری قسم ان پرائیویٹ اداروں کی ہے جنہیں اسلامیات سے کوئی سروکا رنہیں ان کے ہاں اگر یہ مضمون ہے تو بعض قانونی اور معاشرتی مجبوریوں کی وجہ سے۔ چنانچہ وہ اگر اس سے تیسرے درجے کا سلوک کرتے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ مضمون ان کا مسئلہ ہی نہیں۔تیسری قسم ان اداروں کی ہے جن کو یا تو دینی جماعتیں چلا رہی ہیں اور یا وہ خود اسلامی مشنری ہونے کا دعوی رکھتے ہیں۔ہمارے پیش نظر فی الوقت یہی ادارے ہیں۔یہ ادارے بھی کوئی کم نہ تھے یہی اگر پچھلے پچاس برسوں سے صحیح رخ پر کام کر رہے ہوتے تو کم از کم ایک ایسی نسل پیدا کر چکے ہوتے جو اسلام سے نہ صرف مخلص ہوتی بلکہ اس پر دل و جان سے عمل پیرا بھی ہوتی مگر ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبا بھی اسلامیات کے اعتبارسے وہیں کھڑے نظر آتے ہیں جہاں باقی اداروں کے طالب علم۔ المیہ یہ ہے کہ ان اداروں میں بھی عملاً اسلامیات کو تیسرے درجے کے مضمون کا درجہ حاصل ہے۔ان اداروں نے بھی اپنے طلبا کا کارکردگی کا معیار امتحانات میں حاصل کردہ نمبروں کو بنا رکھا ہے جو کہ ہمارے خیال میں اسلامیات کے مضمون کی حد تک( خاص طور پر بڑی کلاسوں میں) ایک غلط معیار ہے ۔ اس میں اصل معیار طالب علم کی نظریاتی پختگی اور اس کے رویوں کی تبدیلی ہو نا چاہیے ۔ ان امور کے جائزے کا مناسب بندوبست ہونے کے بعدہی امتحانا ت کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔(امتحانا ت میں شاندار کامیابی تو غیر مسلم بھی حاصل کر لیتے ہیں)۔ اسی طرح یہ ادارے بھی اسلامیات کے استاد کے ضمن میں کڑے معیار سے تہی دامن ہیں۔یہ بھی اسلامیات کا مضمون پڑھانے کے لیے کاغذی ڈگریوں پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے علاوہ استاد کے لیے کسی خاص علمی پس منظر کاحامل ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔ اگر کوئی میسر نہ ہو تو ہر مضمون کے استاد کو اسلامیات کا استاد بنا دیا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ جو بھی پڑھائے گا اسلام ہی پڑھائے گا۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے جو عملًا اسلامیات کے مضمون کو ایک ‘یتیم’ مضمون کے درجے پر کھڑا کر دیتی ہے اور طالب علم بھی اس سے یہی اثر لیتے ہیں۔ان اداروں میں بھی اسلامیات کے استاد کی عزت باقی اداروں کی طرح نہ صرف کم ہوتی ہے بلکہ اس کی تنخواہ بھی کم ہوتی ہے۔ان اداروں میں بھی طالب علم کو یہی باور کرایا جاتا ہے کہ یہ بھی ایک مضمون ہے اوراس کا پاس کرنا ضروری ہے ورنہ ڈگری نہیں ملے گی چنانچہ طالب علم یہاں بھی اس کو مجبورًا پڑھتے ہیں لیکن چونکہ ان کی عملی اورمعاشی زندگی کا کوئی پہلو بھی اس سے وابستہ نہیں ہوتا اس لیے انہیں اسے سمجھنے اور اپنانے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ان کا مطمح نظر بس کسی طرح امتحان پاس کرلینا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علم فزکس ، میتھ اورکیمسٹر ی کی کلاس جس طرح سنجید ہ ہو کر پڑھتے ہیں ان کا یہ رویہ اس مضمون میں کبھی نہیں ہوتا کیونکہ وہاں انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کی کوئی بات اگر سمجھنے سے رہ گئی تو عملی زندگی میں مشکل پیش آئے گی مگر یہاں ان کااحساس یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ سمجھنے سے رہ بھی گیا توکیافرق پڑے گا۔ان اداروں کا اولین فریضہ طالب علموں کے اذہان کی تطہیر ہے ۔ اس کے لیے ان اداروں کو علیحد ہ سے وقت مختض کرنا چاہیے کہ جس میں طالب علم کو اس مضمون کی اہمیت باور کر ائی جائے اورجب طالب علم کا اپناشوق تقاضا کر ے تب اسے سلامیات کا مضمون شروع کر ایا جائے اس سے پہلے پڑھانابنجر زمین پر بیج ڈالنا ہے۔تجربہ شاہد ہے کہ جہاں دینی اور دنیوی مضامین اکھٹے پڑھائے جاتے ہیں وہاں عملاً دنیوی مضامین کاغلبہ ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی تحصیل سے طالب علم کو ‘‘نقد نفع’’ نظر آتا ہے اس لیے ہمارے خیال میں ضرور ی ہے کہ دینی مضامین سے کوئی مادی فائدہ وابستہ نہ کیا جائے ۔یہ غلطی مرحوم ضیا الحق کے دور میں ہو چکی ہے اور اس کا بھیانک نتیجہ بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔ دینی مضامین کوخالص جذبے سے پڑھناہی فائدے کا باعث بن سکتا ہے اور یہ پڑھنا ہی عملی زندگی پر اثر انداز ہو سکتاہے ۔اسلامیات کے مضمون کے استاد کو ان اداروں میں ایک خاص اہمیت دی جانی چاہیے تا کہ اس مضمون کی ‘یتیمی’ کا احساس ختم کیا جا سکے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کاش خود کو اسلامی اورمشنری کہلانے والے ادارے اس مضمون کے ضمن میں رول ماڈل کا کردار ادا کریں اور اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے اسے کما حقہ اہمیت دیں اور اس کے لیے سنجید گی سے حکمت عملی وضع کریں تاکہ دوسرے اداروں کو بھی ترغیب ہو لیکن اگر یہ بھی رواجاً رسما ً پڑھاتے رہے اور اس کے لیے الگ سے محنت اور ہوم ورک نہ کیا تو جس طرح پچھلے پچاس برس صورت حال جو ں کی توں رہی آئند ہ پچاس برس بھی الا ما شاء اللہ ویسے کی ویسے رہے گی۔