قرآنِ کریم کی تعلیمات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے کسی ادنیٰ شبہ کے بغیر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ درحقیقت انسانی زندگی دو مختلف شعبوں پر منقسم ہے’ ایک گھر کے اندر کا شعبہ ہے اور ایک گھر کے باہر کا۔ یہ دونوں شعبے ایسے ہیں کہ ان دونوں کو ساتھ لیے بغیر ایک متوازن اور معتدل زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ گھر کا انتظام بھی ضروری ہے اور گھر کے باہر کا انتظام’ یعنی کسبِ معاش اور روزی کمانے کا انتظام بھی ضروری۔ جب دونوں کام ایک ساتھ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ٹھیک چلیں گے تب انسان کی زندگی استوار ہوگی اور اگر ان میں سے ایک انتظام بھی ختم ہوگیا یا ناقص ہوگیا تو اس سے انسان کی زندگی میں توازن ختم ہوجائے گا۔
مرد اور عورت کے درمیان تقسیم کار
ان دونوں شعبوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ تقسیم فرمائی کہ مرد کے ذمے گھر کے باہر کے کام لگائے’ مثلاً کسبِ معاش اور روزی کمانے کا کام اور سیاسی اور سماجی کام وغیرہ’ یہ سارے کام درحقیقت مرد کے ذمے عائد کیے ہیں’ جب کہ گھر کے اندر کا شعبہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے عورتوں کے حوالے کیا ہے کہ وہ اس کو سنبھالیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آجاتاکہ عورت باہر کا انتظام کرے گی اور مرد گھر کا انتظام کرے گا’ تو بھی کوئی چوں و چرا کی مجال نہیں تھی۔ لیکن اگر عقل کے ذریعے انسان کی فطری تخلیق کا جائزہ لیں تو بھی اس کے سوا اور کوئی انتظام نہیں ہوسکتا کہ مرد گھر کے باہر کا کام کرے اور عورت گھر کے اندر کا کام کرے’ اس لیے کہ مرد اور عورت کے درمیان اگر تقابل کر کے دیکھا جائے تو ظاہر ہوگا کہ جسمانی قوت جتنی مرد میں ہے’ اتنی عورت میں نہیں اور کوئی شخص بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مرد میں عورت کی نسبت جسمانی قوت زیادہ رکھی ہے’ اور گھر کے باہر کے کام قوت اور محنت کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ کام قوت اور محنت کے بغیر انجام نہیں دیے جاسکتے۔ لہٰذا اس فطری تخلیق کا بھی تقاضا یہی تھا کہ گھر کے باہر کے کام مرد انجام دے’ اور گھر کے اندر کے کام عورت کے سپرد ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو براہِ راست خطاب فرماتے ہوئے ان کے واسطے سے ساری مسلمان خواتین سے خطاب فرمایا: وَقَرنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ (الاحزاب: ۳۳) یعنی ‘‘تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو’’۔
اس میں صرف اتنی بات نہیں کہ عورت کو ضرورت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جانا چاہیے بلکہ اس آیت میں ایک بنیادی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے’ وہ یہ کہ ہم نے عورت کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ گھر میں رہ کر گھر کے انتظام کو سنبھالے۔
حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ نے بھی اپنے درمیان یہ تقسیم کار فرما رکھی تھی کہ حضرت علیؓ گھر کے باہر کے کام انجام دیتے اور حضرت فاطمہؓ گھر کے اندر کا انتظام سنبھالتیں۔ چنانچہ گھر میں جھاڑو دیتیں’ چکی چلا کر آٹا پیستیں’ پانی بھرتیں اور کھانا پکاتیں۔
عورت کو کس لالچ پر گھر سے باہر نکالا گیا؟
لیکن جس ماحول میں معاشرے کی پاکیزگی کوئی قیمت نہ رکھتی ہو’ اور جہاں عفت و عصمت کے بجائے اخلاق باختگی اور حیا سوزی کو منتہاے مقصود سمجھا جاتا ہو’ ظاہر ہے کہ وہاں اس تقسیم کار اور پردہ و حیا کو نہ صرف غیرضروری بلکہ راستے کی رکاوٹ سمجھا جائے گا۔ چنانچہ جب مغرب میں تمام اخلاقی اقدار سے آزادی کی ہوا چلی تو مرد نے عورت کے گھر میں رہنے کو اپنے لیے دہری مصیبت سمجھا۔ ایک طرف تو اس کی ہوسناک طبیعت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کیے بغیر قدم قدم پر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی’ اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجھ تصور کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے دونوں مشکلات کا جو عیارانہ حل نکالا’ اس کا خوبصورت اور معصوم نام ‘تحریکِ نسواں’ ہے۔ عورت کو یہ پڑھایا گیا کہ تم اب تک گھر کی چار دیواری میں قید رہی ہو’ اب آزدی کا دور ہے اور تمھیں اس قید سے باہرآکر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر کام میں حصہ لینا چاہیے۔ اب تک تمھیں حکومت و سیاست کے ایوانوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے’ اب تم باہر آکر زندگی کی جدوجہد میں برابر کا حصہ لو تو دنیابھر کے اعزازات اور اُونچے اُونچے منصب تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔
عورت بے چاری دل فریب نعروں سے متاثر ہوکر گھر سے باہر آگئی اور پراپیگنڈے کے تمام وسائل کے ذریعے شور مچا مچا کر اسے یہ باور کرا دیا گیا کہ اسے صدیوں کی غلامی کے بعد آج آزادی ملی ہے’ اور اب اس کے رنج و محن کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
ان دل فریب نعروں کی آڑ میں عورت کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لایا گیا’ اسے دفتروں میں کلرکی عطا کی گئی’ اسے اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکرٹری کا ‘منصب’ بخشا گیا’ اسے ‘اسٹینوٹائپسٹ’ بننے کا اعزاز دیا گیا اسے تجارت چمکانے کے لیے ‘سیلزگرل’ اور ‘ماڈل گرل’ بننے کا شرف بخشا گیا’ اور اس کے ایک ایک عضو کو سرِبازار رُسوا کر کے گاہکوں کو دعوت دی گئی کہ آؤ اور ہم سے مال خریدو’ یہاں تک کہ وہ عورت جس کے سر پر دین فطرت نے عزت و آبرو کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں عفت و عصمت کے ہار ڈالے تھے’ تجارتی اداروں کے لیے ایک شوپیس اور مرد کی تھکن دور کرنے کے لیے ایک تفریح کا سامان بن کر رہ گئی!
آج ہر گھٹیا کام عورت کے سپرد ہے
نام یہ لیا گیا کہ عورت کو ‘آزادی’ دے کر سیاست و حکومت کے ایوان اس کے لیے کھولے جارہے ہیں’ لیکن ذرا جائزہ لے کر تو دیکھئے کہ اس عرصے میں خود مغربی ممالک کی کتنی عورتیں صدر یا وزیراعظم بنیں؟ کتنی خواتین کو جج بنایا گیا؟ کتنی عورتوں کو دوسرے بلند مناصب کا اعزاز نصیب ہوا؟ اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو ایسی عورتوں کا تناسب بمشکل چند فی لاکھ ہوگا۔ ان گنی چنی خواتین کو کچھ مناصب دینے کے نام پر باقی لاکھوں عورتوں کو جس بیدردی کے ساتھ سڑکوں اور بازاروں میں گھسیٹ کر لایا گیا ہے وہ ‘آزادئ نسواں’ کے فراڈ کا المناک ترین پہلو ہے۔ آج یورپ اور امریکہ میں جاکر دیکھئے تو دنیابھر کے تمام نچلے درجے کے کام عورت کے سپرد ہیں۔ ریستورانوں میں کوئی مرد ویٹر شاذو نادر ہی کہیں نظر آئے گا’ یہ خدمات تمام تر عورتیں انجام دے رہی ہیں۔ ہوٹلوں میں مسافروں کے کمرے صاف کرنے ’ ان کے بستر کی چادریں بدلنے اور ‘روم اٹنڈنٹ’ کی خدمات تمام تر عورتوں کے سپرد ہیں۔ دکانوں پر مال بیچنے کے لیے مرد خال خال نظرآئیں گے’ یہ کام بھی عورتوں ہی سے لیا جا رہا ہے۔ دفاتر کے استقبالیوں پر عام طور پر عورتیں ہی تعینات ہیں اور بیرے سے لے کر کلرک تک کے تمام ‘مناصب’ زیادہ تر اسی صنفِ نازک کے حصے میں آئے ہیں جسے ‘گھر کی قید سے آزادی’ عطا کی گئی ہے۔
نئی تہذیب کا عجیب فلسفہ
پراپیگنڈے کی قوتوں نے یہ عجیب و غریب فلسفہ ذہنوں پر مسلط کردیا ہے کہ عورت اگر اپنے گھر میں اپنے اور اپنے شوہر’ اپنے ماں باپ’ بہن بھائیوں اور اولاد کے لیے خانہ داری کا انتظام کرے تو یہ قید اور ذلت ہے’ لیکن وہی عورت اجنبی مردوں کے لیے کھانا پکائے’ ان کے کمروں کی صفائی کرے’ ہوٹلوں اور جہازوں میں ان کی میزبانی کرے’ دکانوں پر اپنی مسکراہٹوں سے گاہکوں کو متوجہ کرے اور دفاتر میں اپنے افسروں کی نازبرداری کرے تو یہ ‘آزادی’ اور ‘اعزاز’ ہے۔ اناللّہ وانا الیہ راجعون۔
پھر ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عورت کسب معاش کے آٹھ آٹھ گھنٹے کی یہ سخت اور ذلت آمیز ڈیوٹیاں ادا کرنے کے باوجود اپنے گھر کے کام دھندوں سے اب بھی فارغ نہیں ہوئی۔ گھر کی تمام خدمات آج بھی پہلے کی طرح اسی کے ذمے ہیں’ اور یورپ اور امریکہ میں اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کو آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد اپنے گھر پہنچ کر کھانا پکانے’ برتن دھونے اور گھر کی صفائی کا کام بھی کرنا پڑتا ہے۔
کیا نصف آبادی عضوِ معطل ہے؟
عورتوں کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے آج کل ایک چلتا ہوا استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی نصف آبادی کو عضوِ معطل بناکر قومی تعمیر و ترقی کے کاموں میں نہیں ڈال سکے۔ یہ بات اس شان سے کہی جاتی ہے کہ گویا ملک کے تمام مردوں کو کسی نہ کسی کام پر لگا کر مردوں کی حد تک ‘مکمل روزگار’ کی منزل حاصل کرلی گئی ہے۔ اب نہ صرف یہ کہ کوئی مرد بے روزگار نہیں رہا بلکہ ہزارہا کام ‘مین پاور’ کے انتظار میں ہیں۔
حالانکہ یہ بات ایک ایسے ملک میں کہی جارہی ہے جہاں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل مرد سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں’ جہاں کوئی چپڑاسی یا ڈرائیور کی آسامی نکلتی ہے تو اس کے دسیوں گریجویٹ اپنی درخواستیں پیش کردیتے ہیں اور اگر کوئی کلرک کی جگہ نکلتی ہے تو اس کے لیے دسیوں ماسٹر اور ڈاکٹر تک کی ڈگریاں رکھنے والے اپنی درخواستیں پیش کردیتے ہیں۔ پہلے مردوں کی ‘نصف آبادی’ ہی کو ملکی تعمیروترقی کے کام میں پورے طور پر لگا لیجیے۔ اس کے بعد باقی نصف آبادی کے بارے میں سوچئے کہ وہ عضوِ معطل ہے یا نہیں؟
آج فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے!
اللہ تعالیٰ نے عورت کو گھر کی ذمہ دار بنایا تھا’ گھر کی منتظمہ بنایا تھا کہ وہ فیملی سسٹم استوار رکھ سکے’ لیکن جب وہ گھر سے باہر آگئی تو یہ ہوا کہ باپ بھی باہر اور ماں بھی باہر’ اور بچے اسکول میں یا نرسری میں’ اور گھر پر تالا پڑ گیا’ اب وہ فیملی سسٹم تباہ اور برباد ہوکر رہ گیا۔ عورت کو تو اس لیے بنایا تھا کہ جب وہ گھر میں رہے گی تو گھر کا انتظام کرے گی اور بچے اس کی گود میں تربیت پائیں گے’ ماں کی گود بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ وہیں سے وہ اخلاق و کردار سیکھتے ہیں’ وہیں سے زندگی گزارنے کے صحیح طریقے سیکھتے ہیں’ لیکن آج مغربی معاشرے میں فیملی سسٹم تباہ ہوکر رہ گیا ہے’ بچوں کو ماں اور باپ کی شفقت میسر نہیں ہے’ اور جب عورت دوسری جگہ کام کر رہی ہے اور مرد دوسری جگہ کام کر رہا ہے’ اور دونوں کے درمیان دن بھر میں کوئی رابطہ نہیں ہے’ اور دونوں جگہ پر آزاد سوسائٹی کا ماحول ہے بسااوقات ان دونوں میں آپس کا رشتہ کمزور پڑجاتا اور ٹوٹنے لگتا ہے اور اس کی جگہ ناجائز رشتے پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں’ اور اس کی وجہ سے طلاق تک نوبت پہنچتی ہے اور گھر برباد ہوجاتا ہے۔
عورت کے بارے میں ‘گوربا چوف’ کا نظریہ
اگر یہ باتیں صرف میں کہتا تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ سب باتیں آپ تعصب کی بنا پر کہہ رہے ہیں لیکن اب سے چند سال پہلے سوویت یونین کے آخری صدر ‘میخائل گورباچوف’ نے ایک کتاب لکھی ہے…… پروسٹرائیکا!
آج یہ کتاب ساری دنیا میں مشہور ہے اور شائع شدہ شکل میں موجود ہے’ اس کتاب میں گوربا چوف نے ‘عورتوں کے بارے میں’ (Status of Women)کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے’ اس میں اس نے صاف اور واضح لفظوں میں یہ بات لکھی ہے کہ:
‘‘ مغرب کی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا’ اور اس کو گھر سے باہر نکالنے کے نتیجے میں بے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد حاصل کیے اور پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا’ اس لیے کہ مرد بھی کام کر رہے ہیں اور عورتیں بھی کام کر رہی ہیں’ لیکن پیداوار کے زیادہ ہونے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور اس فیملی سسٹم کے تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصان اٹھانے پڑے ہیں’ وہ نقصانات اُن فوائد سے زیادہ ہیں جو پروڈکشن کے اضافے کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوئے۔ لہٰذا میں اپنے ملک میں ‘پروسٹرائیکا’ کے نام سے ایک تحریک شروع کر رہا ہوں’ اس میں میرا ایک بڑا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے’ اس کو واپس گھر میں کیسے لایا جائے؟ اس کے طریقے سوچنے پڑیں گے’ ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے’ اسی طرح ہماری پوری قوم تباہ ہوجائے گی’’۔