میں شام کے لمحوں میں کسی کھلے سبزہ زار میں ہُوتا ہوں یا پھر جھیل کے سامنے ، کسی درخت کے نیچے، پھولوں کے سنگ بیٹھا ہُوتا ہوں۔اورکبھی اپنے گھر کے لان ہی میں دن بھر کی تھکی ماندی کلیوں کی باس سونگھتا یا پھر رات کی رانی کی خوشبو کو خوش آمدید کہتا ہوا اپنے دوست چاندکا منتظر ہوتا ہوں۔
اس طرح سے اپنے دوست چاند کا انتظار کرنا میرا توروزانہ کا معمول ہے ۔ لیکن پچھلے برس رمضان کی آخر ی ساعتوں میں، میں نے دیکھا کہ بہت سے بچے بھی اپنی بہنوں ، بھائیوں، یا ماؤں کی انگلی پکڑے چھتوں پر چڑھے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ امی چندا ماموں کب آئیں گے اور اگر آ گئے تو کل عید ہو گی نا۔مائیں ، بہنیں اور بھائی بچوں کے سوال کا کوئی جواب نہ دے رہے تھے بلکہ اداس اداس نظروں سے چاند کو ڈھونڈ رہے تھے۔میں نے سوچا کہ یہ کوئی جواب کیوں نہیں دے رہے اور عید کے چاند کی آمد کاآخر اتنی خاموشی سے کیوں انتظار کر رہے ہیں، کہ اتنے میں ایک ماں نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا یا اور بولی بیٹا اگر چند ا ماموں آ بھی گئے تو اس بار عید نہ ہو گی۔بیٹے نے پوچھا کہ آخر کیوں؟؟ماں نے کہا بیٹے عید تو خوشی کا نام ہے مگر اس برس ہم سب اداس ہیں۔ ۸ ، اکتوبر کی یاد کس کو عید منانے دے گی۔ اس کی بات سنتے ہی میں بھی اپنے خیالوں کی دنیا سے نکل آیا اور میرے سامنے بھی کشمیر، مانسہرہ ، بالاکوٹ کے سکول آ گئے جو اب سکول نہ تھے بلکہ پوری ایک نسل کے اجتماعی قبریں تھے۔
پچھلے برس واقعتا کسی نے عید نہ منائی پورا ملک اداس تھا ۔ مگر اب کی بار ایسا نہیں۔ عید کی چہل پہل ہے اور لوگ بھر پور طریقے سے عید رات منانے کی تیاریا ں کر رہے ہیں۔مگر کہساروں کے مکینوں کی عید اس بار بھی ویسے ہی ہو گی ۔ان کی عید قبروں کی زیارت ہو گی۔ ان کی عید فاتحہ پڑھنا ہو گی۔ ان کی عید ٹوٹے گھروندوں پہ بیٹھنا ہو گا اور ان کی عید اپنوں کو یاد کر کے رونا ہو گا۔
چاند توان کے لیے بھی نکلے گا مگر ہمارے جیسا نہیں۔پچھلے برس ہم سب کے لیے چاند اداس تھا مگر اب کی بار صرف ان کے لیے ہو گا۔میں سوچتاہوں کہ اس سال بھی عید نہ مناؤں بلکہ سب کو یاد دلاؤں کہ اپنے بھائیوں کو اتنی جلد بھول گئے ۔مگر میری کو ن سنے گا۔۔۔۔ شاید چاند۔۔۔!