مولانا حبیب الرحمان شروانی مرحوم نے جب سفر حج کا عزم فرما لیا تو فقیر(مناظر گیلانی) کو علی گڑھ طلب کیا، پہنچا ، تو حکم ہوا کہ سفر پر روانہ ہونے سے قبل بعض زندہ بزرگوں سے بھی ملنا چاہتا ہوں اور اپنے پیرومرشد شاہ فضل الرحمن گنج مراد بادی کے مزار پر بھی حاضری کا قصد ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ کم از کم اس سفر میں تم میرے ساتھ رہو۔ میں نے بسر وچشم قبول کیا۔ منجملہ دوسرے مقامات کے فیض آباد بھی پہنچے ۔ یہاں حضرت شاہ فضل الرحمن گنج مراد بادی کے خلیفہ شاہ نیاز احمد تشریف فرما تھے ۔ ان کا قیام کویلو کے چھپر کے نیچے تھاجس کے سامنے مٹی کا ایک چبوترہ تھا جس پر بوریا بھی نہ پڑا تھا۔ گرد سے اٹا پڑا ، بیٹھنے کی جگہ اس کے سوا نہ تھی۔شاہ صاحب نے حیدر آباد کے وزیر مذہبی امور، شیخ الاسلام یعنی مولانا حبیب الرحمان شروانی کو اسی چبوترے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔شروانی صاحب بلا جھجک بیٹھ گئے ۔پھر انہوں نے شاہ صاحب سے دعاکی درخواست کی ۔ اس عجیب و غریب دعا کے الفاظ آج بھی حافظہ کے نہاں خانہ میں گونج رہے ہیں۔شاہ صاحب نے ہاتھ اٹھائے اور فرمانے لگے ۔‘‘بارالہا، یہ حبیب الرحمن شروانی تیر ا ایک نا چیز بند ہ ہے ، بار الہا، جب اس پر نا گزیر وقت آجائے ، سانس اکھڑ رہی ہو ،تو اس کی مدد فرمائی جائے۔بار الہا ،جب کفن پہنا کر اس کے تابوت کو لے چلیں تو اپنی رحمت کا سایہ اس پر ڈال اور جب گور کے خلوت خانہ میں حبیب الرحمان کو لوگ رکھ کر واپس آجائیں اور یہ غریب وہاں تنہا رہ جائے تو اپنی رحمت اپنے کرم سے روشنی فرما، قوت بخش کہ نکیرین کے سوال جواب میں یہ بے چارہ ثابت قدم رہے ۔ بار الہا، جب حشر کا میدان قائم ہو اور بڑے چھوٹے پتنگوں کی طرح ادھر ادھر مارے پھرتے ہوں تو اس بے چارے کی دستگیری فرمانا، اس کے گناہوں کو بخش دینا اور بجائے جہنم کے اس کو تیرے فرشتے جنت کی طرف لے جائیں۔ ( بیس سال سے زیادہ مدت کی بات ہے ، یہ دعوی تو مشکل ہے کہ عین یہی ان کے الفاظ تھے لیکن بہت سے الفاظ ان کی زبان سے نکلے ہوئے اس میں محفوظ ہیں) شاہ صاحب نے اور بھی کیا کیا فر مایا ، اب یاد نہیں، مولانا حبیب الرحمان کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی سارا مجمع گریہ کنا ں تھا ۔ آخر میں شاہ صاحب نے فرمایا اے اللہ اس غریب پر اس کے حج و زیارت کے سفر کو آسان فرما۔