چچابھی تھے وہ نبی کے ۔ ۔ رضاعی بھائی بھی ۔۔علامت ان کو شجاعت کی جانتے تھے عرب
وہ لائے ایماں۔۔تو اس درجہ اہل ایمان نے۔ ۔قیام مکہ کے دوران میں تقویت پائی
کہ دست کش ہوئے اہل قریش۔۔گھبر اکر۔۔ضرر رسانی کے معمول سے
بڑی حد تک۔۔بھلائی لوگوں سے کرنے میں ۔۔پیش پیش تھے وہ ۔۔
بالالتزام ۔۔قرابت کا حق ادا کرتے ۔۔بہادری کا یہ عالم ۔۔کہ خود نبی نے کہا
رسول کے بھی ہو تم شیر۔۔اپنے رب کے بھی
علم دلیر ی کے میدان بدر میں گاڑے ۔۔امان مانگتے تھے ان کی تیغ سے کفار
احد کی جنگ تھی ۔۔جس سمت بھی بڑھے حمزہؓ ۔۔لگائے کشتوں کے پشتے
صف عدو میں کیا ایک تہلکہ برپا ۔۔محال تھا ، کہ انہیں زیر کر سکے کوئی
مگر ہر ایک کا۔۔ایک وقت تو مقرر ہے ۔۔کوئی بھی ہو۔۔اسے جانا ہے فانی دنیا سے
سو ، پشت سے کیا وحشی نے آکے کاری وار۔۔شدید زخمی ہوئے
لیکن ایسی بے جگری کہ روح کر گئی پرواز۔۔تیغ ہاتھ سے نہ چھٹی
ملا جب اعدا کو بے روح جسم حمزہ کا۔۔اسی پہ غیض نکالا سب اپنا، ٹوٹ پڑے
بگاڑا چہرہ۔۔کیا پیٹ چاک چاک ان کا۔۔چبا کے ان کا کلیجہ۔۔بجھائی دل کی آگ
نبی ملول ہوئے اس قدر کہ کہتے ہیں۔۔تمام زندگی اتنے نہ پھر ملول ہوئے
خوشا نصیب۔۔کہ ان کو حیات فانی میں۔۔کہا رسول مکرم نے خود کہ اے حمزہ
میرے بھی شیر ہو تم۔۔اور اپنے رب کے بھی
ہوئے شہید تو نکلا زبان احمد سے۔۔کہ سیدا لشہدا ہے یہ سید الشہدا۔۔۔