تم، یہاں ……؟ ، گئے نہیں ……؟ ،کیوں ……؟ ،آج بھی گھر پڑے ہو ……؟ یہ وہ سوالات تھے جن کا سامنا وہ آج صبح سے کر رہا تھا۔
آج وہ صبح سے اداس تھا۔ غم تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔ پریشانی تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ کوئی آتش فشاں تھا کہ اندر ہی اندر ابل رہا تھا ۔ کوئی بادل تھا جو گرجنا تو چاہتا تھا مگر گرج نہ سکا تھا۔ کوئی آندھی تھی جو چلنا تو چاہتی تھی مگر چل نہ سکی تھی۔ وہ سوچ رہاتھا کہ آسمان آج کیوں ریزہ ریزہ نہ ہوا ؟ زمین کیوں نہ پھٹی ؟ آج القھار کاقھر کیوں نازل نہ ہوا ؟ کیوں، آخر کیوں؟
وہ آنسوؤں کی نہ تھمنے والی برسات میں سوچ رہا تھا کہ انسان کبھی کبھی بے بس کیوں ہو جاتا ہے ؟ وہ کڑھ رہا تھا ۔ وہ دلبرداشتہ تھا ۔ وہ پریشان تھا ، اداس تھا ، غمگین تھا ۔ وہ غصے سے بھرا ایسا بادل تھا جو اندر ہی اندر گرج تو رہا تھا مگر کسی پر برس نہیں سکتا تھا ۔ اسی لیے وہ صبح سے صبر کا دامن تھامے پڑا تھا۔ آخر کرتا بھی تو کیا کرتا کہ صبر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔
وہ اتنا دیوانہ کیوں ہوا جا رہا تھا ، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا ۔ اسے تو خوشی سے چیخنا ، چلانا، دوسروں پر آوازے کسنا ، چھلانگیں مارنا ، پٹاخے چلانا ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے منہ پر تھپڑ مارنا اور ‘‘مال روڈ’’ پر اندھا دھند موٹر سائیکل چلانا چاہیے تھا کیونکہ آج ‘‘14 اگست’’ تھا آج قوم جشن آزادی منا رہی تھی۔ آج‘‘ زندہ دل’’ لوگوں کا دن تھا اور ‘‘زندہ دلان لاہور’’ اپنی زندہ دلی کا خوب حق ادا کیا کرتے ہیں کہ ‘ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے’ مگر ان ‘‘زندہ دلوں’’ میں ایک ‘‘مردہ دل’’ اس کا بھی تھا جو کہ غمگین تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کیا یہ وہی قوم ہے جس کے آباؤاجداد نے یہ ملک اللہ کے نام پر حاصل کیا تھا ؟ کیا یہ وہی ملک ہے جس کے لیے انہوں نے قربانیاں دی تھیں ۔ اپنی عزتوں کو پامال ، اپنے پاکیزہ دامنوں کو داغدار اور ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کی عصمتوں کو تار تار کروایا تھا ۔ اپنے بچوں کو دولخت اور اپنے بوڑھوں کو برچھیوں کے وار سے چھلنی کروایا تھا ۔ اپنی عزتیں ، اپنی عصمتیں ، اپنی خوشیاں ، اپنے خاندان ، اپنے رشتے ، اپنی جایدادیں کیا اسی دن کے لیے انہوں نے قربان کی تھیں کہ ہماری آنے والی ‘‘زندہ دل’’ نسلیں ‘‘جشن آزادی’’ کے نام پر فضول خرچی اور تہذیب کی ساری حدیں پھلانگ جائیں؟؟؟ کیا۴۷ میں قربان ہونے والے انہی زندہ دلان لاہور کے آباؤاجداد نہ تھے؟؟؟
وہ اس قوم کے نوجوانوں سے پوچھنا ٰچاہتا تھاکہ 14 اگست کے لاکھوں شہیدوں کے پکار ، انہیں کیوں نہیں سنتی۔آخر وہ اتنے بہر ے کیوں ہیں؟ وہ انہیں کہنا چاہتاتھا کہ اپریل فول اور ویلنٹائن ڈے جیسی شرمناک رسموں کو پورا کر کے آخروہ کیوں خوشی محسوس کرتے ہیں اور جشن آزادی کے نام پر طوفان بد تمیزی برپا کرکے کیا وہ آزادی کا شکر ادا کر رہے ہیں یا آزاد ی کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں ۔مگر وہ ان سے کچھ بھی نہ پوچھ سکا کیونکہ اس کی عقل جواب دے گئی تھی۔وہ مسلمانان اندلس کی فلگ شگاف اور دلدوز چیخیں بھی سن رہا تھا جو شہنشاہ سپین کا مسلمانوں کے ساتھ اپریل فول منانے کا نتیجہ تھیں۔اسی دن نے سرزمین اندلس پرسے مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قصہ پارینہ بنا کر رکھ دیاتھا ۔ یہ سوچ کر اس کا دماغ پھر شل ہو گیا تھاکہ آخر ہم اتنے ‘‘بے مروت’’ کیوں ہو گئے ہیں کہ اپنے ہی بھائیوں کی دلدوز چیخوں کو ہر سال اپریل فول منا کر فضا میں تحلیل کر دیتے ہیں ۔ پھراسے فتح مکہ بھی یاد آئی اور اپنے پیارے رسول ﷺ کا اسوہ بھی۔مگر اسے معلوم تھا کہ اس کی اس بات کو تو مولویانہ بات کہہ کر رد کر دیا جائے گا۔ اس لیے وہ اس پر بھی خاموش رہا۔
مگرآخر کب تک وہ خاموش رہتا ۔ اس سے مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا اس لیے اس نے چیخنا اوررونا شروع کیا۔مگر جشن آزادی کے ہنگاموں میں اس کی چیخیں اور آواز کہیں دور دب کر رہ گئی اور اگر کسی نے سنی بھی تو یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا کہ دیوانہ ہے ، بیچارا۔۔۔۔!