باروخ کی کتاب ‘پولیٹیسائیڈ’ کے تناظر میں
‘‘لیڈر ہمیشہ نیچے سے پیدا ہوتے ہیں اور نفرت کی کوکھ سے جنگجو جنم لیتے ہیں ۔’’
میں ایک ایسے وطن پرست اسرائیلی کی حیثیت سے ، جو اپنے وطن اسرائیل کے انجام کے حوالے سے بہت زیادہ فکر مندہے او رایک ایسے ماہر سماجیات کی حیثیت سے جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسرائیلی و فلسطینی معاشروں کے مطالعہ میں گزار دیا ہے ، یہ کتاب نہایت رنج والم کے ساتھ اپنے عارضی جائے پناہ ٹورانٹو ، کینیڈا سے لکھ رہا ہوں۔ اس کتاب کی اشاعت سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ ایک یہودی کی جانب سے ، جو خود اپنی ذات سے نفرت کرتا ہے ، اسرائیل پر ضرب لگائی جائے جیسا کہ میرے بعض سیاسی حریف ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جیسا کہ انہوں نے میری بیشتر تحریروں کے سلسلہ میں یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اس کتاب کی اشاعت سے میرا بنیادی مقصد ان پاک نفوس کی آنکھیں کھولنا ہے جنہیں اب تک اسرائیل کو لاحق خطرے کا صحیح اندازہ نہیں ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ معرکہ تو اسرائیل کی روح ، اس کے وجود اور تمام اسرائیلی باشندوں کے وجود سے تعلق رکھنے والا ایک عالمی معرکہ ہے ۔
‘‘پولیٹیسائیڈ’’ نامی کتاب کے اسرائیلی مصنف ‘‘باروخ’’ نے اپنا اور اپنی کتاب کا تعارف ان الفاظ سے کرایا ہے تو کیا اسرائیلی حکمران ‘‘باروخ’’ جیسے مخلص اسرائیلی کی بات پر کان دھریں گے ؟ یا پھر اس سے صاف کہہ دیا جائے گا کہ ‘‘ زبان پر تالا لگائے رکھو، اس لیے کہ یہاں زبان کھولنا حرام ہے ۔’’
اس کتاب کا مصنف ، جس کے نام ہی سے اسرائیلی جبر جھلکتا ہے ، اسرائیل کی قتل کی سیاست بالخصوص موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کی سفاکانہ پالیسی کا سخت مخالف ہے ۔ ‘‘باروخ’’ اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے ان سفاکانہ خون ریز کارروائیوں کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہے جو ظالم شیرون نے ماضی میں انجام دی ہیں اور اب بھی یہ خونی کھیل مسلسل جاری ہے ۔ وہ شیرون سے اس وقت سے واقف ہے جب اس کا باپ اسے موٹی لاٹھیوں سے مسلح کر کے اسکول بھیجا کرتا تھا تاکہ وہ سکول میں اپنے ساتھیوں کو ان لاٹھیوں کے ذریعہ سے ادب سکھائے ۔ نیز وہ شیرون کو اس وقت سے بھی جانتا ہے جب اسرائیلی حکومت نے اسے اسرائیلی فوجی دستہ 101 کانگراں بنایا تھا جس کاکام خفیہ طور پر فلسطینی لیڈروں کو دھوکے سے قتل کرنا تھا ۔ ‘‘باروخ’’ شیرون کی زندگی کے ان سیاہ اوراق کو بھی جانتا ہے جب اس نے لبنان پر حملہ کر کے قتل کا بازار گرم کر دیا تھا اور اسی طرح مصری قیدیوں پر مظالم ڈھاتا رہا تھا اور اب وہ جو کچھ فلسطین میں تباہی مچا رہا ہے ، اس سے بھی اچھی طرح واقف ہے ۔ ایک مرتبہ فلسطینی عوام کی جانب سے اس سے استفسار کیا گیا کہ وہ بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو کیوں اپنی ظالمانہ کارروائیوں کا نشانہ بناتا ہے تو اس نے جواب میں کہا : ‘‘ فلسطین کی ساری خواتین زانی او رفاحشہ ہیں اور دہشت گردوں کی مدد کرتی ہیں ۔’’
صابرا ، شتیلا اور غزہ وغیرہ میں کی گئی اس کی کارروائیاں اس کی سفاکیت کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ ‘‘ باروخ’’ نے اپنی کتاب Politicide میں شیرون کی ان ساری کارروائیوں کا پردہ چاک کیا ہے اسرائیل کی سفاکانہ سیاست اور اسرائیلی معاشرہ کااس پر خاموشی اختیار کرنا اور اپوزیشن کا رویہ ، ان سب باتوں نے ‘‘باروخ’’ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اسرائیل کی سفاکانہ سیاست کے خلاف سب سے پہلے اسرائیلیوں کے ضمیر جھنجھوڑے ، پھر عالمی برادری کو اس جانب متوجہ کرے ۔ اسرائیل اور اسرائیلی سیاست کے خلاف اس قدر بے باکانہ تنقید ایک اسرائیلی ہی کر سکتا ہے ۔ ورنہ تو اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا مقدر ہمیشہ گولی ہوتی ہے ۔
اسرائیلی سفاکیت کی داستان بڑی خونریز اور نہایت ہی الماناک ہے ۔ کتاب کا اسرائیلی مصنف ‘‘باروخ’’ کہتا ہے : ‘‘ شیرون کے دور حکومت میں اسرائیل جس اندوہناک تباہی کا مرکز بن گیا ہے وہ تباہی صرف فلسطین تک محدود نہیں رہے گی بلکہ خود اسرائیل بھی اس تباہی کی لپیٹ میں آئے گا ۔ اس لیے کہ اسرائیل کی داخلی و خارجی سیاست بس ایک ہی رخ پر چل رہی ہے اور وہ فلسطینیوں کے مکمل صفایا کا رخ ہے ۔ یہ اسرائیل کی ایسی خطرناک سیاست ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دینا نظر آتا ہے ، جس کے بعد فلسطینیوں کا سیاسی ، سماجی ، قانونی اور معاشی ڈھانچہ منہدم ہو کر رہ جائے ۔ اسرائیل کی یہ وہ سیاست ہے جس کے ذریعے اسرائیل اس پورے خطے کو عربوں سے پاک کرنا چاہتا ہے جو اس کے مطابق ‘‘ ارض اسرائیل’’ کہلاتا ہے ، لیکن اس سیاست کے تانے بانے آخر کا راسرائیل کی تباہی پر جاکر ٹوٹیں گے۔ پھر مشرق وسطی میں یہودی حکومت کے لیے کوئی اخلاقی بنیاد باقی نہیں رہ سکے گی اسرائیل کے عزائم سے نہ صرف فلسطینیوں کا صفایا ہو گا بلکہ ساتھ ساتھ خود اسرائیلیوں کا بھی صفایا ہو گا ۔ اس طرح موجودہ اسرائیلی حکومت علاقہ کے سارے اقوام کے وجود کے لیے زبردست خطرہ بنی ہوئی ہے ۔ دنیا پر کتنے ممالک ایسے ہیں جن پر صرف اس وجہ سے حملہ کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ان پر صرف الزامات ہیں جبکہ وہ الزامات پائے ثبوت کو بھی نہیں پہنچے اور بعض ممالک کو محض اس لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ انہوں نے نیو کلیئر اسلحہ بنانے کا صرف ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ جبکہ اسرائیل نیو کلیئر اسلحہ پیدا کر رہا ہے اور اس کا ذخیرہ بھی کر رہا ہے لیکن کسی کو بھی اس کی جسارت نہیں کہ اسرائیل کو اس سے منع کر ے ۔ یہ ہے عالمی برادری کا انصاف ! جب تک یہ ناانصافی کی فضا قائم رہے گی دنیا میں قتل و غارت گری کا بازار اسی طرح گرم رہے گا ۔’’
باروخ اپنی کتاب میں مزید لکھتا ہے : ‘‘ ایک فلسطینی ، جسے اسرائیل نے قید کر رکھا تھا ، نے اپنا واقعہ سنایا کہ مجھے بغیر کسی ثبوت کے قید کر لیا گیا، چار ماہ قید و بند کی زندگی گزارنے کے بعد ایک اسرائیلی فوجی اہلکار کے پاس مجھے حاضر کیا گیا ، اس اسرائیلی اہلکار نے آغاز کلام ہی دھمکی آمیز لہجہ میں کیا او رکہا کہ تمہاری ہڈیاں توڑ کر رکھ دوں گا ۔ پھر مجھے اپنا پیشاب پینے پر مجبور کیا گیااور عربوں کی شان میں مغلظات بکنے لگا ۔ میں نے کہا : کیا یہی جمہوریت ہے؟ اسرائیلی فوجی کہنے لگا : جمہوریت قوم یہود کے لیے ہے ۔ شیطانی مخلوق کے لیے نہیں ہے ۔ اس پر میں نے کہا : ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آقاؤں کی جمہوریت الگ ہے اور غلاموں کی الگ ۔ اس پر اس نے کہا : بالکل درست ۔ اب تم کچھ سمجھنے لگے ہو ۔’’ ‘‘باروخ’’ نے اپنی کتاب میں چوٹی کے اسرائیلی مفکرین کے حوالہ سے حقائق کا انکشاف کیا ہے ۔ چنانچہ جمہوریت کے تعلق سے اسرائیل کی دو رخی پالیسی کا نوٹس لیتے ہوئے وہ امریکی مفکر ‘‘ مردوخ’’ کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ : ‘‘ اسرائیل کو یا تو جمہوری بننا چاہیے یا پھر مکمل یہودی مملکت ۔ اسرائیل جمہوریت اور یہودیت دونوں کو ایک ساتھ جمع نہیں کر سکتا ۔ اسرائیل کبھی بھی پورے طور پر جمہوری مملکت نہیں رہا اسرائیلی یہودیوں کے لیے تو مکمل جمہوریت ہے لیکن عربوں کے لیے اسرائیل کے پاس جمہوریت سے استفادہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ چند اسباب و عوامل کی وجہ سے اسرائیل فاشسٹ مملکت بن گیا ہے ۔ مثلاً اظہار رائے کی آزادی کے اسرائیلی معیارات میں شدید تضاد پایا جاتا ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل کو عظیم تر اسرائیل کے لیے خیانت کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ اسرائیل کو فاشسٹ مملکت بنانے میں اس امر کو بھی بڑا دخل ہے کہ سیاسی امور اور ذرائع ابلاغ میں اسرائیلی فوج کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے ۔ جس نے پورے اسرائیلی معاشرے کو عسکری معاشرہ میں بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اسرائیل کو فاشسٹ مملکت بنانے میں شیرون کے فسطائی نظام کا کردار بہت اہم ہے ۔ فاشسٹ نظریات کے حامل شیرون کی موجودگی نے پورے اسرائیلی معاشرے اور سیاسی اداروں کو معطل کر کے رکھ دیا ہے ۔’’ ‘‘مردوخ’’ فلسطینیوں کے حق میں اسرائیل کی فلسطینیوں کی صفایا مہم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتاہے :
‘‘ اسرائیل اس وقت فلسطینیوں کے بتدریج صفائے کی مہم پر لگا ہوا ہے ۔ یہ ایک طویل مدتی کارروائی ہے جسے بتدریج عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے ۔ اس وقت فلسطینیوں کے صفایا کے لیے امریکا اور عالمی طاقتوں کا منظر نامہ اسرائیل کے لیے پوری طرح سازگار ہے ۔’’ اسرائیلی مفکر ‘‘مردوخ’’ فلسطینیوں کے صفایا کے لیے تیار کردہ اسرائیلی منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے : ‘‘ اسرائیل نے فلسطینی وجود کے خاتمہ کی لیے جو منصوبہ تیار کیا ہے وہ مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے ۔
۱۔ فلسطینی اثر ورسوخ کو تباہ کردینا ۔ قیادتی سطح پر بھی اور حکومتی ڈھانچہ پر بھی ۔
۲۔ فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینا اور ناقابل برداشت حد تک شدید حالات سے دوچار کرنا ۔
۳۔ بھوک اور افلاس کے دائرہ کو وسیع سے وسیع تر کرنا۔ چنانچہ 2004 میں اسرائیل نے غزہ کے شمالی علاقہ میں تین منزلہ غذائی گوداموں کو تباہ کر دیا تھا ۔ نیز فلسطینیوں پر روزگار کے دروازے بند کرنے کے لیے اسرائیل میں فلسطینی مزدوروں کے داخلہ پر پابندی بھی عائد کی جا رہی ہے ۔ ان سب سختیوں کا مقصد فلسطینی عوام کو ہر طرح سے نہتا او رنڈھال کرنا ہے ۔
۴۔ اسرائیلی حکومت اپنی ظالمانہ کارروائی جاری رکھنے کے لیے اپوزیشن کو بھی کمزور کر رہی ہے تاکہ اس میں حکومت کی پالیسیوں پر انگشت نمائی کی سکت باقی نہ رہے ۔ مردوخ کہتا ہے : ‘‘ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کے تعلق سے امریکی اور یورپی موقف سے قطع نظر اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ فلسطینی دیگر اقوام عالم کی طرح اپنا مستقل وجود رکھتے ہیں اورفلسطین مسلم دنیا کے خود مختار ممالک میں سے ہے ۔ برطانوی سامراج کی وجہ سے فلسطینیوں کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی اور اس کی مدد سے فلسطین میں یہود سامراج کو قدم جمانے کے مواقع ہاتھ آگئے۔ جبکہ اسرائیل کو مشرق وسطی کے علاقہ میں راسخ حقیقت کی حیثیت حاصل نہیں ہے بلکہ وہ مختلف علاقوں سے ہجرت کرنے والے نوآبادکاروں سے تشکیل پائی ہے ۔’’
مردوخ کے مطابق : ‘‘ اسرائیل ایک خاردار درخت ہے جسے مغرب نے یہودیوں سے چھٹکارا پانے کی غرض سے مشرق وسطی میں بویا ہے ۔ صدیوں کی یہودی شکایتوں اور مسلسل مطالبات کے پیش نظر مغرب نے یہ اقدام کیا ہے لیکن ‘‘ مردوخ’’ اور اس جیسے دوسرے اسرائیلی دانشوروں کے بقول اب اسرائیل مشرق وسطی میں امریکا کا نہایت ترقی یافتہ فوجی قلعہ بن چکا ہے جس کا مقصد ہر اس شخص پر ضرب لگانا ہے جو امریکا کی حکم عدولی کرے ۔’’
‘‘باروخ’’ نے اپنی کتاب میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کا بھرپور جائزہ لیا ہے ، وہ لکھتا ہے : ‘‘ دہشت گردوں کی تلاشی کے بہانے اسرائیلی فوجیوں کا راتوں کو فلسطینی گھروں میں گھس آنا ، روز کا معمول بن چکا ہے ۔ اکثر وبیشتر اسرائیلی فوجی دہشت گردوں کی گرفتاری کے عنوان سے گھروں پر حملے کرتے ہیں اور گھروں میں موجود املاک کو لوٹ لیتے ہیں اور اندھا دھند فائرنگ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں سے وابستہ افراد نے عینی مشاہدہ کی بنیاد پر بے شمار رپورٹیں منظر عام پر لائیں لیکن وہ سب بے اثر رہیں۔’’ اسرائیل کے سیاسی حلقوں کی معروف شخصیت ‘‘افرام بورغ’’ جو لیکوڈ پارٹی کا رکن ہے ، اسرائیل پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے : ‘‘ دو ہزار سال تک یہود اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات کا مقابلہ اس لیے نہیں کرتے رہے کہ وہ تباہ کن ہتھیار بنائیں یامیزائل تیار کریں بلکہ ان کی طویل قربانیوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ سارے عالم کے لیے مینارہ نور بنیں لیکن ہم اپنے مقصد میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ افسوس کہ بیس صدیوں کی جہد مسلسل اور پیہم کشمکش کے بعد ہم بس نو آبادکاروں پر مشتمل ایک ایسی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے جسے اخلاقیات سے عاری ایک شر پسند ٹولہ چلا رہا ہے ، جو بہرہ بن کر قانون کو پامال کر رہا ہے ۔ ہماری حکومت میں عدل وانصاف کا فقدان ہے اور کوئی حکومت ناانصافی اور ظلم کے ساتھ زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہ سکتی ۔ چنانچہ اسرائیلی معاشرہ کے زوال کے لیے الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے ۔ اس وقت عرب سر جھکانے اور اپنا غصہ نگلنے پر مجبور ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف غصہ سے ہر عرب کا سینہ کھول رہا ہے اور اندر لاوا خوب پک رہا ہے ۔
‘‘افرام بورغ’’ ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ ظلم وزیادتی پر کھڑی کی جانے والی عمارت بہت جلد زمین دوز ہو جائے گی ۔ اس کھوکھلی بنیاد پر اسرائیل جتنی عمارت تعمیر کرتا جا رہا ہے اس کا انجام زوال ہے ۔ ہم فلسطینی خواتین کی حالت زار سے غفلت برت رہے ہیں ۔ اسرائیل کی قائم کردہ رکاوٹوں کے پاس فلسطینی عورتیں جن غیر انسانی حالات سے دوچار ہیں وہ ہمار ے تصور سے بالاتر ہیں ۔ گھروں میں ماؤں کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں ۔ بعض گھرانے مردوں سے بالکل ہی خالی ہو چکے ہیں، جہاں عورتیں تنہائی کے دن کاٹ رہی ہیں ۔ ایسے میں اگر فلسطینی خود کش بموں کے ذریعے ہمارے ہوٹلوں اور عوامی مقامات کو نشانہ بنائیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے ؟ ہم نے ان کی زندگی کو عذاب بنا دیا ہے ، اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی جانیں خدا کے حوالے کر دیں ۔ ہم اپنی حکومتی طاقت کے بل بوتے پر روزانہ ایک ہزار فلسطینی لیڈروں کو موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ ‘‘لیڈر ہمیشہ نیچے سے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور نفرت کی کوکھ سے جنگجو جنم لیتے ہیں ۔’’
(بشکریہ : روزنامہ ‘‘المنصف’’ ۔ حیدر آباد دکن )