سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ربانی ہے ‘‘ اور تمہارے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو اور اپنے والدین سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرو ’’ ۔ اللہ تعالی نے اپنے حقوق کے فوراً بعد والدین کے حقوق بلکہ احسان کی اہمیت کو اجاگر فرمایا ہے ۔گویا جس طرح ہمارے لیے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرنا لازم ہے اسی طرح والدین کا شکریہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ حضرت امامۃ الباھلیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا : ‘‘ یارسول اللہ ﷺ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے ؟’’ ارشاد ہوا ‘‘ ماں باپ ہی تمہارے لیے جنت ہیں اور ماں باپ ہی دوزخ ہیں ’’ (ابن ماجہ)
قرآن میں والدین کے ساتھ احسان کا حکم ہے ۔ احسان کیا ہے ؟ حقوق کو بہ طریق احسن اداکرنے کے بعداحسان شروع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی کارکن کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ مزدوری طے کر لیتے ہیں ۔ کام مکمل ہونے پر آپ اسے طے شدہ مزدوری کے علاوہ دس روپے زائد بھی دیتے ہیں تو یہ احسان شمار ہو گا۔
والدین سے اولاد کے سلوک او راس کے انجام کے حوالے سے اپنے تجربات و مشاہدات میں پروفیسر ڈاکٹر نور احمد نور لکھتے ہیں کہ بطور ڈاکٹر انہوں نے اپنے سامنے ہر قسم کے لوگ قضائے الہی سے مرتے دیکھے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ والدین سے نیک سلوک کرتے ہیں اللہ آخرت کے ساتھ ساتھ ان کے دنیاوی مسائل بھی حل فرماتے ہیں حتی کہ ایسے موذی امراض سے جن کا طبی علاج ممکن نہیں ہوتا شفا عطا کرتے ہیں اور جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں یا ان کا دل رنجیدہ کرتے ہیں ان کو دنیا میں بھی سزا ملتی ہے اور وہ بری موت مرتے دیکھے گئے ہیں ۔ ان کے چند مشاہدات یہاں درج کیے جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ وہ جب فرسٹ پروفیشنل ایم بی بی ایس کا امتحان دے رہے تھے تو انہیں بخار ہو گیا ۔ اسی حالت میں فرسٹ پروفیشنل کا پرچہ دیا ۔ چھ سوالوں میں سے ایک غلط ہو گیا ۔ گھرواپس گئے تو والدہ محترمہ کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ماں جی بخار کی وجہ سے میرا ایک سوال غلط ہو گیا ہے ۔ والدہ محترمہ نے یقینی انداز میں فرمایا ‘‘ بیٹا میں دعا کروں گی انشااللہ غلط سوال بھی ٹھیک ہو جائے گا ’’ جب نتیجہ نکلا تو میں اپنی کلاس میں اول آیا۔
ایک پروفیسر صاحب کو دل کا دورہ پڑا ۔ دورہ اتنا شدید اور تکلیف دہ تھا کہ ان کا بچنا محال تھا ان کی والدہ ان کے بستر کے قریب بیٹھی یہ دعا کر رہی تھی جو ہم سب نے سنی ۔ ‘‘ باری تعالی میں اس سے راضی ہوں آپ بھی اس سے راضی ہو جائیں ۔’’ جب پروفیسر صاحب کا آخری وقت آیا تو انہوں نے بلند آواز میں کلمہ طیبہ پڑھا ، مسکرائے اور پھر اللہ کو پیارے ہو گئے
ڈاکٹر نور صاحب کے والد کے ایک دوست کے متعلق مشہور تھا کہ جب اس کی والدہ قریب المرگ تھی تو اس نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی وہ بے چاری اکیلی پڑی رہی اور اسی حالت میں فوت ہو گئی ۔ زندگی کے ایام گزرتے گئے قریبا تیس سال بعد یہی صاحب بیمار ہوئے اور مسلسل دستوں کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئے والد صاحب کی فرمائش پر ڈاکٹر صاحب ان کے علاج کے لیے گئے ۔ علاج کے ساتھ غذا بتائی تو وہ رونے لگے اور بتایا کہ ان کے تین بیٹے ہیں مگر ان کی پرواہ نہیں کرتے ایک دفعہ بھی پوچھنے نہیں آئے ۔ میری آنکھوں میں اس کا اپنی والدہ کے ساتھ بدتمیزی کا واقعہ اچانک گھوم گیا ۔ تنہائی میں رات کے وقت اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو گئی ۔ صبح کے وقت محلے داروں نے دیکھا تو چیونٹیاں اسے کاٹ رہی تھیں ۔ والدہ سے زیادتی کرنے والے کو اسی دنیا میں سزا مل رہی تھی ۔
ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں ایک نوجوان گردے فیل ہونے کی وجہ سے زیر علاج رہا اور آخرکار تین دن تک حالت نزع میں رہ کر ایسی موت مرا کہ آج تک ایسی موت ڈاکٹر صاحب نے نہیں دیکھی تھی ۔ آنکھیں باہر نکل آتی تھیں اور منہ سے دردناک چیخیں نکلتی تھیں ۔ کلینک سے دوسرے مریض بھاگنے لگے۔ یہ دیکھ کر لڑکے کا والد کہنے لگا کہ اسے زہر کا ٹیکہ لگا دیں تاکہ مر جائے ایسی حالت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے والد سے پوچھا کہ اس نے کیا غلطی کی ہے ؟ والد فوراً بول اٹھا ‘‘ یہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے میرے روکنے کے باوجود ماں کو مارا کرتا تھا ۔’’
لاہور میں کپڑے کا ایک بڑاتاجر تھا ۔ 1950 میں اس کا لاکھوں کا کاروبار تھا ۔ دولت جب زیادہ آئی تو متکبر بن گیا ۔ ایک روز اس کی ماں نے اسے نصیحت کی کہ بیٹا غریبوں سے اچھا سلوک کیا کرواور دوسروں کو بھی انسان سمجھا کرو ۔ یہ نصیحت اسے اتنی بری لگی کہ بوڑھی ماں کو تھپڑ رسید کر دیا ۔ اس واقعہ کے بعد ایک سال کے اندر اندر اس کا سارا کاروبار ختم ہو گیا ۔ دکان تک بک گئی حتی کہ وہ دو وقت کی روٹی کا محتاج ہو گیا ۔
جدید تہذیب کے دلدادہ گھروں میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ شاندار کوٹھیوں میں والدین کو اوپر کی منزل میں منتقل کیا جاتا ہے ۔ یا سرونٹ کوارٹروں میں کھانسنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ اس امر کا میں خود شاہد ہوں ۔
درج بالا واقعات اور معاشرے میں اس طرح کی بکھری ہزاروں داستانیں ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں۔ابھی وقت ہے کہ ہم سبق حاصل کر لیں ورنہ والدین کی بے ادبی اوران سے ناروا سلوک ایک ایسا گنا ہ ہے جس کا خمیازہ آخرت میں توبھگتنا ہو گا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی بھگتنا پڑتاہے اور بعض حالات میں تو انسان مرقع عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔