داؤد آپسن انگریز تھے اورزبرد ست صحافیانہ صلاحیتوں کے مالک۔اسلام قبول کر نے کے بعد یہ لاہور منتقل ہو گئے تھے اور علامہ اقبال مرحوم کے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے ۔درج ذیل واقعہ علامہ نے ان ہی سے بیان کیاتھا۔ (جسے ہم ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کی کتاب ‘ہم کیوں مسلمان ہوئے ’سے نقل کر رہے ہیں)خود داؤد کا اپنے قبول اسلام کا واقعہ بھی حیرت انگیز ہے۔داؤد نے علامہ کو بتایاتھا کہ مجھے کسی مسلمان عالم و فاضل نے مسلمان نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کا قبول میرے مطالعہ اسلام کا نتیجہ ہے۔بلکہ مجھے ‘پلاؤ’ نے مسلمان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں انگلستان سے بمبئی آیاتو بعض مقامی مسلمانوں سے علیک سلیک ہو گئی تو میں ان کے گھر آنے جانے لگا۔ایک مرتبہ ایک معزز مسلمان نے مجھے کھانے پر بلایا تو اس دعوت میں مجھے پلاؤبھی پیش کیا گیا۔میری زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں پلاؤ کھا رہا تھا۔اس کی لذت نے مجھے مسحور کر کے رکھ دیا۔میں سوچنے لگا کہ جس قوم کے کھانے کا مذا ق اتناعمدہ اور پاکیزہ ہے اس کا دین کتنا پاکیزہ اور لطیف ہو گا۔اس طرح یہ حقیقت ہے کہ میں کسی عالم دین کے ہاتھ پرمسلمان نہیں ھوا بلکہ حضرت پلاؤ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا ہوں۔میں نے پلاؤ کی رکابی کے سامنے بیٹھ کر اسلام کی لطافت کاجو اندازہ کیا تھا بعدکے مطالعہ اسلام سے وہ بالکل صحیح ثابت ہوا۔اب داؤد سے بیان کردہ علامہ کا واقعہ پڑھیے اس میں علامہ کی گفتگو داؤد مرحوم ہی سے ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال ایک حکیم تھے ۔ آپ جب بھی کسی مسئلہ پر گفتگو کرتے ، اس کے تعلق میں کلیات وتخیلات کا اور ان کے ساتھ ہی مثالوں اور حوالوں کا ایک مواج دریا آپ کے دماغ سے اترتا او رزبان سے بہہ جاتا تھا ۔
28اکتوبر 1930 کو راقم الحروف موصوف کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ آرام کرسی پر بیٹھے تھے ، حقہ سامنے رکھا تھا ۔ رسمی مزاج پرسی ہوئی اور اس کے بعد تبلیغ اسلام کے عنوان پر گفتگو شروع ہو گئی ۔ ‘‘ آپ ایک کتاب لکھیے’’ ڈاکٹر صاحب نے کہا ‘‘کیسی کتاب’’ میں نے پوچھا ۔ ‘‘تحقیقات کرنے سے آپ کو معلوم ہو گا کہ ہندستان کے قصبات اور دیہات میں ہزارہا غیر مسلم حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ۔ اگر کوئی شخص از خود ان مسلمان ہونے والوں سے ملے اور ان سے قبول اسلام کی وجوہات دریافت کرکے ایک کتاب میں جمع کر دے تو اس سے تبلیغ اسلام کے مقصد کو بے حد تقویت حاصل ہو گی ۔’’
‘‘کیا صداقت اسلام کے متعلق پہلے دلائل ناکافی ہیں؟’’ میں نے پوچھا ۔‘‘بہت کافی ہیں مگر ایسا کرنے سے کئی ایسے عجیب اور جدید دلائل آپ کو ملیں گے کہ دنیا حیرت زدہ رہ جائے گی ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دل اور دماغ کے کام کرنے کے طریقوں میں بہت فرق ہے ۔ دماغ بعض اوقات ہزارہا مضبوط سے مضبوط دلائل کو مسترد کر دیتا ہے اور ان کی کچھ بھی پروا نہیں کرتا لیکن دل اس کے برخلاف ، بعض اوقات کمزور سے کمزور چیزوں سے اس قدر متاثر ہو جاتا ہے کہ صرف ایک ہی جھٹکے میں زندگی کا سارا نقشہ بدل جاتا ہے ۔ قبول اسلام کا جس قدر دل سے تعلق ہے ، دماغ سے نہیں ۔ اصل بات جو مبلغ کو معلوم ہونی چاہیے یہ ہے کہ وہ کون کون سے نشتر ہیں جن سے دل متاثر ہوا کرتے ہیں ؟ ایک خیال یا ایک مذہب چٹان کی طرح قائم ہوتا ہے ، ناگہاں غیب سے دل پر ایک نشتر چلتا ہے اور چشم زدن میں انسان کی زندگی کی تمام گزشتہ تاریخ بدل جاتی ہے ۔ صداقت اسلام کے عقلی دلائل تو آپ کے پاس بہت ہیں مگر قلبی دلائل کم ہیں ۔ آپ اگر نومسلموں کے پاس جائیں تو وہ بتائیں گے کہ اسلام کی وہ کون سی بے ساختہ ادا تھی جوا ن کے دل کو بھا گئی ؟ اگر ان کے بیانات ایک کتاب میں جمع کر دیے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ انقلاب حیات کی ایک بالکل نئی دنیا ، مبلغین اسلام کے سامنے آجائے گی اور انہیں اشاعت اسلام کے لیے ایسے نئے دلائل یا جدید ہتھیار مل جائیں گے کہ ان سے اسلام کا موجودہ کتب خانہ خالی ہے۔’’
‘‘ڈاکٹر صاحب آپ کو بھی کوئی واقعہ یاد ہے ؟’’ میں نے پوچھا ۔ ڈاکٹر اقبال تھوڑی دیر چپ رہے ، اس کے بعد کہا : ‘‘میں آپ کی کتاب کے لیے چار نہایت ہی دلچسپ مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔’’
‘‘آپ کو تکلیف تو ضرور ہو گی مگر اسلام کی خدمت ہو جائے گی ، آپ تکلیف کر کے ضرور ارشاد فرمائیے ۔’’ میں نے التماس کی ۔ ڈاکٹر صاحب بتانے لگے ۔
لیڈی بارنس کا قبول اسلام عجیب واقعہ ہے ۔ وہ ایک نو مسلم انگریز فوجی کی بیوی تھیں ۔ چند سال پہلے کا ذکر ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی ایک مقدمے میں ملوث ہو کر میرے پاس آئے ۔ چونکہ الزامات سراسر جھوٹے تھے ، اس لیے ان دونوں کو عدالت نے باعزت بری کر دیا ۔ چونکہ وکالت کے فرائض میں نے انجام دیے تھے ، اس لیے چند روز بعد لیڈی بارنس میرا شکریہ ادا کرنے کے لیے لاہور تشریف لائیں ۔ اس وقت میں نے سوال کیا : ‘‘لیڈی صاحبہ! آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے اسباب کیا ہیں ؟’’ ‘‘مسلمانوں کے ایمان کی پختگی ، ڈاکٹر صاحب !’’ لیڈی بارنس نے جوا ب دیا ۔ ‘‘لیڈی صاحبہ ! میں نہیں سمجھا ، اس سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ ’’ میں نے پوچھا ۔ ‘‘لیڈی صاحبہ نے وضاحت میں ایک واقعہ سنایا ۔’’ ‘‘ ڈاکٹر صاحب ! میں نے دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں کوئی بھی قوم ایسی نہیں جس کا مسلمانوں کی طرح ایمان پختہ ہو ۔ بس اسی چیز نے مجھے اسلام کا حلقہ بگوش بنا دیا ہے ۔’’ لیڈی نے اپنا نظریہ پیش کر کے تھوڑا سا تامل فرمایا اور کہا :
‘‘ ڈاکٹر صاحب ! میں ایک ہوٹل کی مالکہ تھی ۔ میرے ہوٹل میں ایک ستر سالہ بوڑھا مسلمان ملازم تھا ۔ اس بوڑھے کا فرزند نہایت ہی خوبصورت نوجوان تھا ۔ مہلک بیماری میں جب یہ لڑکا چل بسا تو مجھے بے حد صدمہ ہوا ۔ میں بوڑھے کے پاس تعزیت کے لیے گئی۔ اسے تسلی دی اور دلی رنج وغم کا اظہار کیا ۔ بوڑھا نہایت غیر موثر حالت میں میرے تعزیتی الفاظ سنتا رہا اور جب میں غم کی باتیں ختم کر چکی تو اس نے نہایت شاکرانہ انداز میں آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور کہا : ‘‘میم صاحبہ ! یہ اللہ کی تقدیر ہے ۔ اللہ کی امانت تھی ، اللہ لے گیا ۔ اس میں غمزدہ ہونے کی کیا بات ہے ؟ ہمیں تو ہر حال میں اللہ الرحمان الرحیم کا شکر ادا کرنا ہے ۔’’ لیڈی بارنس اتنا کہہ کر رک گئیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا انہوں نے کوئی بہت بڑا حیرت کا واقعہ بیان کیا ہے اور اب وہ زبان حال سے مجھ سے یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ میں بھی ان کے ساتھ مل کر حیرت کا اظہار کروں ۔ میں نے کہا ‘‘لیڈی صاحبہ پھر ؟’’ لیڈی نے پھر اپنا قصہ شروع کیا اور کہا : ‘‘ڈاکٹر صاحب ! بوڑھے کا آسمان کی طرف انگلی اٹھانا ہمیشہ کے لیے میرے دل میں پیوست ہو گیا ۔ میں بار بار اس کے الفاظ پر غور کرتی تھی اور حیران تھی کہ الہی ! اس دنیا میں اس قسم کے صابر ، شاکر اور مطمئن دل بھی موجود ہیں ۔‘‘میں نے بوڑھے کے اطمینان قلب کی یہ تاویل کی کہ چونکہ پوتا موجود ہے ، اس واسطے وہ اس کی محبت اور زندگی کا سہارا ہو گا ، لیکن ڈاکٹر صاحب ! میں نے اس تاویل سے اگرچہ اپنے دماغ کو پرچا لیا مگر میرے دل کو اطمینان نہ ہوا اور میں برابر اس پڑتال میں لگی رہی کہ کسی طرح اپنے بوڑھے ملازم کی کیفیت سمجھوں۔’’
‘‘اس واقعے کے تھوڑے ہی دن بعد ، یتیم بچے کی ماں چل بسی ۔ اس سے میرے دل کو بہت تکلیف ہوئی ۔ بوڑھے کی بہو کا غم میری عقل پر چھا گیا مگر ٹھیک اسی وقت میری وہ قدیم تڑپ بھی جاگ اٹھی اور میں نے خیال کیا کہ بوڑھے کے امتحان کا اصل وقت یہی ہے۔ میرے دل پر اس کی طویل خدمت گزاریوں کا اثر تھا ۔ اس کے نوجوان فرزند کی وفات کے بعد اب اس کی بہو کی موت اور اس کے پوتے کی یتیمی نے اس اثر کو اور بھی زیادہ چمکا دیا تھا لیکن اس فطری اور رسمی ہمدردی اور دلسوزی کے علاوہ اصل چیز ، جو میری دلچسپیوں کا حقیقی مرکز تھی ، یہ تھی کہ میں بوڑھے کی کیفیت قلب کا صحیح اندازہ کر وں ؟ میں دوسرے دن بوڑھے کے گاؤں روانہ ہوئی جو بالکل قریب ہی تھا ۔ اس وقت تک جذبات وتخیلات کی ایک بے تاب کائنات میرے ہمرکاب تھی ۔ میں ہر قدم پر یہ خیال کرتی تھی کہ اس تازہ مصیبت نے بوڑھے کے دل کی حالت کو بدل دیا ہو گا۔ وہ کبھی اپنے ضعف اور حال زار پر غور کرتا ہوگا پھر اپنے یتیم پوتے کی کم سنی کو دیکھتا ہوگا اور غم میں ڈوب جاتا ہو گا۔ دوسرے ہی قدم پر یہ سوچنے لگتی کہ جب اس کا معصوم ، کمسن اور لاوارث پوتا ماں باپ کی فراق میں بلبلائے گا تو وہ کس طریقے سے اس کے اور اپنے دل کو تسلی دے گا ؟ وہ اس کے آنسوؤں کی جوابدہی سے کیوں کر عہدہ بر آہوگا ؟ وہ ضعیفی اور اپنے پوتے کے تاریک مستقبل پر کیا پردہ ڈالے گا ؟ ان تمام سوالات نے میرے دل اور دماغ کے لیے جو فیصلہ مہیا کیا ، یہ تھا کہ بوڑھے کا وہ پہلا صبر واستقامت ختم ہو چکا ہو گا ۔ میں اسی فیصلے کو لیکر بوڑھے کے گھر میں داخل ہوئی اور اس کی تازہ مصیبت پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے اپنی ہمدردی کا یقین دلایا ۔ وہ نہایت ہی امن وسکون سے میری درد مندانہ باتیں سنتا رہا لیکن جب اس کے جواب کی نوبت آئی تو اس نے پھر انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا : ‘‘میم صاحبہ ! اللہ کی تقدیر میں کوئی شخص دم نہیں مار سکتا ۔ اسی نے دیا تھا اور وہی لے گیا ، ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا واجب ہے ۔’’ لیڈی بارنس بوڑھے کے الفاظ نقل کرنے کے بعد پھر رکیں گویا وہ مجھ سے ان الفاظ کی داد طلب کر رہی تھیں۔ انہوں نے تھوڑا تامل کیا ، ایسا تامل جس میں ایک قسم کی محویت ملی ہوئی تھی اور سلسلہ کلام پھر شروع کیا اور کہا :
‘‘ڈاکٹر صاحب! میں جب تک بوڑھے کے پاس بیٹھی رہی ، اس کے سینے سے آہ نکلی نہ آنکھ سے آنسو گرے اور نہ زبان پر افسوس کا لفظ آیا ۔ وہ اس طرح اطمینان سے باتیں کرتا تھا ، گویا اس نے اکلوتے بیٹے اور بہو کو زمین میں دفن نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی کا کوئی بڑا فرض ادا کیا ہے ۔ تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے واپس آگئی ۔ میں بوڑھے کی پختگی ایمان پر بہت حیرت زدہ تھی ۔ میں بار بار غور کرتی تھی اور تھک جاتی تھی مگر مجھ پر یہ معمہ حل نہیں ہوتا تھا کہ اس پریشانی میں کسی انسان کو یہ استقامت حال کیسے نصیب ہو سکتی ہے ؟ چند روز بعد اس کا معصوم پوتا بھی گزر گیا ۔ اس اطلاع کے بعد میں نے اپنی تمام فکری تاویلات کو نئے سرے سے اپنے دماغ میں جمع کیا تاکہ اس کے حال کا اندازہ کر وں ۔ میں بڑی بے قراری کے عالم میں اس کے پاس گاؤں پہنچی۔ مجھے یقین تھا کہ اب لاوارث بوڑھا اپنی تمام دنیا کو ختم کر چکا ہو گا ۔ اس کے حواس ، ہوش سے بیگانہ ہونگے ۔ اس کا دل ودماغ مقفل ہو گا اور یاس اس کی امید کے تمام رشتے منقطع کر چکی ہو گی۔ یہی توقعات ساتھ لیکر میں بوڑھے کے مکان میں داخل ہوئی اور نہایت ہی دلسوزی سے اس کے مصائب پر غم کا اظہار کیا ۔ مجھے یہ معلوم کر کے بے حد حیرت ہوئی کہ میرے اظہار افسوس کا بوڑھے کے دل پر کچھ بھی اثر نہ تھا ۔ وہ بڑی بے تکلفی سے بیٹھا تھا اور نہایت ہی غیر متاثر حالت میں میری گفتگو سن رہا تھا ۔ جب میری گفتگو ختم ہو گئی تو اس نے زبان کھول ، پہلے کی طرح پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا : ‘‘میم صاحبہ ! یہ اللہ کی حکمت کے کھیل ہیں ۔ اس نے دیا تھا، واپس لے لیا ۔ اس میں ہمارا کیا تھا جس پر ہم اپنے دل کو برا کریں ، بندے پر ہر حال میں اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا واجب ہے ۔ ہم مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہیں ۔ ’’
اب لیڈی بارنس درد دل کی کیفیتوں سے لبریز تھی ۔ انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا اور روتی ہوئی آواز میں کہا : ‘‘ڈاکٹر صاحب ! بوڑھے کا یہ پیغام میرے لیے قتل کا پیغام تھا ۔ اس کی انگلی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی اور تیر بن کر میرے دل کو کرید رہی تھی ۔ اس وقت میں نے اس مرد ضعیف کی پختگی ایمان کا اپنے دل میں بھرپور اعتراف کیا ۔ مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ یہ اطمینان قلب مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی ہے ۔ میں نے کہا اے میرے بوڑھے باپ ! اب تم اکیلے اس گاؤں میں رہ کر کیا کرو گے ؟ میرے ساتھ ہوٹل میں چلو اور آرام سے زندگی بسر کرو ۔ بوڑھے نے میری اس دعوت کا شکریہ ادا کیا اور بے تکلف میرے ساتھ ہوٹل چلا آیا ۔ یہاں وہ دن بھر ہوٹل کی خدمت کرتا اور رات کو اللہ کی یاد میں مصروف ہو جاتا
کچھ عرصے بعد اس نے کہا کہ میں آج قبرستان جاؤں گا ۔ میرے دل میں پھر وہی امتحان لینے کی لٹک پیدا ہوئی ۔ دل نے کہا کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں اس کے صبر وتحمل پر کیا گزرتی ہے ؟ بوڑھا ہوٹل سے نکل کر اس خاموش اور ویران مقام کی طرف آیا جہاں اس کے تینوں عزیز مدفون تھے ۔ میں ایک طرف کھڑی ہو گئی اور وہ قبرستان پہنچتے ہی پریشان حال قبروں کو درست کرنے میں مصروف ہو گیا ۔ وہ مٹی کھود کھود کر لاتا تھا اور قبروں کو درست کرتا تھا ۔ اس کے بعد وہ پانی لے آیا اور ان پر چھڑکاؤ کرنے لگا ۔ جب قبریں درست ہو گئیں تو بوڑھے نے وضو کیا ، ہاتھ اٹھائے
(بقیہ ص پر)
اور اہل قبرستان کے حق میں دعا کی اور واپس چل دیا ۔
میں نے اس تمام عرصے میں نہایت احتیاط سے اس کی تمام حرکات کو دیکھا اور محسوس کیا کہ اس کے ہر کام میں اطمینان کا نور اور ایمان کی پختگی جلوہ گر ہے ۔ اب میرے دل پر ایک غیبی نشتر چلا اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ بوڑھے کی خوبی نہیں بلکہ یہ اس دین حق کی خوبی ہے جس کا یہ بوڑھا پیرو ہے ۔ میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا اور ہوٹل میں پہنچ کر اس مرد بزرگ سے کہا کہ وہ کوئی ایسی عورت بلا لائے جو مجھے اسلام کی تعلیم دے۔ وہ فی الفور اٹھا اور اپنے ملا کی لڑکی کو بلا لایا ۔ اس نے مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے کی ترغیب دی اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا سبق سکھایا ۔
ڈاکٹر صاحب ! اب میں اللہ کے فضل ورحمت سے مسلمان ہوں اور وہی عظیم الشان قوت ایمان ، جس سے کہ بوڑھے کا دل سرشار تھا ، اپنے سینے میں موجود پاتی ہوں ۔ اب مجھے اللہ پر اس قدر پختہ ایمان ہے کہ خواہ کس قدر مصیبت بھی آئے ، میرے قدموں کو کبھی لغزش نہیں ہو سکتی ۔