رویے میں تبدیلی کیوں کر؟

مصنف : آفتاب احمد

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جولائی 2006

            زندگی کے بننے یا بگڑنے میں کردار اور عادات کا بڑا عمل ہوتا ہے اور کردار میں تبدیلی لانے کے لیے اچھی عادات کو اپنانا اور بری عادات سے نجات حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو سکول اور کالج میں نہیں دیا جاتا بلکہ اسے خود اپنی کوشش سے مختلف لوگوں اور مختلف مقامات سے حاصل کر نا پڑتاہے ۔

             کردار میں تبدیلی لانے کے لیے تین چیزوں کا علم ہونا ضروری ہے ۔ کسی عادت یا کمزوری میں تبدیلی لانی ہے ؟ کیوں تبدیلی لانی ہے ؟ کیسے تبدیلی لانی ہے ؟

            جب بھی آپ کوئی عادت تبدیل کرنے کے بارے میں غور کریں گے ، اندر سے مزاحمت شروع ہو جائے گی ۔ نفس کئی خود ساختہ وجوہات پیش کر ے گا ۔ مثلاً ہمیں کیا ضرورت ہے ؟آخرہم ہی اپنا رویہ کیوں تبدیل کریں ؟ دوسرے کیوں نہیں کرتے ؟ ہم ہمیشہ یہی چاہتے ہیں ، ہمارے مدمقابل کے رویے میں پہلے تبدیلی آئے ۔ جب موقع آئے گا ہم بھی اپنے میں تبدیلی لے آئیں گے جب تک چلتا ہے چلنے دیں ۔ دیکھا جائے گا۔ گھر میں بھی آپ بچوں سے کہیں کہ بیٹا اس عادت کو بدل لوتو وہ کہے گا : میں کیوں ؟ میرا بھائی کیوں نہیں ۔ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو تبد یلی سے بچانے کے لیے دوسروں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ پہلے وہ تبدیل ہو جائیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ اس میں تبدیل ہونے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں ؟وہ کہانی تو آپ نے سنی ہو گی ۔ بحری جہاز اور لائٹ ہاؤس کی ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ سمندر میں شدید طوفان آیا ۔ کچھ بحری جہاز بندرگاہ میں لنگر انداز تھے ۔ طوفان کی وجہ سے وہ بہت دور دور چلے گئے ۔ ان میں ایک بڑا جنگی جہاز بھی شامل تھا ۔ طوفان جب تھما تو آدھی رات ہو چکی تھی ۔ رات کے اندھیرے میں سمت معلوم نہیں ہو رہی تھی ۔ جنگی جہاز کے کپتان نے ایک آفیسر سے کہا کہ تم ذرا اوپر جاکے سمت دیکھو تاکہ جہاز کو واپس اپنی جگہ پر لایا جا سکے ۔ آفیسر اوپر گیا ۔ سب کچھ درست کر لینے کے بعد اس نے چاروں طرف دیکھنا شروع کیا ، سامنے سے لائٹ دکھائی دی ۔ اسی سمت وہ جنگی جہاز لے جانا چاہتے تھے ۔ وہ فورا نیچے آیا اور جہاز کے کپتان سے کہا سر ! میں نے جہاز کا رخ تو سیدھا کر لیا ہے ، لیکن سامنے سے مجھے ایک لائٹ نظر آرہی ہے ہو سکتا ہے دوسرا جہاز ہو ۔ کہیں ٹکراؤ نہ ہو جائے۔ کپتان نے کہا کہ ہم ایک Message دے دیتے ہیں کہ ہم نے یہ راستہ چنا ہے ۔ اس لیے آپ 20 ڈگری پر اپنا راستہ بدل لیں ۔ پیغام وائرلیس کے ذریعے بھیجا گیا ۔ فوری طور پر وہاں سے جواب آیا کہ میں نہیں بدل سکتا ، آپ20 ڈگری بدل لیں ۔ کپتان کو جب یہ پیغام موصول ہوا کہ سامنے والا 20 ڈگری ہٹ جانے کا کہہ رہا ہے تو اس نے کہا کہ وہ سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو ؟ اسے کہو کہ میں فلاں کپتان بول رہا ہوں ۔ آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ اپنی جگہ بدل لیں ۔ سامنے سے پھر جواب آیا کہ جناب میں سیکنڈ کلاس ملاح بول رہا ہوں ۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنا جہاز 20 ڈگری دوسری طرف لے جائیں ۔ کپتان نے کہا کہ اس شخص کو بتاؤیہ جنگی جہاز ہے ، اس کو موڑ کاٹنے کے لیے دو کلومیٹر جگہ کی ضرورت ہے اور اتنی جگہ نہیں ہے اسے کہو کہ ہمیں گزرنے کے لیے راستہ دیں ۔ سامنے سے جواب آیا کہ جناب یہ بحری جہاز نہیں بلکہ لائٹ ہاؤس ہے ۔ (یہ سمندر میں بحری جہازوں کی رہنمائی کے لیے نصب کیا جاتا ہے )چنانچہ اس بات کاصحیح صحیح اندازہ کرنا ازحد ضروری ہوتا ہے کہ مد مقابل میں تبدیلی کی صلاحیت ہے بھی کہ نہیں؟

             تبدیلی لانا ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے ۔ اس لیے لوگ اسی حالت میں پڑے رہتے ہیں ۔ دیکھا جائے گا ، ہوہی رہا ہے ،ہوتا جائے گا ۔ چلتا ہے ، چلتا آرہا ہے ،چلنے دیں ۔ اس قسم کی سوچ بن جاتی ہے ۔ جب ضرورت ہو گی تو بدل جائیں گے یا ٹائم خود بخود بدل دے گا وغیرہ ۔ اگر آپ نے اپنے رویے میں کسی کمزوری کی نشان دہی کر بھی لی لیکن تبدیلی لانے کی خواہش ہی نہ ہو توپھر بھی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ یا خواہش بھی ہے ، Skill بھی ہے لیکن کمزوری کی صحیح نشان دہی نہیں ہو سکی تو بھی تبدیلی ناممکن ہے ۔ یہ علم ہے ، کیا کرنا ہے ؟ یہ بھی معلوم ہے ، کیوں کرنا ہے ؟ لیکن یہ علم نہیں ، کیسے کرنا ہے ؟ تو پھر بھی تبدیلی ناممکن ہو گی ۔ کسی بھی تبدیلی کے لیے ان باتوں کا ہونا ضروری ہے ۔

(Knowledge) (Desire) (Skill) اس کے لیے ایک فارمولا بنا یا گیا ہے ۔

Change is equal to A+B+D>X

ٰA کا مقصد ہے Accptence of need کسی تبدیلی کے متعلق ضرورت کا احساس ہونا ۔B کا مقصد ہے Belief in self اپنے آپ پر مکمل یقین ہو کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں ۔ میرے لیے مشکل نہیں یا میں جانتا ہوں ۔ D کا مطلب ہے Desirability of nature یعنی یہ یقین ہونا چاہیے کہ مستقبل اچھا ہو گا ۔ x کا مطلب ہے Cost of changing یعنی جو یہ ٹائم اور وسائل خرچ کر رہے ہیں وہ اس تبدیلی کی قیمت ہو گی ۔ تب تبدیلی ممکن ہو گی ۔ اگر یہ تین چیزیں نہیں ہونگی تو جو جی میں آئے کر لیں ، جتنے پروگرام بنا لیں ، سب وسائل لگالیں نتیجہ صفر ہی ہو گا ۔ عملی طور پر تبدیلی صرف اس فارمولے سے ممکن ہے ۔

             تبد یلی کے لیے کسی بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہر انسان کے اندر مطلوبہ صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔صرف انہیں بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہم ہمیشہ باہر سے تبدیلی لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسی تبدیلی صرف سطحی تبدیلی ہوتی ہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد محسوس ہو گا کہ جہاں سے چلے تھے وہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سطحی تبدیلی ہمارا ایکشن ہوتا ہے ۔ مثلاً یہاں کی چیز وہاں رکھ دی۔ وہاں کی چیز یہاں رکھ دی وغیرہ ۔ سطحی تبدیلی کا دوسرا درجہ ٹریننگ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ٹریننگ سے کچھ نئی باتیں معلوم ہوجاتی ہیں۔ سوچ میں تھوڑی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کسی چیز کے متعلق نقطہ نظر میں تھوڑی سی تبدیلی آجاتی ہے۔ یہ بھی سب سطحی باتیں ہوتی ہیں ۔ کچھ عرصہ کے بعد انسان پھر اپنی پرانی ڈگر پر چل پڑتا ہے اس لیے اصل تبدیلی اندورنی تبدیلی ہوتی ہے یعنی انسان کے اند رکا رخ سارے کا ساراتبدیل ہو جائے ۔(بشکریہ : ماہنامہ شاہراہ تعلیم ، لاہور )