ج: اسلامی فقہ صرف چار مسالک تک محدودنہیں ہے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے امام صرف چار ہی نہیں یعنی ابو حنیفہ ؒ، مالکؒ ، شافعیؒ، اور احمدبن حنبلؒبلکہ ان کے علاوہ دوسرے علما اور فقہ بھی ہیں جو علمی مرتبہ میں ان چاروں کے ہم پلہ ہیں۔ مثال کے طور پر امام لیث بن سعد ہیں جو کہ امام مالک کے ہم عصر تھے ۔امام شافعی کی نظر میں امام لیث امام مالک سے بہتر فقیہ تھے۔ اسی طرح عراق میں سفیان ثوری تھے جوکہ فقہ میں امام ابوحنیفہ کی برابری کر سکتے ہیں۔ امام غزالی نے انہیں پانچواں امام تسلیم کیاہے۔ اسی طرح ان چاروں آئمہ سے قبل بھی علم و فقہ کے عمائدین پائے جاتے تھے او رجو ان اماموں کے استاد بھی تھے۔اس سے بھی قبل صحابہ کرام میں بھی فقہا موجود تھے مثلا حضرت عائشہؓ، حضرت زید بن ثابتؓ۔ درج ذیل نکات ذہن میں رکھیے تو آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔
۱۔ ان چاروں آئمہ نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ معصوم عن الخطاتھے اور ان سے کبھی غلطی ہو ہی نہیں سکتی ۔یہ امام قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح رائے قائم کر نے کے لیے اجتہاد کرتے تھے ۔ان کے اجتہاد کی بنیاد قرآن وسنت پر تھی نہ کہ اپنی مرضی اور خواہش پر ۔امام ابو حنیفہ کہاکر تے تھے کہ یہ میری رائے ہے اور یہ رائے میری نظر میں سب سے بہتر ہے لیکن اگر میری رائے سے بہتر کوئی رائے مجھے معلوم ہو تو میں فورا اسے قبول کر لوں گا۔امام شافعی جب عراق میں تھے تو عراق کے ماحول اوروہاں کی ضرورتوں کے مطابق ان کے فتوے ہوتے تھے لیکن جب مصر جا بسے تو مصر کے حالات اورحاجات کے مطابق ان کے فتوے عراق سے قدرے مختلف ہوتے تھے۔کسی ایک ہی مسئلے میں حضرت عمر ؓ کی جو رائے آج ہوتی تھی اگلے سال مختلف حالات کی وجہ سے انکی رائے مختلف ہوتی تھی اور جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ ایسا کیوں ہے جو آپ جواب دیتے کہ کل کا فتوی کل کے علم کے مطابق تھا اور آج کی رائے آج کے علم کے مطابق ہے ۔
۲۔ کسی ایک مسلک کی اتباع اور تقلید کرنا نہ فرض ہے اور نہ سنت بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ ایسی تقلید قرآن و سنت کی رو سے جائز نہیں ہے ۔
۳۔ اللہ نے اپنے بندوں پرصرف اپنی اوراپنے رسول کی اطاعت فرض کی ہے ۔انسان خواہ کتنا ہی بڑا عالم اور فقیہ کیوں نہ ہو اگر اس سے غلطی کاامکان ہے تو اس کی مکمل تقلید اوراتباع کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟اس طرح کی تقلید کامطلب تو یہ ہے کہ ہم نے اس عالم و فقیہ کو حضور کا درجہ دے دیا ہے۔
۴۔ خود ان علما و فقہا کرام نے لوگوں کو اپنی مکمل تقلید سے منع کیا ہے اور اس بات سے روکا ہے کہ اندھے بہرے ہو کر ان باتوں کو تسلیم کر لیا جائے ۔امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ نہ میری تقلید کرو نہ مالک کی نہ ثوری کی اور نہ اوزاعی کی بلکہ اس کی بات مانو جس کی بات سب نے مانی ہے یعنی حضورﷺ کی
۵۔ اس طرح کی مکمل تقلید کرنا اور اس کے لیے متعصب ہونا ایسی بدعت ہے جس کا صحابہ اور سلف صالحین کے دور میں رواج نہیں تھا۔اس دور میں لوگ تقلید کی بنا پر بلکہ بات کو دلیل کی بنا پر مانتے تھے ۔ ایک مسئلہ میں اگر حضرت عمر کی رائے کو مانتے تو دوسرے میں حضرت علی کی مان لیتے تھے ۔
۶۔ کسی مسئلہ میں کسی امام سے اختلاف کرنا ا ن کی شان میں گستاخی نہیں اور نہ اس سے ان کی علمی منزلت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔عزت و احترام کرنا اوربات ہے اور کسی رائے سے اتفاق نہ کرنا دوسری بات ہے۔کسی کی رائے سے بھر پور مخالفت کے باوجود اس کی بھر پور عزت کی جا سکتی ہے۔
۷۔ اماموں کی مکمل تقلید کامطلب تو انہیں صحابہ پر بھی فوقیت دیناہے ۔آخر کس بنیاد پر لوگ انکی تو تقلید کر لیتے ہیں مگر حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ کی تقلید نہیں کر سکتے ؟
۸۔ کوئی ضروری نہیں کہ جو رائے سب سے زیادہ مشہور ہو اور جس کے ماننے والے کثرت میں ھوں وہی رائے سب سے زیادہ صحیح بھی ہویا جس رائے کے ماننے والے اقلیت میں ھوں وہ رائے سرے سے غلط ہو کیوں کہ کسی رائے کے صحیح یا غلط ہونے کا دارومدار اس کی شہرت اور اس کے متبعین کی کثرت پر نہیں بلکہ دلیل کے مضبوط اور معتبر ہونے پر ہے ۔ورنہ کبھی دین حق نہ ہوتا کیوں کہ اس کے ماننے والے دنیا میں ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں۔
۹۔ فقہی اختلاف کا مطلب آپس کی دشمنی نہیں ھوتابلکہ یہ آئمہ ایک دوسرے کی امامت میں نمازپڑھتے تھے۔امام شافعی فجر کی نماز میں دعائے قنوت کو ضروری سمجھنے کے باوجود جب انہوں نے امام ابو حنیفہ کی قبر کے نزدیک نماز فجر ادا کی تو ان کے رتبہ کا احترام کرتے ہوئے فجر میں دعائے قنوت نہیں پڑھی ۔امام احمد کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ امام مالک کے نزدیک خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، کیا آپ ان کی امامت میں نماز پڑھ سکتے ہیں تو احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ امام مالک اور سعید بن مسیب کی امامت میں نماز پڑھنے سے کسے تامل ہو سکتا ہے ۔
۱۰۔ فقہی مسائل میں اختلافات کوئی مصیبت یا تفرقہ کی علامت نہیں بلکہ یہ تو ایک شرعی ضرورت ہے ۔یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو کسی ایک رائے کا پابند نہیں بنایا بلکہ انہیں گنجائش اور سہولت عطا کی ہے ۔عین ممکن ہے کہ کوئی فتوی حالات کے اعتبار سے ایک جگہ کے لیے موزوں ہولیکن وہی فتوی حالات کے اختلاف کی وجہ سے دوسری جگہ کے لیے موزوں نہ ہو۔خلیفہ منصور نے امام مالک سے خواہش ظاہرکی کہ تمام مسلمانوں کو کیوں نہ ان کی تصنیف موطا کا پابند بنا دیا جائے تو امام مالک نے انکارکر دیا اور کہا کہ امیر المومنین ایسا نہ کیجیے کیوں کہ مسلمان مختلف ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں ان کے حالات جدا جدا ہیں اور ان کی ضرورتیں الگ الگ ہیں۔
۱۱۔ تمام لوگوں کو کسی ایک ہی مسلک کا پابند بنا دینا اجتہاد کا دروازہ بند کر دینا ہے اور یہ شریعت کی رو سے ایک غلط عمل ہے ۔اس طرح کی فکر اس زمانے کی پیداوار ہے جب کہ مسلمانوں میں علمی جہالت اور پسماندگی آ گئی ہے۔البتہ وہ شخص جو قرآن و سنت اور دوسرے شرعی علوم پر عبور نہ ر کھتا ہو اسے چاہیے کہ جن مسائل میں اسے علم نہ ہو ان کے سلسلہ میں علمائے کرام کی طرف رجوع کر ے۔
کس مسلک کی پیروی کی جائے؟
رہا یہ سوال کہ ایسا شخص کس مسلک کے عالم سے رجوع کرے اور کیا یہ جائز ہے کہ کسی ایک مسلک میں وہ حنفی مسلک کی پیروی کر ے دوسرے میں شافعی یا حنبلی مسلک کی ۔میری رائے میں اگر کوئی شخص آرام پسندی اور آسان فتوے کے چکرمیں ایسا کرتا ہے توجائز نہیں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ شخص اپنے نفس کی اتباع کر تاہے شریعت کی نہیں ۔البتہ قرآن و سنت کی بنیاد پر کسی رائے کو زیادہ قابل ترجیح سمجھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے دلائل زیادہ مضبوط ہیں تو ایسے شخص کے لیے جائز ہے کیوں کہ یہ دلیل دیکھتا ہے نہ کہ اپنا فائدہ۔ دلوں کا حال بہر حال اللہ کے علم میں ھے ۔ہمیں بہر حال اس کے حضور جوابدہ ہونا ہے ۔کسی مسئلے میں واقعی ہم نے قرآن وسنت کی زیاد ہ بہتر پیروی کے شوق میں زیادہ آرا میں دلائل کی بنیاد پر کسی رائے کا انتخاب کیا یا محض اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر ۔ یہ اللہ کے علم میں ہے۔
فقہی مسائل میں اختلافات کے اسباب
۱۔ شرعی احکام کا منبع و ماخذ قرآنی آیات اور حضور ﷺ کی سنت طیبہ ہے اوریہ عین فطری بات ہے کہ ان آیات یا سنت کا منشا و مفہوم متعین کرنے میں لوگ مختلف ہو جائیں۔ بعض لوگ ظاہر ی مفہوم کو ترجیح دیں اور بعض لوگ بات کے اصل مدعا و مفہوم کو۔غزوہ احزاب سے واپسی پر حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا ۔من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلا یصلین العصر الا فی بنی قریظہ۔ (بخاری و مسلم) جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ عصر کی نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی ادا کر ے۔جب سورج غروب ہونے کا وقت آیا اور صحابہ کرام بنی قریظہ نہ پہنچ سکے تو صحابہ حضورکے اس حکم کے بارے میں غور کرنے لگے ۔بعض صحابہ نے کہا کہ چونکہ حضور نے ہمیں بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے ہم وہیں جا کر نماز ادا کریں گے خواہ قضا ہی ہو جائے ۔بعض نے کہا کہ حضورﷺ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں بلکہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ ہم جلد از جلد بنی قریظہ پہنچنے کی کوشش کریں۔چنانچہ انہوں نے سورج غروب ہونے سے قبل اور بنی قریظہ پہنچنے سے قبل عصر کی نماز ادا کر لی ۔یعنی ایک فریق نے ظاہر حکم پر عمل کیا او ر دوسرے فریق نے حکم کے اصل مدعا و مقصد کو مد نظر رکھا۔جب معاملہ حضورﷺ کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے دونوں فریقوں کو درست قرار دیا۔
۲۔ طبعاً بعض لوگ سختی کی طرف مائل ہوتے ہیں جب کہ بعض لوگ سہل پسند ہوتے ہیں۔جیسا کہ عبداللہ بن عمر ؓ کا مزاج سختی کی طرف اور ابن عباس کا مزاج آسانی کی طرف مائل تھا۔طبیعت میں اس فرق کی بنا پر ان کے مابین فقہی مسائل میں بھی اختلاف ہے ۔عبداللہ بن عمر اپنی سخت طبیعت کی بنا پر بچوں کو بوسہ دینے سے بھی گریز کرتے تھے جبکہ ابن عباس ایسا کرنے کو ایک نیک عمل سمجھتے تھے ۔
۳۔ عربی زبان میں بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن میں حقیقی اور مجازی دونوں معانی کا احتمال ہوتاہے ۔بعض لوگ حقیقی مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں اوربعض مجازی مفہوم کو۔ مثلاًقرآن کے الفاظ او لامستم النساء میں لفظ لامستم میں حقیقی اور مجازی دونوں مفہوم کی گنجائش ہے ۔اس کا حقیقی مفہوم ہے ہاتھ سے چھونا اور اس کا مجاز ی مفہوم ہے بیوی سے صحبت کرنا۔جن فقہا نے اس کے حقیقی مفہوم کو ترجیح دی انکے نزدیک بیوی کو صرف ہاتھ لگا دینے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن جن کے نزدیک یہاں لفظ کا مجازی مفہوم مراد ہے ان کے نزدیک بیوی کو صرف ہاتھ سے چھو دینے سے وضونہیں ٹوٹتا۔
۴۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک روایت اورحدیث کسی امام کے نزدیک صحیح اورمعتبر ہوتی ہے اور وہ اس کے مطابق اپنی رائے قائم کرتا ہے جب کہ کسی دوسرے امام کے نزدیک یہ حدیث غیر معتبر اور ضعیف ہوتی ہے اور وہ اس کو اپنی دلیل نہیں بناتا ۔روایت کے معتبر ہونے یا نہ ہونے سے بھی فقہی مسائل میں اختلافا ت پیدا ہوتے ہیں۔
۵۔ بعض فقہا کرام فقہی مسائل میں قرآن و حدیث کے علاوہ دوسرے عوامل بھی مد نظر رکھتے ہیں۔مثلا دنیا کے بدلتے حالات ، مختلف علاقے والوں کی مختلف ضروریات اور عوامی مصلحتیں وغیرہ۔ جب کہ بعض فقہا کے نزدیک یہ عوامل معتبر نہیں ہوتے ۔
۶۔ بعض فقہا کے نزدیک حضور ﷺ سے قبل کی شر یعتیں بھی ہمارے لیے شریعت کی حیثیت رکھتی ہیں اور انہیں دلیل کے طو ر پر پیش کیا جا سکتا ہے جب کہ بعض کے نزدیک یہ شریعتیں ہمارے لیے معتبر نہیں۔انکے علاوہ بھی اور اسباب ہیں تفصیل کے لیے دیکھیے شاہ ولی اللہ کی ‘الانصاف فی اسباب الاختلاف’ اور شیخ علی الخفیف کی ‘ اسباب اختلاف الفقہا’۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: نمازِ تراویح کا جماعت کی شکل میں اِس طرح سے پڑھے جانا ، جیسے آج کل مساجد میں پڑھی جاتی ہے، یہ تو نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ آپ ﷺ کے پیچھے صحابہ نے رمضان میں بھی تہجد ہی کی نماز پڑھی ہے اورتراویح اصل میں تہجد ہی کی نما ز ہے ۔ تراویح آج کل جس شکل میں خصوصاً احناف کے ہاں پڑھی جاتی ہے،یعنی رکعتوں کی ایک خاص تعداد کی تعیین اور پھر اِس طرح سے عشاء کی نماز کے بعد کسی مسجد میں بس ایک ہی امام کے پیچھے پڑھنا ، اِس کی ابتد بے شک عمر فاروقؓ کی تجویز سے ہوئی ہے، البتہ عمر فاروقؓ کا اپنا عمل یہ نہیں تھا۔ وہ خود اِس میں شامل نہیں ہوتے تھے اور اِس کی جگہ وہ تہجد ہی کی نماز پڑھتے تھے۔
سنت مؤکدہ وہ نوافل ہیں، جو نبی ﷺ نے خود بھی پڑھے اور امت کو اُن کے پڑھنے کی تلقین بھی کی اور سنتِ غیر مؤکدہ وہ نوافل ہیں جو نبی ﷺ نے خود پڑھے، لیکن امت کو اُن کے پڑھنے کی تلقین نہیں کی ۔سنتِ مؤکدہ واجب سے ملتی جلتی چیز ہرگز نہیں ہے۔ یہ وہ نوافل ہیں جنہیں پڑھنے کی نبی ﷺ نے بہت تاکید کی ہے اور اِس کا بہت اجر بیان کیا ہے۔ اِسے ترک کرنے پر گناہ نہیں ہوتا، بلکہ اِس پر ملنے والے اجر کا نقصان ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی نبی ﷺ کی اس تاکید کو ہلکا جانے اوراس کا استخفاف کرے تو گنا ہ ہو گا۔واجب احناف کی ایک اصطلاح ہے۔ وہ اِس کا اطلاق اُس عمل پر کرتے ہیں، جو قطعی الثبوت یعنی نبی ﷺ سے یقینی طور پر ثابت تو ہو، لیکن قطعی الدلالت نہ ہو، یعنی اُس کی تعبیر میں اختلاف ممکن ہو۔ چنانچہ اُن کے نزدیک ایسا عمل اپنی کسی نہ کسی تعبیر میں کیا جانا لازم ہے، اُن کے نزدیک اِس کا ترک کرنا گناہ ہے۔
(محمد رفیع مفتی)