جواب: اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ بیرون مسجد، پارکس، مکانات وغیرہ میں جو جماعت کا اہتمام ہوتا ہے، اس میں نماز باجماعت تو یقینا ادا ہوگی لیکن مسجد کا ثواب نہیں ملے گا۔ اگر پانچ روزہ یا دس روزہ تراویح و ختم قرآن سے لوگ یہ سمجھ لیں کہ بس ایک قرآن ختم ہوگیا، اب تراویح سے بھی فارغ، تو یہ طرز عمل اور سوچ بالکل غلط ہے، تراویح پورے ماہ رمضان کی سنت ہے، لہذا جن لوگوں کا ختم قرآن ستائیسویں کو ہوتا ہے، ان کو بھی چاہئے کہ بقیہ دنوں کی تراویح باقاعدگی سے پڑھیں۔
(مفتی منیب الرحمان)
جواب : جی ہاں پڑھی جاسکتی ہے، لیکن کھڑے ہوکر پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھی جائے تو ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔
(مفتی منیب الرحمان)
جواب: کسی عملِ خیر کو کسی خاص وقت، دن اور تاریخ کے ساتھ اس نظریے کے ساتھ متعین کرکے ادا کرنا کہ اس کا اجر و ثواب اس تعین کے ساتھ مشروط ہے یا یہ تعین اجرِ زائد کا سبب ہے اسے تعینِ شرعی کہتے ہیں، اور دلیل ِشرعی کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں۔ یوں تو قرآن مجید کی ہر سورت مقدس اور مبارک ہے اور کسی بھی دن اور کسی بھی تاریخ کو اس کا پڑھنا باعث ِبرکت ہے (بشرطیکہ کوئی اور شرعی مانع نہ ہو) اور رمضان المبارک میں تو نفل عبادت کا ثواب دیگر ایام کے فرائض کے برابر ہوتا ہے، لہٰذا اگر کچھ لوگ ستائیسویں شب کو ‘‘سورۃ الروم’’ اور ‘‘سورۃ العنکبوت’’ پڑھتے ہیں یا حسب ِتوفیق اور بھی سورتیں پڑھیں تو بلاشبہ یہ اجر و ثواب اور سعادت کی بات ہے لیکن تعینِ شرعی کی نیت سے پڑھنا درست نہیں ہے۔
تعین ِشرعی سے مراد ہے کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ خاص اس رات کو یہ سورتیں پڑھنے کا حکم دیا گیاہے یا یہ کہ اس دن دوسری سورتوں کے مقابلے میں ان کا زیادہ ثواب ہے یا یہ کہ یہ شارع علیہ الصلوٰۃوالسلام کا خاص معمول تھا درست نہیں ہے۔
(مفتی منیب الرحمان)
جواب : تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔
(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)
جواب: تراویحـ کی نماز نہ عورتوں پر واجب ہے اور نہ مردوں پر۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت عظیم اجر و ثواب ہے۔ حدیث نبویؐ ہے: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے: من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفراللہ ما تقدم من ذنبہ.(بخاری،مسلم)
‘‘جس نے رمضان میں رات کی نمازیں ایمان اور احتساب کے ساتھ پڑھیں اللہ اس کے پچھلے گناہ بخش دے گا۔’’
عورتوں کا اپنے گھر میں رہ کر رمضان کی راتوں کی نمازیں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ الا یہ کہ مسجدوں میں جانے سے ان کا مقصد صرف تراویح پڑھنا نہیں بلکہ دو سرے نفع بخش نیک کام ہوں مثلاً وعظ و تذکیر کے پروگرام میں شامل ہونا یا درس و تدریس کی مجلس سے استفادہ کرنا یا کسی جید قاری کی قرأت سننا تو ان حالتوں میں ان کا مسجد جا کر نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں نماز پڑھنے کے علاوہ دوسری نیکیاں بھی مقصود ہیں اور اس لیے بھی کہ آج کل مرد حضرات اپنی عورتوں کو دینی تعلیم دلانے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ اس لیے ان عورتوں کا مسجد جا کر نماز با جماعت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا، ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر وہ گھر میں بیٹھی رہیں گی تو ممکن ہے کہ انھیں نماز میں وہ رغبت نہ پیدا ہوجو مسجد میں ہوتی ہے۔
لیکن بہر صورت عورتیں مسجدوں میں اپنے شوہروں کی اجازت ہی سے جا سکتی ہیں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکیں الا یہ کہ واقعی کوئی شرعی عذر ہو۔ حضوؐر فرماتے ہیں: لا تمنعوااماء اللہ مساجد اللہ.(مسلم)
‘‘اللہ کی باندیوں (عورتوں) کو مسجدوں سے نہ روکو۔’’
عذر شرعی کی صورت یہ ہے کہ مثلاً شوہر بیمار ہو اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہو۔ یا گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور انھیں گھر میں تنہا چھوڑنا مناسب نہ ہو۔ وغیرہ۔
اگر بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں اور نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں تو انھیں تراویح کی نماز کے لیے مسجد لے جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اور اتنی دیر تک بچوں کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔ بخلاف پنج وقتہ فرض نمازوں کے کہ ان کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ رہا مسئلہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر باتیں کرنے کا تو ان کا حکم بھی مردوں جیسا ہے۔ یعنی جس طرح مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مسجدوں میں اونچی آواز میں باتیں کریں اور دنیوی معاملات کے متعلق گفتگو کریں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں ہے۔
یہاں میں ایک خاص بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ کچھ ایسے حضرات ہوتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر تکلیف دہ حد تک پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انھیں کسی صورت میں مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ آج کل مسجدوں میں عورتو ں کے لیے علیحدہ محفوظ جگہ ہوتی ہے جبکہ حضوؐر کے زمانے میں عورتوں کے لیے کوئی علیحدہ جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ان میں بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی عورتوں کو مسجد میں سرگوشیوں تک کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ وہ خود اونچی آواز وں میں باتیں کرتے ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ غیرت ایک اچھی صفت ہے لیکن اس میں حد سے تجاوزکرنا ایک ناپسندیدہ بات ہے۔ فرمان نبویؐ ہے: ان من الغیرۃ ما یبغضہ اللہ ورسولہ.
‘‘ کچھ ایسی غیرت ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور اس کا رسول بھی۔’’
دور حاضر نے نئی زندگی کے دروازے عورتوں پر بھی وا کیے ہیں۔آج عورتیں اپنے گھروں سے نکل کر اسکول، کالج اور بازار ہر جگہ آتی جاتی ہیں۔ لیکن اس جگہ جانے سے محروم ہو گئی ہیں جو اس سرزمین پر سب سے بہتر جگہ ہے یعنی مسجد۔ میں بغیر کسی تردد کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لیے بھی مسجدوں کے دروازے کشادہ کریں۔ انھیں بھی مسجدوں میں درس و تدریس کی مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔ انھیں بھی اللہ کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عطا کریں۔ بشرطیکہ عورتیں اسی انداز میں مسجد جائیں جس طرح مسجد جانے کا حق ہے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: بخاری و مسلم کی حدیث ہے: من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ.
‘‘جس نے رمضان میں قیام لیل کا اہتمام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔’’
اللہ تعالیٰ نے رمضان میں دن کے وقت ہم پر روزے فرض کیے اور رات کے وقت نفل نمازوں کے اہتمام کی تاکید کی تاکہ یہ عبادتیں ہمارے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی نمازیں ہیں، جن سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن میں نماز کے ارکان و شرائط اور اس کے آداب کا پورا خیال رکھا گیا ہو۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی نماز کے ارکان میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے اس شخص کو، جس نے جلدی جلدی نماز ادا کی تھی، فرمایا: ارجع فصل فانک لم تصل.
‘‘واپس جاؤ پھر نماز پڑھو کیونکہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔’’
اس کے بعد آپ نے اسے نماز پڑھنی سکھائی کہ کس طرح ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ نمازا دا کی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ. الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ.(المومنون:۱،۲)
‘‘کامیاب ہوئے وہ جو ایمان لائے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔’’
معلوم ہوا کہ وہ نماز کامیابی کی ضامن ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ خشوع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو دل کا خشوع یعنی اس بات کا پوری طرح احساس ہو کہ نماز کے دوران میں ہم کسی ہستی کے ساتھ ہم کلام ہیں اور یہ کہ وہ ہماری تمام حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ دل کا خشوع یہ بھی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھیں سمجھ کر پڑھیں۔ ایسا نہ ہو کہ زبان پر تو اللہ کا کلام ہو اور دل کہیں اور غائب۔
خشوع کی دوسری قسم بدن کا خشوع ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز میں احترام و ادب کا خاص خیال ہو۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا، کھٹا کھٹ رکوع و سجدہ کرنا، بار بار کھجلانا یا کپڑوں سے کھیلنا یہ سب احترام و آداب کے خلاف ہے۔
تمام مسلمان بھائیوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ خیال کر لیں کہ ہم کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں اور کس سے ہم کلام ہیں۔ ہمیں احساس ہو کہ وہ ہستی ہمیں دیکھ رہی ہے۔ نمازیوں ادا کرنا کہ گویا ایک مشکل مرحلہ تھا جو سر ہو گیا یا بھاری بوجھ تھا جسے منزل مقصود تک پہنچا دینا نماز کی حکمت و غایت کے عین منافی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان میں بیس رکعت تراویح چند منٹوں میں ختم کر لیتے ہیں۔ قرآن جلدی جلدی اور تیز تیز پڑھتے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں نماز ختم ہو جائے۔ نہ اطمینان سے رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ اور نہ خشوع و خضوع ہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی نماز ہوئی جس کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا: تعرج الی السماء وھی سوداء مظلمۃ تقول لصاحبھا ضیعک اللہ کما ضیعتنی.
‘‘یہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اس حالت میں کہ کالی اور تاریک ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ اللہ تمھیں ضائع کرے جس طرح تم نے مجھے ضائع کر دیا۔’’
بغیر خشوع اور اطمینان کے ساتھ تراویح پڑھنے والوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی آٹھ رکعتیں جلدی جلدی ادا کی گئی بیس رکعتوں سے بہتر اور افضل ہیں۔ اگر بیس رکعات پڑھنا مشکل ہو تو آٹھ رکعت ہی پر اکتفا کریں لیکن اطمینان اور خشوع و خضوع کا ضرور خیال کریں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں بلکہ اس کے نزدیک خضوع و خشوع کی اہمیت ہے اور یہی خشوع دراصل باعث مغفرت و رحمت ہے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے۔ قضائے رمضان کے روزوں میں تراویح نہیں ہوتی۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
جواب: تراویحـ کی نماز نہ عورتوں پر واجب ہے اور نہ مردوں پر۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت عظیم اجر و ثواب ہے۔ حدیث نبویؐ ہے: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے:
من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفراللہ ما تقدم من ذنبہ.(بخاری،مسلم)
‘‘جس نے رمضان میں رات کی نمازیں ایمان اور احتساب کے ساتھ پڑھیں اللہ اس کے پچھلے گناہ بخش دے گا۔’’
عورتوں کا اپنے گھر میں رہ کر رمضان کی راتوں کی نمازیں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ الا یہ کہ مسجدوں میں جانے سے ان کا مقصد صرف تراویح پڑھنا نہیں بلکہ دو سرے نفع بخش نیک کام ہوں مثلاً وعظ و تذکیر کے پروگرام میں شامل ہونا یا درس و تدریس کی مجلس سے استفادہ کرنا یا کسی جید قاری کی قرأت سننا تو ان حالتوں میں ان کا مسجد جا کر نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں نماز پڑھنے کے علاوہ دوسری نیکیاں بھی مقصود ہیں اور اس لیے بھی کہ آج کل مرد حضرات اپنی عورتوں کو دینی تعلیم دلانے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ اس لیے ان عورتوں کا مسجد جا کر نماز با جماعت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا، ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر وہ گھر میں بیٹھی رہیں گی تو ممکن ہے کہ انھیں نماز میں وہ رغبت نہ پیدا ہوجو مسجد میں ہوتی ہے۔
لیکن بہر صورت عورتیں مسجدوں میں اپنے شوہروں کی اجازت ہی سے جا سکتی ہیں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکیں الا یہ کہ واقعی کوئی شرعی عذر ہو۔ حضوؐر فرماتے ہیں:
لا تمنعوااماء اللہ مساجد اللہ. (مسلم)
‘‘اللہ کی باندیوں (عورتوں) کو مسجدوں سے نہ روکو۔’’
عذر شرعی کی صورت یہ ہے کہ مثلاً شوہر بیمار ہو اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہو۔ یا گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور انھیں گھر میں تنہا چھوڑنا مناسب نہ ہو۔ وغیرہ۔
اگر بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں اور نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں تو انھیں تراویح کی نماز کے لیے مسجد لے جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اور اتنی دیر تک بچوں کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔ بخلاف پنج وقتہ فرض نمازوں کے کہ ان کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ رہا مسئلہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر باتیں کرنے کا تو ان کا حکم بھی مردوں جیسا ہے۔ یعنی جس طرح مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مسجدوں میں اونچی آواز میں باتیں کریں اور دنیوی معاملات کے متعلق گفتگو کریں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں ہے۔
یہاں میں ایک خاص بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ کچھ ایسے حضرات ہوتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر تکلیف دہ حد تک پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انھیں کسی صورت میں مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ آج کل مسجدوں میں عورتو ں کے لیے علیحدہ محفوظ جگہ ہوتی ہے جبکہ حضوؐر کے زمانے میں عورتوں کے لیے کوئی علیحدہ جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ان میں بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی عورتوں کو مسجد میں سرگوشیوں تک کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ وہ خود اونچی آواز وں میں باتیں کرتے ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ غیرت ایک اچھی صفت ہے لیکن اس میں حد سے تجاوزکرنا ایک ناپسندیدہ بات ہے۔ فرمان نبویؐ ہے:
ان من الغیرۃ ما یبغضہ اللہ ورسولہ.
‘‘ کچھ ایسی غیرت ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور اس کا رسول بھی۔’’
دور حاضر نے نئی زندگی کے دروازے عورتوں پر بھی وا کیے ہیں۔آج عورتیں اپنے گھروں سے نکل کر اسکول، کالج اور بازار ہر جگہ آتی جاتی ہیں۔ لیکن اس جگہ جانے سے محروم ہو گئی ہیں جو اس سرزمین پر سب سے بہتر جگہ ہے یعنی مسجد۔ میں بغیر کسی تردد کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لیے بھی مسجدوں کے دروازے کشادہ کریں۔ انھیں بھی مسجدوں میں درس و تدریس کی مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔ انھیں بھی اللہ کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عطا کریں۔ بشرطیکہ عورتیں اسی انداز میں مسجد جائیں جس طرح مسجد جانے کا حق ہے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: بخاری و مسلم کی حدیث ہے:
من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ.
‘‘جس نے رمضان میں قیام لیل کا اہتمام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔’’
اللہ تعالیٰ نے رمضان میں دن کے وقت ہم پر روزے فرض کیے اور رات کے وقت نفل نمازوں کے اہتمام کی تاکید کی تاکہ یہ عبادتیں ہمارے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی نمازیں ہیں، جن سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن میں نماز کے ارکان و شرائط اور اس کے آداب کا پورا خیال رکھا گیا ہو۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی نماز کے ارکان میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے اس شخص کو، جس نے جلدی جلدی نماز ادا کی تھی، فرمایا:
ارجع فصل فانک لم تصل.
‘‘واپس جاؤ پھر نماز پڑھو کیونکہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔’’
اس کے بعد آپ نے اسے نماز پڑھنی سکھائی کہ کس طرح ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ نمازا دا کی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ. الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ.(المومنون:۱،۲)
‘‘کامیاب ہوئے وہ جو ایمان لائے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔’’
معلوم ہوا کہ وہ نماز کامیابی کی ضامن ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ خشوع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو دل کا خشوع یعنی اس بات کا پوری طرح احساس ہو کہ نماز کے دوران میں ہم کسی ہستی کے ساتھ ہم کلام ہیں اور یہ کہ وہ ہماری تمام حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ دل کا خشوع یہ بھی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھیں سمجھ کر پڑھیں۔ ایسا نہ ہو کہ زبان پر تو اللہ کا کلام ہو اور دل کہیں اور غائب۔
خشوع کی دوسری قسم بدن کا خشوع ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز میں احترام و ادب کا خاص خیال ہو۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا، کھٹا کھٹ رکوع و سجدہ کرنا، بار بار کھجلانا یا کپڑوں سے کھیلنا یہ سب احترام و آداب کے خلاف ہے۔
تمام مسلمان بھائیوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ خیال کر لیں کہ ہم کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں اور کس سے ہم کلام ہیں۔ ہمیں احساس ہو کہ وہ ہستی ہمیں دیکھ رہی ہے۔ نمازیوں ادا کرنا کہ گویا ایک مشکل مرحلہ تھا جو سر ہو گیا یا بھاری بوجھ تھا جسے منزل مقصود تک پہنچا دینا نماز کی حکمت و غایت کے عین منافی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان میں بیس رکعت تراویح چند منٹوں میں ختم کر لیتے ہیں۔ قرآن جلدی جلدی اور تیز تیز پڑھتے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں نماز ختم ہو جائے۔ نہ اطمینان سے رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ اور نہ خشوع و خضوع ہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی نماز ہوئی جس کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا:
تعرج الی السماء وھی سوداء مظلمۃ تقول لصاحبھا ضیعک اللہ کما ضیعتنی.
‘‘یہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اس حالت میں کہ کالی اور تاریک ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ اللہ تمھیں ضائع کرے جس طرح تم نے مجھے ضائع کر دیا۔’’
بغیر خشوع اور اطمینان کے ساتھ تراویح پڑھنے والوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی آٹھ رکعتیں جلدی جلدی ادا کی گئی بیس رکعتوں سے بہتر اور افضل ہیں۔ اگر بیس رکعات پڑھنا مشکل ہو تو آٹھ رکعت ہی پر اکتفا کریں لیکن اطمینان اور خشوع و خضوع کا ضرور خیال کریں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں بلکہ اس کے نزدیک خضوع و خشوع کی اہمیت ہے اور یہی خشوع دراصل باعث مغفرت و رحمت ہے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے۔ قضائے رمضان کے روزوں میں تراویح نہیں ہوتی۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج: نمازِ تراویح کا جماعت کی شکل میں اِس طرح سے پڑھے جانا ، جیسے آج کل مساجد میں پڑھی جاتی ہے، یہ تو نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ آپ ﷺ کے پیچھے صحابہ نے رمضان میں بھی تہجد ہی کی نماز پڑھی ہے اورتراویح اصل میں تہجد ہی کی نما ز ہے ۔ تراویح آج کل جس شکل میں خصوصاً احناف کے ہاں پڑھی جاتی ہے،یعنی رکعتوں کی ایک خاص تعداد کی تعیین اور پھر اِس طرح سے عشاء کی نماز کے بعد کسی مسجد میں بس ایک ہی امام کے پیچھے پڑھنا ، اِس کی ابتد بے شک عمر فاروقؓ کی تجویز سے ہوئی ہے، البتہ عمر فاروقؓ کا اپنا عمل یہ نہیں تھا۔ وہ خود اِس میں شامل نہیں ہوتے تھے اور اِس کی جگہ وہ تہجد ہی کی نماز پڑھتے تھے۔
سنت مؤکدہ وہ نوافل ہیں، جو نبی ﷺ نے خود بھی پڑھے اور امت کو اُن کے پڑھنے کی تلقین بھی کی اور سنتِ غیر مؤکدہ وہ نوافل ہیں جو نبی ﷺ نے خود پڑھے، لیکن امت کو اُن کے پڑھنے کی تلقین نہیں کی ۔سنتِ مؤکدہ واجب سے ملتی جلتی چیز ہرگز نہیں ہے۔ یہ وہ نوافل ہیں جنہیں پڑھنے کی نبی ﷺ نے بہت تاکید کی ہے اور اِس کا بہت اجر بیان کیا ہے۔ اِسے ترک کرنے پر گناہ نہیں ہوتا، بلکہ اِس پر ملنے والے اجر کا نقصان ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی نبی ﷺ کی اس تاکید کو ہلکا جانے اوراس کا استخفاف کرے تو گنا ہ ہو گا۔واجب احناف کی ایک اصطلاح ہے۔ وہ اِس کا اطلاق اُس عمل پر کرتے ہیں، جو قطعی الثبوت یعنی نبی ﷺ سے یقینی طور پر ثابت تو ہو، لیکن قطعی الدلالت نہ ہو، یعنی اُس کی تعبیر میں اختلاف ممکن ہو۔ چنانچہ اُن کے نزدیک ایسا عمل اپنی کسی نہ کسی تعبیر میں کیا جانا لازم ہے، اُن کے نزدیک اِس کا ترک کرنا گناہ ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: ماہواری کے شروع ہوتے ہی روزہ خود ہی ختم ہو جاتا ہے، کھولیں یا نہ کھولیں۔غیر رمضان میں روزوں کی قضا ہے تراویح کی نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج: تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے۔ قضائے رمضان کے روزوں میں تراویح نہیں ہوتی۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
جواب: تراویحـ کی نماز نہ عورتوں پر واجب ہے اور نہ مردوں پر۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت عظیم اجر و ثواب ہے۔ حدیث نبویؐ ہے: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے:
من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفراللہ ما تقدم من ذنبہ۔(بخاری،مسلم)
’’جس نے رمضان میں رات کی نمازیں ایمان اور احتساب کے ساتھ پڑھیں اللہ اس کے پچھلے گناہ بخش دے گا۔‘‘
عورتوں کا اپنے گھر میں رہ کر رمضان کی راتوں کی نمازیں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ الا یہ کہ مسجدوں میں جانے سے ان کا مقصد صرف تراویح پڑھنا نہیں بلکہ دو سرے نفع بخش نیک کام ہوں مثلاً وعظ و تذکیر کے پروگرام میں شامل ہونا یا درس و تدریس کی مجلس سے استفادہ کرنا یا کسی جید قاری کی قرأت سننا تو ان حالتوں میں ان کا مسجد جا کر نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میںنماز پڑھنے کے علاوہ دوسری نیکیاں بھی مقصود ہیں اور اس لیے بھی کہ آج کل مرد حضرات اپنی عورتوں کو دینی تعلیم دلانے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ اس لیے ان عورتوں کا مسجد جا کر نماز با جماعت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا، ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر وہ گھر میں بیٹھی رہیں گی تو ممکن ہے کہ انھیں نماز میں وہ رغبت نہ پیدا ہوجو مسجد میں ہوتی ہے۔
لیکن بہر صورت عورتیں مسجدوں میں اپنے شوہروں کی اجازت ہی سے جا سکتی ہیں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکیں الا یہ کہ واقعی کوئی شرعی عذر ہو۔ حضوؐر فرماتے ہیں:
لا تمنعوااماء اللہ مساجد اللہ۔
(مسلم)
’’اللہ کی باندیوں (عورتوں) کو مسجدوں سے نہ روکو۔‘‘
عذر شرعی کی صورت یہ ہے کہ مثلاً شوہر بیمار ہو اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہو۔ یا گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور انھیں گھر میں تنہا چھوڑنا مناسب نہ ہو۔ وغیرہ۔
اگر بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں اور نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں تو انھیں تراویح کی نماز کے لیے مسجد لے جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اور اتنی دیر تک بچوں کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔ بخلاف پنج وقتہ فرض نمازوں کے کہ ان کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ رہا مسئلہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر باتیں کرنے کا تو ان کا حکم بھی مردوں جیسا ہے۔ یعنی جس طرح مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مسجدوں میں اونچی آواز میں باتیں کریں اور دنیوی معاملات کے متعلق گفتگو کریں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں ہے۔
یہاں میں ایک خاص بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ کچھ ایسے حضرات ہوتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر تکلیف دہ حد تک پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انھیں کسی صورت میں مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ آج کل مسجدوں میں عورتو ں کے لیے علیحدہ محفوظ جگہ ہوتی ہے جبکہ حضوؐر کے زمانے میں عورتوں کے لیے کوئی علیحدہ جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ان میں بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی عورتوں کو مسجد میں سرگوشیوں تک کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ وہ خود اونچی آواز وں میں باتیں کرتے ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ غیرت ایک اچھی صفت ہے لیکن اس میں حد سے تجاوزکرنا ایک ناپسندیدہ بات ہے۔ فرمان نبویؐ ہے:
ان من الغیرۃ ما یبغضہ اللہ ورسولہ۔
’’ کچھ ایسی غیرت ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور اس کا رسول بھی۔‘‘
دور حاضر نے نئی زندگی کے دروازے عورتوں پر بھی وا کیے ہیں۔آج عورتیں اپنے گھروں سے نکل کر اسکول، کالج اور بازار ہر جگہ آتی جاتی ہیں۔ لیکن اس جگہ جانے سے محروم ہو گئی ہیں جو اس سرزمین پر سب سے بہتر جگہ ہے یعنی مسجد۔ میں بغیر کسی تردد کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لیے بھی مسجدوں کے دروازے کشادہ کریں۔ انھیں بھی مسجدوں میں درس و تدریس کی مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔ انھیں بھی اللہ کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عطا کریں۔ بشرطیکہ عورتیں اسی انداز میں مسجد جائیں جس طرح مسجد جانے کا حق ہے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: بخاری و مسلم کی حدیث ہے:
من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔
’’جس نے رمضان میں قیام لیل کا اہتمام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے رمضان میں دن کے وقت ہم پر روزے فرض کیے اور رات کے وقت نفل نمازوں کے اہتمام کی تاکید کی تاکہ یہ عبادتیں ہمارے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی نمازیں ہیں، جن سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن میں نماز کے ارکان و شرائط اور اس کے آداب کا پورا خیال رکھا گیا ہو۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی نماز کے ارکان میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے اس شخص کو، جس نے جلدی جلدی نماز ادا کی تھی، فرمایا:
ارجع فصل فانک لم تصل۔
’’واپس جائو پھر نماز پڑھو کیونکہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔‘‘
اس کے بعد آپ نے اسے نماز پڑھنی سکھائی کہ کس طرح ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ نمازا دا کی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ۔(المومنون:۱،۲)
’’کامیاب ہوئے وہ جو ایمان لائے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ وہ نماز کامیابی کی ضامن ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ خشوع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو دل کا خشوع یعنی اس بات کا پوری طرح احساس ہو کہ نماز کے دوران میں ہم کسی ہستی کے ساتھ ہم کلام ہیں اور یہ کہ وہ ہماری تمام حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ دل کا خشوع یہ بھی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھیں سمجھ کر پڑھیں۔ ایسا نہ ہو کہ زبان پر تو اللہ کا کلام ہو اور دل کہیں اور غائب۔
خشوع کی دوسری قسم بدن کا خشوع ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز میں احترام و ادب کا خاص خیال ہو۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا، کھٹا کھٹ رکوع و سجدہ کرنا، بار بار کھجلانا یا کپڑوں سے کھیلنا یہ سب احترام و آداب کے خلاف ہے۔
تمام مسلمان بھائیوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ خیال کر لیں کہ ہم کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں اور کس سے ہم کلام ہیں۔ ہمیں احساس ہو کہ وہ ہستی ہمیں دیکھ رہی ہے۔ نمازیوں ادا کرنا کہ گویا ایک مشکل مرحلہ تھا جو سر ہو گیا یا بھاری بوجھ تھا جسے منزل مقصود تک پہنچا دینا نماز کی حکمت و غایت کے عین منافی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان میں بیس رکعت تراویح چند منٹوں میں ختم کر لیتے ہیں۔ قرآن جلدی جلدی اور تیز تیز پڑھتے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں نماز ختم ہو جائے۔ نہ اطمینان سے رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ اور نہ خشوع و خضوع ہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی نماز ہوئی جس کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا:
تعرج الی السماء وھی سوداء مظلمۃ تقول لصاحبھا ضیعک اللہ کما ضیعتنی۔
’’یہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اس حالت میں کہ کالی اور تاریک ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ اللہ تمھیں ضائع کرے جس طرح تم نے مجھے ضائع کر دیا۔‘‘
بغیر خشوع اور اطمینان کے ساتھ تراویح پڑھنے والوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی آٹھ رکعتیں جلدی جلدی ادا کی گئی بیس رکعتوں سے بہتر اور افضل ہیں۔ اگر بیس رکعات پڑھنا مشکل ہو تو آٹھ رکعت ہی پر اکتفا کریں لیکن اطمینان اور خشوع و خضوع کا ضرور خیال کریں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں بلکہ اس کے نزدیک خضوع و خشوع کی اہمیت ہے اور یہی خشوع دراصل باعث مغفرت و رحمت ہے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)