انتخاب : محمد اسلم
رشید صاحب کو لکھنو سے رامپور آنا تھا لکھنو میل کے روانہ ہونے میں صرف چند منٹ باقی تھے ، ٹکٹ لینے کا بالکل موقع نہ تھا ، اس لیے مجبوراً وہ بغیر ٹکٹ ہی ٹرین پر سوار ہو گئے ۔ انہوں نے سوچا کہ راستے میں ٹی ٹی سے ٹکٹ بنوالیں گے ۔ راستے بھر کوئی ٹی ٹی ان کے ڈبے میں نہیں آیا اور ٹرین رام پور پہنچ گئی ۔ رات کے ڈھائی بجے تھے ، جنوری کا مہینہ تھا ، سخت برفیلی ہوائیں چل رہی تھیں ، اسٹیشن پر سناٹا تھا ، چند مسافر اس ٹرین سے اترے اور چلے گئے ۔ رشید صاحب اسٹیشن سے باہر جانے والے گیٹ پر گئے تاکہ وہاں موجود کلکٹر سے ٹکٹ بنوالیں ، لیکن گیٹ پر محکمہ ریلوے کا کوئی کارندہ موجود نہ تھا۔ غالباً کڑاکے کی سردی کی وجہ سے وہ اپنے آفس میں دبکے ہوئے تھے ۔ باہر چند رکشے والے اکا دکا مسافروں کو لپکنے کے لیے بے تاب تھے۔ رشید صاحب چاہتے تھے کہ وہ ٹکٹ بنوا کر ہی باہر نکلیں تاکہ کسی قسم کے جرم کا احساس ان کے ضمیر کو ملامت نہ کرے۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور جب کوئی ٹی ٹی نظر نہ آیا تو وہ سیدھے اسٹیشن ماسٹر کے آفس میں پہنچ گئے ۔ اسٹیشن ماسٹر انگیٹھی جلائے سردی سے مقابلہ کر رہے تھے۔ رشید صاحب نے اسٹیشن ماسٹر سے عرض کیا کہ وہ لکھنو سے بغیر ٹکٹ آئے ہیں ۔ لکھنو میں ٹکٹ لینے کا ان کے لیے بالکل موقع نہ تھا اس لیے مجبوراً بغیر ٹکٹ ہی ٹرین پر سوار ہو گئے ۔ راستے بھر کوئی ٹی ٹی نہیں آیا کہ اس سے ٹکٹ بنوا لیتے ۔ یہاں رامپور اسٹیشن کے گیٹ پر بھی کوئی ٹی ٹی موجود نہیں ہے اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ لکھنوسے رامپور کا ٹکٹ بنا دیں ۔ رشید صاحب کی بات سن کر گویا اسٹیشن ماسٹر کو اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ اس نے حیرت کے ساتھ رشید صاحب کو دیکھا اور پھر فوراً ہی ایک کرسی ان کی طرف بڑھا کر بیٹھنے کے لیے کہا ۔ رشید صاحب کے بیٹھتے ہی اسٹیشن ماسٹر نے اپنے کچھ ساتھیوں کو آواز دے کر اپنے پاس بلایا، دیکھتے ہی دیکھتے تین چار افراد اس کے پاس جمع ہو گئے ۔ اب اسٹیشن ماسٹر نے رشید صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جناب اپنی بات پھر دہرائیے جو ابھی آپ نے مجھ سے کہی تھی ۔ وہاں موجود سبھی لوگ ہمہ تن گوش رشید صاحب کی طرف متوجہ ہو گئے ، یہ جاننے کے لیے کہ نہ معلوم کیا انوکھی بات ہے جس کے لیے اسٹیشن ماسٹر نے انہیں بلایا ہے ۔ رشید صاحب نے اسٹیشن ماسٹر سے کہا کہ جناب آپ مجھے سب لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ کریں ، مجھے نہایت مجبوری کی حالت میں بغیر ٹکٹ سفر کرنا پڑا ہے ، میری آپ سے گزارش ہے کہ میرا ٹکٹ بنا دیں ۔
اسٹیشن ماسٹر نے رشید صاحب کی پوری بات اپنے ساتھیوں کے سامنے دہرا دی ۔ یہ سن کر کہ رشید صاحب خود ہی اسٹیشن ماسٹر کے پاس حاضر ہوئے ہیں اور ٹکٹ بنوانے پر مصر ہیں وہاں موجود سبھی لوگ حیرت سے انہیں اس طرح دیکھنے لگے گویا وہ انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق ہیں ۔ اسٹیشن ماسٹر پھر رشید صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا کہ جب راستے میں کسی نے آپ سے ٹکٹ نہیں مانگا اور یہاں اسٹیشن پر بھی گیٹ پر کوئی موجود نہیں تھا تو آپ باہر کیوں نہیں نکل گئے ؟رشید صاحب مسکرائے اور عرض کیا کہ جناب میں ایسا ہر گز نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میں جس دین کا پیرو ہوں وہ ہمارے خالق ومالک ، پروردگار کا بھیجا ہوا دین ہے اس دین کی تعلیم یہ ہے کہ ہمارا خالق ومالک ہمیں ہر دم دیکھ رہا ہے ، ہماری ہر حرکت پر اس کی نظر ہے اوروہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہے ، اسی دین نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ کل قیامت کے دن ہمیں اپنے کاموں کا حساب خدا کو دینا ہے۔ خدا کی کتاب قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات بتائی گئی ہے کہ ہم جو کچھ بھی اس دنیا میں کریں گے مرنے کے بعد آنے والی زندگی میں اپنے سامنے اسے حاضر پائیں گے ، جو نیکی ہم کریں گے وہ بھی ہمارے سامنے آئے گی اور جو برائی کریں گے اسے بھی ہم دیکھیں گے ۔ خدا سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے وہ تو ہمارے دلوں کے حال تک سے واقف ہے ۔ خدا کے فرشتے بھی ہماری زندگی کا پورا ریکارڈ تیار کر رہے ہیں ۔ دین اسلام نے ہمیں اس بات سے بھی متنبہ کیا ہے کہ اس دنیا میں اگر ہم کسی کا کوئی حق ماریں گے تو کل قیامت کے دن ہم سے وہ حق حقدار کو دلوایا جائے گا اور اس وقت عام لوگوں کے سامنے ہماری رسوائی ہو گی ۔ قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ ہماری یہ زندگی ہماری آزمائش کے لیے ہے ۔ مرنے کے بعد ہمارا خدا ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا اور ہمارے اعمال کے مطابق جزا وسزا دے گا۔ اگر ہم خدا کے دین کے مطابق عمل کرتے ہوئے زندگی گزاریں گے تو ہمارا پروردگار ہم سے خوش ہو گا اور ہمیں جنت عطا فرمائے گا اور نافرمانی کرنے پر وہ ناراض ہو گا اور جہنم کے عذاب میں ڈالے گا ۔ رشید صاحب نے انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ ایک اسلامی مدرسہ میں پڑھتے ہیں اور وہاں اس طرح کی باتیں طلبہ کو سکھائی اور پڑھائی جاتی ہیں انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ٹرین سے سفر کیا ہے میرے اوپر ریلوے کا یہ حق ہے کہ میں اس کا کرایہ ادا کروں ، کسی کے دیکھنے اور نہ دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ ہمارا خدا تو ہمیں دیکھ ہی رہاہے اس لیے میری گزارش ہے کہ آپ میرا ٹکٹ بنا دیں اور میرا بوجھ ہلکا کر کے مجھے شکریہ کا موقع دیں
رشید صاحب کی یہ باتیں وہاں موجود سبھی لوگ خاموشی کے ساتھ ہمہ تن گوش بنے سنتے رہے ۔ رشید صاحب کے خاموش ہوتے ہی اسٹیشن ماسٹر نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ قرآن اور اسلام کی یہ زبردست تعلیمات ہمیں پہلی بار سننے کو ملیں ۔ اگر ان تعلیمات کو ہمارے اہل وطن او ران کے رہنما وحکمراں اپنی زندگیوں میں داخل کر لیں تو یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمارا ملک سورگ (جنت) بن جائے گا ۔ ان لوگوں نے اسلام اور قرآن سے متعلق ہندی زبان میں لٹریچر کی خواہش ظاہر کی ،انہیں اس سلسلے میں رامپور ہی کے کچھ اسلامی اداروں سے رابطہ قائم کرنے کے لیے کہا گیا ۔ اسٹیشن ماسٹر نے نہ چاہتے ہوئے بھی محض رشید صاحب کے اصرار پر ان کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے ٹکٹ بنایا اور چائے وغیرہ سے تواضع بھی کی ۔ جب رشید صاحب وہاں سے جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اسٹیشن ماسٹر نے ان سے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ اس وقت سرد رات میں آپ شہر نہ جائیں کیونکہ شہر اسٹیشن سے کافی فاصلے پر ہے اور راستے میں لوٹ مار کی واردات بھی ہوتی رہتی ہیں ، آج رات آپ ہمارے گیسٹ ہاؤس میں آرام کریں اور صبح کو گھر جائیں ۔ رشید صاحب اس کے لیے آمادہ ہو گئے چنانچہ اسٹیشن ماسٹر نے اپنے ایک کارندے کو گیسٹ ہاؤس کی چابی دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے خاص مہمان ہیں گیسٹ ہاؤس میں ان کے سونے کا نظم کر دیں ۔ رشید صاحب نے رات کو وہاں قیام کیا اور صبح کو شہر روانہ ہو گئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اس سرزمین پر خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔ اس کی تعلیمات اپنے اندر جادوئی اثر رکھتی ہیں بس شرط یہ ہے کہ اپنے عمل سے انہیں پیش کیا جائے ۔ اسلام کی روشن تاریخ گواہ ہے کہ جب اس کے پیروؤں اور علم برداروں نے اسلام کا عملی نمونہ بالخصوص ، معاملات میں عملی نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ، ان تعلیمات نے ان کے دلوں کو جھنجھوڑ دیا اور انہوں نے اسی دین کے سائے میں آکر سچی راحت محسوس کی ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
تحریر سے ممکن ہے نہ تقریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے