سیدنا زین العابدین علی بن حسین بن علی

مصنف : عبدالرحمان رافت الباشا

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : جون 2006

مترجم محمود احمد غضنفر

            اس روشن اور بابرکت سال میں ایرانی شہنشاہیت کی تاریخ کا آخری صفحہ بھی لپیٹ دیا گیا ، وہ اس طرح کہ ایران کے آخری بادشاہ کو ذلت آمیز انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس کے تمام جرنیل ،حفاظتی دستہ اور اہل خانہ مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی بن گئے اور مال غنیمت کو سمیٹ کر مدینہ منورہ لایا گیا ۔ اس عظیم فتح کے موقع پر جس کثیرتعداد میں قیمتی قیدی مدینہ منورہ میں لائے گئے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ، ان قیدیوں میں ایران کے آخری بادشاہ یزدجر کی تین بیٹیاں بھی تھیں ۔

 ٭٭٭

            لوگ قیدیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے پلک جھپکتے ہی انہیں خرید لیا اور رقم بیت المال میں جمع کروا دی، ان میں سے صرف ایران کے بادشاہ یزدجر کی بیٹیاں باقی رہ گئیں ۔وہ بلاشبہ حسن وجمال کا پیکر ، پری رخ اور سیمیں بدن دوشیزائیں تھیں جب انہیں فروخت کرنے کے لیے پیش کیا گیا تو مارے ذلت ورسوائی کے ان کی آنکھیں زمین پر گڑ گئیں ، حسرت ویاس اور انکساری ودرماندگی کی وجہ سے ان کی غزالی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ انہیں دیکھ کر حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے دل میں ترس آگیا اور یہ خیال آیا کہ کاش انہیں وہ شخص خریدے جو ان سے حسن سلوک سے پیش آئے ۔ اس میں حیران ہونے کی بھی کوئی بات نہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا ۔ شکست خوردہ قوم کے معزز افراد پر ترس کھایا کرو ۔ حضرت علی ؓ نے حضرت عمربن خطاب ؓ سے کہا : اے امیر المومنین! بادشاہ کی بیٹیوں سے امتیازی سلوک ہونا چاہیے ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ۔ آپ سچ کہتے ہیں لیکن اس کی صورت کیا ہو ؟ حضرت علیؓ نے فرمایا۔ ایک تو ان کی قیمت زیادہ لگائیں اور دوسرا ان کو اختیار دے دیں جس پر یہ راضی ہو جائیں ان کے ہاتھ میں انہیں دے دیا جائے اور ان پر قطعاً کوئی جبر نہ ہو ۔ حضرت عمرؓ کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی اور حضرت علیؓ کی اس تجویز کو نافذ کر دیا ۔ ان میں سے ایک نے حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ کو پسند کیا ۔

دوسری نے حضرت محمد بن ابو بکر صدیقؓ کو اور تیسری حسن و جمال کی وجہ سے جسے ملکہ خواتین کہا جاتا تھا ، اس نے اپنے لیے نواسہ رسولﷺ حضرت حسینؓ کو پسند کیا ۔

 ٭٭٭

            تھوڑے ہی عرصہ بعد ملکہ خواتین نے اپنی دلی رغبت سے اسلام قبول کر لیا ۔ یہ دین قیم کی راہ پر گامزن ہوئیں ، غلامی سے آزاد کر دی گئیں ۔ کنیز سے آزاد بیوی کا باعزت مقام حاصل کیا ، پھر اس نے سوچا کہ ماضی کی تمام شرکیہ یادیں یکسر بھلا دی جائیں۔ اس نے اپنا نام (شاہ زنداں) سے بدل کر غزالہ رکھ لیا ۔ غزالہ کے نصیب میں بہترین رفیق حیات آیا ، بڑی ہی خوشگوار زندگی بسر ہونے لگی ، مہینے لمحوں میں گزرنے لگے۔ اب ایک ہی دلی خواہش باقی رہ گئی تھی کہ اسے چاند سا بیٹا نصیب ہو جائے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کی یہ خواہش بھی پوری کر دی ، ایک مہتاب چہرہ بیٹے نے جنم لیا ۔ برکت کے لیے اس کا نام دادا کے نام پر علی رکھا گیا ، لیکن غزالہ کو یہ خوشی چند لمحات سے زیادہ دیکھنا نصیب نہ ہوئی کیونکہ یہ اپنے بیٹے کو جنم دیتے ہی اللہ کو پیاری ہو گئی ۔

 ٭٭٭

            اس نومولود کی پرورش ونگہداشت کنیز کے سپرد کی گئی جس نے اسے ماں جیسا پیار دیا ، اس پر اپنی محبت کو اس طرح نچھاور کیا جس طرح کوئی ماں اپنے اکلوتے بیٹے سے پیار کرتی ہے اور اس کی اس طرح پرورش کی کہ یہ نومولود بڑا ہو کر اسے ہی اپنی حقیقی ماں سمجھنے لگا ۔

 ٭٭٭

             علی بن حسین جب سن شعور کو پہنچے تو حصول علم کی طرف شوق ورغبت سے متوجہ ہوئے ۔

 پہلا مدرسہ گھر تھا اور یہ کتنا اچھا مدرسہ تھا ۔ پہلے استاد ان کے والد حسین بن علیؓ تھے اور یہ کتنے عظیم استاد تھے ، دوسرا مدرسہ رسول اللہﷺ کی مسجد تھا ۔ مسجد نبوی میں ان دنوں صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کی چہل پہل تھی صحابہ کرام اور تابعین عظام بڑی ہی دلی رغبت کے ساتھ پھولوں جیسے نونہال بیٹوں کو کتاب الہی پڑھایا کرتے تھے ۔ اور اس میں غور وتدبر کی تلقین کرتے ، حدیث رسولﷺ ان کے سامنے بیان کرتے اور اس کے مقاصد سمجھاتے ۔ رسول اللہﷺ کی سیرت اور غزوات کے واقعات بیان کرتے ، مختلف شعرا کے اشعار پڑھ کر سناتے اور پھر ان کے مطالب بیان کرتے اور ان کے دلوں میں حب الہی، خشیت الہی اور تقوی کی جوت جگاتے ۔ اس طرح یہ نونہال باعمل علما اور باکردار راہنما بن کر ابھرتے ۔

 ٭٭٭

            حضرت علی بن حسینؓ کے دل میں قرآنی علم نے گھر کر لیا ، اس کے سوا کسی اور علم کی طرف راغب ہی نہ ہوا ۔ قرآن مجید کے وعدو وعید کی وجہ سے ان کے احساسات میں لرزہ طاری ہو جاتا ۔ جب قرآن کی کوئی ایسی آیت پڑھتے جس میں جنت کا تذکرہ ہوتا تو دل شوق ورغبت سے اس کے حصول کا متمنی ہوتا ، اور جب قرآن کی ایسی آیت پڑھتے جس میں جہنم کا تذکرہ ہوتا تو ایک گرم اور لمبی سانس لیتے ، انہیں یوں محسوس ہوتا جیسے جہنم کی آگ کا دھکتا ہوا شعلہ ان کے دامن میں اتر آیا ہے ۔

 ٭٭٭

            جب حضرت علی بن حسینؓ جوانی اور علم کے نکتہ عروج پر پہنچے تو مدنی معاشرے کو ایک ایسا جوان ملا جو بنو ہاشم کے جوانوں میں عبادت اور تقوی میں مثالی شان رکھنے والا ، فضل وشرف اور اخلاق وکردار میں سب سے بڑھ کر، نیکی و بردباری میں سب سے آگے ، اعلی مقام پر فائز ، ان کی عبادت وتقوی کا یہ عالم تھا کہ وضو اور نماز کے درمیان ان کے بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی اور ان کا جسم مسلسل رعشے کی زد میں آجاتا ۔ جب اس سلسلے میں ان سے بات کی جاتی تو فرماتے : تم پر بڑا افسوس ہے ! کیا تم جانتے نہیں کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے والا ہوں ؟ کیا تم جانتے نہیں کس کے ساتھ میں سرگوشی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ؟

 ٭٭٭

            اس ہاشمی نوجوان کی نیکی ، تقوی اور عبادت گزاری سے متاثر ہو کر لوگوں نے اسے زین العابدین کے نام سے پکارنا شروع کر دیا اور اسی نام سے آپ مشہور ہو گئے ، یہاں تک کہ لوگ آپ کے اصلی نام کو بھول گئے۔ غرضیکہ لقب اصل نام پر غالب آگیا ، ان کی سجدہ ریزی اور نماز کے دوران دنیا کی بے نیازی کی وجہ سے اہل مدینہ نے اسے ‘‘فنافی سجود’’ کا لقب دے دیا ۔ ان کے باطن کی صفائی اور دل کی پاکیزگی کی وجہ سے لوگوں نے انہیں پاک بازو ، پاک طنیت شخصیت قرار دے دیا ۔

 ٭٭٭

            حضرت زین العابدین کا اس بات پر یقین تھا کہ عبادت کا مغز دعا ہے ۔ وہ کعبہ شریف کے پردے سے چمٹ کر گھنٹوں رب جلیل کی بارگاہ میں دعائیں کرتے ۔ بیت اللہ کے ساتھ کتنی ہی مرتبہ چمٹ کر انہوں نے یہ دعا کی ۔ پروردگار تو نے اپنی بے پایاں رحمت مجھ پر نچھاور کی ، مجھ پر اپنے انعام واکرام کی بے انتہا بارش کی ۔ میں بلا وخوف خطر تیری بارگاہ میں التجا کرتا ہوں ، محبت والفت کی بنا پر تجھ سے سوالی ہوں تیری بارگاہ سے مزید رحمت کا ملتجی ہوں ۔ تیرے حقوق کی ادائیگی کے لیے ہمت وطاقت کی التجا ہے۔

الہی میں تجھ سے اُس بے چارے گہرے پانی میں ڈوبنے والے کی مانند دعا مانگتا ہوں ، جسے کنارے لگنے کے لیے تیرے سوا کوئی سہارا نظر نہ آتا ہو ۔ الہی کرم فرما اور میری زندگی کی منجدھار میں پھنسی ہوئی ناؤ کو کنار ے لگا دے ، بلاشبہ تو سب سے بڑھ کر اپنی مخلوق پر کرم کرنے والا ہے ۔

 ٭٭٭

            حضرت طاؤس بن کیسانؓ نے ایک مرتبہ دیکھا کہ یہ بیت اللہ کے سائے میں کھڑے مضطرب شخص کی طرح پیچ وتاب کھا رہے تھے ۔ سخت بیمار کی طرح کراہ رہے تھے ۔ محتاج کی طرح دعا کر رہے تھے ، حضرت طاؤس بن کیسان کھڑے انتظار کر رہے تھے ، یہاں تک کہ انہوں نے رونا بند کر دیا ، دعا سے فار غ ہوئے آپ آگے بڑھے اور ان سے کہا ۔ اے رسول اللہﷺ کے فرزند میں نے آج تیری حالت دیکھی ہے ، تجھ میں پانچ خوبیاں ایسی پائی جاتی ہیں جو تجھے خوف سے بچا لیں گی ۔ حضرت زین العابدین نے پوچھا ، اے طاؤس! وہ کون سی ہیں ؟آپ نے فرمایا ۔ ایک تو اللہ کے رسولﷺ کے نواسے ہیں ، دوسرے تجھے اپنے نانا کی شفاعت حاصل ہو گی اور تیسرے اللہ کی رحمت تیرے شامل حال ہو گی ۔ انہوں نے فرمایا ۔ اے طاؤس! قرآن کی درج ذیل آیت سننے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ میرا رسول اللہﷺ کے ساتھ انتساب مجھے فائدہ نہ دے گا ۔ اللہ کا ارشاد ہے ۔ فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ ۔ترجمہ : تو جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان کوئی حسب نسب کام نہ آئے گا ۔ جہاں تک میرے نانا کی شفاعت کا تعلق ہے ۔ اللہ کا یہ ارشاد میرے پیش نظر ہے ۔ ولا یشفعون الا لمن ارتضی (الانبیا) اور جہاں تک اللہ کی رحمت کا تعلق ہے اس سلسلے میں ارشاد ربانی ہے ۔ ان رحمت اللہ قریب من المحسنین (الاعراف)

            تقوی اور خوف خدا نے حضرت زین العابدن میں بہت سے خوبیاں پیدا کر دی تھیں ۔ فضل وشرف اور نرمی وبردباری کے خوگر ہوئے ، ان مثالی اوصاف کے دل پذیر تذکروں سے سیرت کی کتابیں مزین ہیں اور تاریخ کے صفحات چمک رہے ہیں ۔ حضرت حسن بن حسنؒ بیان کرتے ہیں ۔ میرے اور چچا زاد بھائی زین العابدین کے درمیان ایک مرتبہ اختلاف پیدا ہو گیا ۔ میں ان کے پاس گیا وہ مسجد میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے ۔غصے میں آکر میں نے جو منہ میں آیا انہیں کہہ دیا۔ لیکن وہ میری کڑوی کسیلی باتیں خاموشی سے سنتے رہے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا ۔ میں غصے کا بھرپور اظہار کر کے چلا گیا ۔ رات کو میرے دروازے پر کسی نے دستک دی میں یہ دیکھنے کے لیے اٹھا کہ اس وقت میرے دروازے پر کون ہو سکتا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ زین العابدین کھڑ ے ہیں ۔ مجھے اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ یہ اب اپنا بدلہ لینے آئے ہیں لیکن انہوں نے فرمایا : میر ے بھائی آج صبح جو تو نے میرے بار ے میں کہا ہے اگر اس میں تم سچے ہو تو اللہ تعالی مجھے معاف کرے اور اگر ان باتوں میں آپ سچے نہیں تو اللہ تعالی آپ کو معاف کرے ۔ یہ کہا ،مجھے سلام کیا اور واپس چلے گئے ۔ میں نے انہیں روکا اور عرض کی کہ آئندہ میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جو آپ کو ناگوار گزرے ۔ بھائی مجھے معاف کر دیجیے ۔ ان کا دل نرم ہو گیا اور فرمایا کوئی بات نہیں ، میرے بارے میں آپ کو بات کرنے کا حق پہنچتا ہے ۔

 ٭٭٭

            مدینے کا ایک باشندہ بیان کرتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ مسجد سے باہر نکلے اور میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا ۔میں بغیر کسی وجہ کے انہیں گالیاں دینے لگا ۔ لوگ یہ سن کر مجھ پر پل پڑے ۔ مجھے اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ قریب تھا کہ وہ میرا کچومر نکال دیتے ۔ زین العابدین نے لوگوں کی طرف دیکھا اور فرمایا رک جاؤ ،تو وہ سب رک گئے ۔ جب آپ نے مجھے کانپتے ہوئے دیکھا تو بڑی خنداں پیشانی سے میری طرف متوجہ ہوئے ، مجھے دلاسہ دیتے رہے تاکہ میرا خوف جاتا رہے ۔ پھر آپ نے فرمایا ۔ آپ نے مجھے اپنی معلومات کے مطابق گالی دی لیکن وہ عیب جن پر پردہ پڑا ہوا ہے آپ نہیں جانتے وہ تو کہیں زیادہ ہیں ۔ پھر مجھ سے پوچھا کیا تیری کوئی ایسی ضرورت ہے جسے پورا کر کے میں تیری مدد کرسکوں۔ میں شرمندہ ہوا اور کچھ کہہ نہ سکا ۔ جب انہوں نے میری شرمساری کو دیکھا تو اپنی قیمتی چادر اتار کر مجھ پر ڈال دی اور ایک ہزار درہم مجھے عنایت کیا ۔ میں یہ حسن سلوک دیکھ کر پکار اٹھا ۔ واقعی آپ نواسہ رسول ﷺ ہیں ۔

            ایک غلام کہتا ہے کہ میں زین العابدین علی بن حسینؓ کا غلام تھا ۔ انہوں نے مجھے کسی کام کے لیے بھیجا میں نے تاخیر کر دی ، جب میں ان کے پاس آیا تو بڑے غصے سے کوڑا پکڑا اور میری پٹائی شروع کر دی ۔ میں رونے لگا ۔ مجھے غصہ بھی بہت آیا ۔ آپ نے اس سے پہلے کسی کو نہیں مارا تھا ۔ میں نے کہا ، اے علی بن حسین ! اللہ سے ڈرو ایک تو آپ مجھ سے خدمت لیتے ہیں ۔ میں آپ کے حکم کے مطابق ہر کام پوری محنت سے کرتا ہوں ، اوپر سے آپ میری پٹائی کرتے ہیں ، یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ میری یہ بات سن کر رو پڑے اور فرمایا ، ابھی مسجد نبوی میں جاؤ ۔ دو رکعت نماز پڑھو پھر یہ دعا کرو ۔ الہی علی بن حسین کو معاف کر دے ، اگر آج تم یہ کرو گے تو میری غلامی سے تم آزاد ہو گے ۔ میں مسجد گیا نماز پڑھی اور دعا کی جب میں گھر واپس لوٹا تو آزاد تھا ۔

 ٭٭٭

            اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت زین العابدین پر بڑی وافر مقدار میں مال ودولت اور رزق کے خزانے کھول رکھے تھے ۔ تجارت میں انہیں بہت نفع ہوتا تھا ۔ زراعت میں بھی بڑی فراوانی میسر تھی ۔ یہ دونوں کا م آپ کے نوکر چاکرانجام دیا کرتے تھے زراعت وتجارت کے ذریعے انہیں وافر مقدار میں مال ودولت ہاتھ لگتا ، لیکن اس تونگری وفراوانی نے ان کے اندر نخوت یا تکبر کا کوئی شائبہ پیدا نہیں کیا۔ البتہ دنیا کے مال کو انہوں نے آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنایا ۔ ان کی دولت وثروت ہر لحاظ سے ان کے لیے مفید وکارمند ثابت ہوئی ۔ رازداری اور پوشیدہ انداز میں صدقہ وخیرات کرنا انہیں بہت محبوب تھا ۔ جب رات کا اندھیرا چھا جاتا تو یہ اپنی کمزور کمر پر آٹے کے تھیلے اٹھاتے اور مدینے کے ان ضرورت مندوں کے گھر چپکے سے چھوڑ آتے ، جو خودداری کی وجہ سے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے تھے ۔ یہ کام سرانجام دینے کے لیے رات کی تاریکی میں اس وقت نکلتے جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ۔ مدینہ منورہ میں بہت سے گھر خوشحالی سے زندگی بسر کر رہے تھے ، جنہیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ ان کے پاس وافر مقدار میں رزق کہاں سے آتا ہے ۔ جب حضرت زین العابدین علی بن حسینؓ فوت ہو گئے اور ان لوگوں کے پاس آٹا آنا بند ہوا تب پتا چلا کہ یہ کہاں سے آتا تھا ۔

            جب حضرت زین العابدین کو غسل دینے کے لیے تختے پر رکھا گیا ۔ غسل دینے والوں نے پیٹھ پر سیاہ نشان دیکھا تو کہنے لگے یہ کیا ہے ؟ انہیں بتایا گیا کہ یہ آٹے کی بوریاں اٹھانے کی وجہ سے نشان پڑا ، جو وہ مدینے کے تقریبا ایک سو گھرانے میں پہنچایا کرتے تھے ۔ آج یہ فیاضی کرنے والے دنیا سے رخصت ہو گئے ۔

 ٭٭٭

            حضرت زین العابدین علی بن حسین اپنے غلاموں کو اس کثرت اور فیاضی سے آزاد کر دیا کرتے تھے کہ اس کا چرچا مشرق ومغرب میں سفر کرنے والے مسافروں تک پہنچ چکا تھا ۔ ان کا یہ کارنامہ لوگوں کی فکرو نظر کے افق سے بھی کہیں بلند تھا ان کی پرواز تخیلات سے بھی کہیں اونچی تھی ، کوئی عام انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ یہ ہر اس غلام کو آزاد کر دیا کرتے تھے جو ان سے حسن سلوک سے پیش آتا اس کی آزادی اس کے حسن سلوک کا بدلہ ہوتی ۔ یہ اس غلام کو بھی آزاد کر دیا کرتے تھے جو نافرمانی کرتا اور پھر توبہ کر لیتا ۔ اسے اپنی توبہ کے بدلے آزادی مل جاتی ۔ ان کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک ہزار غلام آزاد کیے ۔ یہ اپنے کسی غلام یا کنیز سے ایک سال سے زیادہ خدمت نہیں لیا کرتے تھے ۔ عید الفطر کی رات یہ بہت زیادہ غلاموں کو آزاد کر دیا کرتے تھے ، ان سے یہ مطالبہ کیا کرتے کہ وہ قبلہ رخ ہو کر اللہ تعالی سے یہ دعا کریں ۔ الہی علی بن حسین کو معاف کر دے اس طرح انہیں دوہری خوشی نصیب ہوتی ۔ ایک خوشی عید کی اور دوسری خوشی آزادی کی ۔

 ٭٭٭

            حضرت زین العابدین علی بن حسین کی محبت لوگوں کے دلوں میں اتر چکی تھی ۔ لوگ انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے ، لوگوں کے دلوں میں ان کا بہت مرتبہ تھا ۔ گویا یہ لوگو ں کے بے تاج بادشاہ تھے ، انکے دور میں یہ مقام کسی اور کو حاصل نہ تھا ۔ لوگ ان سے سچی محبت کرتے تھے ، ان کے ساتھ بڑی تعظیم سے پیش آتے ،بڑا ہی گہرا تعلق تھا ۔ لوگوں کی نگاہیں ہر دم ان کی متلاشی رہتیں ۔ گھر سے نکلتے ہوئے یا گھر میں داخل ہوتے ہوئے ، مسجد جاتے ہوئے یا مسجد سے واپس آتے ہوئے لوگ ان کی زیارت کی سعادت حاصل کیا کرتے تھے ۔

 ٭٭٭

            ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہشام بن عبدالملک حج کے لیے مکہ معظمہ آیا ، اس وقت وہ ولی عہد تھا ۔ وہ طواف کرنا اور حجر اسود کو چومنا چاہتا تھا ۔ حفاظتی دستے نے لوگوں کو ہٹو ، بچو کرتے ہوئے اس کے لیے راستہ بنانا شروع کردیا ۔ لیکن لوگوں میں سے ایک شخص نے بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور نہ ہی اس کے لیے راستہ بنایا بلکہ وہ یہ کہہ رہا تھا ۔ یہ گھر اللہ کا ہے ۔تمام لوگ اس کے بندے ہیں ۔ اسی دوران میں دور سے لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔ لوگ ٹکٹکی لگا کر اس کی طرف دیکھنے لگے، وہ کیا دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے جھرمٹ میں ایک خوبصورت ، چھریرے بدن اور روشن چہرے والا شخص احرام باندھے بڑے ہی وقار کے ساتھ بیت اللہ کی جانب چلا آرہا ہے ۔ اس کی پیشانی پر سجدوں کا نشان نمایاں ہے۔ لوگ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے لیے راستہ بنا رہے ہیں ۔ اور اسے محبت وعقیدت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں وہ شخص حجر اسود تک پہنچا اور اسے بڑے ہی باوقار انداز میں چوما ۔ ہشام بن عبدالملک کے حاشیہ برداروں میں سے ایک شخص نے اس سے پوچھا یہ کون ہے ، جس کی لوگ اس انداز میں تعظیم بجا لا رہے ہیں ۔ ہشام نے کہا میں اسے نہیں جانتا ۔ دنیائے عرب کا مشہور شاعر فرزدق وہاں موجود تھا ۔ اس نے کہا اگر ہشام اس کو نہیں جانتا تو کیا ہوا میں تو اسے جانتا ہوں تمام دنیا اسے جانتی ہے ۔ یہ حضرت حسینؓ کے فرزند ارجمند علی ہیں جنہیں لوگ زین العابدین کے نام سے جانتے ہیں ۔ پھر برجستہ ان کی شان میں اشعار کہے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے ۔

٭ یہ وہ شخص ہے جس کے قدموں کی آہٹ کو وادی بطحا جانتی ہے بیت اللہ بھی اسے جانتا ہے او رحل وحرم بھی اسے جانتے ہیں ۔

٭ یہ اللہ کے بندوں میں سب سے بہتر انسان کا نواسہ ہے ۔یہ متقی ، پرہیز گار ، پاک صاف اور ممتاز انسان ہے

٭ یہ فاطمتہ الزہرا کا نواسہ ہے اگر تو نہیں جانتا تو سن لے اس کے نانا خاتم الانبیاﷺ ہیں ۔

٭ تیرا کہنا کہ یہ کون ہے اسے کوئی نقصان نہیں دے گا ۔تو اسے اگر نہیں جانتا عرب وعجم تو اسے جانتے ہیں

٭ اس کے دونوں ہاتھ بڑ ے فیاض ہیں ۔لوگ اس کی فیاضی سے خوب مستفیض ہوتے ہیں ، اسکے ہاتھ نہ دینا تو جانتے ہی نہیں ۔

٭ یہ نرم طبعیت ہے اس میں ترش روئی کا شائبہ تک نہیں ہے ۔دو خوبیوں نے اس کو آراستہ کیا ہے وہ حسن اخلاق اور نرم طبیعت ہے ۔

٭ تشہد کے علاوہ اس کی زبان پر ‘لا’ نہیں آتا اگر تشہد نہ ہوتا تو یہ‘ لا’ بھی نعم ہوتا ۔

٭ اس کے احسانات خلق خدا پر عام ہیں جن کی وجہ سے تاریکیاں ، غربت وافلاس ختم ہو گئے ۔

٭ جب قریش نے اسے دیکھا تو اس کا ایک شخص پکار اٹھا ۔یہ وہ شخص ہے جس پر حسن اخلاق ختم ہے ۔

٭ یہ حیا کی وجہ سے اپنی نگاہیں نیچے رکھتا ہے اور لوگ اس کی ہیبت سے نگاہیں جھکا لیتے ہیں ۔جب تک یہ مسکراتے نہیں کسی کو بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی

٭ اس کی ہتھیلی ریشم کی طرح نرم ہے اور اس سے کستوری کی خوشبو آتی ہے ۔اور اس کی ناک تیکھی ہے جس سے شخصی عظمت آشکار ہوتی ہے ۔

٭ اس کا اصل رسول اللہﷺ سے مشتق ہوا ہے اس کا حسب ونسب کس قدر عمدہ ہے ۔

 ٭٭٭

اللہ تعالی آل رسولﷺ سے راضی ہو گیا ۔ حضرت زین العابدین ہر اس شخص کے لیے نادر نمونہ تھے۔ جو پوشیدہ اور علانیہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اور جو اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ثواب کا لالچ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بچا بچا کر رکھتا ہے ۔

 ٭٭٭