من الظلمت الی النور
شرک کے اندھیروں سے توحید کی روشنی تک
پروفیسر ڈاکٹر انوار الحق
یہ ۱۹۸۷ کا واقعہ ہے، میں آغا خان یونیورسٹی اسپتال، کراچی چھوڑنے کے بعد کنگ فیصل یونیورسٹی، دمام (سعودی عرب) سے منسلک ہو گیا۔ ۱۹۹۶ تک وہاں تدریس اور شعبہ امراضیات (پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ) میں تشخیص امراض کے فرائض انجام دیتا رہا۔ کنگ فیصل یونیورسٹی یعنی جامعۃ الملک فیصل کے ساتھ الخبر کا تدریسی اسپتال واقع تھا۔ وہاں ہم مریضوں کے علاج معالجے اور دیکھ بھال کی ذمے داری سنبھالتے۔میری رہائش الخبر میں تھی۔ ہمارے قیام کے دوران ہی خلیجی جنگ وقوع پذیر ہوئی اور پہلی بار امریکی فوجی الخبر اور دہران کی سڑکوں پر نظر آئے۔ سعودی عرب میں دوران قیام مساجد میں کئی مرتبہ قبول اسلام کے مناظر دیکھے۔ دعوتِ اسلام کے تحت نومسلموں کی تربیت کے پروگرام بھی ہوتے۔ بعض واقعات ایسے ہیں جو دل پر نقش ہو گئے اور انھیں قارئین کی نذر کرنا ضروری جانا۔
ہمارے اسپتال میں آئرلینڈ کی ایک نرس کام کرتی تھی۔ اس کی والدہ بھی نرس تھی۔ وہی بیٹی کو سعودی عرب لائی تھی تاکہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ مریضوں کو عیسائیت کی طرف بھی مائل کیا جائے۔ ماں نے بیٹی کو قرآن پاک کی ایک کاپی دی اور کہا ’’بیٹی اسے پڑھو اور اس میں سے غلطیاں نکالو تاکہ ہم مسلمانوں سے بحث کے دوران انھیں برت سکیں۔‘‘بیٹی ترجمے والا قرآن مجید پڑھنے لگی۔ وہ غلطیاں نکالنے کی سرتوڑ کوشش کرتی رہی لیکن جوں جوں اس نے قرآن پڑھا، اس کے دل کا اندھیرا روشنی میں بدلنا شروع ہو گیا۔اب اسے راہ حق صاف نظرآنے لگی۔ ابھی کچھ پارے ہی پڑھے تھے کہ وہ بے چین ہو گئی اور جلد ہی علی الاعلان اسلام قبول کرلیا۔ کچھ عرصے بعد دیگر خواتین کے ساتھ وہ حج کرنے گئی۔ مکہ معظمہ میں ہمارے ہی اسپتال کے ایک نیوروسرجن کی والدہ نے جو مصر سے حج کرنے آئی تھیں، اسے پسند کیا اور اس کو اپنی بہو بنا لیا۔ جب میں صبح اسپتال جاتا تو ان کے دو ننھے منے بچے کھڑکی میں بیٹھے نظر آتے۔
نظریہ شکست کا توڑ
ہماری یونیورسٹی میں امریکا سے تربیت یافتہ ایک مردانہ نرس ملازم ہوا۔ اس کا ماجرا اللہ تعالیٰ کی شان عیاں کرتا ہے۔ وہ بیپٹسٹ (Baptist) چرچ کا نائب صدر بھی رہ چکا تھا۔ اس کا نام Moses(موسیٰ) تھا۔ ایک دن وہ میرے سری لنکن مسلمان دوست، ضیا عبدالقادر سے اسلام پر مباحثہ کرنے لگا۔ ضیا نے کہا کہ میں اتنا بڑا عالم نہیں کہ تمھاری ہر بات کا جواب دے سکوں۔ البتہ میں تمھیں قرآن مجید دیتا ہوں۔ تم اسے پڑھ کر دیکھو، ہو سکتا ہے اس میں تمھیں اپنے سوالوں کے جواب مل جائیں۔موسیٰ نے وہ نسخہ لے لیا۔ تین چار دن بعد ضیا سے ملا اور کہا ’’مجھے تمام سوالات اور ابہامات کے جوابات اس کتاب میں مل چکے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اسلام قبول کر لیا۔ بعدازاں اس امریکی نے بتایا ’’ساری عمر مجھے عیسائیت کا نظریہ تثلیث تنگ کرتا رہا اور کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔ لیکن الحمدللہ قرآن مجید نے وہ روشنی دکھائی کہ تمام شکوک و شبہات ختم ہو گئے۔ میں نے پھر شرک کے اندھیروں سے توحید کی روشنی میںآنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ امریکی نو مسلم کا نام پہلے ہی اسلامی تھا، لہٰذا اسے برقرار رکھا گیا۔
دہران میں امریکی نو مسلم
ایک مرتبہ ہم نماز جمعہ پڑھ رہے تھے۔ امام کے سلام پھیرتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ دو گورے اور دو کالے، لمبے تڑنگے امریکی فوجی وردی میں ملبوس ایک سعودی کی معیت میں اندر داخل ہوئے۔امام صاحب کے ہاتھوں کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھ کر وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ امریکی فوج کے کئی ہزار افراد پہلی مرتبہ سعودی عرب آکر اسلام سے متعارف ہوئے۔ ان میں سے کئی مرد و زن نے قرآن مجید کا مطالعہ کر کے علی الاعلان اسلام قبول کیا۔
ایک مرتبہ جب دہران میں ہم نماز جمعہ پڑھ کے نکلے تو دیکھا، ایک بس میں بہت سے امریکی مرد اور عورتیں بھی نماز ادا کرنے آئے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس مسجد میں خواتین کے لیے علیحدہ نماز ادا کرنے کا انتہائی معقول انتظام تھا۔ مسجد کے امام امریکا سے طبیعات میں پی ایچ ڈی کر کے آئے تھے۔ وہ امام ہونے کے علاوہ یونیورسٹی میں مقامی پروفیسر بھی تھے۔ نماز کے بعد اپنے خطبے کا انگریزی زبان میں ترجمہ سناتے۔ ہم لوگ ان امریکیوں سے ملے۔ وہ سب ڈاکٹر، انجینئر یا نرس وغیرہ تھے۔ دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے اور اب بس میں عمرہ کرنے جا رہے تھے۔
کاش دو سال پہلے کتاب مل جاتی
ایک مرتبہ ہمارے اسپتال کے آڈیٹوریم میں ایک نو مسلم امریکی فوجی کی تقریر ہوئی۔ وہ فوج سے ریٹائرڈ ہو چکا تھا لیکن بسلسلہ خلیجی جنگ اسے پھر بلا لیا گیا۔ آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ غالباً میجر تھا۔ سرخ و سپید رنگ اور سفید ڈاڑھی! اس نے بتایا کہ ایک سعودی دکان والے نے اسے ترجمہ والا قرآن مجید بطور تحفہ دے دیا۔ وہ گھر پر قرآن مجید کا مطالعہ کرنے لگا۔ کچھ ہی روز گزرے تھے کہ اسے یقین ہو گیا، یہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ بہ صمیمِ قلب کے ساتھ پوری طرح اسلام میں داخل ہو گیا۔ آخر میں اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی ڈاڑھی بھگونے لگی۔ وہ کہہ رہا تھا ’’کاش یہ کتاب ۲سال پہلے مجھے مل جاتی، تو میری بیوی بھی مسلمان کی حیثیت سے مرتی۔‘‘
مرتد شوہر کو چھوڑ دیا
اسی طرح ایک نو مسلم امریکی سے محفل قرآن میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ وہ نوجوان اور اس کے سارے بہن بھائی یہودیت ترک کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے جب کہ والدین کو یہ توفیق نصیب نہ ہوئی۔ ایک بہن نے بعدازاں کسی بنگالی مسلمان سے شادی کی اور امریکا کی پرتعیش زندگی ترک کر کے بنگلہ دیش منتقل ہو گئی۔ وہاں بدقسمتی سے اس کا شوہرمادہ پرستی اور بدعات میں مبتلا ہو گیا۔ اس پر خاتون نے اسے روکا اور کہا ’’میں نے تم سے مسلمان ہونے کے باعث شادی کی ہے۔ اگر تم شرک سے باز نہ آئے تو میں تمھاری بیوی نہیں رہ سکتی۔‘‘ جب شوہر اپنی روش سے باز نہ آیا تو اس نو مسلمہ نے طلاق لے لی اور اسلام پر اسی طرح سختی سے کاربند رہی۔
قیدیوں کی کایا پلٹ
اس موقع پر مجھے ایک امریکی، جان سلون یاد آرہا ہے۔ کنساس سٹی میں پہلے اس کی بیوی مسلمان ہوئی۔ بیوی میں نہایت ہی مثبت تبدیلیاں پیدا ہوتے دیکھ کر وہ خود اسلام کا مطالعہ کرنے لگا۔ کچھ ہی عرصے میں نور اسلام نے اس کا سینہ روشن کر دیا۔ دونوں نے اپنی بیش قیمت ملازمتیں ترک کیں، انڈیانا پولس پہنچے اور وہاں ISNA (اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا) کے ساتھ مل کر دعوت دین میں جڑ گئے۔ دونوں کی آمدنی بے حد کم ہو گئی لیکن انھوں نے قطعاً پروا نہ کی۔انھوں نے خاص طور پر جیلوں میں مقید مسلمان قیدیوں پر توجہ دی اور انھیں حقیقی اسلامی طرز حیات سے روشناس کرایا۔ساتھ ہی جیلوں میں مسلمانوں کو اسلامی طرز زندگی گزارنے کی سہولیات فراہم کرنے کے لحاظ سے سخت جدوجہد کی۔ اسلامی طرز حیات پر گامزن ہونے سے قیدیوں کی کایا پلٹ گئی۔ جیلوں میں لڑائی جھگڑے بے انتہا کم ہو گئے جس سے جیل حکام بھی بہت متاثر ہوئے۔
اسی طرح شکاگو میں رہنے والے امیر علی کو میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ ان کی کاوشوں کے باعث کئی امریکی نوجوان حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ میں خود ان میں سے کچھ جوانوں کو ملا۔ انھوں نے بتایا ’’اسلام نے ہماری بری عادات مثلاً نشہ وغیرہ چھڑا دیا۔ پہلے وہ والدین اور اپنے دادا، دادی، نانا، نانی کا بالکل خیال نہیں رکھتے تھے۔ لیکن اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر بزرگوں کا بے حد خیال رکھنے والے بن چکے۔‘‘
امیر علی مرحوم نے جہاں اسلام کا نور پھیلایا، وہیں اسلام اور مسلمانوں پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کا پردہ بھی چاک کیا۔ نائن الیون سے پہلے بھی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا تھا جس کا الزام بے گناہ مسلمانوں پر عائد کیا گیا۔ امیر علی نے تحقیق سے ثابت کیا کہ یہ حملہ اسرائیلی موساد کی ایجنٹ، جوزی ہداس نے کرایا تھا۔
مغرب میں اسلام کی مدافعت
طالبان کی قید میں رہنے والی مریم ریڈلے کو کون فراموش کر سکتا ہے؟ دوسرے نو مسلموں کی طرح قرآن مجید نے اس کا دل بھی فتح کر لیا۔
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
مریم ریڈلے ایمان لانے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی مدافعت کرنے والی طاقتور خاتون بن کر سامنے آئی۔امریکی رکن کانگریس مین ، پال فنڈلے کا ذکر خیر بھی ہونا چاہیے۔ وہ بتاتے ہیں، زمانہ اسکول میں کسی ’’رضا کار‘‘ مسلم دشمن استاد نے جماعت میں سبھی بچوں کے اذہان میں
اسلام کا انتہائی گھناؤنا تصور پیدا کر دیا۔ یہ تصور ساری زندگی ان کے ساتھ رہا تاآنکہ ایک حادثاتی واقعے میں انھیں یمن جانا پڑا۔ وہاں مسلمانوں کا طرز حیات دیکھ کر رفتہ رفتہ اسلام کے بارے میں پھیلایا جانے والا زہر زائل ہونا شروع ہوا۔ پال فنڈلے کی بیسٹ سیلر کتاب ’’انھوں نے بولنے کی جرأت کی‘‘ they dare to speak out میں اس واقعے کی تفصیل موجود ہے۔
پال فنڈلے اس بات کے شاکی ہیں کہ امریکا میں رہنے والے مسلمان چادر تان کر کیوں سوئے ہوئے ہیں‘ وہ امریکیوں کو اسلام کے بارے میں نہیں بتاتے؟ انھوں نے اپنی ایک اور کتاب میں اپنے علاقے، اسپرنگ فیلڈ، الینائے (Spring field, Illinois) میں بسنے والے مسلمانوں کے نام بھی درج کیے۔ ان مسلمانوں کو پچھلی کئی دہائیوں میں اس بات کی توفیق نہ ہوئی کہ اپنے رکن اسمبلی سے ملتے اور اسے اسلام کے بارے میں بتاتے!
ایک بار فلوریڈا میں بچوں کی ماہر امراض مسلمان ڈاکٹر عطیہ نے خیراتی اسپتال کھولا اور اس میں اہم لوگوں کو مدعو کیا۔ رسمی تقاریر کے بعد پال فنڈلے نے ڈاکٹر عطیہ سے سوال کیا ’’بیٹی! یہ تم نے بہت اچھا کام کیا۔ لیکن آپ نے حاضرین کو اسلام سے متعارف کیوں نہیں کرایا؟‘‘ خود پال فنڈلے نے اپنی ایک کتاب میں قرآن مجید سے کئی آیات کا حوالہ دیا اور یہ بتایا ہے کہ اسلام اور دیگر آفاقی مذاہب میں کتنی مماثلت ہے۔
مسلمانو! وقت ہاتھ سے نکلے جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی غفلت بدگمانیوں کا سبب بن رہی ہے جس کی قیمت پورا عالم اسلام چکا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنی کھال میں مست رہنے کے بجائے جدید ترین ذرائع مثلاً انٹرنیٹ، فیس بک، ٹوئیٹر سے اسلام کا نور پھیلائیں تاکہ دنیا میں افراتفری اور جنگ و جدل کا خاتمہ ہو سکے۔***