جدید مسلمان عورت کے لیے لمحہ فکریہ
علیا بیگم صاحبہ بھوپال 1926-27 کے دور میں علی گڑھ یونیورسٹی کی چانسلر تھیں ۔ موصوفہ نے جنوری 1927 میں مسلم گرلز کا لج علی گڑھ میں لڑکیوں کی سالانہ تقریب سے خطاب فرمایا تھا ۔ اس خطاب میں ‘‘اسلام میں عورت کا کردار’’ کے حوالے سے موصوفہ نے بڑے ایمان افروز نکات بیان فرمائے تھے ، ہفت روزہ سچ لکھنو نے 28 فروری 1927 کے شمارے میں محترمہ علیا بیگم صاحبہ کی یہ مفصل تقریر شائع کی تھی اور تمہید میں لکھا تھا کہ ‘‘علیا حضرت بیگم صاحبہ اس وقت ان چند برگزیدہ ومستثنی ہستیوں میں شامل ہیں ، جن کا وجود نہ صرف طبقہ نسواں کے لیے بلکہ کل دنیائے اسلام کے لیے بھی باعث فخر ہے ’’ اس تقریر کی اہمیت کے پیش نظر ہم اسے شائع کر رہے ہیں ۔
میں علمی سند کی محض اس وجہ سے عزت کرتی ہوں کہ وہ قابلیت کے معلوم کرنے کا ایک معیار اور دلوں میں ترغیب وشوق پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے ، ورنہ تعلیم تو ایک دوسری ہی چیز ہے جسکا اثر انسان کی عملی زندگی میں ہوتا ہے ، جو بغیر تربیت کے ناقص رہتا ہے ، اس لیے کتابی تعلیم کے ساتھ اس تعلیم کی اشد ضرورت ہے ۔معیار تعلیم مقرر کرنا کوئی اہم کام نہیں ہے اصل محنت طلب کام نصاب کی تیاری ہے ۔ مجھے اس موقع پر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ چند سال ہوئے کہ میں نے پانچ ہزار اور ایک سال ہو اکہ دس ہزار روپیہ یونیورسٹی کو دیا تاکہ نصاب تیار ہو ، لیکن آج تک اس کے متعلق کوئی عملی کام نہیں ہوا ۔ ظاہر ہے کہ نصاب میں جو مضامین جداگانہ تیار ہوں گے ، وہ مذہب ، اسلام اور اردو ادب تک محدود ہیں ۔ لیکن میں اس کی نسبت کوئی صدا بھی نہیں سنتی۔ رہے باقی مضامین ، وہ مشترک او رعام ہیں ۔ حفظان صحت ، خانہ داری اور ہوم نرسنگ وغیرہ کے مختلف مضامین کی کتابیں اول تو بہت کچھ موجود ہیں اور پھر اگر ضرورت ہو گی تو آسانی کے ساتھ تیار ہو سکتی ہیں ۔ جب اس طرح کا ایک مکمل نصاب ہماری مادری زبان میں ہمارے ہاتھ میں ہو گا تو ہماری تعلیم حیرت انگیز طور پر ترقی کرے گی اور اس نصاب کی تکمیل میں باوصف روپیہ موجود ہونے کے میں نہیں سمجھتی کہ کیوں دشواری ہے ۔
ایک بڑا سوال لڑکیوں کی تعلیم کا ہے ۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ جو لڑکیاں گھروں پر رہتی ہیں یا اسکول کے گھنٹوں میں مدرسوں میں جاتی ہیں ، انکی تربیت کی تمام تر ذمہ داری والدین اور مربیوں پر ہے ۔ کیونکہ ان کے دماغ اور خیالات پر وہی اثرات مرتب ہو نگے ، جو گھر کے اندر والدین اور اعزا کے ہوتے ہیں مدرسہ کے اثرات ہمیشہ گھر کے اثرات سے مغلوب رہتے ہیں ۔ البتہ بورڈنگ ہاؤسوں میں پوری ذمہ داری منتظمین پر عائد ہو جا تی ہے ۔ ایک طرف ہماری لڑکیوں کے دلوں میں مذہب کی عظمت جاگزین ہو دوسری طرف وہ اسلامی اخلاق سے واقف اور صحابیات محترمات اور دیگر مقدس وممتاز خواتین کے حالات سے باخبر ہوں اور ساتھ ہی انکے سامنے اسلامی اخلاق اور مذہبی پابندی کی مثالیں ہوں تو یقینا وہ تربیت اسلامی کی بہترین نمونہ ثابت ہو گی ، لیکن عام طور سے اس وقت ایک خاص حالت رونما ہے ۔ تعلیم یافتہ لڑکیوں میں آزادی کے جذبات اس قدر عام ہوتے جا رہے ہیں کہ بسا اوقات واقعات سن کر لڑکیوں کی تعلیم سے ایک طرح بیزاری پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ تعلیم کا نتیجہ نہیں ، بلکہ غلط اور ناقص تربیت کا ثمرہ ہے ۔ بہرحال تعلیم کو مفید رکھنے کے لیے عمدہ تربیت کی ، خواہ وہ گھروں میں ہو یا بورڈنگ ہاؤسوں میں ، سخت ضرورت ہے ۔
بلاشبہ ہر انسان قدرتی طور پر آزاد ہے لیکن آزادی صحیح تعریف میں ہونی چاہیے اور تقلید اسی وقت تک منفعت بخش ہے ، جب تک خذ ماصفا ودع ماکدر (صاف حصے لے لو اور گدلا چھوڑ دو) کے اصول پر ہو اگر اس سے تجاوز ہو گا یا ماکدر لینے سے خراب باتوں کو اختیار کیا جائے تو یقینا اس میں زہریلااثر پیدا ہو جائے گا ۔
میری عمر ستر سال سے زیادہ ہے ۔ گو میری قابلیت محدود ہے ، لیکن میرا تجربہ وسیع ہے ۔ میں نے بعض اسلامی اور مغربی ممالک کی سیاحت بھی کی ہے اور ہمیشہ عورتوں کے لیے اسباب ترقی اور اسباب تنزل کامطالعہ کیا ہے ۔ میں نے ابتدائے عمر میں مذہبی تعلیم پائی ہے ، اس لیے میں اپنی صنف اور بالخصوص مسلمان عورتوں کی حالت پر کچھ کہنے کا منصب واستحقاق رکھتی ہوں ۔
اے مسلمان خواتین ! ہر شخص جو اپنے کو مسلمان کہتا ہے، مجبور ہے کہ وہ احکام اسلام کی پابندی کرے اور قرآن حکیم میں جو اوامر ونواہی ہیں ان پر عمل پیرا ہو ۔
انسان آزاد ضرور ہے ، لیکن وہ سوسائٹی یا مذہب یا حکومت کے قوانین سے سرکشی نہیں کر سکتا ۔ او رکسی نہ کسی کا متبع ضرور ہوتا ہے ۔ ہم مسلمان کسی طرح بھی مذہب سے بغاوت نہیں کر سکتے اور جب بغاوت کریں گے تو اس دائرہ سے خارج ہو جائیں گے ۔ اس لیے میں جو کچھ کہوں گی ، وہ احکام اسلامی کے ماتحت ہو گا ۔ تعلیم یافتہ خواتین میں فیشن اور سوسائٹی کے متعلق غیر قوموں کی تقلید کا جو رحجان روز افزوں ہے یا دوسرے معنوں میں اس تقلید کو آزادی تصور کر لیا گیا ہے ، وہ یقینا خطرناک ہے اور تاریک مستقبل کی علامت بھی ۔ اس تقلید و آزادی کی بنیاد عورت او رمرد کی آزادی اور مخلوط سوسائٹی اور سب سے زیادہ احکام مذہب سے بیگانگی ہے اور اسی سبب سے ان میں زیادہ سے زیادہ آزادی کی طرف میلان بڑھتا جاتا ہے اور نمود ونمائش کی زندگی زیادہ پسند ہونے لگتی ہے ، حالانکہ دوسرے ممالک میں جو حد سے متجاوز آزادی عورتوں میں پیدا ہو گئی ہے ، اس کی بنیاد کچھ علم ومعقولیت پر نہیں ہے ، جو ہمارے لیے قابل تقلید ہو ۔ یہ خیال بھی قطعی غلط ہے کہ متمدن ممالک کے ہر فعل اور رسم ورواج کی تقلید ، معیار تہذیب ہے ۔ یہ تو ایک قسم کی نقالی ہے اور نقالی کسی قوم کو مہذب نہیں بنا سکتی ۔
بلاشبہ اس وقت مغربی ممالک میں تو علی العموم اور کہیں کہیں اسلامی ممالک میں بھی صنف ضعیف ترقی کی شاہراہ پر نہایت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور ہر مرحلہ زندگی میں وہ مردوں کے دوش بدوش ہے اور جنگ عظیم کے بعد تو ترقی کی یہ رفتار اس قدر تیز ہو گئی ہے کہ عورت مردوں سے بھی چند قدم آگے نظر آتی ہے ۔ یہ امر تو وہ علام الغیوب ہی بہتر جانتا ہے کہ مردوں کے ساتھ اس مساوات بلکہ اس تصادم و مقابلہ کا کیسا اور کب نتیجہ نکلے گا ۔ آیا وہ مردوں سے بلند ہو جائے گی یا مرد اس کو پیچھے دھکیلنے کے لیے اپنا زور وقوت کا استعمال کرے گا اور وہ قدیم زمانہ کی تہذیب کی طرف لوٹائی جائے گی ، جبکہ نہ اس کی کوئی عزت تھی اور نہ اس کی کوئی عظمت ۔پالتو کتے کی بھی اس سے زیادہ توقیر تھی ۔ وہ قید خانہ میں مقفل کی جاتی تھی اور اسے آسمان دیکھنے کا بھی حکم نہ تھا ، حتی کہ وہ ‘‘ایک بے روح حیوان ’’ تھی ۔
لیکن ہم مسلمان ہیں او رہم کو اپنی ترقی و فلاح کے ذرائع واسباب قرآن حکیم میں تلاش کرنے چاہییں۔ ظہور اسلام سے قبل تقریبا تمام ممالک میں خواہ وہ متمدن ہوں یا وحشی ، انکی سوسائٹی کے قوانین مکمل ہوں یا ناقص ، عورت ایک ذلیل ترین مخلوق تھی۔ اسلام نے اس کو اس ذلت سے نکالا اور اس کے حقیقی مرتبہ پر پہنچایا ۔ اس کے حقوق کی تعیین وتجدید کی ۔ سوسائٹی اور قوم میں اس کا وقار قائم کیا اور اس کو مردوں کے برابر حیات طیبہ کا مستحق ٹھہرایا ۔ من عمل صالحا من ذکر ا وانثی وھو مومن فلنحیینہ حیوۃ طیبہ ولنجزینھم اجرھم باحسن ما کانوا یعملون (جو شخص نیک عمل کرے گ خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہو گا تو ہم اسکی اچھی طرح زندگی بسر کردینگے اور اسکے اعمال کا اچھا صلہ دیں گے ۔) پھر جب کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ قابل نفرت بنی ہوئی تھی ، نہایت موثر انداز سے اسکا مقصد آفرنیش سمجھا کر اس کے ساتھ محبت ومودت کی ترغیب دی ۔ ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا لیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمہ ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون (اوراس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس کے ازواج پیدا کیے ، تاکہ انکی طرف سے آرام پاؤ اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی ۔ جو لوگ غور کرتے ہیں انکے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔)
اور پھر : ھن لباس لکم وانتم لباس لھن
(عورتیں تمہارے لیے بمنزلہ لباس کے ہیں اور تم عورتوں کے لیے بمنزلہ لباس کے ہو ۔) فرما کر سارے امتیازات اور تفاخر کو اٹھا دیا اور اس وقار اورمحبت اور اس مساوات او رحقوق کو قائم رکھنے کے لیے بھی کچھ حدود مقرر کر دیے اور عورت کو اس کا پابند بنایا ، تاکہ وہ ہمیشہ فلاح حاصل کر سکے اس طرح ہماری صنف ضعیف کے لیے ایک ایسا حصن حصین تعمیر ہو گیا کہ جب وہ اس کے اندر ہو گی تو تمام آفات و بلیات سے محفوظ رہے گی ۔
اس کے بعدعورت کے تحفظ وقار کے طریقوں کا ذکر آتا ہے ، اور وقار کا تحفظ بہت کچھ سوسائٹی پر منحصر ہے۔ اسلام ایک نہایت حکیمانہ مذہب ہے ۔ اس لیے اس نے ہر ایسی بات سے روکا ہے ، جس کا انجام تمدنی ومعاشرتی یا اخلاقی فساد ہو ۔
اب میں آپ کے سامنے وہ آیت تلاوت کرتی ہوں ، جو عورت کے کامل وقار ، پوری عزت اوراسکی زندگی کی مسرتوں کی ضمانت اوراسکی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہے ۔ اور اسی پر عمل کرنے سے عورت کی فطری شرم وحیا اور اس کی عزت وناموس اور وقار ومسرت کا انحصار ہے ۔ وقل ………… من ابصار ھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن او آباء ھن او اباء بعو لتھن اوابانائھن او ابناء بعولتھن او اخوانھن او بنی اخوانھن او بنی اخواتھن او نسائھن او ماملکت ایمانھن او لتابعین غیر اولی الربتہ من الرجال اوالطفل الذین لم یظھروا علی عورات النسا ء ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن و توبوا الی اللہ جمیعا ایھا المومنون لعلکم تفلحون (سورہ نور۔ ع۴) اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور پاکدامن رہیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں ، لیکن جو اس میں کھلا رہتا ہو اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنے خاوندوں اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے ، جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے واقف نہ ہوں ، کسی پر اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیا کریں اور نہ اپنے پاؤں مارا کریں کہ ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے اور خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پا ؤ ۔
اس آیت میں دو باتیں سب سے زیادہ توجہ کے قابل ہیں۔ ایک نگاہوں کا نیچا رکھنا اور دوسرے زینت کا ظاہر نہ کرنا ۔
نگاہوں کے نیچے رکھنے کے متعلق جو حکم عورتوں کو ہے وہی مردوں کو بھی ہے ۔ اور عورتوں سے پہلے مرد مخاطب ہیں ۔ اور اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ اپنی نگاہ کو محفوظ رکھیں کیونکہ یہ نگاہ ہی کا اثر ہوتا ہے کہ بسا اوقات انسان کی طبیعت میں ایسا جذبہ اور جوش پیدا ہو جاتا ہے ، جو شرم وحیا کے خلاف ہوتا ہے اور اس کے نتائج بد انسانی زندگی کو تباہ کر دیتے ہیں ۔ ایسی ہی نگاہ کی نسبت سے حضورﷺ نے اللہ کی طرف سے فرمایا ہے کہ ‘‘نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر کا بجھا ہوا تیر ہے جو میرے خوف سے اس کو ترک کرے گا میں اس کے بدلے میں اس کو ایمان عطا کروں گا ، جس کی حلاوت اس کے دل میں محسوس ہو گی ۔’’ دوسری بات زینت یعنی زینت کا ظاہر کرنا ہے۔ اگرچہ رسول اللہﷺ نے مبعوث ہو کر اخلاق ذمیمہ کی اصلاح شروع فرما دی تھی تاہم اس وقت پورا عرب مسلمان نہ ہوا تھا ۔ اور زمانہ جاہلیت کی معاشرت وتمدن کے رسوم موجود تھے ۔ چنانچہ لباس میں بھی زمانہ جاہلیت نمایاں تھا ۔ عرب عورتیں ایسی قمیصیں پہنتی تھیں جس میں موتی ٹکے رہتے تھے اور بغلوں کے دونوں جانب سلائی نہیں ہوتی تھی ، جس سے پیٹھ کا حصہ کھلا رہتا تھا ۔ ان کا لباس علی العموم ایسے باریک حریر وریشم کا ہوتا تھا ، جس سے بدن کا رنگ جھلکتا تھا جن کی نسبت کاسیات عاریات ( ڈھکی ہوئی ، پھر بھی ننگی ) صادق آتا ہے ۔ امرا کی خواتین اپنے جسم کو خوشبو سے معطر کرتی تھیں ، موتیوں کے کنٹھے پہنتی تھیں ، مانگوں میں مشک بھرا رہتا تھا ، جن کی خوشبو مہکتی تھی ، چوٹی اور مینڈھیوں کی زینت پر خاص توجہ کی جاتی تھی ۔ زیب وزینت کے لیے ایسے کرتے بھی استعمال ہوتے تھے ، جن سے ستر معدوم ہو جاتا تھا ۔ پاؤں میں اس قسم کے زیور پہنتی تھیں ، جن کی جھنکار ہوتی تھی انکے شانے اور پنڈلیاں بھی کھلی رہتی تھیں ۔ اس زیب وزینت کے ساتھ وہ مردوں کی سوسائٹی میں شریک ہوا کرتی تھیں ۔ بڑے بڑے گھرانوں کی کنواری لڑکیاں اپنے دوستوں کے ساتھ آبادی سے دور مرغزاروں اور چشموں پر جایا کرتی تھیں ۔ علی العموم تمام میلوں میں اور خصوصاً مشہور میلوں میں ، اسی بناؤ سنگھار کے ساتھ سیر وتفریح کرتی تھیں اور مردوں کے جلسوں میں بے تکلف بیٹھتی تھیں ۔ یہ حالت ایسی تھی جس نے بہت سے اخلاقی فسادات پیدا کر دیے تھے ۔ قرآن حکیم نے جہاں اور اصلاحات فرمائیں ، وہاں اس کی بھی اصلاح کی ۔ بلاشبہ اگر اس طرح اصلاح سے کبھی روگردانی کی جائے گی تو ضرور اخلاقی فسادات پیدا ہونگے ۔ عورت اپنا منشا آفرینش سکینہ اور مودت ورحمت کو کھو د ے گی ۔ اور اپنے عز ووقار سے دور ہو جائے گی ۔
آج جہاں ہم ان کو ترقی کی فضا میں پرواز کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ، وہاں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے ایسے فیشن ایجاد اور نظریے قائم کرتی ہیں کہ اس کے تصور سے بدن کانپ اٹھتا ہے ۔ بعض ممالک میں ایک تازہ نظریہ انہوں نے قائم کیا ہے کہ لباس بھی ترک کر رہی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ عریانی جسم ہی بہترین لباس ہے ۔ اور یہ تو معمولی بات ہے کہ وہ گھر کی مسرت اور اصلی عزت ووقار سے بھی گر رہی ہیں اور ان میں ازدواجی زندگی سے بیزاری پیدا ہو رہی ہے ۔ بعض جگہ سال میں شادیوں سے زیادہ طلاقیں ہو جاتی ہیں اور وہ مائیں بننے سے بھی گریز کرتی ہیں ۔ ہمارے یہاں یہ نوبت تو نہیں لیکن تقریباً ایسی ہی آزادی وتقلید کی لہر ہماری تعلیم یافتہ خواتین میں بھی پیدا ہو رہی ہے۔
اسلام نے ہم مسلمان عورتوں کو حجاب کے لیے اسی حد تک مکلف کیا ہے ، جو مذکورہ بالا آیات میں ہے ، لیکن اس سلسلہ میں دوسری آیت بھی ہے:
یا ایھا النبی قل لازواجک وبنتک و نساء المومنین یدنین علیھن من جلابیبھن ذالک ادنی ان یعرفن فلا یوذین وکان اللہ وکان اللہ غفورا رحیما ۔ (سورۃ ۳۳ آیت ۵۹) (اے پیغمبر اپنی بیبیوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادر ڈال لیا کریں یہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔)
یہ آیت ایک خاص موقع سے تعلق رکھتی ہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا ، جب عورتیں اپنی ضروریات کے واسطے باہر چلتی پھرتی تھیں ، شریر لوگ انکو چھیڑا بھی کرتے تھے ۔ اس بنا پر یہ آیت ناز ل ہوئی ۔ آپ واقف ہیں کہ فتنہ وفساد جنگ وجدال کے زمانہ اور خوف وہیبت کے وقت انسان اکثر اس قسم کی احتیاطیں عمل میں لاتا ہے کہ دوسرے اوقات میں نہایت سخت تکلیف دہ ہوتی ہیں ۔ ایسے ہی موقع پر حکومتوں کی طرف سے عموماً اس قسم کے قوانین نافذ کیے جاتے ہیں ۔ یہ تکلیف محض اس لیے گوارا کی جاتی ہے کہ ایک بڑی مصیبت سے نجات حاصل ہو ۔ میں کہتی ہوں کہ جب طبائع میں فساد ہو ، ایسے ذرائع مفقود ہوں ، جس سے عورت کے ناموس کا حقیقی تحفظ ہو سکے ، مروجہ اور نافذ قوانین کوئی اخلاقی حفاظت نہ کر سکیں اور صاف یہ ہے کہ برسر عام عصمت فروشی تک ، آزادی کے احاطے میں ہو ، تو ایسے زمانہ میں عصمت و ناموس کی حفاظت کے لیے سخت اور تکلیف دہ ذرائع اور تدابیر پر عمل ناگزیر ہے اور یہ تدابیر وہی ہیں جو اس آیت میں ظاہر کی گئی ہیں ۔ میدان سے گھر کی چاردیواری میں زیادہ حفاظت ہے ۔
حیا انسان کا ایک فطری جوہر ہے اور انسان سے اس کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے جن اخلاق فاضلہ کا ظہور ہوا ، ان میں یہی جوہر اولیں تھا ۔ سورہ اعراف میں ہے کہ ‘‘ جب آدم وحوا نے درخت کا پھل چکھا تو دونوں کے پردہ کرنے کی چیزیں انہیں دکھائی دینے لگیں اور وہ بہشت کے پتوں سے ستر پوشی کرنے لگے ۔’’ صرف حیا ہی ہے جو انسان کی عفت وعصمت قائم رکھتی ہے ۔ انسان کے تمدنی ومعاشرتی تعلقات میں اس کے قیام یا ناموس کے تحفظ کی غرض سے قرآن میں سب سے زیادہ شدید وسخت احکام ہیں ۔ بدکاری جو بے حیائی کی انتہا ہے اس کی سزا 100 درے مقرر کی ہے اور اس سخت سزا کے ساتھ یہ بھی تاکید ہے کہ رحم کا خیال بھی دل میں نہ لایا جائے ۔
عورت کے ناموس کا وقار قائم رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی تہمت سے پاک رہے ، جو انتہائی بے حیائی ہو۔ اور اسی لیے عورت پر تہمت لگانے کی سزا 80 درے ہیں ۔ اور اس سزا کے ساتھ تہمت لگانے والے کو اس دائمی لعنت میں گرفتار کر دیا ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ اسکی شہادت مردود ہے ۔ یعنی وہ ہمیشہ کے لیے پایہ صداقت سے گرا دیا گیا ہے ۔ میں آپ سے دریافت کرتی ہوں کہ ایسے ملک میں جہاں یہ قوانین نافذ نہ ہوں ، مختلف مذاہب کی قومیں آباد ہوں ، جہاں ایسے شدید ترین جرائم کی سزا اور وہ بھی خاص صورتوں میں چند مہینوں کی معمولی قید ہو ، وہاں حفظ ناموس کے لیے زیادہ احتیاط اور سخت موثر تدابیر کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ کہا جا سکتا ہے کہ ناموس کی حفاظت محض انسانی طبائع کی شرافت اور خیالات کی پاکیزگی پر مبنی ہے ۔ بلا شبہ یہ صحیح ہے، لیکن یہ بھی فطرت وطبیعت کا مقتضا ہے کہ اگر ماحول موجود ہو تو شرافت ،رذالت سے اور پاکیزگی، گندگی سے بدل جاتی ہے ۔ اس لیے ماحول کو درست رکھنے اور سوسائٹیوں کو خرابیوں سے پاک رکھنے کے لیے چند قواعد وضوابط بنانے پڑتے ہیں ۔ لیکن میں اس کی موید نہیں ہوں کہ عورتوں کو علمی وتمدنی اور معاشرتی ترقی میں حصہ لینے کا موقع ہی نہ دیا جائے عہد رسالت سے لے کرجب تک مسلمان ترقی کرتے رہے ، عورتیں اس میں برابر حصہ لیتی رہیں ۔ جہاد وغزوات ، درس وتدریس ، ایثار وسخاوت غرض ہر مرحلہ میں عورتوں کے نام اور انکے کارنامے موجود ہیں ۔ام المومنین حضرت عائشہؓ کا درس، حضرت فاطمہؓ اور حضرت نائلہ کی تقریریں ، حضرت سکینہ کی فصاحت وبلاغت اور اعلی درجے کی قابلیت قرون اولی کی مثالیں ہیں ۔ پھر بنو امیہ او ربنو عباس کے زمانہ عروج میں بھی خواتین کچھ کم ممتاز نظر نہیں آتیں۔ ادب وشاعری کے علاوہ سیاسی معاملات میں بھی ان کا رسوخ تھا ۔ ایک خاتون ام الفضل کے حالات میں لکھا ہے کہ ریاضی وہئیت میں اس کو کامل درک حاصل تھا ، اور ان علوم میں وہ ایک زبردست مصنفہ تھی۔ اسی طرح ایک اور خاتون فخر النسا جامع مسجد بغداد میں ہزاروں جید علما کے سامنے نہایت ہی فصیح لیکچر دیتی تھی۔ بوران خلیفہ مامون الرشید کی بیوی زبردست عالم تھی ، یونانی اور لاطینی زبانوں پر اس قدر عبور تھا کہ فلسفہ یونان کی کئی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ۔ علم ہئیت میں اس کے کمال کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی تعمیر کردہ رصدگاہ میں اجرام فلکیہ کا مطالعہ کرتی رہتی تھی ۔ اسلامی احکام اور ان تاریخی واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ جس طرح مرد علوم و فنون حاصل کرنے اور معاشرتی تعلقات قائم کرنے میں آزاد ہیں ، اسی طرح عورتیں بھی آزاد ہیں ۔ وہ علمی مجالس میں ، قومی درسگاہوں میں ، ملی تحریکوں میں ، مسجدوں کی جماعتوں میں ، میدان کارزار میں شریک ہو سکتی ہیں ۔ وہ ہوا میں اڑ سکتی ہیں اور سمندر میں غوطہ لگا سکتی ہیں ، غرض زندگی کی ہر منزل میں وہ مردوں کے دوش بدوش کام کر سکتی ہیں لیکن حدود کے اندر رہ کر اور اخلاق اسلامی کو ملحوظ رکھ کر ۔
ہماری ترقی ریاضی وفلسفہ سے ممکن نہیں بلکہ اصل میں اس کا انحصار قرآنی تعلیم پر ہے اور قرآن کی تعلیم اور تاریخ وسیر کے مطالعہ سے انسان خود اپنے نفس ، اپنی طبیعت اور اپنے خیالات کی اصلاح کر سکتا ہے ۔ حقیقتاً یہ قومی بدقسمتی ہے کہ باوجود یکہ قرآن حکیم اور رسول خداﷺ نے علم کی فضیلت کو نہایت صاف طور پر بیان کیا ہے اور حصول علم کو رفعت درجات کا ذریعہ گردانا ہے اور جاہل او رعالم کے درجہ کا امتیاز بتا دیاہے اور ایک صاف حدیث میں لڑکیوں کے متعلق مردوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ ‘‘ جس مرد نے اپنی لڑکی کی تربیت کی ، اس کو ادب سکھایا اور اس کو تعلیم دی اور بہت اچھی طرح تعلیم دی اور اس کا نکاح کر دیا ۔ ایسے مرد کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔’’ ہمارے علمائے کرام نے ہماری عورتوں کی تعلیم کی طرف سے اتنی بے پروائی اختیار کی کہ انکو علوم مذہب سے بھی محروم کر دیا ۔
میں دریافت کرتی ہوں کہ آج ہماری قوم میں کتنی عورتیں ہیں ، جن کو قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم دی گئی ہے ۔ کیا عورتوں کے لیے یہ تعلیم شجر ممنوعہ تھی ۔ کیا عہد سعادت اور علمی عروج کے زمانہ میں مسلمان عورتیں اس تعلیم سے محروم رکھی گئی تھیں ۔ آج ہماری قوم میں جو آزادی اور اعمال مذہب سے بے پروائی اور بڑی حد تک بے دینی کی لہر پیدا ہو گئی ہے اس کا اصلی سبب یہی ہے کہ عورتیں علوم مذہب تک سے محروم رکھی گئیں ، بلکہ اب تو روز بروز مرد بھی اس سے کوسوں دور ہوتے جاتے ہیں۔ دیکھیے ہمارا انجام کیا ہوتا ہے اور کس گڑھے میں اوندھے منہ گرتے ہیں ۔
بحیثیت مسلمان کے ہماری نجات بغیر مذہبی تعلیم اور مذہبی تربیت کے ممکن نہیں ۔ ہم دنیا میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لیں ، ہم مغربی خواتین سے ہزارہا میل آگے کیوں نہ نکل جائیں ، لیکن یاد رکھو کہ اس کی سرحد تنزل سے مل جائے گی ۔ میں آپ سے درخواست کرتی ہوں ، کہ اگر سردست مرد ایسی تعلیم کا انتظام نہ کریں تو آپ خود ہی مطالعہ سے اپنی معلومات بڑھائیں ۔ قرآن کو ترجمہ سے اور اگر وقت ہو تو تفسیر کے ساتھ پڑھیں ۔احادیث ، تاریخ اور سیر کی کتابوں کا مطالعہ کریں ۔ بلکہ آپ خود بھی مستفید ہوں اور محلہ اور آس پاس کی بیبیوں کو بھی فائدہ پہنچائیں ۔ پھر آپ دیکھیں گی کہ کیا بصیرت پیدا ہوتی ہے ، خدا کی رحمت وبرکت آپ کے شامل حال ہو کر آپ کیسی پکی اور سچی مسلمان بنتی ہیں ۔
خواتین! میں نے مذہبی تعلیم اور اعمال کے متعلق مسلم یونیورسٹی کے جلسہ میں بھی توجہ دلائی ہے لیکن تم کو زیادہ توجہ دلاتی ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں ہی قوموں کو بناتی بگاڑتی ہیں ۔ مائیں ہی ہوتی ہیں ، جو انسان کی تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہیں ، بیویاں ہی گھروں کو شاد وآباد رکھتی ہیں ، اس لیے ان ہی پر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ خدا نے تمہارا مرتبہ بلند کیا ہے ۔ نبی کریمؐ نے تمہارے ساتھ شفقت فرمائی ہے ۔ قرآن مجید کے احکام واصلاحات علی العموم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے برابر ہیں ۔ لیکن تمہارے متعلق خصوصیت سے تذکرہ کیا ہے ۔ سورہ نسا اور سورہ نور میں مخصوص طور سے تمہارا تذکرہ ہے ۔ خیال تو کرو کہ جس سورہ میں تمہارے متعلق زیادہ احکام ہیں ، اس کا نام سورہ نور ہے ۔ گویا تم حقیقت میں نور ہو ۔ پس کیسے افسوس کی بات ہو گی کہ تم ظلمات میں گھر جاؤ۔ شیطان جو انسان کا دشمن ہے ، تم کو مرتبہ اعلی سے قعر مذلت گرانا چاہتا ہے ۔ اس لیے تم کو زیادہ ہوشیاری اور مذہب کی پابندی کی ضرورت ہے ۔ تم تعلیم وتربیت میں کوشش کرو اور دنیا میں اخلاق کا نور پھیلاؤ ۔ تم دنیا کی بہترین متاع ہو ، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ۔ الدنیا کلھا متاع الدنیا المرأۃ الصالحہ ‘‘ دنیا( یوں تو ) ساری کی ساری ایک پونجی ہے ، مگر دنیا کی سب سے اچھی پونجی نیک عورت ہے ۔’’
پس صالحہ بنو تاکہ اس حدیث کی مصداق ہو جاؤ ۔
خواتین! میں نے آج جو کچھ آپ کے سامنے کہا ہے ، اس کو اپنا فرض سمجھا ہے اور ممکن ہے کہ پھر ایسا موقع نہ ملے کہ میں آپ سے خطاب کر وں ۔ اس لیے یہ بھی درخواست کرتی ہوں کہ آپ میری اس تقریر کو ازاول تا آخر اپنے اوقات فرصت میں غور کے ساتھ مطالعہ کریں اور اپنی مخلصہ اور سچی مخلصہ کی نصیحت پر دل سے غور وخوض کرتی رہیں ۔ اللہ تعالی اسلامی احکام کی پابندی اور قوانین اسلامی پر چلنے کی توفیق وہمت عطا فرمائے ، تاکہ مذہب اسلام کی شمع ، تقلید کی باد تند سے جھلملا نہ جائے ۔ اب میں آپ سے دعا کی طالب ہوں اور خداوند کریم سے یہ دعا کرتی ہوں کہ
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العیم ۔ربنا وجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک وارنا مناسکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم ۔
اے خدا ہماری دعا قبول کر ، تو ضرور سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں اب فرمانبردار قوم بنا اور ہمیں ہمارے راستے دکھا اور ہماری توبہ قبول کر ، تو ضرور توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
( :: ہفت روزہ ، سچ لکھنو 28 فروری1927بحوالہ ہفت روزہ بیداری)