ایک نئی ادبی تحریک کی ضرورت
کچھ عرصے سے ، شدت کے ساتھ ، مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارا ادب بڑی حد تک بے معنی ، پھیکی اور غیر متعلق سرگرمی بن کر رہ گیا ہے ۔ اس میں نہ کوئی نیا تجربہ ہو رہا ہے اور نہ سماجی مسائل کے تعلق سے نئی فکر کی تلاش ہو رہی ہے۔ میں کم وبیش سارے قابل ذکر ادبی رسالے پڑھتا ہوں اور ان میں بہت ہی کم تحریریں ایسی نظر آتی ہیں ، جن کا تعلق آج کی زندگی اور آج کے عصر سے محسوس ہوتا ہے۔ ادبی تحریر دوسری تحریروں سے اس لیے ممتاز اور الگ ہوتی ہے کہ اس میں فنی شعور ، قوتِ اظہار کی گرمی ، لطافت کی چاشنی اور بات کو ایسے رس کے ساتھ کہنے کا سلیقہ ہوتا ہے کہ وہ تحریر ہمارے باطن کا حصہ بن جاتی ہے ۔ ادبی رسالے پڑھتے ہوئے یوں بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریریں عصری آگہی سے عاری ہیں ۔ یہ تحریریں سماجی مسائل کی ، ادبی سطح پر اور ادبی انداز سے ، ترجمانی نہیں کر رہی ہیں ۔ یہاں فرد معاشرے کے اجتماعی دھارے سے دور او رکٹا ہوا نظر آتا ہے ۔ کچھ رسائل ایسے ہیں ، جو ادب کے معیار کوبرقرار رکھتے ہیں ، لیکن ایسی بیرون در بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ ان کا تعلق ہمارے اپنے سماج سے قائم نہیں ہوتا ۔ اسی طرح ادب کچھ اجارہ داروں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے ۔ یہ اجارہ دار ان اداروں پر چھائے ہوئے ہیں ، جہاں سے زندہ ادب قائین تک پہنچ سکتا ہے ۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ادب سچ نہیں بول رہا اور اسی لیے بے معنی و بے اثر ہے ۔ قارئین ادب کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے ۔ ادب جب سچ بولنا بند کر دیتا ہے یا اس سے سچائی کی روشنی نکلنا بند ہو جاتی ہے تو وہ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر بن جاتا ہے ۔ آزادی کے ساتھ سچائی کا ادبی اظہار ہی ادب ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ غیر تخلیقی صورتحال کیوں پیدا ہوئی ؟ اس کا براہ راست تعلق ہمارے اپنے معاشرے کی صورتحال سے ہے ۔ اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیے تو یوں محسوس ہو گا کہ ہم اور ہمارا معاشرہ جھوٹ ، منافقت ، گندگی ، غلاظت ، الزام تراشی ، ڈکیتی ، اغوا ، قتل ، بے ایمانی ، دھوکے ، فریب ، جذباتیت وغیرہ جیسی منفی قدروں پر کھڑا ہے اور بے معنی نعروں پر زندہ ہے ۔ اہل سیاست جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سچ نہیں ہے اور جو سچ ہے وہ کہہ نہیں رہے ہیں۔ اہل اختیار نے عوام کے گلے میں پھندا ڈال رکھا ہے اور انہیں جھوٹے خواب دکھا رہے ہیں ۔ تاجر وصنعت کار کھلے بندوں منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی میں مبتلا ہیں ۔ کوئی اخلاقی قدر اب ان کا راستہ نہیں روکتی ۔ سارا معاشرہ ڈاکو ہو گیا ہے ۔ ہر اصل چیز کی نقل تیار ہو رہی ہے ، جس نے اصل کی جگہ لے لی ہے ۔ ملاوٹ ہمارا مسلک بن گیا ہے ۔ رشوت ستانی نے سارے حدود توڑ دیے ہیں ۔ رشوت لینے والے کا ضمیر اب رشوت کی حمایت میں دلائل دے رہا ہے ۔ معاشرے کا غالب حصہ اس بیماری میں مبتلا ہے۔ جو جتنا بڑا ہے اس کے ہاتھ اتنے ہی لمبے ہیں ۔ منشیات کے تاجر اخباروں اور اسمبلیوں تک پہنچ گئے ہیں اور باہر کی سکڑتی ہوئی منڈیوں کے بجائے اب اپنے ملک کو منشیات کی نئی منڈی بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور اب تک ، جیسا اخباروں سے پتا چلتا ہے کہ تیس لاکھ قریب اس لعنت کے اسیر ہو چکے ہیں ۔
جمہوریت کا تیسرا کھونٹا یعنی صحافی اور صحافت بھی زر پرستی کی بیماری میں مبتلا ہیں ۔ اسمگلر سارے معاشرے میں دندناتے پھر رہے ہیں ۔ تمام اسمگل شدہ اشیائے ضرورت عام دکانوں پر دستیاب ہیں ۔ درآمدی اشیا (امپورٹڈ) کا استعمال مرتبے کی علامت بن گیا ہے ۔ اب سادگی ہمارا سماجی شعار نہیں رہا ۔ آج ہم اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ معیار پرنمائشی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ سارے تہذیبی ، سماجی ، قانونی ، تعلیمی اور سیاسی ادارے بے توقیر ہو کر بے اثر وبے معنی ہوتے جا رہے ہیں ۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے ۔ احتساب نام کی کوئی موثر چیز باقی نہیں رہی ۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ باعزت ہے ۔ قانون اس کی جوتی کے نیچے ہے ۔ وہ من مانی کر سکتا ہے اور اس کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں خدا کو اس کی مسند بلند سے ہٹا کر اور خدائے زر کو اس کی جگہ بٹھا کر ، زر پرستی کی پوجا کی جا رہی ہے ۔ ہم سب دن رات دولت بٹورنے کی خواہش میں مبتلا ہیں اور ہم اس کمر توڑ بوجھ تلے کچلے ہوئے ، خوف زدہ، مسائل میں گھر ے ہوئے دبکے بیٹھے ہیں ۔ سارا ملک امیر او رغریب میں تقسیم ہو گیا ہے ۔ اب یہی دو نسلیں یا دو ذاتیں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں ۔ امیر طبقہ ، جس کے ہاتھ میں دولت ، اختیار اور اقتدار یکجا ہو گیا ہے ، عوام کو خواب آفریں جھوٹے نعروں سے لبھا کر آنے والی روشن صبح کی نوید جانفزا دے رہا ہے ۔ اہل سیاست عوام کے مسائل اور ان کے دکھوں پر مگر مچھ کے آنسو بہا کر سینہ کوبی کر رہے ہیں اور اپنے اپنے طور پر بتا رہے ہیں کہ دراصل وہی اس کے نجات دہندہ ہیں ۔ اخلاقی اقدار ، جن پر ہر زندہ و صحت مند معاشرے کی بنیاد قائم ہوتی ہے ، کم وبیش دم توڑ چکی ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ہر قابل ذکر چیز کو اپنے باطن میں مسترد کر دیا ہے اور اپنے اس جرم کو خاموشی سے چھپائے بیٹھے ہیں ۔ جو اخلاقی قدروں کی بات کرتا ہے یا ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے ہم اسے ‘‘ڈیم فول’’ سمجھتے ہیں ۔ شرافت ، خدمت ، نیکی ، سچ ، ایثار ، حب وطن کی قدریں بے معنی ہو کر سوکھ گئی ہیں ۔ اگر یہ قدریں کہیں ہیں تو عوام میں نظر آتی ہیں ۔ طبقہ خواص عام طور پر ان سے عاری ہے اور عام طور پر دولت بٹورنے میں لگا ہوا ہے ۔ یہ طبقہ جب تقریریں کرتا ہے تو برملا کہتا ہے کہ بھائیو او ربہنو ! ہم رشوت ستانی ، بدعنوانی اور بے ایمانی کو ختم کر کے دم لیں گے ۔ ہم قانون شکنوں کے ہاتھ پیر توڑ کر انہیں بے اثر بنا دیں گے ۔ ہم سب کے لیے یکساں انصاف فراہم کریں گے ۔ لیکن عملًا کچھ نہیں کرتا ۔ اب تک بڑ ے آدمی کا ہمارے سامنے یہ تصور تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا تھا ، راست گو ہوتا تھا ، اب یہ پاش پاش ہو چکاہے ۔ پہلے بڑا آدمی وہ تھا جو ایمان دار ہوتا تھا ، جس کے کردار پر بے ایمانی اور بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں ہوتا تھا ۔
اساتذہ کرام کو دیکھیے ۔ ان میں نئی نسل تک علم پہنچانے کا جذبہ اور لگن عام طور پر موجود نہیں ہے ۔ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک کے اساتذہ سے ملیے تو وہ تنخواہ بڑھوانے، بغیر محنت اور مزید علم حاصل کیے بغیر آگے بڑھنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ یہی ان کا موضوع گفتگو ہے ۔ ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو نقل کر کے یا نمبر بڑھوا کر درجہ اول میں پاس ہوئے اور سفارش کے ذریعے نوکری پر پہنچے ۔ سفارش ہمارا دین وایمان بن گئی ہے ۔ اہلیت نام کی کوئی چیز ہمارے ہاں قابل ذکر حد تک باقی نہیں رہی ۔ زندگی میں سب کے لیے یکساں مواقع کا کوئی تصور ہمارے ہاں زندہ صورت میں موجود نہیں ۔ صبح کا اخبار پڑھیے اور دیکھیے کہ معاشی ، معاشرتی ، فکری ، انتظامی اور سیاسی سطح پر کیا ہو رہا ہے ؟ اخبار پڑھ کر حساس آدمی کا اپنا سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے اور طبقہ خواص کے کرتوت دیکھ کر شرم سے جھک جاتا ہے اور یہ سوال ذہن میں چکر لگاتا ہے کہ یہ رہنما ، یہ عمال ، یہ بے تخیل و بے بصیرت مشہور آدمی اور قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے کیا کر رہے ہیں اور کہاں لے جا رہے ہیں اور بالآخر ان سب اعمال کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا ؟ وہ نتائج جو نابیناؤں کو نظر آسکتے ہیں ، آخر انہیں کیوں نظر نہیں آرہے ہیں ؟ یہ بات ہر لمحہ تشویش وپریشانی میں اضافہ کرتی ہے ۔ کیا یہی وہ ملک تھا ، جسے ہم سب نے بے حساب قربانیاں دے کر وجود بخشا تھا اور پیار سے اس کا نام ‘‘پاکستان’’ رکھا تھا یعنی پاک ملک …… جرائم سے پاک ، بے ایمانی سے پاک، ناانصافیوں سے پاک اور اخلاقی اقدار کا روشن ستارہ، شرافت ورواداری کا قلعہ ،بلند فکری ، روشن خیالی، بصیرت افروزی ، تدبر وفراست ، عقل و شعور کا گہوارہ۔
یہ ملک عزیز جن بنیادوں پر بنایا اور قائم کیا گیا تھا ، اب اپنی جگہ سے ہٹ کر اتنی دور چلا گیا ہے کہ اس سے ہمارا رشتہ کمزور پڑ گیا ہے اور یہ بات اتنی خطرناک ہے کہ اس پر جتنی تشویش کا اظہار کیا جائے ، وہ کم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ غیر تخلیقی معاشرہ بن کر رہ گیا ہے ۔ ایسا معاشرہ جس میں قابل ذکر مثبت چیز زندہ نہیں رہ سکتی اور نہ پھل پھول سکتی ہے غیر تخلیقی معاشرہ دراصل ایک دلدل ، ایک خارزار ہوتا ہے ، جس میں انسان دھنس تو سکتا ہے، لہولہان تو ہو سکتا ہے ، ذہنی صحت کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ اس لیے آج ہمارے معاشر ے کا عام آدمی لہولہان ہے اور ادب ایک بامعنی تخلیقی سرگرمی نہیں رہا ہے ۔ یہی وہ صورت حال ہے ، جو مردہ نظام حیات کو بدلنے اور تبدیلی کے عمل کو قابل قبول بنانے کے لیے راستہ صاف اور ہموار کرتی ہے ۔
آج ہمارے ادیب ، ہمارے دانشور اور ہمارے سوچنے والے ذہن کے سامنے دو راستے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس صورتحال کو قبول کر کے اس میں دھنس کر فنا ہو جائے یا پھر اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی سبیل پیدا کرے ۔ اس وقت ہمیں اپنے معاشرے کی تاویل کرنے کی نہیں ، بلکہ اسے بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اس معاشرے کو سامنے رکھ کر اپنی تحریروں سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ادب کو بند اور مقفل کمرے سے نکال کر عوام تک پہنچانے اور ان کے مسائل کو سامنے لانے کی اسی طرح ضرورت ہے ، جس طرح 1930 کے بعد ترقی پسند تحریک نے سارے معاشرے میں شعور پیدا کر کے عام انسان کو بلند کیا تھا اور ترقی پسند قدروں کو معاشرے کی عام فکر کا حصہ بنایا تھا قوموں کی زندگی میں ایسے مرحلے آتے ہیں ، جب ادیب ودانشور کو ، معاشر ے کو تبدیل کرنے کا تاریخ ساز کام کرنا پڑتا ہے ۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے پہلے اپنے معاشرے کی موجودہ صورتحال کو سمجھیے ، اس کا تجزیہ کیجیے ، اس پر غور وفکر کیجیے اور پھر اسے تبدیل کرنے کے راستے تلاش کیجیے ۔ اگر آپ نے اپنی تحریروں سے اس نئے شعور کو عام کر دیا تو تبدیلی کا راستہ صاف ہو جائے گا ۔ ایسا ادب ‘‘تخلیق’’ کرنے سے کیا حاصل ، جو بے معنی ہو ، جو عصری آگہی سے عاری ہو اور جو صرف بھوسا ہو ۔ آپ جو محسوس کر رہے ہیں ، آپ جو اپنے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں، تاریخی قوتیں جس سمت جا رہی ہیں ، اسے آزادی کے ساتھ اپنی تحریروں ، اپنی کہانیوں ، اپنی نظموں ، اپنی شاعری ، اپنے ناولوں میں بیان کر دیجیے۔ اسی عمل سے معاشرے کا شعور بیدار ہو گا اور رفتہ رفتہ کارواں بنتا چلا جائے گا ۔ الیگزینڈر سولزے نٹسن (Solzhenitsyn) بیس سال جلاوطنی کی زندگی گزار کر جب 27 مئی 1994 کو اپنے وطن روس پہنچا تو اس نے ایک مجمع سے مخاطب ہو کر کہا : ‘‘ مجھے معلوم ہے کہ آپ کی موجودہ زندگی انتہائی سخت اور دشوار ہے اور ان گنت مسائل اور مصائب میں پھنسی ہوئی ہے اور یہ کہ آپ کے اور آپ کے بچوں کے سامنے کوئی واضح وصاف مستقبل نہیں ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ میں ایک ایسے روس میں واپس آیا ہوں ، جو اذیتوں میں گھرا ہوا ، حواس باختہ ہے اور اتنا بدل گیا ہے کہ اس کی شکل بھی پہچانی نہیں جاتی ۔ وہ روس جو افراتفری کے عالم میں اپنے آپ کو تلاش اور اپنی حقیقی شناخت کو دریافت کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔’’ سولزے نٹسن نے مزید کہا : ‘‘فی الوقت وہ اپنا ادبی کام بند کر دے گا اور نئے روس کی تعمیر کے کام میں لگ جائے گا ۔’’
کیا ہمارے ادیبوں اور دانشوروں کو اس افراتفری کے عالم میں ، پاکستان اور اپنی حقیقی شناخت کو دوبارہ دریافت کرنے اور اس معاشرے کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاکہ ہم اس غیر تخلیقی ، سفاک ، اندھے اور بہرے ، عوام دشمن معاشرے کو تخلیقی ، انصاف پسند اور عدل پرست اخلاقی قدروں پر قائم معاشرہ بنا سکیں ۔ یہ سوال تاریخ نے ہماری لوح تقدیر پر جلی حرفوں میں لکھ دیا ہے ۔ آئیے ہم سب اسے مل کر پڑھیں ۔