باسمہ تعالی
محترم بخاری صاحب
سلام مسنون : آپ کا تحفہ تازہ شمارہ ‘‘سوئے حرم’’ کئی دن پہلے موصول ہوا تھا ۔ مگر بعض تحریری مصروفیات اتنی مہلت نہیں دیتیں کہ توجہ کا رخ کسی دوسری طرف کیا جا سکے ۔ عرصہ د وماہ سے ایک مقالہ قلمبند کرنے کے درپے تھا ۔ الحمدللہ 15-03 کو فارغ ہوا ۔ آپ کی معلومات کے لیے مقالے کا عنوان لکھا جاتا ہے ۔ ‘‘ منصب قیوم اور منصب مجدد کی حیثیت اور حقیقت’’ یہ مقالہ 29 صفحات پر مشتمل ہے ۔ صفحہ کا سائز 6×9 ہے یہ مسئلہ علما اور مشائخ کے درمیان 4 صدیوں سے باعث بحث تھا ۔ الحمدللہ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کی سعادت راقم کے قلم کو حاصل ہوئی ہے ۔ اس مصروفیت کی وجہ سے آپ کو رسالہ کے بارے میں کچھ لکھا، نہ ارسال کر سکا ۔ اب قابل قدر ‘‘سوئے حرم’’ کے بارے میں لکھا جاتا ہے ۔
ص05 پر آواز دوست کے عنوان سے ‘‘20 برس بعد ’’ بڑا حیرت انگیز واقعہ ہے ۔ عبدالرحمان صاحب کی محنت رنگ لائی ۔ صادق صاحب کے وجود کی کائنات میں شریعت مصطفوی کا بیج بو دیا ۔ انسان کا قلب جو پتھر سے زیادہ سخت ہے جس کی مثال قرآن میں یوں دی گئی ہے ۔ قرآن اگر پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ قرآن کی جلالت کی حرارت سے جل کر خاکستر ہو جاتا۔ مگر انسان کے قلب پر اس کی تاثیر اس کے برعکس ہے ۔ قلب کو زندگی عطا کر دی جاتی ہے ۔ یہ کمال حضورﷺ کے قلب مبارک کا ہے ۔ جب قرآن حضورﷺ کے قلب پر اتارا جاتا ہے تو قرآن کی حرات رحمت کے سمندر میں داخل ہونے کے بعد ایسا خوشگوار ہو جاتی ہے کہ پھر جیسے جیسے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے یہ دل کی وادیوں کو سیراب کرتا چلا جاتا ہے ۔ سبحان اللہ
عبدالرحمان صاحب نے قرآن کریم انسان کے وجود پر نافذ کر دیا ۔ص19 پر ‘‘مہمان’’ کے عنوان سے جو واقعہ درج ہے اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ روائتی انداز سے ہٹ کر لکھا گیا ہے ۔ اس لیے ذہن میں اس طرح نقش ہو گیا ہے کہ شاید بھولنا بھی چاہیں تو نہ بھول سکیں ۔ ص34 پر ‘‘خوابوں کی تعبیر تک’’ عنوان سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ کسی خواب کی تعبیر درج ہو گی مگر معاملہ برعکس ہے ۔ وہ نیند میں دیکھا ہوا خواب نہیں حقیقی ہے ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا ہوا۔ ص75 پر قیامت کے دن لوگ اپنی ماؤں کے ناموں سے پکارے جائیں گے ؟ آپ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا جس کے لیے کبھی ذہن میں سوال پیدا نہ ہوا تھا ۔ آپ نے ایسا سوال تلاش کر کے لکھا ہے کہ جس میں اتنی کشش ہے کہ اس کو سب سے پہلے پڑھنے کو ترجیح دی گئی ہے ۔ خدا کرے اس پر مزید روشنی ڈالی جائے ۔ یہ صدیوں پرانا عقیدہ ہے ایک بار کے لکھے سے ماند نہ پڑ سکے گا ۔ ص07 پر خالد عاربی صاحب سے ملاقات ہو گئی ۔ انکی باتیں سب کی سب آنکھوں نے پڑھیں دل نے سنیں ۔ عاربی صاحب کا جملہ بڑا ہی وزنی ہے جو صفحہ 12 پر ہے ‘‘ بنیادی طور پر ہمارا منصب ایک مخلص داعی کا ہے ۔ اور داعی کسی کا مخالف نہیں ہوتا ۔ پھر چونکہ ہم عملی سیاستدان نہیں ہیں اس لیے ہماری مخالفت یا موافقت میں ذاتی یا جماعتی سیاسی مفاد آڑے نہیں آتا ۔ جن دوستوں کا یہ معاملہ ہوتا ہے وہ بعض اوقات ہماری بات کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں ۔’’ والسلام
حبیبی، گجرات
باسمہ تعالی
مائی ڈیر بخاری صاحب! سلام مسنون : سوئے حرم کا تازہ شمارہ موصول ہوا ۔ دن بھر دیگر مصروفیات سے رہائی نہ ملی ۔ رات کو تادیر اور علی الصبح سے ‘‘ سوئے حرم’’ کی راہوں پر دھیرے دھیرے چل رہا ہوں ۔ سب سے آخر میں ‘‘موثر احتجاج کی ضرورت مگر کیسے ’’ کے زیر عنوان تین صفحات پر پھیلا ہوا مضمون جب نظروں سے گزرا تو قلم ہاتھ میں آچکا ہے ۔ وہ آواز جو اظہار کی متلاشی تھی مگر سینہ میں محبوس تھی اس کو اپنا ہم راز جب مل گیا تو اس کواتنی قوت مل گئی ہے کہ وہ سینہ سے نکل کر الفاظ کی صورت میں جنم لیتی ہوئی کاغذ کی پیشانی پر پھیلی جا رہی ہے ۔ خدا کرے یہ آواز آپ کی آواز میں مل کر ایک نئی طاقت بن جائے ۔
جس زاویہ فکر کو آپ نے عیاں کیا ہے ۔ مجھے خیال تھا شائد میں اس زاویہ فکر میں تنہا ہوں ۔ مگر اب یہ احساس معدوم ہو چکا ہے ۔ دلگیری جو مایوسی کا ثمرہ تھی اسکی جگہ دل میں حوصلے کی صدا ملی ہے ۔ ارادے اور عمل کی راہ ہموار ہو چکی ہے ۔ چند روز قبل چند احباب جو درد دل رکھتے ہیں تشریف لائے۔ اسی موضوع پر فکر کی دعوت انہوں نے دی ۔ مگر ان کا طریقہ وہی تھا جو پہلے آزمایا جا چکا ہے ۔ تو ان سے گزارش کی کہ امت مسلمہ اس وقت عددی لحاظ سے کم نہیں اپنی افرادی کثرت کی وجہ سے اقلیت کے دائرہ سے باہر ہے ۔ مگر پھر بھی اقلیت میں ہے ۔ تو ان کا سوال تھا کہ وہ کیسے ؟ ان کی خدمت میں عرض کیا کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر شعور میں پست ہونے کی وجہ سے اقلیت میں ہے ۔ ہمیں ہر قیمت پر امت مسلمہ کو ایسا شعور دینا ہے جو شعور کم از کم ان اقوام کے شعور کی ہمسری کر سکے جنہیں دنیا میں ترقی یافتہ کہا جاتا ہے۔ الحمد للہ وہ احباب اس دلیل سے متفق ہوئے مگر افسوس کہ ان کے ذہن میں یہ بات نہ آئی کہ اس عمل پر سوچ وبچار کر کے کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے ۔ امید ہے وہ احباب جب لائحہ عمل سامنے آئے گا تو شریک سفر ہونگے ۔ آپ سے درخواست ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ سے ایڈوانس انفارمیشن کا پروگرام مرتب کر کے پیش کیا جائے ۔ تاکہ وہ لوگ قرآن اور صاحب قرآن کی عظمت کو پہچان کر رجوع کریں ۔ ایڈوانس انفارمیشن ہمیں قرآن سے حاصل ہو سکتی ہے بشرطیکہ قرآن کا مطالعہ کائنات کی جہت سے کیا جائے ۔ الحمد للہ آپ کو یہ موضوع ‘‘سیرت حبیب قرآن کی نزولی اور کائناتی حقائق کے آئینہ میں ’’ مل سکتا ہے ۔ ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔ جن امور پر افہام وتفہیم کی ضرورت ہو گی ۔ اس پر باہمی مشاورت سے ان کو سنوارا جا سکتا ہے ۔ چاولہ صاحب کی جدائی سے جو خلا پیدا ہوا اس پر صبر کی ضرورت ہے اور ان کے لیے دعاکی۔
والسلام
حبیبی ، گجرات