کسی بھی ملک کی معیشت میں صنعتی ترقی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔صنعتی ترقی کا خواب محض سرمایہ کاری اورٹیکنالوجی کے بل بوتے پر پورانہیں ہو سکتابلکہ اس کے لیے وہ ہاتھ درکار ہوتے ہیں جو سرمایہ اور محنت کو صحیح طریقے اور صحیح رخ پر استعمال لا سکیں۔یہ حقیقت ہے کہ انقلا ب مشینوں سے نہیں بلکہ انسانوں سے وجود پذیر ہوتے ہیں ۔
سینچری کی دنیا میں سرمایہ ، محنت اور مشینوں سے کام لینے والے ہاتھ جس شخصیت کے تھے اور انقلاب برپا کرنے والادما غ جس ہستی کا تھاوہ ۸۔فروری ۲۰۰۶ کوہم سے جدا ہو گئی۔ یقینا آپ جان گئے ہو ں گے یہ ہستی تھی محمد رفیع چاولہ۔ سینچری پیپر اینڈبورڈ ملزکے چیف ایگزیکٹو اور مینیجنگ ڈائریکٹر۔
سینچری پیپر اینڈ بورڈ ملز ان مقامی صنعتوں میں سے ایک ہے جنہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں ترقی کی بہت سی منزلیں طے کر لی ہیں اوریہ سب یقینا چاولہ صاحب مرحوم کی ذہانت ، لگن اور ان تھک محنت کا ثمرہ ہے ۔۱۹۸۴ میں سینچری کی باگ ڈور سنبھالنے سے قبل چاولہ صاحب میرٹ پیکجنگ کو بھی ایک اہم ادارہ میں تبدیل کر چکے تھے۔
چاولہ صاحب اٹھائیس فروری ۱۹۳۸ کو دہلی کے ایک معزز تعلیم یافتہ مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے پچاس کی دہائی میں پاکستان ہجرت کی ۔ ۱۹۶۱ میں آئی بی اے کراچی سے ایم بی اے کیااس طرح انکا شمار آئی بی اے کے پہلے گریجوایٹس میں ہوتا ہے ۔انہوں نے مینیجمنٹ اور انٹر نیشنل اکنامکس کے بہت سے کورس امریکہ کی معروف یونیورسٹیوں سے بھی کئے۔ اس طرح کالج کی غیر نصابی سر گرمیوں اور کھیلوں میں بھی وہ اعزاز حاصل کر تے رہے۔فنانشل اور انڈسڑیل مینجمنٹ میں وہ ۴۵ سالہ تجربے کے حامل تھے ۱۹۷۷ سے لے کر حیات مستعارکے آخری لمحوں تک وہ لیکسن گروپ کے ساتھ مختلف حیثیتوں سے وابستہ رہے اوراپنے اخلاف کے لیے شاندار کارکردگی اور ان تھک محنت سے بہت سے قابل تقلید نقوش چھوڑ گئے وہ جمیعت پنجابی سودگراں اور پنجابی سودگران ٹیلنٹ فورم کے بھی اعزازی سر پرست تھے۔
سنچری میں قیام کے دوران میں وہ کاغذ سے متعلقہ بہت سے اداروں اورفورمز کی سر پرستی بھی فرماتے رہے
ان کے پاس درج ذیل عہدے بھی تھے۔
چیئر مین کلینر پروڈکشن انسٹیوٹ(سی پی آئی)
سٹیرنگ کمیٹی ممبر،انوارنامنٹل ٹیکنالوجی پروگرام فار انڈسٹری
ممبر انجنیرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ
ایف پی سی سی آئی اورپی پی پی بی ایم اے کے نمائندے
کنوینر انجنیرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ
کارپوریٹ ممبر ڈبلیو ڈبلیو ایف
پاکستان میں اعلی کوالٹی کا کاغذ بنانے کا سہرا سنچری کے سر ہے ۔۱۹۹۰ میں چاولہ صاحب نے تین مشینوں کے ساتھ تیس ہزار میٹرک ٹن سے کاغذ کی پروڈکشن کا آغاز کیا اور اس کو ملک کی کاغذ کی سب سے بڑ ی انڈسٹر ی بنا دیا۔اس وقت سینچری نہ صرف آئی ایس او سرٹیفائیڈ ہے بلکہ اس میں تین اور مشینوں کا بھی اضافہ ہو چکاہے اور اس کی سالانہ پیداواری صلاحیت بھی ایک لاکھ بیس ہزار میٹر ک ٹن سالانہ سے تجاوز کر چکی ہے ۔چاولہ صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ گیارہ دسمبر ۲۰۰۵ میں ڈائیو انٹر نیشنل کے ساتھ اعلی کوالٹی کاپیکجنگ بورڈ بنانے کے ساڑھے سات بلین کے معاہدے پر دستخط ہوئے ۔
میرٹ اور سنچری کو انہو ں نے اپنی فیملی اور بچوں کی طرح پروان چڑھایا۔اور ان دونوں اداروں کاکامیاب اور روشن وجود ان کی محنت اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
چاولہ صاحب اپنے رفقا اور ماتحتوں کی ساتھ یکساں محبت کا برتاؤ کرتے تھے اور ادارے کے مفاد میں ہر وقت ان کی ہر معقول تجویزسننے اوراس پر عمل کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ان کی طرح کے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ وہ ایک شفیق باپ ، ذمہ دارشوہر،عظیم دوست، انتہائی دیانتدارپروفیشنل قائد اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے انسان اور مسلمان تھے۔گو آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی روشن کی ہوئی راہیں یقنیاً موجود ہیں اور ان پر محنت دیانت سے چل کر ہی ان سے محبت کا ثبوت دیا جا سکتا ہے ۔آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔