اصلاح و دعوت
اختلاف رائے کے آداب
ابو یحیی
اختلاف رائے کے آداب
اس دنیا میں انسان ایمان و فکر کے جس امتحان میں ہے اس میں یہ لازمی ہے کہ لوگوں میں اختلاف رائے رونما ہو گا۔ یہ اختلاف ہر مذہبی اور غیر مذہبی معاملے میں ہو گا۔ ایسے میں چند آداب ہیں جن کا ابتدائی شعور بھی ہمارے ہاں لوگوں کو نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں لوگ سنگین نوعیت کے اخلاقی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان کا جاننا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔
پہلی چیز یہ ہے کہ لوگ اختلاف رائے کے وقت فوراً سے پیشتر کسی بھی شخص کی نیت، عمل کے محرکات ، ایمان، اخلاص اور قلبی کیفیات کے بارے میں گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ جو بھی ہو یہ اخلاقی اعتبار سے بدترین جرم ہے۔ اس کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر یہ وعید کی ہے کہ کسی شخص نے اپنے بھائی پر کفر کا الزام لگایا تو یا وہ اپنی بات میں ٹھیک ہے ورنہ جھوٹا ہونے کی شکل میں اس کا اپنا ایمان سلب کر لیا جائے گا۔ ظاہرہے کہ اس معاملے میں کسی کو الفاظ سے کافر کہنا ہی شامل نہیں کسی بھی ایسے کام کی نسبت کرناجو کوئی کافر ہی کرسکتا ہے ، کہنے والے کے لیے قیامت کے دن ایسے ہی سنگین نتائج پیدا کر دے گا۔
بدقسمتی سے یہ ہمارا عام رویہ ہے کہ فرقہ وارانہ اختلاف میں عام اطمینان سے لوگوں کو کافر کہتے ہیں۔ فکری و علمی اختلاف کی شکل میں کسی بھی شخص کو اطمینان کے ساتھ دشمنوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ کفر کے الزام کی دوسری شکل ہے۔ ہم کسی کو بدنام کرنے کے لیے اس کے اعمال کے محرکات، قلبی کیفیات اور نیت کو اس طرح زیر بحث لاتے ہیں کہ گویا ہم پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں وحی کر کے بتا رہے ہیں کہ کسی نے کوئی کام کیوں کیا ہے۔ ان میں سے ہر رویہ روز قیامت ذلت و جہنم کی جس آگ میں ہمیں دھکیلے گا، اس کا ہلکا سا اندازہ بھی کسی کو ہوجائے تو ساری زندگی وہ لکھنا اور بولنا چھوڑ دے۔
اختلاف رائے میں ایک دوسری خرابی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اس مفروضے سے بات شروع کرتے ہیں کہ ہم آخری درجے کے حق پر کھڑے ہیں اور سامنے والا باطل ہے۔ جس طرح کسی کے دل کا حال صرف اللہ جان سکتا ہے ، اسی طرح حق پر صرف اللہ کے پیغمبر کھڑے ہوتے ہیں۔ باقی لوگ سب انسان ہیں اور ہمیشہ امکان ہوتا ہے کہ خود کو درست سمجھنے کے باوجود وہی غلطی پر ہوں۔ اس لیے اختلاف رائے کی شکل میں اپنی بات دلیل سے بیان کر دینا چاہیے۔ اس سے آگے بڑھ کر کسی سے اختلاف رائے کی شکل میں اس کے خلاف مہم چلانا یا اسے مجبور کرنا کہ ہماری بات صحیح مانو ورنہ اسے بدنام کرنا، اسے طعن و تشنیع اور نفرت کا موضوع بنانا وغیرہ غیر اخلاقی رویے ہیں جس کی جوابدہی اللہ تعالیٰ کے ہاں ہو گی۔
اختلاف رائے میں تیسری چیز یہ ہے کہ اکثر لوگ علم اور تربیت کے بغیر پورے اعتماد سے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ادب اور زبان کے اسالیب کو گہرائی میں نہیں سمجھتے اور پورے اعتماد سے کلام کے معنی پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ حذف، تخصیص، ایجاز جیسی باریک باتوں کو نہیں سمجھتے ، مگر کسی دوسرے کے کلام پر ایسے فیصلہ دیتے ہیں جیسا کہ وہ اس موضوع پر اتھارٹی ہوں۔ بعض اوقات لوگ پوری علمی روایات کی طرف سے گفتگو کرتے ہیں ، اسلاف کے موقف کی ترجمانی کرتے ہیں اور حال یہ ہوتا ہے کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ علم کی روایت اور اسلاف کا نقطہ نظر ان کے خلاف ہے۔ یہ چیزیں جس شخص میں ہوں اسے نہ کوئی بات سمجھائی جا سکتی ہے نہ وہ کبھی اپنی غلطی مان سکتا ہے۔ البتہ دوسرے پر پورے اعتماد سے فیصلے ضرور دے سکتا ہے۔
اگلا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کبھی دیانت داری سے دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارا اصل مسئلہ اپنی انانیت کا جھنڈا گاڑنا ہوتا ہے۔ سامنے والا لاکھ کہے کہ میں یہ بات نہیں کہہ رہا جو آپ بیان کر رہے ہیں۔ مگر معاملہ بات سمجھنے سمجھانے کا نہیں بلکہ فتح و شکست کا ہوتا ہے یا کسی کو بدنام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے بارہا ایک غلط بات کسی کی طرف ٹھونسی جاتی ہے اور پھر اس کی بنیاد پر کسی کے صحیح وغلط ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
یہ سب چیزیں جب جمع ہوجاتی ہیں تو بدتہذیبی ، غیر شائستگی، الزام وبہتان جیسی چیزیں خود بخود کلام کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یہ سب اپنی ذات میں خود ایک منفی عمل ہے جو دوسرے کو تو کم مگر ناقد کو زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔
اس لیے اختلاف اور تنقید کا درست طریقہ یہ ہے کہ دیانت داری سے کسی شخص کی پوری بات اور نقطہ نظر کو سمجھا جائے۔ اعتراض کرنے سے پہلے سوال کر کے بات کو سمجھنے کا عمل کیا جائے۔ معاملہ علمی ہے تو اعتراض اٹھانے سے پہلے اس موضوع پر نمایاں اہل علم کا نقطہ نظر سمجھا جائے تاکہ ہمارا اعتراض کہیں ہماری جہالت کا آئینہ دار نہ بن جائے۔ متعلقہ شخص موجود ہو تو اس سے اس کی بات کا مطلب سمجھ لیا جائے۔ اگر وہ کوئی وضاحت دے تو قبول کر لی جائے۔ اگر اس کی بات ہمارے نزدیک قابل قبول نہ ہو تب بھی اسے اپنی رائے رکھنے کا حق دیا جائے۔ تنقید کرنی ہو تو فرد یا گروہ کے بجائے نقطہ نظر پر کی جائے۔ اس میں بھی لب و لہجہ شائستہ رکھا جائے۔ کسی فرد یا گروہ کو بدنام کرنے کے بجائے اس کے حوالے سے وہی بات کہی جائے اور اسی طرح کہی جائے جس طرح وہ خود بیان کرتا ہو۔
جب اختلاف اس طرح کیاجائے گا تو کبھی فساد میں نہیں بدلے گا بلکہ علم کی روایت میں ترقی ہو گی۔ معاشرے میں نئے خیالات کو فروغ ہو گا۔ باہمی محبت رواداری اور معاشرے میں امن و خیرخواہی کا ماحول فروغ پائے گا۔ یہ نہیں ہو گا تو سماج میں نفرت اور بدامنی کا ماحول فروغ پاتا رہے گا۔ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں گے اور کافر قرار دیتے رہیں گے۔ اس سارے ماحول میں علم اور دعوت دین دونوں کی موت واقع ہوجائے گی۔
ذرہ اور خلا
اگر کبھی آپ کا جانا شہر کی روشنیوں سے پاک کسی صحرائی یا پہاڑی علاقے میں ہوا ہو تو رات کی تاریکی میں آپ نے آسمان کے ہر گوشے کو تاروں سے پٹا ہوا دیکھا ہو گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بظاہر ایک دوسرے سے بالکل ملے ہوئے ان تاروں کے درمیان کھربوں میل کا خلا پایا جاتا ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ سورج کا زمین سے فاصلہ تقریبا نو کروڑ میل ہے۔ جبکہ سورج کے بعد جو قریب ترین ستارہ پایا جاتا ہے وہ تقریباً 250 کھرب میل کے فاصلے پر ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کائنات میں ستاروں کی حیثیت ذروں کی سی ہے اور ان کے درمیان موجود فاصلہ اور خلا ہمارے تصور اور گمان سے کتنا زیادہ ہے۔
یہ عالم اکبر کا معاملہ تھا۔ جبکہ عالم اصغر کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ایک زمانے تک ایٹم کو سب سے چھوٹی چیز اور مادہ کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اس کے بعد سائنس کی ترقی نے یہ بتایا کہ ایٹم متعدد چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر بنتا ہے۔ پہلے الیکٹرون، نیوٹرون اور پروٹون کی نشاندہی ہوئی اور بعد میں کئی اور ذرات سامنے آئے۔ایٹم اور یہ تمام ذرات اتنے چھوٹے ہیں کہ سر کی آنکھ سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ، تصور کی آنکھ سے بھی ان کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم بطور مثال اگر ہائڈروجن کو لیا جائے جو کہ کائنات میں سب سے زیادہ پایا جانا والا عنصر ہے تو اندازہ کیجیے کہ سوئی کی نوک پر ہائڈروجن کے تقریباً پچاس کھرب ایٹم سما سکتے ہیں۔ اب تصور کیجیے کہ اجرام فلکی کے بیچ میں کھربوں میل کا جو خلا پایا جاتا ہے اس کو سوئی کی نوک پر سماجانے والے پچاس کھرب ایٹم بھرنا شروع کر دیں تو ان کی تعداد کتنی زیادہ ہو گی؟
پھر جیسا کہ بیان ہوا کہ خود ایٹم بھی بنیادی ذرہ نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے بہت سے ذرات پر مشتمل ہے۔ اس کے مرکز میں ایک نیوکلس (Nucleus) ہوتا ہے جس میں پائے جانے والے ذرات نیوٹران اورپروٹان کو ابتدائی سائنس کا ہر طالب علم جانتا ہے۔ جبکہ نیوکلس کے اردگرد الیکٹرون گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایٹم کے سائز سے مراد مرکزی نیوکلس اور اردگرد موجود الیکٹرون کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ نیوکلس اور الیکٹرون کے بیچ کا تمام تر علاقہ خلا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر ایٹم کو ایک فٹ بال کے میدان کے برابر تصور کر لیا جائے ، تو وسط میں ایک انگور کے برابر نیوکلس ہو گا اور میدان کی بانڈری لائن پرسوئی کی نوک جتنے چھوٹے الیکٹرون ہوں گے۔ جبکہ بیچ میں پوری جگہ خالی پڑ ی ہوتی ہے۔ اس کا سادہ ترین مطلب یہ ہے وہ مادہ جو جگہ گھیرنے والے ایٹم سے مل کر بنتا ہے بیشتر خلا ہی ہوتا ہے۔ اس خلا کوبھرنے کے لیے پہلے الیکٹرون کو ایٹم کا فٹبال کے میدان جتنا علاقہ بھرنا ہو گا اور پھر یہ کہیں جا کر یہ ایٹم کائنات کے خلا کو بھریں گے۔ یوں ایٹم کو بھرنے والے الیکٹرون کی تعداد اور پھر کائنات کو بھرنے والے ایٹم کی تعداد ہر شماراور اندازے سے باہر ہے۔
یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کو سمجھانا ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ جب رکوع سے کھڑے ہوتے تو ربنا و لک الحمد (اے ہمارے مالک حمد تیرے لیے ہی ہے ) کہتے اور پھر فرماتے کہ تیری حمد آسمانوں اور زمین بھر کے ہو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ بھر کے اور اس کے بعد جو تو چاہے وہ بھر کر تیری حمد ہو، (سنن ابو داؤد، رقم 760)۔
یہ دعا آج کی جدید سائنس کا علم رکھنے والا کوئی شخص جب اس علم کے ساتھ پڑھے گا جو اوپر بیان ہوا تو اسے اندازہ ہو گا کہ زمین بھر کا مطلب دراصل ہے کیا۔ پھر وہ اگر یہ بھی جانتا ہو کہ کائنات لا محدود طور پر بڑی ہے جس میں مادہ بہت کم اور بیشتر خلا پایا جاتا ہے تو وہ اس خلا کے بھرنے کے تصورسے لرز اٹھے گا۔ اسے احساس ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل کس خوبی سے یہ بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ درحقیقت کس قسم کی حمد کے حقدار ہیں۔
سچ یہ ہے کہ اللہ کی حمد کسی گنتی اور کسی تصور میں نہیں آ سکتی۔ ہاں اس کا قریب ترین اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ نے الیکٹران، نیوٹران اور پروٹان اور ان ہی جیسے چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنائی ہے۔ یہ اپنی گردش میں اللہ کی حمد کرتے ہیں۔ مگر ان ذرات میں اور ان سے بننے والے اجرام فلکی کے بیچ میں لامتناہی خلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ خلا بے مقصد نہیں چھوڑا گیا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جب کوئی مومن ایسے ہی اللہ کی حمد کرتا ہے جیسے اوپر بیان ہوا تو اس لمحے کائنات میں موجود تمام ذرات بڑھتے ہیں اور ہر خلا کو اللہ کی حمد سے بھر دیتے ہیں۔ یہی وہ حمد ہے جو درحقیقت اللہ کا حق ہے۔
مگر بدقسمتی سے بہت کم لوگ ہیں جو اللہ کی ایسے حمد کرتے ہیں جیسا کہ اس کی حمد کا حق ہے۔ اول تو لوگوں کو غیر اللہ کی تعریفوں سے فرصت نہیں۔ کبھی اللہ کی حمد کی بھی تو بے معنی ، رٹے رٹائے اورجذبات اور فہم سے عاری کچھ الفاظ کے ساتھ۔ مگر جب کبھی کوئی مومن اپنے آقا کی پیروی میں اس طرح اللہ کی حمد کرتا ہے تو اس لمحے کائنات کے سارے ذرات لا محدود خلا کو بھر کر اللہ کی حمد کرتے ہیں۔ یہ حمد ہر تصور، ہر مثال اور ہر تعداد سے بلند ہوتی ہے۔مگر بدقسمتی سے جو انسان حمد کا یہ لمحہ تخلیق کرسکتا ہے ، وہی سب سے بڑھ کر اس عظیم موقع سے غافل ہے۔