وہ بیک وقت گاؤں کاچودھری بھی تھا اور بڑا بدمعاش بھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے سلام کرنا لوگو ں کی مجبوری تھی ۔وہ اور اس کے کارندے اس بات کو خاص طور پر نوٹ کرتے تھے کہ کون سر اٹھا کر چلتا ہے اٹھے سروں کو جھکانا بلکہ سروں کی فصل کاشت کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ پولیس اورانتظامیہ کے ہاں بھی اسی کی بات سنی جاتی تھی۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔اس کے گاؤں میں پیدا ہونے کامطلب عمر بھر اس کا غلام بن کررہنا تھا۔ سیانے لوگ بچوں کو یہی سمجھا کر جوان کرتے تھے کہ اس گاؤں میں رہنا ہے توچودھری سے بنا کر رکھنی ہو گی اور اس سے بنا کر رکھنے کاسید ھا سید ھا مطلب یہی تھا کہ اسکی ہر جائز و ناجائز بات کو بلا چون و چرا تسلیم کرنا ہو گا۔
اسی گاؤں میں دو سیدوں کے گھرانے بھی رہتے تھے ۔شرافت و تقوی میں ممتاز یہ گھرانے بھی آخر شاہوں کی اولاد تھی اور‘‘شہزادوں کے سر سے بوئے سلطانی نہیں جاتی ’’کے مصداق ان کی جوان اولاد کا خون بھی جوش مارتا اور وہ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے لیکن بڑے بزرگ سمجھا بجھا کراورمنت سماجت کر کے انہیں پھرحدود میں لے آتے ۔لیکن کب تک ! ایک گھرانے کاجوان بزرگوں کی دانائی اور دور اندیشی کوحماقت اوربزدلی سمجھ بیٹھا اور اس نے چودھری کی گالیوں کے جواب میں اس کے سر پر پتھر دے مارا۔ چودھر ی کا سر زخمی ہو گیا بس پھر کیا تھا ۔ جدید اسلحہ سے مسلح ایک لشکر جرار چودھری کی زیر قیادت اس سید زادے کے گھر پر حملہ آورہوا۔ قصور ایک جوان کا تھا لیکن جواب میں پورے گھرانے کا صفایا کر دیا گیا اور اس شام اس گھر سے سات مردوں اور تین عورتوں کے جنازے اٹھے ۔ البتہ دو بوڑھی عورتیں اپنے بڑھاپے کو رونے کے لیے باقی بچ گئیں۔ اگلے روز اخبارات میں خبر آئی کہ فلاں گاؤں میں بم دھماکہ۔ دس افراد موقع پر ہلاک ۔ نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔اور پھر ان نامعلوم افراد کی فائل بھی چند ہی روز میں داخل دفتر کر دی گئی۔
اسی رات جب کہ جنازے قبروں میں اتر چکے تھے سیدوں کے دوسرے گھرانے کے سربراہ نے اپنے گھر کے سب سے پچھلے کمرے میں اپنے تمام اہل خانہ خاص طور پر تمام لڑکوں کوجمع کر کے ایک خصوصی مجلس منعقد کی اور جو کچھ ہوا اس کے تناظر میں مستقبل کی حکمت عملی طے کی ۔سربراہ نے کہا کہ جانے والے ہمارے بھائی بھتیجے تھے ۔ ان کا بدلہ بہر حال ہمارے ذمہ ہے۔ بوڑھی اماں بولی بیٹا یہ خیال دل سے نکال دو ۔ خاموشی سے زندگی کے دن پورے کرو اور آخرت کو سدھار جاؤ۔ سربراہ نے کہا نہیں اماں جی میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ ہر صورت میں بدلہ لینا ہے ۔ لیکن بیٹایہ ممکن نہیں، اماں بولی۔ سب کچھ ممکن ہے ۔ بس وقت ، محنت اور حکمت عملی درکا ر ہے۔ لیکن کیسے ؟ سربراہ نے کہا کہ بدلہ لینے کاایک ہی طریقہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم خود کوچودھری سے زیادہ طاقت ور بنا لیں۔ لیکن بیٹا یہ محض ایک خواب ہے ۔ نہ تو ہمارے پاس زمینیں ہیں اور نہ ہی پیسا۔ نہیں اماں جی طاقت کے اور بھی ذرائع ہیں۔ آج کے دورمیں طاقت کا سب سے بڑا ذریعہ اور ماخذعلم ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں یہ طاقت حاصل کرنی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو علم دلانا ہے ۔ اورہر صورت میں دلانا ہے ۔ اس میں اگرچہ بیس پچیس برس درکار ہو ں گے مگر ان برسوں کی محنت اور صبر نہ صر ف ہمارے سارے دکھ دور کر دے گا بلکہ دوسرے لوگوں کا بھی بھلا ہو جائے گا۔ساتھ ہی اس نے مثال سے بات واضح کی کہ اس وقت کا‘‘عالمی چودھری ’’بھی دنیا پر علم اور ٹیکنالوجی کے بل پر ہی حکومت کر رہا ہے ۔ اس نے یہ طاقت نعر ے لگا کر او رچودھریوں کے گھر پر پتھر مار کر حاصل نہیں کی بلکہ علم کے میدان میں مسلسل محنت سے حاصل کی ہے۔چودھری گاؤں کاہو یا دنیا کا جب تک اس سے زیادہ طاقت والا میدان میں نہیں آئے گا میدان اسی کے ہاتھ رہے گااور اسوقت تک کمزور کاتمام واویلا نہ صرف بیکار جائے گابلکہ جرم ضعیفی کی سزابھی مرگ مفاجات ہی رہے گی۔آخر میں اس نے سب سے وعدہ لیا کہ وہ اس کی ہدایات پر عمل کریں گے۔
وقت گزرتا گیا اس دوران میں اس گھرانے کو جن مشقتوں اور مصائب سے گزرنا پڑا اور جس صبر او ر اسقامت سے انہوں نے چودھری اور حالات کا مقابلہ کیا وہ الگ سے ایک داستان ہے۔ صرف بیس برس بعد اس گھرانے کے بیٹے پولیس اور انتظامیہ میں اعلی عہدوں پر پہنچ چکے تھے۔مزید پانچ برس بعد وہ دن بھی آیا کہ وہی چودھری اپنی ضرورت سے اسی سید زادے کے در پر تھا اوروہ جن کے سلام کا جواب دینا بھی اسے گراں گزرتا تھا آج خود ان کو سلام کر رہا تھا۔اور اس کے بعد کیا ہوا؟ کس طرح پچھلے پچیس برس کی فائلیں دوبارہ الہ دین کے چراغ کی طرح کھل گئیں اور کس طرح غرورکا سر نیچا اور مکافات عمل رونما ہوا یہ بھی ایک طویل داستان ہے ۔ دانش مند قارئین کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ۔‘‘خالی جگہیں’’وہ خود ہی پر کر لیں گے ۔آواز دوست میں اس داستان کی طرف اشارہ کرنے سے ہمارا مقصود تو صرف یہ بتانا ہے کہ اس جیسی بے شمار داستانیں ہمارے معاشرے میں بکھر ی پڑی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر داستان میں ہمیں پتھر مار کر قربان ہوجانے والا ‘‘ہیرو’’ تو مل جاتا ہے اور اس پر اکسانے والا‘‘شعلہ بیان مقر ر اور لیڈر’’بھی مگر حالات کی سنگینی کا صحیح ادراک کرتے ہوئے ‘‘گھر کے پچھلے کمرے ’’ میں اجلاس منعقد کرنے والا سربراہ نہیں ملتا۔اس وقت امت کو نہ صرف ہر ہر ملک میں بلکہ ہر ہر گھر میں بھی ایسے ہی سربراہوں کی ضرورت ہے جن کے باطن میں تو امت کا غم پہاڑوں سے اترنے والے دریاکی مانند جوش مار رہاہو لیکن جن کا ظاہر کسی گہرے سمند ر کی طرح پر سکون ہو۔جو نہ صرف وقت کے تقاضوں کوسمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں بلکہ اس کے لیے حکمت عملی کو بروئے کار لانے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔جوحماقت ، بزدلی ، صبر ، استقامت اور حکمت عملی کے فرق سے بخوبی آشنا ہوں۔ہماری درد مندانہ درخواست یہی ہے کہ جہاں جہاں بھی اس قسم کے لوگ موجود ہو ں ان کو پہچانا جائے اور ان کے گرد اکٹھاہواجائے تاکہ وقت اور صلاحیتوں کا بہتر استعمال ہو سکے ۔ہمارا اصل مقصد دشمن کے دانت کھٹے کرنا اور اس کو نیچا دکھاناہے نہ کہ خود کو قربان کرنا۔اس وقت ہم جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ خود کو قربان کر نے کی پالیسی ہے ۔اخلاص کے بقد را س کا اجر تو یقینا اللہ کے ہاں محفوظ رہے گا مگر آخر ہم کب تک اپنے ہاتھوں سے اپنے لاشے ،اور وہ بھی ان گنت، اٹھاتے رہیں گے؟کیا یہی ہمارا مقدر ہے ؟ یقینا نہیں ہے بس تھوڑی سارخ غلط ہو گیا ہے اسے ٹھیک کر لیاجائے اور تھوڑاصبر اورمحنت سے کام لے لیا جائے تو مستقبل ہمارا ہو گا۔
سبق سیکھنے کا ایک اور بہترین موقع ہم نے اپنی جذباتیت اور غلط رخ کی وجہ سے پھر کھو دیا ہے۔ ڈنمار ک کے کارٹونوں کے پس منظر میں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ ہمارا دشمن کس قدر گھٹیا ہے کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس کے لیے مسلسل نئے نئے حربے سوچتا رہتا ہے۔یہ وار ایسا تھا کہ اس پر احتجاج ہمارے ایمان کا تقاضا تھامگر کس طرح ؟ یہ سوال پھر اپنی جگہ موجود رہا۔ اورکوئی لیڈر اسے حل نہ کر سکا۔ضرورت اس بات کی تھی کہ لاکھوں لو گوں کو پرامن طریقے سے باہر لایا جاتا اور ان کو یہ بتایا جاتا کہ تم جس جس شعبے میں بھی ہو وہیں رہتے ہوئے اس امت کی مجموعی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے اخلاص سے اتنی محنت کرو کہ تمہار ا ایک مقام بن جائے اور اپنی نئی نسل کو علم سے مالامال کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دو یہی احتجاج ہے اور یہی اس حملے کا اصل جواب ہے۔لیکن یہ کون کرے گا۔ ایسا کرنے سے تو نام نہیں ہوتا ۔ یہ تو بیج کی طرح زمین میں دفن ہونے اور بنیادوں کی طرح بے نام رہنے والی بات ہے۔مگر اس وقت اسی دفن ہونے او رگم رہنے ہی میں ساری طاقت اور مستقبل کی پوری تاریخ کا انحصار ہے ۔بہر حال کوئی کر ے نہ کرے، کہے نہ کہے ہمیں تو بہر حال کہنا ہے ،اور کرنا ہے کہ اس امت کی بہتری ہمار امشن ہے۔
ہر حال میں آواز لگاتے رہو ازہر ۔ صحرا میں اذانوں کا تسلسل نہیں ٹوٹے
ہم نے آواز لگا دی ہے ۔اس وقت توبلا شک یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ آواز گویا صدا بصحرا ہے یا قبرستان کی ایک صدا ہے مگر آواز لگانا کبھی بیکا ر نہیں جاتا ۔کسی بھی آواز کو سننے والا ایک کان اور سمجھنے والا ایک دل بھی مل جائے تو کافی ہوتا ہے کہ ایک ہی سے دو بنتے ہیں بلکہ نہیں، ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔موثر احتجاج یہی ہے کہ اس رخ، ایک کو گیارہ بنانے کا عمل ،ہر کوئی ہر سطح پر شروع کر دے اور ساتھ ہی راتوں کو اٹھ کر روتا رہے اور اللہ سے مدد اورنصر ت بھی مانگتا رہے تو پھر تھوڑے ہی عرصے میں نہ ایسے کارٹون رہیں گے نہ ایسے کارٹونوں والے چاہے وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے ۔