عمومی ہدایات:
۱۔ ضروری ہے کہ امتحان دینے والا طالب علم ذہنی طور پر امتحان دینے والا ہو جب تک آپ ذہنی طور پر امتحان دینے کے لیے تیار نہ ہوں، آپ کی ترقی ممکن نہیں۔
۲۔ امتحان کے لیے جسمانی طور پر تیار ہو کر جائیے۔ ناشتہ، کھانا، پیشاب، پاخانہ، وضو کرکے تیار ہو کر امتحان گاہ پہنچیے۔
۳۔ امتحان گاہ وقت سے دس منٹ پہلے پہنچ کر تیار ہو جائیے، تاخیر سے آنے پر آپ لوگوں کی نظروں میں مشکوک اور‘‘بے اعتبار’’ شمار ہوں گے۔
۴۔ ‘‘سامان امتحان’’ اپنے ساتھ مکمل رکھیں۔ امتحانی گتہ، اسکیل، پنسل، کلپ، بال پن اور کم از کم دو سیاہی والے قلم جن کی نب بہت اچھی اور رواں ہو۔ اگر ایک قلم ہو تو سیاہی کی دوات، ساتھ رکھنا نہ بھولیں، کیا ہتھیار اور اسلحہ کے بغیر سپاہی کی کوئی قیمت ہے؟ سامان مکمل رکھیں تاکہ پریشان نہ ہوں۔
۵۔ خود اعتمادی بحال رکھنا، اور ذہنی تفکرات سے بچنا امتحان میں کامیابی کے لیے اہم شرط ہے۔
۶۔ جلد بازی اور شیخی مارنے سے ہمیشہ احتراز کیجیے۔ امتحان گاہ سے جلد نکلنے والا ہر ایک کی نظر میں ناکام شمار ہو گا۔ آپ کی عزت اس میں ہے کہ آپ امتحان گاہ سے آخری وقت میں نکلنے والے ہوں اس میں آپ کا رعب اور نیک گمانی ہے۔
۷۔ پرچہ سوال بار بار پڑھیں۔ ایک بار نہ سمجھیں تو دوسری بار، پھر بھی ضرورت ہو تو تیسری بار اور جب تک پرچہ سے متعلق جوابات ذہن میں حاضر نہ ہوجائیں، جوابات لکھنا شروع نہ کریں۔
۸۔ اگر پرچہ اردو، فارسی، عربی میں حل کرنے ہوں جو زبانیں دائیں طرف سے بائیں طرف لکھی جاتی ہیں تو دائیں طرف دو انگلیوں کی موٹائی کے انداز سے اور بائیں طرف ایک انگلی کی موٹائی کے انداز سے ہر دونوں طرف خالی جگہ چھوڑ کر لکیریں لگا دیں اور جو کچھ لکھیں وہ لکیروں کے اندر لکھیں۔
۹۔ خوش خطی کا خاص خیال رکھیں، اس کا بھی ایک تاثر قائم ہوتا ہے۔
۱۰۔ سوال جب شروع کریں تو موٹے قلم، مارکر، جواب سوال نمبر ۱، جواب سوال نمبر ۲، جواب سوال نمبر تین لکھیں۔ سوال کا دہرانا پرچہ امتحان پر ضروری نہیں ہوتا ‘‘جواب’’ سوال نمبر ڈال کر لکھنا شروع کریں۔
۱۱۔ عنوانات کی ضرورت ہو تو موٹے قلم یا مارکر سے عنوان قائم کرکے لکھیں۔
۱۲۔ ذیلی عنوان کی ضرورت ہو تو ذیلی عنوان بھی ڈالنا نہ بھولیں۔
۱۳۔ پیراگراف جب مکمل ہو جائے اور نئی بات شروع ہو تو نئی سطر سے نیا پیراگراف لکھنا شروع کریں۔
۱۴۔ ‘‘ارقام’’ اگر جوابات کئی ہوں یا کئی اشیاء لکھنی ہوں تو باقاعدہ نمبر ایک دو ، تین ڈال کر لکھیں۔
۱۵۔ ابجدی نمبر آپ نمبر ایک کے لیے الف، دو نمبر کے لیے ب، تین نمبر کے لیے ج ، چار نمبر کے لیے د بھی لکھ سکتے ہیں۔ ابجد، ھوز، حطی، کلمن کی تربیت سے الفاظ استعمال کر سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ نمبروں کے لیے حروف تہجی کی تربیت الف ب ت ث ج بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
۱۶۔ ایک سوال کے مختلف جوابات لکھتے وقت ہر جواب پر نمبر ڈالیں۔
۱۷۔ جو سوالات آپ کو آسان لگیں پہلے ان کے جوابات لکھیں جوابات دینے میں پرچہ سوالات کی تربیت ضروری نہیں۔ آپ اپنی صوابدید سے جوابات دیتے وقت ترتیب بدل سکتے ہیں۔
۱۸۔ امتحانی کمرے میں خاموشی انتہائی ضروری ہے۔ دوسروں کو پریشان نہ ہونے دیں۔ یکسوئی اور غور و فکر کا ماحول پیدا کرنا خاموشی پر منحصر ہے۔
۱۹۔ تہمت سے بچنا امتحان ہال میں بہت ضروری ہے، خواہ مخواہ اپنی جیب میں ہاتھ مارنا، ادھر ادھر جھانکنا، ایک دوسرے پر نظریں جمانا، آپ کے وقار کے خلاف ہے، نگران عملہ آپ پر شک کرنا شروع کر دے گا۔
۲۰۔ اصول کتابت کا خیال رکھیں۔ سوالیہ جملے کے آگے سوالیہ نشان‘‘؟’’ لگانا نہ بھولیں۔ اسی طرح اظہارِ تعجب کے لیے! ایک بار، زیادہ تعجب پر دوبار اور بہت زیادہ تعجب پر !!! لکھا جاتا ہے۔
۲۱۔ تھکاوٹ دور کرنے کے لیے دو تین بار ‘‘تین گھنٹوں ’’ میں پانی پی لیں۔ اپنے پاس سونف، سپاری، ٹافی، سونف، کشمش وغیرہ رکھیں اور بوقت ضرورت وقار کے ساتھ منہ میں رکھ لیں مگر اپنے آپ کو مذاق کا باعث نہ بنائیں۔
۲۲۔ رول نمبر لکھتے وقت براہ کرم ہاتھ روک کر خوش خطی سے نمبر لکھیے جو ہر ایک پڑھ بھی سکے۔ آپ کی جلد بازی اور جلدی میں نمبر لکھنا کئی لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے اور اس کا نقصان بالآخر آپ کو ہو گا۔
۲۳۔ مروجہ طریق کار کے مطابق امتحان میں شریک طلباء و طالبات کی حاضری لگتی ہے جس میں نام، رول نمبر اور دستخط کیے جاتے ہیں۔ اس حاضری لسٹ پر بھی نام صاف ستھرا اور خوش خطی سے رول نمبر لکھ کر دستخط کریں۔ یاد رکھیے نام ہمیشہ صاف ستھرا لکھیں جو ہر ایک پڑھ سکے اور دستخط وہ کریں جو صرف آپ ہی کر سکیں۔
۲۴۔ ایک جواب کے مکمل ہو جانے کے بعد جب دوسرا سوال لکھنا شروع کریں تو ایک سطر کم از کم خالی چھوڑدیں تاکہ یہ قدرتی فاصلہ اور حد فاصل شمار ہو۔ اس طرح ہر ورق پر صفحہ نمبر ڈالنا نہ بھولیں۔
۲۵۔ جملہ مکمل ہو تو وقف تام یعنی فل اسٹاپ کی نشانی ڈالیں۔ الٹا پیش‘‘،’’ کا مطلب ہے کہ یہ ذیلی جملہ ہے بات ابھی پوری نہیں ہوئی۔ یہ ‘‘اور’’ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
۲۶۔ اقتباس لکھتے وقت ‘‘……’’ والے نشانات ابتدا اور انتہا میں ڈالے جاتے ہیں۔
۲۷۔ ہاتھ خشک کرنے، پسینہ پونچھنے کے لیے رومالی تولیہ رکھیے۔
۲۸۔ قلم کی سیاہی مدھم ہو جانے پر سیاہی بھر لیں تاکہ لکھائی کی رونق نہ خراب ہو۔ اسی طرح مارکر کو استعمال کرکے ڈھکنے سے فوری طور پر بند کر دیں تاکہ مارکرخشک نہ ہو جائے۔
۲۹۔ آج کل معروضی سوالات ‘‘اوبجیکیٹو ٹائپ’’ کا رواج بڑھ رہا ہے۔ بعض ادارے صحیح جواب کے لیے x لکھنے کا حکم دیتے ہیں۔ بعض تعلیمی ادارے صحیح جواب کے لیے ٹک کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بعض ادارے ایک سوال کے چار پانچ مختلف جوابات لکھ کر صحیح جواب پر ‘‘گول دائرہ’’ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ ہدایات پرچہ پر درج ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق عمل کیجیے۔
۳۰۔ بعض اوقات موضوع کے انحراف یا عنوان کی تبدیلی ہو جاتی ہے اس وقت کاغذ پر قدرتی فاصلہ ڈالیں جیسے الف۔ ب۔ ت۔
یاد رہے کہ آپ کی کامیابی سے آپ کے پورے خاندان کی خوشی ہے۔ اور آپ کی ناکامی سے پورے خاندان کا غم، صدمہ اور افسوس وابستہ ہے۔ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے!
۳۱۔ اگر وقت ہو تو اپنے پرچہ کو نگران عملہ امتحان کے سپرد کرنے سے پہلے خود پڑھ لیں تاکہ اگر کوئی درستگی ہو تو کر لیں۔ درستگی کے لیے جگہ نہ ہو تو وہاں حاشیہ کی نشانی ڈال کر کناروں میں خالی چھوڑی ہوئی جگہ پر درستگی کر لیں۔
۳۲۔ پرچہ جوابات نگران عملہ امتحان کو دینے سے پہلے یقین کر لیں کہ وہ پرچہ جوابات آپس میں مضبوط باندھے ہوئے ہیں۔ اگر متفرق ہوں تو ان کو دھاگے سے باندھ لیں اس طرح کہ اردو، عربی، فارسی طرز پر لکھے گئے جوابات کو سرہانے کے دائیں کونہ میں معمولی سوراخ کرکے دھاگہ پرو کر باندھ لیں یا دوبار اسٹیپلر سے نتھی کر دیں۔ اسٹیپلر کرتے وقت بہتر یہ ہے کہ نیچے اوپر دوطرفہ اسٹیپلر کریں تاکہ کاغذجدا نہ ہو سکیں۔
۳۳۔ ہر اضافی شیٹ پر لکھنے سے پہلے اس کے ‘‘سرنامہ’’ رول نمبر اور صفحہ نمبر ضرور لکھیں تاکہ وہ ضائع نہ ہو اور آپ کے نمبر کم نہ ہوں۔
۳۴۔ یاد رکھیے کہ زندگی کے ہر موڑ پر امتحانات میں حاصل شدہ نمبروں میں ایک نمبر کی کمی بھی مصیبت بن جاتی ہے اور اس سے ڈویژن اور گریڈ ہی بدل جاتا ہے۔ لہٰذا ایک نمبر بھی بہت قیمتی ہے۔
۳۵۔ گھر سے پیشاب وغیرہ کرکے تیار ہو کر امتحان گاہ جائیے، اگر دوران امتحان مجبوری کی حالت میں پیشاب کے لیے جانا پڑے تو دیر نہ لگائیں تاکہ آپ کے ساتھی آپ سے بدگمان نہ ہوں اور یاد رکھیے کہ جیب میں ایسے موقع کے لیے ٹائلٹ پیپر ضرور رکھیے شاید بیت الخلاء میں پانی نہ ہو اور آپ پریشانی میں پڑ جائیں۔
۳۶۔ نقل نہ اتاریں، نہ اتارنے دیں۔ نہ مجرم بنیں اور نہ مجرم کے ساتھی۔
۳۷۔ آپ سے دوران امتحان میں کوئی امیدوار سوال جواب کرے تو اپنے آپ کو بہرا بنا لیں اور بات کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں۔
۳۸۔ کامیاب اور ناکام دو متوازی راستے ہیں اس بات کو یاد رکھیں۔
۳۹۔ امتحان گاہ میں تحمل، بردباری، وقار اور باہمی احترام ، مجلسی آداب اور باہمی شفقت و اکرام آپ کے لیے کامیابی و کامرانی میں معاون ہوں گے۔
۴۰۔ جو سوال سمجھ میں نہ آئے اپنی جگہ باوقار انداز سے کھڑے ہو جائیں۔ شور شرابے کی ضرورت نہیں۔ نگران عملہ آپ کی پوری مدد کرے گا اور متعلقہ استاد آپ کی راہنمائی کرے گا۔
یاد رکھیے:
٭ آپ اپنے گھر میں خواہ کتنے ہی ‘‘لاڈلے’’ ہوں، امتحان ہال میں صرف امتحان دینے والے طالب علم ہیں۔ اس حقیقت کا انکار نہ کریں۔
٭ آپ کا ذاتی رتبہ مالی وسائل، سیاسی وابستگی خواہ کچھ ہو، امتحان ہال میں آپ صرف ایک‘‘طفل مکتب’’ ہیں۔’’
٭ آپ اپنے زعم میں خواہ کتنے ہی ‘‘تیس مار خان’’ کیوں نہ ہوں، امتحانی مراحل میں نگران عملہ کے سامنے ‘‘ایک مجبور قیدی’’ کی حیثیت میں ہیں اس لیے امتحان گاہ میں ادب، شرافت، اور انسانیت کے دائرہ ہی میں رہنا آپ کا کمال ہو گا۔ اپنے آپ کو باوقار، باادب، بامراد طالب علم اور صرف طالب علم بنائیے اس لیے کہ ‘‘آپ دوسرے کے کاندھے پر سوار ہو کر زندگی کی گاڑی نہیں کھینچ سکیں گے۔’’
(بشکریہ: ماہنامہ ‘‘الفاروق’’ کراچی)