ترجمہ، محمد صدیق بخاری
بہت سال پہلے ایک انگلش فلم میں دو شعر سنے تھے جن کا مفہو م کچھ اس طرح سے ہے : ‘‘پہاڑوں کی بلندیاں ہوں ، دریاؤں کی گہرائیاں ہوں یا قوس قزح کی دوریاں سب تک پہنچو ،یہاں تک کہ تم اپنے خوابوں کو پا لو’’
اس مفہوم نے مجھے اس وقت بھی متاثر کیا تھا اور اس پیغام میں میرے لیے آج بھی کشش باقی ہے میرے خیال میں زندگی کااصول یہی ہونا چاہیے کہ انسان کوشش اور تلاش کبھی ترک نہ کرے ،بار بار کوشش کر ے اور مایوسی کو قریب بھی نہ پھٹکنے دے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے دشت و صحرا سب چھا ن مارے۔
اگر کسی کو یہ چیز حاصل ہے تو یقینا اسے ایک بڑ ا سرمایہ حاصل ہے ۔ آپ نے پہاڑ ی نالے تو دیکھے ہو ں گے ، وہ کس مستقل مزاجی اور تسلسل سے بہتے رہتے ہیں۔ چھوٹے بڑے ، صاف نوکیلے ، نر م سخت ہر طرح کے پتھر ان کا راستہ روکتے ہیں لیکن وہ سب کے بیچوں بیچ اپنا راستہ بناتے چلے جاتے ہیں۔یہی حال اس انسان کا ہونا چاہیے کہ جس کے سامنے کوئی مقصد ہو ۔ہر طرح کے حالات اس کا راستہ بھی یقینا روکیں گے لیکن اسے بھی بہر حال ان حالات کے بیچوں بیچ سفر جاری رکھنا چاہییے۔
خواب دیکھنا ایک بڑ ی چیز ہے لیکن ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ان تھک محنت کر نا اور بھی بڑ ی چیز ہے لیکن اگر ان تھک اور مخلصانہ محنت کے باوجود خواب پورے ہوتے نظر نہ آئیں تو پھر اللہ کی رضا پر راضی رہنا یقینا سب سے عظیم ترہے ۔
عین ممکن ہے کہ جیتے جی اپنے خوابوں کی تعبیر ہمارا مقدر نہ ہو ایسے میں ہمیں اس شعر کا مصداق ہونا چاہیے
دست از طلب ندارم تا کام من براید
یا تن رسد بجاناں یا جاں ز تن براید
میں اپنے مقصد کے حصول تک کبھی چین سے نہ بیٹھوں گایا تو محبوب کو حاصل کر لوں گا اور یا پھر اسی کوشش میں جان دے دوں گا۔