ہمیں مولانا وحید الدین خان کے علمی اور دعوتی کام سے متعدد اسباب کی وجہ سے نہ صرف حسن ظن ، بلکہ تعلق خاطر بھی رہا ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں خوبصورت قلم دیا ہے، ان کی بات میں زور، اثر اور کشش موجود ہے۔ دوم اس وجہ سے کہ ان کی فکر میں شخصیت پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی کی بنیاد پر تعمیر، تذکیرو نصیحت، فکر آخرت، اخلاق حسنہ، صبر،تحمل وبردباری اور انسانی اوصاف اور اخلاقی قدروں پر سب سے زیادہ زور ہوتا ہے۔ سوم اس وجہ سے کہ انھوں نے جدید علوم کے ذریعہ اسلام کی صداقت پر مشتمل ‘‘قرآن اور علم جدید’’، ‘‘تلاش حقیقت’’، ‘‘مارکسزم جسے تاریخ رد کر چکی ہے ’’، ‘‘خواتین اسلام’’ ،‘‘اسلام نئے دور کا خالق’’ جیسی اہم کتابیں لکھی ہیں، جو اسلام کی صحیح تعلیمات سے نا آشنا جدید تعلیم یافتہ افراد کے لیے سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا کی کتابوں میں قرآن کی تفسیر ‘‘تذکیر القرآن’’، ‘‘رازِ حیات ’’ جیسی کتابیں بھی اسلامی نقطہ نگاہ سے زندگی کے رخ کو بہتر بنانے کے لیے مؤ ثر کتابیں ہیں۔
مولانا کے اس دعوتی وعلمی کام سے حسن ظن رکھنے کے باوجود بڑے صدمہ اور قلق کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں مولانا کے کام اور فکر ی سانچے سے شکایات بھی ہیں ۔
مولانا کی فکر کا ایک بڑا نکتہ دعوت کے کام پر غیر مشروط طور پر غیر معمولی زور دینا ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ موصوف دین کی دعوت کے کام کو ہر مسلمان کا نصب العین تصور فرماتے ہیں اور اسی مناسبت سے اپنی تحریروں میں اسے اہمیت بھی دیتے ہیں۔ یقینا اسلام میں دعوت کے کام کی اہمیت ہے، لیکن اس سلسلہ میں جو بڑا نکتہ موصوف فراموش کر دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ دعوت سے پہلے تربیت نفس، ضبط نفس اور تہذیب نفس کا کام اولیت کا حامل ہے، چونکہ دعوتی کام اخلاقی اعتبار سے معاشرہ کے زوال پذیر افراد سے الجھنے اور ان کے اشکالات کا جواب دینے اور ان سے تعلقات قائم رکھنے سے متعلق ہے، جب تک افراد کی اپنی قابل ذکر حد تک اصلاح نہ ہو گی اور وہ کسی نہ کسی حد تک حکیمانہ صلاحیتوں کے حامل نہ ہوں گے، اس وقت تک وہ افراد کی نفسیات کو سمجھ کر دعوت کے کام کے وقت اشتعال، جذباتیت، بے صبرا پن اور حوصلہ شکنی سے کیسے بچ سکیں گے۔ دنیا کا ہر کام سیکھنے کے لیے ایک کورس ہوتا ہے اور انھیں سیکھنے کے لیے ماہروں کی صحبت اختیار کرنی پڑتی ہے، لیکن دعوت ہی کا کام ایسا ہے، جسے موصوف تہذیب نفس کے نظام سے وابستہ کیے بغیر اور حکیمانہ صلاحیتوں کی استعداد پیدا کیے بغیر ہر مسلمان کے نصب العین کی حیثیت سے اسے پیش فرماتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک حد تک نفس کی دنیا سے آشنائی سے پہلے اور حکیمانہ مزاج پیدا کیے بغیر دعوت کا کام ہاتھ میں لینا بڑے مفاسد کو جنم دینے کے برابر ہے۔ اس لیے کہ نفسی اور باطنی مفاسد کے حامل افراد جب دعوت کے کام کے لیے اٹھیں گے تو فسادِ مزاج کی وجہ سے ایک دوسرے سے صف آراہوں گے، اس طرح معاشرہ تصادم کا شکار ہو گا، جس کا عملی مظاہرہ ایک عرصہ سے ہو رہا ہے۔
ویسے بھی دعوتی کام کا بڑا تعلق انسانی زندگی کے تعلقات کے وسیع دائرے میں صبح سے شام تک سیکڑوں معاملات میں خوشبوئے کردار کے اظہار سے ہے۔ دعوت الفاظ کی ادائیگی کا نام نہیں ہے۔ دعوت اخلاص ویقین کے ساتھ اور اپنی زندگی کے بہتر نمونہ کے ساتھ لوگوں کو توحید اور رجوع الی اللہ کی طرف راغب کرنے کا نام ہے۔ دعوت کا یہی تو کام ہے، جو علمائے ربانی اور صوفیائے کرام صدیوں سے افراد کی ایک عرصہ تک نفسی تربیت کے ذریعہ انھیں خلافت دے کر اس کام کے لیے متعین فرماتے رہے ہیں۔ اب دعوت کا یہی تو کام ہے، جو تبلیغی جماعت ایک حد تک سر انجام دے رہی ہے کہ لوگوں کو مسجد کے ماحول میں لا کر، ان سے بستر اٹھوا کر کھانا اپنے ہاتھ سے پکوا کر ان کے مزاج کی سر کشی کو دور کر کے ان میں خوشبوئے کردار پیدا کرنی ہے، اگرچہ ان کے طریق کار سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے اوراگرچہ یہاں بھی اب نفس کشی کا وہ نظام موجود نہیں ر ہا جو مولانا الیا س کا تھا۔
لیکن افسوس ہے کہ مولانا وحید الدین خان صاحب دعوت کی ان عظیم تحریکوں کو مسترد کرتے ہوئے ہرایرے غیرے کو دعوت کے کام پر اکسا کر اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناآشنا جدید تعلیم، یافتہ افراد کو علمائے ربانی، صوفیائے کرام اور تبلیغی جماعت جیسے دعوتی اداروں سے دور کرنے کا بھی‘‘ فریضہ’’ انجام دے رہے ہیں۔اور نیم حکیم سے خطرہ جان والی صورتحال بھی پیدا کر رہے ہیں۔
اس بات پر بھی دکھ کا اظہار کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ قرآن وسنت کے فیوض وبرکات سے بعض ممتاز علمائے ربانی نے مسلم نفسیات کے تجزیاتی مشاہدے سے ہزاروں مریضوں کے علاج کے بعد انسانی نفسیات کے جن اسرار ورموز سے پردہ اٹھایا ہے اور اس موضوع پر امام غزالی نے احیاء العلوم کی ایک جلد میں اور مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تربیت السالک کی تین جلدوں میں جو عظیم الشان بحث کی ہے، افسوس ہے کہ بعض حجابات کی وجہ سے مولانا وحید الدین خان جیسی علمی شخصیتوں کا ان کتابوں سے استفادہ کا دروازہ بند ہے۔
اللہ کی یہ عجیب بے نیازی ہے کہ اس نے دنیا میں بڑا بننے کے لیے یہ سنت مقرر کی ہے کہ پہلے چھوٹا بنا جائے اور بڑے کے سامنے چھوٹے پن کے مراحل طے کر کے اپنی شخصیت کے جوہروں سے آشنائی حاصل کی جائے، اس کے بعد ہی لوگوں کی تعلیم وتربیت کا کام ہاتھ میں لینے سے مفاسد سے بھی بچاؤ کی صورت پیدا ہوتی ہے ۔
سلف صالحین کی فکر کے جزوی ووقتی پہلوؤں سے اختلاف رائے کرنا اور اپنے دور کے حالات میں ان کی طرف سے اختیار کردہ حکمت عملی پر تعمیری تنقید کرنا یا ان کے عقلی ونقلی علوم کو زیر بحث بنانا ہماری نظر میں کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ بلکہ ایک حد تک ایسا کرنا ضروری ہے، لیکن دین کے بنیادی مقاصد کے تعین جیسے معاملات میں ان کی فکر کو متنازعہ بنا کر نئی فکر دینا یہ بڑے خطرات اور مضمرات کے حامل ہے۔
مولانا وحیدالدین خان صاحب کی فکر میں جو کمزور پہلو موجود ہیں، جنھوں نے ان کی فکر کے خیر کے پہلوؤں کو متاثر کیا ہے، وہ یہ ہیں۔
(۱) اپنی فکر میں اسلامی جہاد وقتال کی نئی نئی توجیہات پیش کر کے قتال کی اہمیت کو بے وزن کرنے کے لیے کوشاں ہونا۔
(۲) معاشرہ کی اسلامی تشکیل کے لیے سیاست جیسے اہم شعبہ کو نہ صرف نظر انداز کرنا،بلکہ اس شعبہ کو مادہ پرست اور مفاد پرست سیاستدانوں کے حوالہ کرنے کے کام کا دفاع کرنا۔
(۳) دعوت کے کام کو اپنی فکر کے بنیادی اجزاء کی حیثیت سے پیش کرنا، لیکن اہل دعوت کی نفسی تربیت، باطنی اصلاح اور تہذیب نفس کے لیے کسی لائحہ عمل کے تعین کے بغیر انھیں داعی کی حیثیت سے کھڑا کرنا۔
(۴) مسلم ممالک میں طویل عرصہ سے مغربیت پسند حکمران طبقات اور اسلامیت کے علمبرداروں کے درمیان ہر سطح پر جو کشمکش ہو رہی ہے، مولانا موصوف اس کشمکش کو نہ صرف یہ کہ اسلامی نقطہ نگا ہ سے غیر ضروری سمجھتے ہیں، بلکہ اس میں وہ سارا قصور دین کی اس تعبیر کو قرار دیتے ہیں، جس میں نظام زندگی کو اسلامی نظام زندگی سے ہم آہنگ کرنے اور پوری اجتماعی زندگی کو اسلام کے مطابق بنانے کی تشریح کی گئی ہے۔ دین کی اس تشریح کے بعض پہلوؤں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن زندگی کے سارے اجتماعی نظام کو مادیت پرستی سے ہٹا کر اسلامیت کی بنیاد پر تعمیر کے بنیادی کام سے آخر کس طرح انکار کیاجا سکتا ہے۔ ردِعمل کی نفسیات میں آکر اسلام کی اس تشریح کے خلاف اپنی بیشتر توانائیوں کو صرف کرنا اور اپنی ساری فکر کو اس فکر کے مقابلے میں پیش کرنے کی کاوش کرنا، افسوسناک بات ہے۔
(۵)ایک طرف یہ صورت حال ہے کہ عالمی کفر اپنی حکمت عملیوں کے ذریعہ مسلمانوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیمی وتہذیبی نظام کو بھی تلپٹ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ دوسری طرف مولانا وحیدالدین خان صاحب کی مسلسل تلقین یہ ہے کہ مسلم معاشروں کو بگاڑنے میں عالمی کفر کا کوئی کردار نہیں ہے۔ جو اسلامی تحریکیں عالمی کفر اور ان کے آلہ کار حکمرانوں کے خلاف نفر ت پیدا کر کے سیاسی اور معاشرتی سطح پر احیائے اسلام اور غلبہ اسلام کے کام میں مصروف ہیں، وہ عالمی کفر کے خلاف واویلا کر کے تعمیر کی بجائے منفی کام سر انجام دے رہی ہیں اور ردعمل کی نفسیات پختہ کر کے مسلمانوں کا منفی ذہن بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
(۷) مولانا موصوف کے فکر کا ایک نقص یہ ہے کہ وہ اسلام کی ذاتی اصلاح کے حوالے سے پیش ہونے والی تعلیمات کو اس طرح پیش کر رہے ہیں، جس سے اسلام کی اجتماعیت کے حوالے سے پیش ہونے والی تعلیمات کی قدر وقیمت اوراہمیت یا تو بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ یا وہ انفرادی اصلاح کے ضمیمہ کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔
اخلاق حسنہ، تقویٰ، کردار کی بلندی، صبر، اعراض، فکر آخرت، اللہ سے تعلق ومعیت، عبادت میں انہماک، کیفیاتِ دل کی پاکیزگی وغیرہ ان سب کی اہمیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے،لیکن جب تعلق بااللہ، فکر آخرت اور اخلاق حسنہ کی تشریح اس قیمت پر ہو گی کہ مسلمان سیاست، معیشت، معاشرت اور ساری اجتماعی زندگی کے اسلامائزیشن کے کام سے یا تو دستبردار ہو جائیں یا اس کام کو ذاتی اصلاح کے ضمیمہ کے کام سے زیادہ اہمیت نہ دیں، تو ظاہر ہے اس طرح طرز فکر کو مسترد ہی کیا جائے گا۔
جہاد کے معاملہ میں مولانا موصوف کا نقطہ نگاہ اتنا کمزور بلکہ مرعوبانہ ہے کہ جہاد کی مخالف قوتیں اس سے استناد حاصل کرتی ہیں۔
افسوس ہے کہ مولانا وحید الدین خان صاحب علم وفضل اور صاحب تقویٰ شخصیت جہاد جیسے عظیم فرض کے سلسلہ میں ایسے موقف کو فروغ دینے کا موجب بن رہی ہے، جو دشمن کے لیے تقویت کا باعث بن رہا ہے۔
مولانا موصوف کی فکر کے ان کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کے ساتھ بعض مثبت پہلوؤں کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔
مولانا وحید الدین کی فکر کے بعض مثبت ومفید پہلو ایسے ہیں، جو اسلام سے ناواقف نئی نسل کی اصلاح کے لیے موثر ثابت ہوئے ہیں اور عالم اسلام کے ہزار ہا افراد کے ذہن کی تبدیلی کا باعث ہوئے ہیں۔ ان مفید پہلوؤں میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں۔
ذاتی اصلاح، اخلاق حسنہ پر زور، زندگی کے ہر معاملہ کو تذکیر ونصیحت کا ذریعہ بنانے کے اصولی نکتہ پر توجہ، مسلمانوں کے اجتماعی زوال کو ہر فرد کی انفرادی بداعمالیوں، غیر ذمہ داریوں، اور اخلاقی خرابیوں میں تلاش کرنے پر اصرار، اس طرح معاشرہ میں خود احتسابی کے عمل کے لیے فضا کی ہمواری کی کوشش کرنا، اپنی ناکامیوں اور عملی زندگی میں پسماندگی کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھنے کی بجائے، ان ناکامیوں کو اپنی کمزوریوں پر محمول کرنے اور ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے اپنی ذات میں انقلاب برپا کرنے کا تحرک، مادی زندگی کے مقابلہ میں آخرت کی دائمی زندگی کی یاد دہانی اور اس کی تیاری کے لیے مقامی سطح کے واقعات سے لے کر عالمی سطح کے جدید ترین واقعات کے ذریعہ عقل کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرنا۔ اخلاقی نصب العین کے کام کو فیصلہ کن اہمیت دینا، دنیا کی دوسری قوموں کو حریف سمجھنے کی بجائے انھیں مدعو سمجھ کر ان تک دین کی دعوت پہنچانے کی ذمہ داری اور اس کی یاد دہانی کرنا، قوموں کی زندگیوں میں عروج وترقی کے لیے محنت وجدو جہد کی اہمیت کو پورے زور بیان اور قوت سے ثابت کرتے رہنا، کاروباری دیانت، اصولوں کا پاس ولحاظ رکھنا، معاملات میں بہتری کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت صرف کرنا، عصری علوم اور جدید سائنسی حقائق کو اسلام کی صداقت کے لیے بہتر طور پر استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہونا، غرض کہ مولانا موصوف کی فکر کے یہ وہ اہم پہلو بھی ہیں، جن کی پیشکش کے معاملہ میں وہ اپنی بیشتر علمی وعقلی توانائیاں صرف فرما رہے ہیں۔
مولانا وحیدالدین خان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی جو صلاحیت عطا فرمائی ہے اور اس صلاحیت سے فائدہ اٹھائے ہوئے موصوف جس کثرت سے لکھتے ہیں، اس نے انھیں تصنیف وتالیف کے میدان میں ممتاز مقام عطا کیا ہے، اصلاح ذات اور فکر آخرت کے حوالے سے انھوں نے جدید اسلوب میں جو لٹریچر تیار کیا ہے۔ وہ بھی ایسا ہے، جو اپنی نوعیت کا منفرد لٹریچر ہے۔ علمی صلاحیتوں سے بہرہ وری کے اعتبار سے مولانا موصوف کی ذات سے بجا طور پر توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ اسلامی فکر کی تشکیل جدید میں متوازن فکر اسلامی پیش کر کے سید ابو الحسن ندوی کی طرح نہ صرف برصغیر ہند میں بلکہ پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کے سارے طبقات میں ممتاز مفکر وفاضل کی حیثیت سے متعارف ہوں گے۔ اس طرح ان کی فکر سے مسلمانوں کے سارے طبقات مستفیض ہو کر دور جدید کے چیلنج سے عہدہ بر آہونے اور اسلامی فکر کے صحیح خطوط اور فرائض وواجبات کے صحیح تربیتی نظام سے آشنا ہوکر قرآن وسنت کے سلف کی فکر کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ لیکن اسے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ مولانا موصوف امت کی مسلمہ ممتاز شخصیتوں کی فکر پر مسلسل تنقید کر کے جہاد کی فرضیت کو غیر اہم ثابت کر کے ایک نئے اسلامی فکر کی فروغ پذیری کا موجب بن رہے ہیں اور مسلم امت میں ایک نئے فکری دھارے اور نئے مکتب فکر کا جنم دینے کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں۔
اصل میں جب فر دچھوٹے پن کے مراحل سے گزرے بغیر علمی صلاحیتوں کی بنا پر مفکر کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو تزکیہ نفس کے حوالے سے جن بنیادی نکات کو وہ زندگی بھر دوسروں کے سامنے پیش کرتا رہتا ہے، ان اصولوں کو وہ اپنے نفس پر لاگو کر کے نفس کو بڑے پن کے اثرات سے محفوظ کرنے میں ناکام ہوتا ہے، یہ قدرتی بات ہے کہ جب نگاہ دوسروں پر ہوتی ہے تو اپنی ذات نظروں سے اوجھل ہونے لگتی ہے۔ اس طرح کچھ وقت کے بعد خود احتسابی کی بات سننا ہی دشوار ہو جاتی ہے۔
٭٭٭