ہمیں دینی درد رکھنے والے بعض احباب سے ملنے کا اتفاق ہوا جو اس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے کہ چونکہ پاکستان میں انتخابات کے ذریعے اسلام نافذ نہیں ہو سکا، اور نہ آئندہ اس کا کوئی امکان ہے، لہٰذا اب یہی طریقہ باقی رہ گیا ہے کہ ایک زور دار عوامی تحریک چلا کر اسلام نافذ کروانے کی کوشش کی جائے۔ جب اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ اول توکئی اسباب کی بنا پر ایسی کسی تحریک کے چلنے اور مقبول ہونے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن بفرض محال اگر ایسی تحریک شروع بھی کی جائے تو بہت جلد تشدد کا شکار ہوجائے گی۔ اس پر یہ جواب دیا گیا کہ یہ تو عین جہاد ہے اور جہاد کے بغیر تو موجودہ زمانے میں اسلام نافذ ہو ہی نہیں سکتا، لہٰذا جو لوگ اس تحریک کی مخالفت کریں گے ان سے جہاد کرنا واجب ہو گا۔ ہم اس نقطہ نظر کو نہ صرف معروضی اور عملی لحاظ سے ناقابل عمل اور ضرررساں سمجھتے ہیں بلکہ شرعی لحاظ سے بھی ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے، لہٰذا اس بارے میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔
جہاد اصلاً اسلامی شریعت میں اس منظم اورمسلح جدوجہد کا نام ہے جو مسلم معاشرے کا نظم اجتماعی بندوں کے اللہ کی غلامی اختیار کرنے میں مزاحم کافر قوتوں کا زور توڑنے کے لیے یا بلاد اسلام کی حفاظت و مدافعت میں کرتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان ملک میں مسلم حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کو جہاد نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جہاد کی بجائے اس کے لیے شریعت میں دعوت و اصلاح، تبلیغ و انذار اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اصطلاحیں رائج ہیں اور خود یہ اصطلاحات ہی بتا رہی ہیں کہ ان کا دائرہ کار کیا ہے؟ ان اصطلاحات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حکمران مسلمان ہو، مسلمانوں کے باہم مشورے سے برسراقتدار آیا ہو، پھر اگر اس کے کسی حکم یا رائے سے رعایا کے کسی فرد یا گروہ کو اختلاف ہو، یا وہ اسے غیر اسلامی سمجھتا ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ اسے نصیحت کی جائے، اسے سمجھایا جائے، اس پر اخلاقی اور سیاسی دباؤ ڈالا جائے، ضرورت ہو تو اسے عدلیہ کے روبرو لا کھڑا کیا جائے لیکن قرآن و حدیث کے مطابق اس کے خلاف مسلح جدوجہد نہیں کی جا سکتی۔ ان احکام میں صرف ایک استثنیٰ ہے اور وہ یہ کہ مسلم حکمران سے کھلم کھلا واضح کفریہ عقائد و اعمال اور احکام کا صدور ہو۔ سوال یہ ہے کہ آج کے پاکستان میں جب آئین مملکت اسلامی اصولوں کی عظمت اور ان کی پاسداری کا اعلان کرتا ہے اور ہمارے حکمران یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ پاکستان کو ایک جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں تو حکمرانوں سے کفر بواح کے صدور کا کیا امکان رہ جاتا ہے؟ اور کفر بواح کی صورت میں بھی احادیث سے حکمرانوں کی عدم اطاعت کا محض جواز ثابت ہوتا ہے شریعت اس پر اکساتی نہیں بلکہ عملی اقدام کو کئی شرائط سے مشروط کرتی ہے مثلاً یہ کہ حکومت کے خلاف اٹھنے والے شخص کے پاس اتنی منظم افرادی اور اسلحی طاقت ہونی چاہیے کہ حکومت اور نظام بدلنے کی جدوجہد کی کامیابی کا غالب امکان ہو ورنہ بہتر یہی ہے کہ پر امن ذرائع اختیار کیے جائیں تاکہ معاشرے کا امن و امان سکون غارت نہ ہو اور انتشار و انارکی سے مسلم معاشرے کی بنیادیں متزلزل نہ ہوں۔ بعض انتہا پسند اور اقلیتی فرقوں کو چھوڑ کر جمہور امت کا پچھلی چودہ صدیوں میں علمی اور عملی طور پر یہی موقف رہا ہے اور حضرت حسینؓ بن علیؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے تجربے کے بعد امت کے جلیل القدر علما، فقہا، مفسرین، محدثین، متکلمین، صوفیا، سب نے مسلم حکمرانوں کی اصلاح کے لیے پر امن ذرائع ہی اختیار کیے ہیں اور خروج کی راہ کو پسند نہیں کیا۔
مسلمان حکمرانوں کے خلاف جہاد کے سلسلے میں یہ شرعی نقطہ نظر تھا۔ عملی حالات یہ ہیں کہ آج کل ریاست کے پاس طاقت کے اتنے وسیع ذرائع ہیں کہ فوج، پولیس اور دوسری دفاعی افواج کی موجودگی میں اس کا کوئی امکان ہی نہیں کہ ریاستی طاقت کو کچل کر کوئی قوت برسراقتدار آجائے۔ دوسرے پاکستان کے معروضی حالات میں عملاً بھی اس کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی کہ یہاں کوئی مزاحمتی تحریک نفاذ اسلام کے حق میں چلائی اور کامیاب بنائی جا سکتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دینی قوتیں متحد نہیں ہیں اور نہ آئندہ ان کے متحد ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ موجودہ سیاسی دینی قوتوں سے باہر کے حلقوں سے اگر کوئی کوشش ہوتی ہے تو حکومت کے علاوہ موجودہ دینی سیاسی جماعتیں بھی اس کی مخالفت کریں گی اور یہ بعید نہیں کہ یہ آپس ہی میں سر پھٹول کا شکار ہوجائیں۔ پھر پچھلے پچاس سال میں دینی سیاسی جماعتوں کا جو کردار رہا ہے اس وجہ سے عوام کی نظروں میں ان کا وقار انتہائی مجروح ہوا ہے اور یہ اگر کسی تحریک کی محرک بنتی ہیں، خصوصاً کامل اتحاد کے بغیر، تو ان کی ناکامی بھی یقینی ہے۔ تو پھر مجوزہ تحریک چلائے گا کون؟
بعض لوگ ایران کی مثال دیتے ہیں لیکن معمولی تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان اور ایران کے حالات میں کوئی مماثلت ہی نہیں لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ دینی عناصر کے اتحاد کے علاوہ پاکستان اور ایران میں دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ ایران میں طویل سیاسی گھٹن تھی جو منظم جدوجہد سے پھٹ پڑی، پاکستان میں ایسی کوئی صورت نہیں۔ یہاں معاشرہ آزاد ہے، دینی عناصر کو اپنی بات کہنے کے پورے مواقع حاصل ہیں اور ان پر اس طرح کی پابندیوں اور ظلم و ستم کا ماحول ہی موجود نہیں جو ایران میں تھا۔ بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ اگر پاکستان بنانے کے لیے تحریک کامیابی سے چل سکتی ہے تو پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے تحریک کیوں نہیں چل سکتی اور کامیاب ہو سکتی؟ یا اگر قادیانیت کے خلاف دینی عناصر اور عوام متحدہو کر تحریک چلا سکتے ہیں تو نفاذِ اسلام کے لیے کامیاب تحریک کیوں نہیں چلائی جا سکتی؟ ہم عرض کریں گے کہ یہ بھی قیاس مع الفارق ہے۔ کسی ایک سیاسی نقطے پر تحریک چلنے اور اس کے کامیاب ہونے کے امکانات تو آـج بھی موجود ہیں کیونکہ اس پر ساری قوم متحد ہو سکتی ہے۔ ایوب خان اور بھٹو کے خلاف کامیاب عوامی تحریکیں اس کا ثبوت ہیں۔ کسی ایک دینی ایشو پر بھی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے بشرطیکہ سارے دینی عناصر سچ مچ متحد ہو کر عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو جائیں جیسے قادیانیت کے مسئلے پر ہوا لیکن ہماری رائے میں نفاذ اسلام کے لیے کوئی تحریک کامیابی سے نہیں چلائی جا سکتی کیونکہ نہ تو یہ کوئی ہنگامی ایشو ہے اور نہ کسی ہنگامی تحریک سے معاشرے میں اسلام نافذ ہو سکتا ہے۔ مزید براں نفاذ اسلام کے لیے پاکستان کے دینی عناصر اسلام کی کسی تعبیر پر متفق بھی نہیں۔ یہاں کے خواص نفاذ اسلام پر مطمئن نہیں اور دانشور اور کھاتا پیتا طبقہ مغربی تہذیب کی چکا چوند اور فکر سے اتنا مرعوب ہے کہ وہ اس کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
لے دے کر صرف ایک مثبت نکتہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اسلام سے جذباتی لگاؤ رکھتی ہے اور اس جذباتی وابستگی کو کیش کرایا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے امکانات بھی فی الحال نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ نفاذ اسلام کے لیے ضروری ہے کہ اس جذباتی وابستگی کو شعوری وابستگی میں بدلا جائے اور یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے اٹھانے کی اسلامی عناصر نے آج تک کوشش ہی نہیں کی۔
نفاذ اسلام بذریعہ جہاد کا نقطہ نظر رکھنے والے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک چلانے کے بکھیڑے میں پڑنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ مناسب موقع دیکھ کر قوتوں کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جائے تو سب سیدھے ہو جائیں گے۔
اس ملک کے دینی عناصر سیاسی لحاظ سے عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں اور رہی سہی کسر ضیاء الحق صاحب نے نکال دی جنھوں نے حدود اور کوڑوں سے اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی۔ لہٰذا ہم نہیں سمجھتے کہ اگر کوئی اسلامی گروپ، بفرض محال، سازش سے اقتدار پر قبضہ کر بھی لے تو عوام و خواص کے عدم تعاون اور قومی و بین الاقوامی مخالفتوں کے علی الرغم وہ اسلام نافذ کرلے گا۔ یہ ایک بچگانہ خیال ہے کہ چونکہ پاکستان میں مسلمان بستے ہیں جو اسلام سے محبت کرتے ہیں لہٰذا یہاں ڈنڈے کے زور سے شریعت نافذ کی جا سکتی ہے۔ ہماری رائے میں اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو معاشرہ بہت جلد ٹوٹ پھوٹ اور ردِ عمل کا شکار ہو جائے گا۔ پھر یہ ہمارے معاشرے ہی کے حقائق ہیں کہ جب قصاص و دیت کا قانون نافذ کیا گیا تو ڈرائیوروں نے ہڑتال کر دی اور ملک بھر میں پہیہ جام ہوگیا اور اس وقت تک یہ ہڑتال ختم نہیں ہوئی جب تک حکومت نے متعلقہ دفعہ واپس نہیں لے لی۔ جب قاضی کورٹس بنانے کی بات کی گئی تو وکلا اور بار ایسوسی ایشنوں نے ان کے خلاف قراردادیں پاس کرنا شروع کر دیں۔ اسلامی حدود ۱۹۷۹ء سے کاغذی طور پر نافذ ہیں لیکن عملاً نافذ نہیں ہو سکیں کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے (پولیس، وکیل، جج کوئی بھی، ان کے نفاذ کے حق میں نہیں اور آئے دن لوگ ان کے خلاف باتیں کرتے رہتے ہیں۔ مالاکنڈ اور سوات میں نفاذ شریعت کی تحریک کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ بین الاقوامی اسلام دشمن طاقتوں کا یہ حال ہے کہ وہ صریحاً مسلمان ملکوں میں مداخلت کرکے اسلام کے لیے نرم رویہ رکھنے والی قوتوں کو برسراقتدار نہیں آنے دیتیں۔ پاکستان، ترکی، مصر، الجزائر اور دوسرے بہت سے ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان حالات میں محض سازش سے حکومت پر قبضہ کرکے شریعت نافذ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ اگر خروج (جہاد) پر تشدد تحریک یا مسلح انقلاب سے پاکستان میں اسلام نافذ نہیں ہو سکتا تو پھر پاکستان میں نفاذ اسلام کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ ہمارے نزدیک اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ یہاں نفاذِ اسلام کے خواہاں عناصر مل جل کر پہلے پاکستان کے عوام و خاص میں نفاذِ اسلام کے حق میں ایک فکری اور اخلاقی انقلاب برپا کریں اور جب فضا نفاذِ اسلام کے حق میں ہموارہو جائے تو پھر رائے عامہ کی حمایت سے یہاں اسلام نافذ کیا جائے۔ جب تک یہ طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا ملک میں اسلام کے نفاذ کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہی نظام میں کسی قسم کی تبدیلی لانا ممکن ہے۔ یہ ایک ہمہ جہتی اور طویل المیعاد کام ہے، اگر قیام پاکستان کے فوراً بعد دینی عناصر نے متحد ہو کر اس کام کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہوتی تو آج پاکستان میں اسلام نافذ ہو چکا ہوتا لیکن اس وقت بھی جو لوگ میدان میں اترے انھوں نے شارٹ کٹ کا سوچا کہ سیاسی جدوجہد کرو، لوگ اسلام کے خواہاں ہیں وہ تمھارا ساتھ دیں گے اور ایک دفعہ جب اقتدار مل گیا تو سارا اسلام نافذ ہو جائے گا۔ اس خوشی فہمی کے کانٹے ہم آج بھی چن رہے ہیں کیونکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ قوموں کی زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ جب تک افراد اور معاشرے کی اصلاح نہیں ہوتی، نظام حکومت کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور جب تک سوسائٹی میں اسلام کے حق میں ایک فکری اور اخلاقی انقلاب برپا نہیں ہوتا اسلام کے حق میں کوئی حقیقی تبدیلی نظام حکومت میں بھی نہیں آ سکتی اور نہ نیک لوگ برسراقتدار آ سکتے ہیں۔ ایسے مسلمان حکمرانوں سے جن کے دل و دماغ اسلام کے لیے مفتوح نہ ہوں، شور شرابا کرکے کوئی چھوٹا موٹا مطالبہ تو منوایا جا سکتا ہے لیکن ان سے کوئی بڑی اور حقیقی تبدیلی نہیں آ سکتی جیسا کہ ہمارے پچاس سال اس کے گواہ ہیں۔
پاکستانی عوام و خواص میں اسلام کے حق میں ایک فکری اور اخلاقی انقلاب کیسے برپا کیا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے اس کا طریقہ تعلیم و تربیت، تبلیغ و انذار اور دعوت و اصلاح ہی ہے۔ بعض لوگ اس کام کو بالکل اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک سرے سے یہ کوئی کام ہی نہیں ہے۔ وہ خندہ استہزا کے ساتھ کہتے ہیں کہ کیا تبلیغ سے یہاں اسلام نافذ ہو جائے گا اور نظام حکومت بدل جائے گا؟ ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ایسے لوگ سطح بین ہیں اور گہرے تجزیے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ جیسے لوگ ہوں گے ویسے ہی ان کے حکمران ہوں گے۔ اردو محاورے کے مطابق ‘‘جیسی روح ویسے فرشتے’’۔ معاشرہ اگر خراب ہو، نیک لوگ اگر تھوڑے ہوں، اور جو ہوں وہ غیر موثر ہوں، ملک کے پڑھے لکھے اور دانشور لوگوں کی اکثریت، جنھوں نے ملک چلانا ہے، اگر وہ اسلامی احکام و قوانین کو آج کے دور میں ناقابل عمل سمجھتی ہو تو نیک لوگ کیسے حکمران بن سکتے ہیں اور ملک میں اسلام کیسے نافذ ہو سکتا ہے؟
لہٰذا ضروری ہے کہ ملک میں صحیح اسلامی تعلیم عام ہو جس میں تربیت اور کردار سازی کا بھی انتظام ہو۔ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے ایسے ادارے ہوں جو جدید ذہن کے لوگوں کو اسلامی اصول و احکام کی حقانیت و افادیت کا قائل کریں۔ اس مقصد کے لیے ملک میں مروج مختلف زبانوں میں وسیع لٹریچر تیار کیا جائے اور میسر ذرائع ابلاغ کو موثر طریقے سے حرکت میں لایا جائے۔ دینی تعلیم کا منہاج بھی بدلا جائے تاکہ ایسے علما تیار ہو سکیں جو دینی علوم میں رسوخ رکھنے کے ساتھ جدید علوم سے بھی واقف ہوں۔ جو افراد معاشرہ کی ذہنی سطح اور عصری تقاضوں کے مطابق گفتگو کر سکیں۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے محلہ کی بنیاد پر اصلاحی کمیٹیاں بنائی جائیں جو نیکی کے راستے پر چلنے میں عوا م کی معاون ہوں اوربرائیوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ دینی عناصر اگر سیاسی مفادات اور فرقہ وارانہ عصبیتوں سے بالا تر ہو کر اس قسم کے کاموں کے لیے مجتمع ہو جائیں تو چند سالوں میں اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس کام کے بڑے پیمانے پر کیے جانے اور موثر ہونے کا انحصار دینی عناصر کی وحدت پر ہے۔ اس لیے دینی عناصر میں کچھ بزرگ اور معتدل لوگوں کو ایک حلقہ فکر و عمل اس غرض کے لیے بنالینا چاہیے تاکہ سنجیدگی سے غوروخوض کرکے ایسے دور رس اقدامات کیے جا سکیں جو بالآخر دینی عناصر میں وحدت کا سبب بنیں خصوصاً دینی تعلیم اور مساجد و مدارس کی وحدت کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے، انھیں دینی عناصر کی ذہنی و قلبی تطہیر کے لیے بھی کوشاں ہونا چاہیے تاکہ جاہ و مال کے امراض میں کمی آئے اور وہ ملکی اور غیر ملکی طاقتوں و ایجنسیوں کی ریشہ دوانیوں سے بچ کر نفاذ اسلام کے لیے مجتمع ہو سکیں۔
یہاں ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ دیکھیے جناب! یہ جو آپ عوام و خواص میں فکری اور اخلاقی انقلاب لانے اور اسلام کے حق میں فضا ہموار کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ بات کچھ ایسی غلط تو نہیں لیکن یہ ایک طویل المیعاد کام ہے اور یہاں صورت یہ ہے کہ ملک کی بقا اور استحکام خطرے میں ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان ہی نہ رہا تو ہم اسلام کہاں نافذ کریں گے؟ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ جب بگاڑ کا ریلا اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہو کہ سب کچھ تہس نہس ہو رہا ہوتو اس حالت کو اگر محض دعوت و اصلاح پر چھوڑا گیا تو بڑی دیر ہو جائے گی! اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ آج ہماری یہ حالت اسی وجہ سے تو ہے کہ ہم نے دعوت و اصلاح اور تعلیم و تربیت کا کام کماحقہ نہیں کیا۔ لہٰذا دینی عناصر کو مجتمع ہو کر عوام و خواص میں فکری اور اخلاقی انقلاب لانے کے کام کا آغاز تو کر ہی دینا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ تعلیم و تربیت اور دعوت و اصلاح کے کام پر اصرار اور زور دینے کا مطلب سیاسی عمل کی نفی نہیں ہے بلکہ دینی عناصر متحد ہو کر اپنے لیے ایک موزوں سیاسی لائحہ عمل بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
(بشکریہ : نوائے وقت،۱۰ اپریل۱۹۹۶ء)