استغفار

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2006

            علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ ان کے پاس سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا ۔ جب انہوں نے اپناپاؤ ں اس کے رکاب میں رکھا تو کہا بسم اللہ ۔ پھر جب وہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو کہا سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنّا لہ مقرنین و انّا الا ربّنا لمنقلبون ۔ اس کے بعد تین بار انہوں نے اللہ کی حمد کی اور تین بار اللہ کی تکبیر کہی ۔ پھر کہا : سبحانک لا الہ الّا انت قد ظلمت نفسی فاغفرلی ۔

            راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت علی ہنس پڑے ۔ میں نے پوچھا اے امیر المومنین ’ آپ کس بات پر ہنسے ۔ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ نے سوار ہوتے ہوئے وہی کہا جو میں نے کہا ۔ پھر آپ ہنس پڑے ۔ میں نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول’ آپ کیوں ہنسے ۔ آپ نے فرمایا : یعجب الربّ تبارک وتعالی من عبدہ اذا قال رب اغفرلی ۔ ویقول علم عبدی انہ لا یغفر الذنوب غیری (تفسیر ابن کثیر 124/4 ) بندہ جب کہتا ہے کہ اے میرے رب ’ مجھے بخش دے تو اللہ اس پر تعجب کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے ۔ وہ فرماتا ہے کہ میرے بندہ نے اس کو جانا کہ میرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ۔

            ربّ اغفرلی ( میرے رب’ مجھے بخش دے ) کہنا کوئی سادہ سی بات نہیں ۔ یہ ایک عظیم ترین دریافت کے نتیجے میں نکلنے والا کلمہ ہے جو ایک مومن کی زبان سے نکل پڑتا ہے ۔

            یہ کلمہ کسی کی زبان سے اس وقت نکلتا ہے جب کہ وہ غیب کے پردے کو پھاڑ کر خدا کی موجودگی کو دریافت کرے ۔ یہ آ زادی کے باوجود اس بات کا اقرار ہے کہ میں اپنی آزادی کوبے قید استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔ یہ حشر کو دیکھے بغیر حشر کے واقعہ پر یقین لانا ہے ۔ یہ اعمال کے اخروی نتائج کی حقیقت کا اس وقت اقرار کرنا ہے جب کہ وہ ابھی ظاہر نہیں ہوئے ۔ یہ خدا کے ظہور سے پہلے خدا کے جلال و جبروت کے آگے جھک جاناہے ۔ یہ کلمہ معرفت کا کلمہ ہے ’ اور معرفت بلاشبہ اس دنیا کا سب سے بڑا عمل ہے ۔