امت کو خطابت کی نہیں تدبر کی ضرورت ہے ،انقلاب شبنم اور دیمک کی طرح لائے جاتے ہیں۔
ایرانی صدر نے کہا ہے کہ ہولوکاسٹ کے افسانے حقیقت پر مبنی نہیں۔یہودیوں پر ظلم و تشدد کی کہانیاں رنگ آمیز ہیں۔ اسرائیل ایک ناسور ہے اسے یورپ منتقل کردینا چاہیے۔ قبل ازیں احمد نژادی نے کہا تھا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے اسے صفحہ ہستی سے مٹادینا چاہیے۔ لیکن کیا کسی ریاست کا وجود صرف ایک تقریر سے مٹایا جاسکتا ہے؟
جرمنی ،آسٹریلیا، اسرائیل، امریکہ ، ترکی، روس اور یو این او کی سیکوریٹی کونسل نے ایرانی صدر کے تازہ بیان کی مذمت کی ہے۔ اگر اس بیان کا مقصد یہ ہی تھا کہ عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کی جائے تو وہ مقصد حاصل ہوگیا لیکن اس سے عالم اسلام کو یا صرف ایران کو کیا حاصل ہوا؟۔ خالی غبارے میں ہوا بھری جاسکتی ہے لیکن صرف اتنی جو اس کی زندگی کاباعث بنے ورنہ غبارہ اپنے ہی بوجھ سے پھٹ سکتا ہے۔ افسوس کہ عالم اسلام میں ایسے غباروں کی کمی نہیں۔ کرنل قذافی، مہاتیر محمد،یاسر عرفات، صدام حسین جیسے غباروں سے لمحوں میں دنیا نے ہوا نکلتے ہوئے دیکھی ہے۔ عالم اسلام کو بیان بازی کی نہیں ٹھوس کام کی ضرورت ہے۔
احمد نژادی کے ان خطیبانہ بیانات کو بہرحال حکیمانہ نہیں کہا جاسکتا۔ ان بیانات کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟ ہماری پہنچ سے باہر ہیں۔ ان بیانات کے اجرا کی کیا ضرورت ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ کیا دنیا میں کامیابی بیان بازی سے حاصل ہوسکتی ہے؟ کیا مغرب اور اسرائیل کا مقابلہ تقریری مباحثوں اور اخباری بیانات سے کیا جاسکتا ہے۔ امت مسلمہ کے رہنماؤں کو بیان بازی کا چسکا کیوں ہے؟ کسی منصوبہ بندی، ٹھوس عزائم و کام کے بغیربے بنیاد بیان بازی کا مطلب سستی شہرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسرائیل اور امریکہ جیسی طاقتوں کو چیلنج کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے دامن کا اور گریبان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ خود احمد نژاد کے گھر کا کیا حال ہے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد وزیر پٹرولیم کی تقرری کے مسئلے پر انہیں ایوان نمائندگان کے سامنے تین مرتبہ شکست ہوچکی ہے۔ ان کے نامزد وزیر کو ہر مرتبہ ایوان نے اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ اس کا کوئی تجربہ نہیں، وہ ایک بڑا سرمایہ دار ہے یا امیر آدمی ہے یا اس کے تیل کے کارخانے ہیں لیکن وہ اس اہم ترین عہدے کی اہلیت نہیں رکھتا جو صدر اپنی کابینہ کے لیے ایک موزوں وزیر پٹرولیم کا تقرر نہیں کر سکتا اور جس کی ایوان نمائندگان پر گرفت اس قدر کمزور ہے کہ ایوان اس کی درست یا غلط تجویز کو منظور نہیں کرتا وہ فرد اسرائیل اور امریکہ سے ٹکر لینے چلا ہے تو بڑی حیرت انگیز، بڑے حوصلے اور بڑی جسارت کی بات کر رہا ہے۔
ایرانی صدر کا طرز تخاطب اور اندازِ سیاست اور رویہ قرآن و سنت کے مزاج اور منہج کے خلاف ہے۔ انبیا کے پیروکار اس لب و لہجے میں گفتگو نہیں کر سکتے نہ اس کی اجازت ہے۔ دشمن کے ساتھ بھی شریفانہ طور طریقے ضرور رکھے جائیں۔ احمد نژادی کو اور امت مسلمہ کے تمام جذباتی رہنماؤں کو یہ بات اچھی طرح گرہ میں باندھ لینی چاہیے۔
دنیا کو سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف خمینی صاحب کا فتویٰ آج تک یاد ہے۔ رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا گیا اور اس کے سر کی قیمت مقرر کی گئی۔ لیکن کیا سلمان رشدی کو قتل کر دیا گیا؟ کیا یہ ممکن تھا کہ فتویٰ جاری ہونے کے بعد اسے قتل کیا جاسکتا؟ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ مقصد صرف فتویٰ کے اجرا کا تھا اس کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ فتویٰ کے متن سے اختلاف اور عدم اختلاف کی بحث سے قطع نظر اصل سوال یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں کیا بات کہنے کا موقع محل، اہمیت کا حامل ہے یا نہیں۔ سخت سے سخت بات کی جاسکتی ہے لیکن اس کا طریقہ کار شریعت نے طے کر دیا ہے۔ امت میں جذباتی ہیجان پیدا کرنے کے بعد رشدی کی مغرب میں مقبولیت بڑھادی گئی۔ جس کتاب کو کوئی نہیں جانتا تھا وہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئی۔ رشدی نہ صرف ارب پتی بن گیا بلکہ عالمگیر سطح کی شخصیت بھی۔ جس کی حفاظت پر لاکھوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ فتویٰ دینے والوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ محرف انجیل میں انبیا کرام کے حوالے سے کیا کچھ لکھا ہے۔ کیسی توہین آمیز باتیں، کتنی گستاخیاں انبیا ؑ کی شان میں کی گئی ہیں۔ آیت اللہ خمینی کے فتوے کے بعد ایران میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا اور انجیل کے حوالے سے آیت اللہ خمینی سے پوچھا گیا تھا۔ کیا انبیا ؑ پر ایسے شرمناک الزامات تسلیم کیے جاسکتے ہیں؟ کیا کوئی نبی اپنی بیٹی سے ملاعبت کر سکتا ہے؟ کیا کوئی نبی اپنے سپہ سالار کی اہلیہ کو اپنے نکاح میں لانے کے لیے اسے اگلے محاذوں پر بھیج کر اس سے چھٹکارا پاسکتا ہے؟ ایک عام آدمی بھی اخلاقی گرواٹ کی اس انتہا پر کبھی نہیں پہنچتا تو پیغمبر علیہ الصلوۃ السلام کی ذات گرامی سے ایسے شرمناک معاملات کو منسوب کرنا کیسے ممکن ہے۔ یہ تمام واقعات تفصیل کے ساتھ بائبل میں درج ہیں اور بائبل صدیوں سے امت مسلمہ کے تمام علاقوں میں پڑھی جاتی ہے، شائع کی جاتی ہے، اس کی خرید وفروخت ہوتی ہے لیکن اس پر کسی نے کبھی قدغن عائد نہیں کی، اس کے خلاف فتویٰ کیوں نہیں دیا گیا۔ اس پر پابندی کا مطالبہ کیوں نہیں ہوا۔ اس کا مطالعہ کرنے والوں کے سر قلم کرنے کا فرمان کیوں جاری نہیں کیا گیا؟ یہ انتہائی اہم سوال تھا جس پر ایران میں خاموشی اختیار کی گئی۔
انقلاب آندھی اور طوفان کی طرح نہیں آتے۔ اگر انقلاب اس طرح سے آتے ہیں تو اسی طریقے سے رخصت بھی ہوجاتے ہیں۔ اسلامی انقلاب شبنم اور دیمک کی طرح لایا جاتا ہے۔ شبنم کی آواز کبھی کسی نے سنی ہے۔ لیکن صبح طلوع سحر کے وقت ہر ذرہ شبنم سے تربہ تر ہوتا ہے۔ دیمک اپنا کام رفتہ رفتہ دکھاتی ہے۔ جب کام ہوجاتا ہے تو وہ نمودار ہوتی ہے اور اس کا توانا وجود اعلان کرتا ہے کہ مخالف تہذیب و تمدن کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہیں اور جو انقلاب دیمک اور شبنم کی طرح نہیں آتے جو گھن گھرج پر یقین رکھتے ہیں وہ اسی گھن گرج کے ساتھ ختم بھی ہوجاتے ہیں۔ سچ ہے جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔(بشکریہ:‘‘ساحل’’دسمبر،۰۵)