تنظیمیں جب ضعف کا شکار ہوتی ہیں تو ان کے ارکان
٭ ایک دوسرے کی غیبت کو زندگی کا شعار بنا لیتے ہیں
٭ ایک دوسر ے کی ٹانگ کھینچنا ان کا مرغوب عمل بن جاتا ہے ۔
٭ وہ جو اپنے بھائی کے منہ پر کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتے وہ اس کی غیر حاضری میں بہت کچھ کہتے ہیں ۔
٭ بات بات پر خطرات اور خدشات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
٭ بے اعتمادی اور بد اعتمادی زندگی کا چلن بنا لیتے ہیں
٭ نئی باتوں ، نئی راہوں اور نئی حکمت عملی سے انہیں خوف آتا ہے ۔
٭ جمود کے دلداہ اور تازہ سوچ پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔
٭ تحرک سے عاری اور سٹیٹس کو (Status quo) میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔
٭ تبدیلی انہیں کاٹنے کو دوڑتی ہے اور تسلسل کے نام پر گھسی پٹی راہ اپنا ئے رکھتے ہیں ۔
٭ بدلے ہوئے حالات پر غور کرنا اور تحقیق و مطالعہ سے نئی راہیں تلاش کرنا انہیں کٹھن نظر آتا ہے ۔
٭ اپنی نا کارکردگی کو خوبصورت الفاظ میں چھپا کر تسکین حاصل کرتے ہیں ۔
٭ تنقید کرنے میں شیر اور تنقید سننے سے خوف کھاتے ہیں۔
٭ سب اچھا کی خوش بیانی انہیں بھاتی ہے اور حقیقت بیان کی جائے تو ‘‘مایوسی پھیلانے ’’ کا نعرہ لگا کر دوسروں کو چپ کرا دیتے ہیں ۔
٭ وہ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے سے شرماتے ہیں اور بسم اللہ کے گنبد میں بند رہ کر انہیں زندگی آسان نظر آتی ہے ۔
٭ انہیں اپنا سکڑتا ہوا ڈھانچہ پھیلتا ہوا کام نظر آتا ہے وہ نئے منصوبے نئے نئے شعبے بنا کر اپنے پھیلاؤ اور اپنی بڑائی کا سراب تیار کرتے ہیں ۔
اور وہ تنظیمیں جن کے یہ رکن ہوتے ہیں وہ :
٭ باطن میں سکڑتی اور ظاہر میں پھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں
٭ ان کا اپنا نصب العین پس منظر میں چلا جاتا ہے اور دوسروں کے اہداف ان کی زندگی میں جگہ بنا لیتے ہیں ۔
٭ ان کی وقعت نہ اپنوں کی نظر میں جچتی ہے او رنہ غیروں کی نظر میں ہی اہم ہوتی ہے ۔
٭ ان کی افرادی قوت کام کے بجائے دوسروں پر الزامات کے گھوڑے پر سوار ہو کر زندگی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے ۔
ایسے میں حیات نو کے لیے تنظیموں کو کسی سخت جھٹکے کی ضرورت ہوتی ہے بشرطیکہ اللہ کی نظر میں تبدیلی کی امنگ اور حیات نو کی ترنگ کہیں نہ کہیں کروٹیں لے رہی ہو ۔
انسانوں کی طرح تنظیمیں بھی دل ، دماغ ، روح اور جسم سے تشکیل سے پاتی ہیں ۔ جب کوئی نشوونما اور بڑھوتری کے حوالے سے جمود کا شکا ر ہو جائے یا شوگر جیسی کسی مرض کی وجہ سے ا سکا جسم کم وزنی کا شکار ہو جائے تو ضعف بہت جلد پھیل جاتا ہے جسم کا کوئی خاص حصہ توانا بھی ہو رہا ہو تو کمزوری کے شکار باقی اعضا اسے کسی قابل نہیں چھوڑتے ۔ جب کوئی تنظیم جس کا تعلق بنیادی طور پر نصب العین سے ہوتا ہے پراگندگی کا شکار ہو جائے یا دوسرے بعض نصب العینوں کے ساتھ خلط ملط ہو جائے تو اس سے بے کاری ، بے اعتباری اور ظاہری حرکت کے باوجود جمود کا سماں پیدا ہوتا ہے ۔ تنظیموں کے دماغ ان کے لیڈر ہوتے ہیں جب تنظیم کے قائدین میں فیصلہ سازی کی صلاحیت مفقود اور تنظیم کے مفادات ترجیح اول نہ رہیں تو نہ صرف ارکان بلکہ قائدین بھی بے بسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بے بسی آخر کار تنظیم کو لے ڈوبتی ہے ۔ جو جذبوں کا مرکز اور امنگوں کا محور ہوتا ہے وہ تنظیموں کے حوالے سے ان کی وہ باڈی ہوتی ہے جو ولولہ انگیز منصوبے بناتی اور پوری جانفشانی سے ان کے نفاذ کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن جب دل ہی سنگ و خشت کی شکل اختیار کر لے تو تنظیمیں سر پھٹول ،باہمی منافقت اورریاکاری کا ملبہ اٹھا کر دوسروں پر ڈالنے کے مرض کاشکار ہوجاتی ہیں ۔ تنظیمیں ، ان کے ارکا ن اور ان کی قیادتیں اعتبار کھو بیٹھتی ہیں اور جب اعتبار اور اعتماد (Trust and confidence) ہی ختم ہو گیا توباقی کیا رہ جاتا ہے۔