ارکان حج کی حقیقت

مصنف : الطاف احمد اعظمی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : جنوری 2006

            حج اسلامی عبادات کا ایک اہم رکن ہے ، بلکہ اگریہ کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ وہ سب سے بڑا رکن ہے ۔ اما م ابو حنیفہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو اس امر میں تردد تھا کہ حج سب سے بڑی عبادت ہے، لیکن جب انھوں نے حج کیا تو ان کا یہ تردد دور ہوگیا ۔ انھوں نے تسلیم کیاکہ حج واقعی سب سے بڑی عبادت ہے ۔

            حج کی اس زبردست اہمیت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس میں کل عبادات جمع ہیں ۔ دیکھیں ، اس میں نماز بھی ہے ، زکوٰۃ بھی ہے اورروزہ بھی ۔ اس کے علاوہ اس عبادت کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی موحد انہ زندگی کے ایک اہم واقعے سے ہے ، یعنی واقعۂ ذبح ۔ ان وجوہ سے حج کو اسلام میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دیگر عبادات کی طرح یہ عظیم الشان عبادت بھی اب پورے طور پر بے اثر ہوچکی ہے۔ ہر شخص بچشم خود دیکھ سکتا ہے کہ حج کر لینے کے باوجود مسلمانو ں کی زندگی میں ابراہیمی فکر ونظر کی نمود تو بڑی بات ہے ، تقویٰ کی معمولی جھلک بھی جو تمام عبادات کا مقصود و مطلوب ہے ،دیکھنے کو نہیں ملتی ۔

            حج کی اس بے اثری کی متعدد وجہیں ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ ارکان حج کی حقیقت سے بے خبری ہے ۔ مثلاًاکثر حجاج کرام خواندہ اور ناخواندہ ، دونوں یہ نہیں جانتے کہ احرام کا لباس کیو ں پہنتے ہیں ، تلبیہ کی صدا کیوں بلند کر تے ہیں ، کعبہ کے گرد طواف کیوں کرتے ہیں وغیرہ ؟علما کی طرف سے اعمال حج کی جو توجیہات پیش کی گئی ہیں ، وہ راقم کے نزدیک حقیقت پرمبنی نہیں ہیں ۔ مثلاً رمی کے عمل کو مجسم شیطان پر لعنت قرا ر دینا ۔ یہی معاملہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا ہے ۔ اس کی تاویل بھی اطمینان بخش نہیں ہے ان وجوہ سے ہم نے خیال کیا کہ ارکان حج کی صحیح حقیقت معلوم کی جائے اور اس سے مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے تاکہ حج جیسی عظیم عبادت کے فیوض وبرکات سے مسلم معاشرہ بہرہ ور ہو۔

احرام

            یہ دو بن سلی ہو ئی چادریں ہیں ، جن کوحاجی حدود مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ایک متعین مقام میقات پرپہنتا ہے ۔ نفیس لباس مرغوبات نفس میں شامل ہے اور حج کا بنیادی مقصد مرغوبات نفس کی اسیری سے آزادی حاصل کرنا ہے۔ چنانچہ ایک حاجی جس وقت اپنا پسندیدہ لباس اتارکر احرام جیسا سادہ اور معمولی لباس پہنتا ہے تو اس سے جہاں نفس کی مخالفت ہوتی ہے اور غرورو تکبر پر جو نفس انسانی کی ایک بڑی خرابی ہے ، ضرب پڑتی ہے اور طبیعت میں عاجزی او رخاک ساری پیدا ہوتی ہے ، وہاں اس عمل سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ حاجی نفس کا بندہ وغلام نہیں ،بلکہ خدائے قدوس کا بندہ و غلام ہے۔

            عمدہ لباس ، سماجی حیثیت کے اظہار و امتیاز کا بھی ہمیشہ سے ایک بڑا ذریعہ رہا ہے ۔احرام دولت مندی کی اس نشانی اور سماجی امتیاز کی اس علامت کو ختم کر کے تمام عازمین حج کو برابری کے رشتے میں باندھ دیتا ہے ۔ چنانچہ جملہ حجاج کرام خواہ و ہ کسی ملک و علاقہ سے آئے ہوں ، ایک ہی یونیفارم (احرام )میں ملبوس ہوتے ہیں ۔ اب نہ کوئی چھوٹا ہے نہ بڑا، نہ کوئی امیر ہے نہ کوئی غریب ، نہ کوئی حاکم ہے نہ کوئی محکوم ، سب خدا کے بندے ہیں۔

            یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لیے بدویانہ زندگی پسندکی تھی ۔ بابل جیسے متمدن ملک سے ہجرت کر کے آپ نے ایک نہایت غیر متمدن علاقہ میں سکونت اختیار کی ۔ احرام اس بدو یانہ زندگی کی یاد دلاتا ہے کہ کبھی اسی بن سلے ہوئے لباس کو پہن کر جد امجد نے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھا تھا اور خدا ئے واحد کی عبادت کی تھی ۔ اس سے ایک حاجی کو یہ سبق ملتا ہے کہ و ہ لباس کے تکلفات سے ہمیشہ کے لیے آزادی حاصل کر کے سادہ لباسی کو اپنا ملی شعار بنائے ۔

تلبیہ

            احرام کا لباس زیب تن کر تے ہی درج ذیل الفاظ کا ورد شروع ہو جاتا ہے :

            لبیک ، اللّٰھم لبیک ، لبیک ، لا شریک لک، لبیک . ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک.(مسلم، کتاب الحج۔ موطا، کتاب الحج)

 ‘‘حاضر ہو ں ،اے اللہ حاضر ہوں ۔ حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ،حاضر ہوں۔ سب تعریف تیر ے لیے اور سب نعمتیں تیر ی ہی ہیں ، اور بادشاہی میں تیرا کوئی شریک نہیں ۔’’

            اس ورد کو اصطلاحِ حج میں تلبیہ کہتے ہیں اس کے لفظی معنی ہیں :لبیک کہنا ، پکار کا جواب دینا ۔ یہاں سوال پیداہوگا کہ آخر یہ کس پکار کا جواب ہے ، اور یہ پکار کیوں لگائی گئی تھی ؟ جس وقت خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اللہ نے حضرت ابراہیم سے کہاکہ وہ اس گھر کے حج کی منادی کردیں ۔(واذن فی الناس بالحج ...عمیق۔ (الحج ۲۲:۲۷)

            حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان مبارک سے حج کا یہ اعلان تقریباًچار ہزار سال پہلے مکہ کی پہاڑیو ں کے اوپر سے ہو ا تھا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صد ا کل ہی بلند ہوئی ہے اور لوگ جوق در جوق اس پکار کے جواب میں خدا کے گھر کی طرف جارہے ہیں ۔ تلبیہ دراصل ابراہیمی پکار کا جواب ہے ۔روایات میں آتا ہے کہ جب اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہاکہ لو گو ں سے پکار کر کہہ دوکہ وہ اس گھر کے حج کے لیے آئیں تو آپ نے فرمایا :

            یا رب کیف أبلغ النا س وصوتی لا ینفذھم فقا ل ناد ، وعلینا البلاغ. فقام علی الحجر و قال، یا ایھا الناس ان ربکم قد اتخذ بیتا فحجوہ . (تفسیر ابن کثیر، ۳/ ۲۱۶)

            ‘‘اے رب ، میں یہ بات کیسے لوگو ں تک پہنچاؤں۔ میری آواز ان تک نہیں پہنچے گی ۔اللہ نے کہا ، تم پکارو، اس پکار کو لوگوں تک پہنچاناہمارے ذمہ ہے۔ پس حضرت ابراہیم پتھر پر کھڑے ہوئے اورکہا : اے لوگو ، تمھارے رب نے ایک گھر کو مقرر کیا ہے ، پس تم اس کا حج کر و ۔’’

            سبحان اللہ ، اس صدائے دل نواز کا بلند ہونا تھا کہ زمین کے فاصلے سمٹ گئے ، سمندروں ، پہاڑوں اور جنگلوں کی قدرتی رکاوٹیں گویا درمیا ن سے ہٹ گئیں اور دنیا کے گوشے گوشے تک یہ ربانی پیغام پہنچ گیا ۔ اور اس شان سے پہنچا کہ آج تک دنیا کے ہر کو نے سے ، ہر بلندی اور پستی سے اور ہر خشکی اور تری سے ‘‘حاضر ہوں ’’کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں اوربلا کشان محبت کے قافلہ ہاے تیز گام اس پیغام کے مرکز کی طرف کشاں کشاں چلے آرہے ہیں تاکہ وہاں پہنچ کر آستان الہٰی پر جبین نیاز جھکائیں اور اس کی غلامی کے داغ سے اپنی پیشانی کو آراستہ کر یں ۔تلبیہ دراصل حاجی کا روحانی ترانہ ہے اور جس وقت ایک جم غفیر یہ ترانۂ جاں نواز پڑھتا ہے تواس سے ایک ایسا روحانی ماحول پیدا ہوتا ہے کہ قلوب خودبخود خدا کی اطاعت وبند گی کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں اور تسلیم و رضا کے جذبات غالب آجاتے ہیں۔

طواف کعبہ

            حدودحرم میں قدم رکھتے ہی حاجی اس گھر کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اس کے سفرکی منزل مقصود ہے ۔ یعنی خانۂ کعبہ جو خدا کا پہلا گھر ہے ا ورجس کی تعمیر حضرت ابراہیم او رحضرت اسماعیل علیہما السلام جیسی خدا کی برگزیدہ اور مقدس ہستیوں کے مبارک ہاتھوں سے انجام پائی ہے ۔قرآن مجید کی بعض آیا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ خانۂ کعبہ دراصل قربان گا ہ ہے۔ مثلاًایک جگہ فرمایا گیا ہے:

            وَلاَ تَحْلِقُوْا رُءُ وْسَکُمْ حَتّٰی ےَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہٗ.(البقرہ۲:۱۹۶)

 ‘‘اوراپنے سروں کو اس وقت تک نہ منڈواؤجب تک کہ ہدی( قربانی ) اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔’’

            قرآن مجید کی تصریح کے مطابق یہ ‘محل ’بیت عتیق ہے ۔فرمایا ہے :

            لَکُمْ فِےْہَا مَنَافِعُ اِلَیٰٓ اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ مَحِلُّھَا اِلَی الْبَےْتِ الْعَتِےْقِ . (۱لحج ۲۲:۳۳)

‘‘اور تمھارے لیے ان ہدی کے جانوروں میں ایک متعین مدت تک مختلف قسم کے فائدے ہیں پھر ان کو قربانی کے لیے قدیم گھر کی طرف لے جانا ہے ۔’’

            ایک دوسرے مقام پر نام لے کر اس قدیم گھر کا ذکر بحیثیت قربان گا ہ کیا گیا ہے :

            ےَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْےًا بَالِغَ الْکَعْبَۃِ. (المائدہ۵:۹۵)

 ‘‘جس کا فیصلہ تم میں سے دومعتبر آدمی کریں گے ۔یہ (یعنی بدلے کا جانور )نیاز کی حیثیت سے خانۂ کعبہ کو پہنچا یا جائے ۔’’

            جب مکہ کی آبادی بڑھ گئی اورحاجیو ں کی کثرت ہوئی تواس قربان گاہ کو منیٰ تک وسیع کردیا گیا، لیکن اس کا معنوی رشتہ خانۂ کعبہ سے قائم رکھا گیا چنانچہ منیٰ میں قربانی کے بعدحاجی فوراً ہی مکہ پہنچ کر اصلی قربان گا ہ یعنی خانۂ کعبہ کا طواف کرتا ہے جوطواف زیارت کے نام سے موسوم ہے ، اور یہ لازمی ہے۔ اس عمل سے ثابت ہوا کہ خانۂ کعبہ قربان گاہ بھی ہے ۔

            تاریخ سے بھی اس کی تصدیق ہو تی ہے یہودیوں میں نذر و قربانی کے لیے ایک ضروری شرط یہ تھی کہ اس کو مذبح کے سامنے سات مرتبہ پھیرا جائے ۔

            ( گنتی ۶: ۵، ۹) ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ خداوند کے حضوریعنی بیت اللہ کے سامنے لا ئی جائے ۔(۱حبار ۸ : ۲۷، ۱۴، ۲۱، ۲۴۔ خروج ۲۹: ۲۶)

            خانۂ کعبہ کے گرد طواف کے سات پھیرے اور اس میں رمل دراصل ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ طریقۂ نذر وقربانی کی نقل ہے۔ خانۂ کعبہ کے گرد سات پھیر ے لگا کر حاجی دراصل ا س بات کا اظہا رکرتا ہے کہ وہ خودکو خدا کی نذر کرچکا ہے ، اس کا جینا و مرنا سب اسی کے لیے ہے ۔

            افسوس کہ آج اکثر حاجی طواف کی اس حقیقت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں اوربے سوچے سمجھے کسی طرح سات پھیرے پورے کردیتے ہیں ۔خداکے لیے اپنی زندگی وقف کرنا تو بڑی بات ہے ، اکثر لوگ حج سے فراغت کے بعد اس طرح آزاد و خود محتار ہو جاتے ہیں گویا انھوں نے خانۂ کعبہ کے گرد طواف کرکے خود کو اللہ کے حوالے کیا ہی نہیں تھا ۔

حجر اسود کا استلام

            حجراسود، ناہموار ، مگر چمک دار سیاہ سرخی مائل ، بیضوی شکل کا ایک پتھر ہے جو چاند ی کے خول میں خانۂ کعبہ کے ایک گوشے میں کچھ بلندی پرنصب ہے ۔(دور جاہلیت میں خانۂ کعبہ کو آگ لگ گئی تو یہ پتھر بھی جھلس گیا تھا۔ ۶۴ ہجری میں حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حجاج کی فوجوں میں لڑائی کے نتیجے میں یہ پتھر تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ ابن زبیر نے چاندی کے موٹے خول کے اندر ان ٹکڑوں کو رکھ کر دیوار میں نصب کر دیا۔ ۱۸۹ ہجری میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے ان ٹکڑوں میں سوراخ کرا کے ان کو چاندی سے خوب اچھی طرح باہم پیوست کر دیا۔ ۳۱۷ ہجری میں قرامطہ نے مکہ پر قبضہ کر لیا اور حجر اسود کو اکھاڑ کر بحرین لے گئے ۔ ۲۲ سال کے بعد یہ دوبارہ اپنی جگہ پر نصب کیا گیا اور آج تک اسی حال میں موجود ہے۔)

            یہ پتھر نہایت قدیم ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہزاروں سال پہلے جس گھر کی تعمیر کی تھی، اس گھرکا صرف یہی ایک پتھر آج باقی رہ گیا ہے جو برابر اس کی قدامت کی یاد دلاتا رہتا ہے ۔اسی پتھر کو لبوں یا ہاتھو ں سے مس کر کے خانۂ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے ۔یقینااس پتھرکو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے صاحب زادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مقدس لبو ں نے بوسہ دیا ہوگا اور خود ہمارے ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب نے اپنے پاکیزہ ہاتھو ں اور لبوں سے اس کو چھوا ہے ۔اس کے بعد سے آج تک امت مسلمہ کے بے شمار صلحا واتقیا نے اس عمل کو جاری رکھا اور انشا اللہ ابدالآباد تک یہ حسین عمل جاری رہے گا۔

            لیکن سوال یہ ہے کہ خانۂ کعبہ کا طواف شروع کرنے سے پہلے اس پتھر کو بوسہ کیوں دیا جاتا ہے یا اسے ہاتھو ں سے کیوں چھوا جاتا ہے ؟یہ بات طے ہے کہ وہ نفع و ضرر پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا ۔حضرت عمر فاروق نے ایک بار دوران طواف میں اس پتھر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :میں جانتا ہوں کہ تومحض ایک پتھرہے ، نہ نفع پہنچا سکتا ہے او رنہ نقصان ، لیکن میں تجھ کو صرف اس لیے بوسہ دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں ہرگز بوسہ نہ دیتا۔

            اگر استلام کی حقیقت اتنی ہی ہے تو سوال پیداہوتا ہے کہ جس مرد مومن نے پہلی بار اس پتھر کو بوسہ دیا تھا ، اس نے یہ عمل کیوں کیا تھا ؟ہمارے علما نے کافی غور وفکرکے بعد اس کا جواب یہ دیا ہے کہ حجراسود طواف کے آغاز و اختتام کی علامت ہے،اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :‘‘یہ پتھرکعبہ کے اس گوشہ کی دیوار میں لگا ہے جس کی طرف رخ کرکے کھڑے ہو ں توبیت المقدس سامنے پڑے گا اور اسی لیے حجر اسود کے مقابل گوشہ کا نام رکن شامی ہے ۔ اس گوشہ کے تحقق سے بیت المقدس کی سمت کا اشارہ مضمرہے ۔ اس گوشہ میں اس پتھر کے لگانے سے مقصود یہ ہے کہ خانۂ کعبہ کے طواف کے شروع اورختم کرنے کے لیے وہ ایک نشان کا کام دے ۔’’ (سیرت النبی ۳۶۷/۵)             

            یہ ایک قیاسی توجیہ ہے ۔ اگر حجر اسود طواف کے آغاز و اختتام کی علامت ہے تو حاجی اس کو بوسہ کیوں دیتا ہے ؟اس تو جیہ کی خامی محسوس کرکے بعض علما نے اس سے مختلف خیال پیش کیا ہے ۔مولانا وحیدالدین خان لکھتے ہیں :

            ‘‘حجر اسود کو حد یث میں ‘ید اللّٰہ علی الارض’ (زمین پرخدا کا ہاتھ )کہا گیا ہے ۔ یہ حقیقی معنوں میں نہیں ، بلکہ تمثیلی معنو ں میں ہے ۔آدمی کے اند ر اٹھنے والے ربانی جذبات اپنی محسوس تسکین کے لیے یہ چاہتے تھے کہ وہ اللہ کے ہاتھ کو چھوئیں اور اس کو چھوکر اپنے جذبے کو مطمئن کریں ۔حجر اسود کو چوم کرآدمی اپنے اس جذبہ کی تسکین حاصل کرتا ہے ۔’’(حقیقت حج ۷۴)   

            ‘ید اللّٰہ ’کی یہ تعبیر صحیح نہیں ہے ۔صحیح بات یہ ہے کہ حجر اسود عہد کی نشانی ہے ۔اگراس کو ہم تمثیل کی زبان میں کہیں تو کہہ سکتے کہ وہ دراصل خدا کے ہاتھ کا قائم مقام ہے ۔خدا کی ذات تجسم سے پاک اور بے جہت وبے مکان ہے ۔یہ ناممکن ہے کہ بندہ فی الواقع اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر کوئی عہد و پیماں کرے ۔ اس لیے خداے رحیم نے اس پتھر کو تمثیلاًاپنا ہاتھ قرار دیا ، تاکہ اس کے بندے محسوس سطح پر یہ سمجھیں کہ وہ گویا اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر اس سے عہد اطاعت باندھ رہے ہیں۔ کسی فعل کے تکرار سے اس میں پختگی آتی ہے۔خانۂ کعبہ کے ہر طواف میں حجر اسود کا استلام دراصل خدا سے باندھے ہوئے عہد غلامی کی تجدید و توثیق ہے ۔آج بھی جب دو اشخاص کو ئی پختہ عہد ومیثاق کرتے ہیں تو ہاتھ میں ہاتھ دے کراس بات کو ظاہر کرتے ہیں ۔ہم جس وقت حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں تو کہتے ہیں : اللھم ایمانا بک وتصدیقاًبکتا بک ووفاء بعھدک.

             ‘‘اے اللہ تجھ پر ایمان کے ساتھ ، تیر ی کتاب کی تصدیق کے ساتھ اور تجھ سے باندھے ہوئے عہد کو پورا کرنے کے ساتھ۔’’

            ‘ووفا ء بعہدک’کے الفاظ سے بالکل ظاہر ہے کہ استلام کی حقیقت وفا ے عہد کا اظہار و اقرار ہے ۔

عمل سعی

            صفا ا ور مروہ کے درمیان سعی اعمالِ حج میں داخل ہے۔یہ دراصل دوپہاڑیاں ہیں جو خانۂ کعبہ سے متصل ہی واقع ہیں ۔ طوافِ کعبہ سے فراغت کے بعد ان دو پہاڑیو ں کے درمیا ن تیز قدموں سے چلنے کو سعی کہا جاتا ہے ۔اس عمل کو حضر ت ہاجرہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل کو پیاس سے بے تاب دیکھ کر پانی کی تلاش میں ان د و نو ں پہاڑیوں کے درمیان دوڑی تھیں ۔ مولانا سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں :

            ‘‘بعض روایتو ں میں ہے کہ حضرت ہاجرہ حضرت اسماعیل کو لے کر جب یہا ں آئی تھیں ،اوروہ پیاس سے بے تاب ہو گئے تھے تو حضر ت ہاجر ہ صفااور مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں دوڑی تھیں ، اور آخر زم زم کا چشمہ ان کو نظر آیا ۔یہ صفا و مروہ کی سعی انھی کی اس مضطربانہ دوڑ کی یا دگار ہے۔’’(سیرت النبی ۳۶۹/۵)

            اس خیا ل کی بنیاد و ہ روایت ہے جو بخاری میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں :

            ‘‘حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے اسماعیل کو جب کہ وہ ابھی دودھ پی رہے تھے لے کرآئے اور ان کو ایک درخت کے نیچے اس جگہ چھوڑدیا جہا ں بعد میں زم زم نکلا ، مکہ کی سنسان وادی میں اس وقت کوئی ایک انسان بھی موجود نہ تھا اور نہ کہیں پانی پایا جاتا تھا ۔ حضرت ابراہیم نے چمڑے کا ایک تھیلا جس میں کھجوریں تھیں اور پانی کا مشکیزہ ہاجرہ کودیا اور واپس روانہ ہوئے ۔وہ ان کے پیچھے چلیں او رکہنے لگیں :اے ابراہیم ، کہا ں جاتے ہو ؟او رہمیں سنسان اوربے آب و گیاہ وادی میں چھوڑے جاتے ہو ؟یہ بات حضرت ہاجرہ نے کئی مرتبہ کہی ، مگر حضرت ابراہیم نے پلٹ کر نہ دیکھا ۔آخر حضرت ہاجرہ نے کہا ،کیا اللہ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ؟جواب میں انھوں نے بس اتنا ہی فرمایا کہ ہاں۔ اس پر وہ بولیں اگر یہ بات ہے تو اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا۔اور پلٹ کربیٹے کے پاس آبیٹھیں۔حضرت ابراہیم جب پہاڑکی اوٹ میں پہنچے جہاں سے یہ ماں بیٹا نظرنہ آتے تھے توبیت اللہ کی طرف رخ کیا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا :

            رَبَّنَآ اِنِّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍغَےْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَےْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِےُقِےْمُوْا الْصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنْ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرَٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ. (ابراہیم ۱۴ :۳۷)

             ‘‘پروردگا ر میں نے ایک بے آب وگیا ہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے، پروردگار یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ وہ نماز قائم کریں ۔لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انھیں کھانے کو پھل دے۔ شایدکہ شکر گزار بنیں۔’’

            ادھر اسماعیل کی والدہ ان کو دودھ پلاتی رہیں اورمشکیزہ کا پانی پیتی رہیں ۔ جب پانی ختم ہوگیا توانھیں اوربچے کو پیاس لگنی شروع ہوئی ۔ وہ بچے کو تڑپتا ہوا دیکھتی رہیں ، آخر بچے کی حالت ان سے نہ دیکھی گئی اوروادی کی طرف یہ دیکھنے کے لیے چل پڑیں کہ کوئی آدمی نظر آئے ، مگر کوئی نظر نہ آیا پھر صفا کی پہاڑی سے اتر کر وادی کے بیچ میں آئیں اوراپنا بازو اٹھا کر اس طرح دوڑیں جیسے کوئی مصیبت زدہ انسان دوڑتا ہے ۔پھر مروہ کی پہاڑی پرچڑھ کر دیکھنے لگیں کہ کوئی آدمی نظر آتا ہے یا نہیں، مگر کوئی نظر نہ آیا ۔یہ فعل انھوں نے (صفا اورمروہ کے درمیان )سات مرتبہ کیا ۔ حضر ت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی وجہ سے لوگ صفا اورمروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں ۔ آخری مرتبہ جب وہ مروہ کی پہاڑی پرچڑھیں تو انھوں نے ایک آواز سنی ۔ اپنے آپ سے کہنے لگیں ، چپ رہ (یعنی شور مچانا بند کر )اورغور سے سننے لگیں ۔ آواز پھر آئی۔ انھوں نے کہا: اے شخص تو نے مجھے اپنی آواز تو سنا دی ، لیکن کیا تیر ے پاس میر ی مصیبت کا کوئی علاج بھی ہے ؟ انھوں نے زم زم کے مقام پر ایک فرشتے کو دیکھا جو اپنے بازو سے زمین کھود رہا تھا یہاں تک کہ وہا ں سے پانی نکل آیا ۔ حضر ت ہاجر ہ اپنے مشکیزے کو پانی سے بھرنے لگیں ، اورجوں جوں وہ پانی بھرتی گئیں پانی کی مقدار بڑھتی گئی اور وہ ابل کر اوپر آتا رہا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ِ :اللہ اسماعیل کی ماں پر رحمت فرمائے ۔ اگر وہ زم زم کو اس کی اصلی حالت میں چھوڑ دیتیں تو آج زم زم ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا ۔ حضرت ہاجرہ اسی طرح چشمہ سے پانی پینے لگیں اوربچے کوبھی دودھ پلاتی رہیں ۔ فرشتے نے ان سے کہا :تم کسی خوف اوراندیشے میں مبتلا نہ ہو ۔اس مقام پر اللہ کا گھر ہے جسے یہ بچہ اوراس کاباپ ، دونوں مل کر بنائیں گے ،اوراللہ اس گھر کے لوگوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا ۔’’( بخاری، رقم ۳۱۸۴)

            بخاری کی یہ روایت مرفوع نہیں ہے ، البتہ اس کے بعض فقرے ضرور مرفوع ہیں ، یعنی ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ روایت اصولِ درایت پر پوری نہیں اترتی ، اس لیے غلط ہے۔ پہلے اس روایت کاوہ حصہ لیں جو غیر مرفوع ہے۔ یہ حصہ صریحاً تورات سے ماخوذ ہے۔ عبارت ذیل ملاحظہ ہو:

            ‘‘ ابراہیم صبح سویرے اٹھا اور روٹی اور پانی کا ایک مشکیزہ حضرت ہاجرہ کے کندھے سے لٹکا دیا اور انھیں گھر سے روانہ کردیا حضرت ہاجرہ وہاں سے نکل کر بیر سبع کے بیابان میں ادھر ادھر پھرنے لگیں یہاں تک کہ پانی ختم ہو گیا۔ انھوں نے بچہ کو ایک جھاڑی میں ڈال دیا اور خود تھوڑے فاصلہ پر اس خیال سے کہ بچے کو مرتے ہوئے دیکھ نہ سکیں، جا کر بیٹھ گئیں اور زور زور سے رونے لگیں۔ خدا نے بچے کی آواز کو سنا اور خدا کے فرشتہ نے آسمان سے حضرت ہاجرہ کو پکارا اور کہا: کیا بات ہے ہاجرہ؟ خوف نہ کرو۔ خدا نے بچہ کی آواز سن لی ہے۔ اٹھو اور بچہ کو اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں لو۔ اس لیے کہ میں اسے ایک بڑی قوم بناؤں گا۔ اس کے بعد خدا نے اس کی آنکھوں کو کھول دیا اور اس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا اور وہاں جا کر اس نے اپنے مشکیزے کو بھرا اور بچہ کو پانی پلایا۔’’( پیدایش۲۱: ۱۴ ۔ ۱۹)

            قارئین نے دیکھ لیا کہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ تورات اور بخاری کے بیانات ایک سے ہیں اور دونوں میں مافوق الفطری عنصر غالب ہے۔ بخاری کی روایت میں یہ عنصر زیادہ ہے، مثلاً فرشتے کا اپنے بازووں سے زمین کھودنا، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ محض ایک افسانہ ہے۔ اس کے غیر مرفوع حصے کا مرکزی خیال بھی محلِ نظر ہے۔ یعنی کم سنی میں حضرت اسماعیل کا مکہ میں آباد ہونا۔ خود اسی روایت سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے۔ روایت میں ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم اپنی بیوی اور بچے کو وادی مکہ میں یکہ وتنہا چھوڑ کر جانے لگے تو اس مقام پر پہنچ کر جہاں بعد میں خانۂ کعبہ تعمیر ہوا، فرمایا:

            رَبَّنَآ اِنِّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍغَےْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَےْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِےُقِےْمُوْا الْصَّلٰوۃَ.( ابراہیم ۱۴:۳۷)

             ‘‘ پروردگار، میں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں۔’’

            سوال یہ ہے کہ ابھی خانۂ کعبہ تعمیر نہیں ہوا تھا تو یہ کہنا کہ میں نے تیرے گھر کے پاس اپنی ذریت کو آباد کیا، کس طرح صحیح ہو گا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت کی جب خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہو گئی اور اس تعمیر میں خود حضرت اسماعیل علیہ السلام شریک تھے۔(البقرہ۲: ۱۲۷۔ )

            صحیح بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریت کو وادی مکہ میں اس وقت آباد کیا ، جب واقعۂ ذبح پیش آ چکا تھا۔ قرآن کا بیان ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت اسماعیل دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔(الصافات ۳۷ : ۱۰۲) علما اور مفسرین کا بیان ہے کہ اس وقت ان کی عمر لگ بھگ پندرہ سولہ برس کی تھی ۔( حضرت اسماعیل کا یہ کہنا :‘ یا ابت افعل ما تومر ستجدنی ان شاء اللّٰہ من الصابرین.(الصافات۳۷: ۱۰۲) ظاہر کرتا ہے کہ وہ سن شعور کو پہنچ چکے تھے۔

            اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ واقعۂ ذبح کا خواب آپ نے وادی مکہ کے بجائے بیر سبع میں دیکھا تھا جہاں وہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کے ساتھ رہتے تھے۔ تورات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ، گو کہ اس میں ذبیح حضرت اسحاق کو قرار دیا گیاہے:

            ‘‘ ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابرہام کو آزمایا اور اس سے کہا: اے ابرہام ! اس نے کہا، میں حاضر ہوں، تب اس نے کہا: اپنے بیٹے اسحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر مریا کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔ تب ابرہام نے صبح سویرے اٹھ کر اپنے گدھے پر چار جامہ کسا او راپنے ساتھ دو جوانوں اور اپنے بیٹے اسحاق کو لیا اور اس سوختنی قربانی کے لیے لکڑیاں چیریں اور اٹھ کر اس جگہ کو جو خدا نے بتائی تھی روانہ ہوا۔ تیسرے دن ابرہام نے نگاہ کی اور اس جگہ کو دور سے دیکھا۔ تب ابرہام نے اپنے نوکروں سے کہا کہ تم لوگ یہاں ٹھہرو میں اور میرا یہ فرزند وہاں جائیں گے اور عبادت کرکے لوٹ آئیں گے ...فرشتہ نے کہا: تم بچے کے خلاف ہاتھ نہ اٹھاؤ۔ ہم نے جان لیا کہ تو خدا ترس ہے ... ابرہام نے مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے اس کی قربانی کی... تب ابرہام اپنے جوانوں کے پاس لوٹ گیا او روہ اٹھے او راکٹھے بیر سبع کو گئے اور ابرہام بیر سبع میں رہا۔’’(پیدایش ۲۲: ۱ ۔ ۱۴) 

            قرآن اور تورات، دونوں کے مذکورہ بیانات سے بالکل واضح ہو گیا کہ بخاری کی روایت کا غیر مرفوع حصہ یعنی حضرت اسماعیل کا کم سنی کی حالت میں مکہ میں ورود وغیرہ بالکل وضعی ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

            روایت کے غیر مرفوع حصے کی وضعیت ثابت ہو جانے کے بعد اس کا مرفوع حصہ بھی ساقط الاعتبار ہو جاتا ہے۔ روایت میں کہا گیا ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا تعلق حضرت ہاجرہ سے ہے جو اپنے بچے کی خاطر پانی کی تلاش میں ان دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑی تھیں، لیکن قرآن مجید سے اس بیان کی تردید ہوتی ہے۔

            قرآن میں صفا اورمروہ کو شعائر اللہ کہا گیاہے ۔(ان الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ... علیم۔ (البقرہ ۲:۱۵۸) لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان حضرت ہاجرہ دوڑی تھیں، بلکہ اس لیے کہ واقعۂ قربانی ان پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑی مروہ پر پیش آیا تھا ۔صفا کو اس سعی میں اس لیے شامل کر لیا گیا ہے کہ اسی پہاڑی پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم نے مقام ذبح کودیکھا تھا اور خدا کے حکم کی تعمیل میں تیزی کے ساتھ مروہ کی طرف دوڑ کر گئے تھے، اور پھر اسی پہاڑی پر آ کر رکے اور بیر سبع کی طرف گئے ، جیسا کہ تورات کی مذکورہ عبارت سے بالکل واضح ہے۔

            یہ بات کہ مروہ ہی مقام ذبح ہے ، قرآن مجید او رحدیث ، دونوں سے ثابت ہے ۔ سورۂ بقرہ میں فرمایا گیاہے:

            یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ. وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتُٗ بَلْ اَحْیَآءُٗ وَلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ. وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ. الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃُٗ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ. وَاُوْلٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتُٗ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ. اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ۔ (۲ :۱۵۳۔۱۵۸)

             ‘‘اے ایمان والو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ، ان کو مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں ، لیکن تم نہیں جانتے ۔ بے شک ہم تم کو آزمائیں گے ، خوف ، بھوک ، مالوں ، جانوں اور پھلوں کی کمی سے ، اور ان صابرین کو خوش خبری سنا دو جو مصیبت سے دوچار ہونے کے بعد بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ ہم بے شک اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ انھی لوگوں پر ان کے رب کی رحمت اور عنایتیں ہیں، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں ۔’’

            ان آیات میں اللہ کی طرف سے پیش آنے والی ابتلا وآزمایش میں ثابت قدم رہنے والوں کو مژدہ سنایا گیا ہے کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت ابتلا کے فوراً بعد صفا اور مروہ کا ذکر ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر کسی شخص کو صبرو ثبات کی فضیلت اور اس کے حاملین کے حق میں وعدۂ خداوندی میں شک ہو تو وہ ان دونوں تاریخی مقامات صفا اور مروہ کو دیکھ لے ، جہاں اللہ تعالیٰ کے دو نیک بندوں نے عدیم المثال صبرو ثبات کا مظاہرہ کیا تھا او رجس کے نتیجے میں وہ اللہ کی نظر میں برگزیدہ ٹھہرے اور اس کی رحمتوں اور نوازشوں سے مالا مال ہوئے۔ ‘ انا کذالک نجزی المحسنین’۔(تورات میں ہے: ‘‘ چوں کہ تو نے یہ بڑا کام کیا اور اپنے بیٹے کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کیا، میں تم کو یقینا برکت دوں گا، اور تمھاری ذریت کو آسمان کے ستاروں اور سمندر کی ریت کے مانند پھیلاؤں گا، اور تمھاری نسل دشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی اور تمھاری ذریت کے واسطہ سے زمین کی تمام قومیں فیض یاب ہوں گی ۔ یہ اس لیے کہ تو نے میری بات مانی اورمیرے حکم کو بجا لایا۔’’ (پیدایش ۲۲: ۱۶ ۔۱۸)

            مابعد کی آیات سے بھی مذکورہ خیال کی تصدیق ہوتی ہے۔ فرمایا گیاہے :

            اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ.(البقرہ۲: ۱۵۹)

            ‘‘بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں ان کھلی ہوئی نشانیوں اور ہدایت کو جو ہم نے نازل کی ہیں، اس کے بعد بھی کہ ہم نے کتاب میں وضاحت کے ساتھ لوگوں کے لیے بیان کر دی تھیں۔’’

            صفا اور مروہ کے ذکر کے بعد متصلاً اس آیت میں جس کتمان کی بات کہی گئی ہے ، اس کا تعلق مروہ یعنی مقام ذبح سے ہے جس کویہودی علما چھپاتے تھے۔ حدیث میں بھی ہے کہ مروہ ہی مقام ذبح ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

             ہذا المنہر یعنی المروۃ وکل فجاج مکۃ وطرقہا منہر. (موطا، رقم ۸۸۵)

             ‘‘ مروہ ہی قربان گاہ ہے، اور مکہ کی تمام گلیاں اور اس کے اطراف بھی۔’’

            مذکورہ دلائل وشواہد کی روشنی میں ہم پورے شرح صدر کے ساتھ کہتے ہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا تعلق واقعۂ قربانی سے ہے نہ کہ حضرت ہاجرہ کی بے تابانہ سعی سے جو تمام تر تورات سے ماخوذ ہے جیسا کہ تفصیل سے بیان ہوا۔

            صفا اور مروہ کے درمیان سات بار سعی کی علت بھی اسی وقت سمجھ میں آتی ہے ، جب ہم مان لیں کہ مروہ مقام ذبح ہے اور یہاں سات پھیرے اسی طرح لگائے جاتے ہیں جس طرح خانۂ کعبہ کے گرد لگائے جاتے ہیں جو خدا کا گھر ہے اور ابراہیمی قربان گاہ بھی۔اس سعی کو حضرت ہاجرہ کی طرف منسوب کرنے کی صورت میں سات پھیروں کی توجیہ مشکل ہے۔(مولانا فراہی نے اپنی تصنیف ‘‘ الرائ الصحیح فیمن ہو الذبیح’’میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو حضرت ابراہیم کی اس مستعدی کی طرف منسوب کیا ہے جو انھوں نے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے میں دکھائی تھی۔ یہ توجیہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ یہاں بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انھوں نے صفا اور مروہ کے درمیان سات بار اس سرگرمی کا مظاہرہ کیا تھا؟ صحیح بات یہ ہے کہ مروہ حضرت اسماعیل کا مقام ذبح ہے اور بایں طور اس کی حیثیت قربان گاہ کی ہے۔ چوں کہ یہ سعی اس پہاڑی کے اوپر بآسانی ممکن نہ تھی ، اس لیے صفا اور مروہ کے درمیان کی قدرے ہموار جگہ پر اس کو مقرر کیا گیا ہے۔ )

             اس کے برخلاف سعی کو واقعۂ ذبح سے جوڑ کر دیکھیں تو اس کا مفہوم ومدعا بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان حاجی کا سات بار چکر لگانا دراصل قربان گاہ اسماعیل کے گرد چکر لگانا ہے۔ اس سعی سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حاجی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح خدا کی رضا کی خاطر قربان ہونے کے لیے پوری طرح تیا ر ہے۔

            سعی کی اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حج کا یہ عمل بالکل رسمی بن گیا ہے۔ حاجی یہ سوچ کر سعی کر لیتا ہے کہ کبھی ان دو پہاڑیوں کے درمیان حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں دوڑی تھیں۔ ظاہر ہے کہ اس دوڑ کے وقت اس کے دل کی وہ کیفیت نہیں ہو سکتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں اس وقت موج زن تھی جب وہ اپنے لخت جگر کو اس مقام پر ذبح کرنے کے لیے بے تابانہ دوڑ کر پہنچے تھے۔

وقوف عرفہ

            یہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے ۔ حدیث میں ہے کہ: ‘ الحج عرفہ’( عرفہ میں قیام ہی حج ہے) ۔ اگر کسی نے سارے ارکان حج ادا کیے او رکسی واقعی معذوری کے بغیر وہ میدان عرفات میں حاضر نہیں ہوا تو اس کا حج نہیں ہوا۔ دوسرے ارکانِ حج میں گو کہ وہ متعین دنوں میں انجام دیے جاتے ہیں، اگر کسی وجہ سے تقدیم وتاخیر ہو جائے تو حج میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں قیام کے دوران میں صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور پوچھتے کہ یا رسول اللہ ہم نے ناواقفیت میں فلاں عمل پہلے کر لیا اور فلاں عمل موخر ہو گیا ہے تو آپ فرماتے : ‘افعل ولا حرج ’ ‘‘ اب کر لو ،اس میں کوئی حرج نہیں۔’’ لیکن قیام عرفہ میں کسی طرح تقدیم وتاخیر کی اجازت نہیں ہے۔ ایک خاص وقت میں وہاں جمع ہونا او رایک خاص وقت پر وہاں سے رخصت ہونا لازمی ہے۔

            قیام عرفہ کے اس اہتمام و التزام کی جو وجہ علما نے بیان کی ہے ، وہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ اکثر علما نے قیام عرفہ کو روز حشر کی ایک تمثیل قرار دیاہے۔(مولانا سید سلیمان ندوی ، سیرت النبی ۵/ ۳۷۰۔ مولانا وحید الدین خان، حقیقت حج ۷۶۔ ) جوراقم کے خیال میں صحیح نہیں ہے۔ معلوم ہے کہ حج کے سارے اعمال بیت عتیق یعنی خانۂ کعبہ سے متعلق ہیں اور خانۂ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارت ہے اور اس کو خدا کی پہلی عبادت گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ وادی مکہ جس میں خانۂ کعبہ واقع ہے ، ایک مختصر جگہ ہے جہاں تمام فرزندانِ توحید کا اجتماع اور اعمالِ حج کی ادائیگی ممکن نہ تھی ، اس لیے اس کے دائرے کو بڑھا کر عرفات تک وسیع کر دیا گیا۔ اس طرح اب منیٰ کی حیثیت قربان گاہ کی اور عرفات کی حیثیت عبادت گاہ کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں منیٰ مروہ کا اور میدان عرفات خانۂ کعبہ کا قائم مقام ہے۔ اس میدان میں اجتماعی عبادت دراصل خدا کے اصلی گھر خانۂ کعبہ میں عبادت کرنے کے مترادف ہے۔

            تمام عبادات میں حج سب سے بڑی اجتماعی عبادت ہے۔ ایک ہی میدان میں ، ایک ہی لباس میں، ایک ہی جذبہ و احساس کے ساتھ اہل ایمان کے ایک جم غفیر کا جمع ہونا بڑا دل کش او راثر انگیز روحانی منظر ہوتا ہے۔ سب کی زبانوں پر خداے قدوس کی تعریف وتمجید، اپنے گناہوں کا اقرار واعتراف اورطلب مغفرت، خطاو عصیاں سے پر گزشتہ زندگی پر اظہار ندامت اور آیندہ حقیقی ایمان او رعمل صالح کی حامل زندگی گزارنے کے عزم وداعیہ کے مکرر اظہار کی خفی اور جلی صداوں سے میدان عرفات کی پوری فضا معمور ہوتی ہے۔ خدا پرستوں کا یہ انبوہ کثیر جس وقت کامل عجز وفروتنی او رایک خاص دلی کیفیت کے ساتھ خدا کے حضور میں گریہ وزاری کرتا اور گناہوں کی معافی چاہتا ہے تو لا ریب رحمت الہٰی کا سمندر جوش میں آجاتا ہے اور صدق دل سے توبہ کرنے والوں کے گناہ ضرور دھل جاتے ہیں۔

            دوسری طرف اس عظیم اجتماع سے اسلام کی شان وشوکت اور مسلمانوں کے اتحاد واخوت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ میدان عرفات میں امام حرم کا خطبہ اس حقیقت کا مظہر ہے۔ یہ وہی میدان ہے جہاں کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کا مشہور تاریخی خطبہ دیا تھا جو اس عظیم اجتماع کے مقاصد سے پوری طرح ہم آہنگ تھا ، لیکن افسوس کہ آج حاجیوں کی اکثریت قیام عرفہ کی مذکورہ حقیقت واہمیت سے بالکل غافل ہے۔ ایک بھیڑ ہے جو ہر سال حج کے موقع پر یہاں جمع ہوتی ہے اور گناہوں کی رسمی معافی تلافی کے بعد منتشر ہو جاتی ہے۔

قیام مزدلفہ

            غروب آفتاب کے بعد میدان عرفات سے حاجیوں کی واپسی شروع ہوتی ہے او رمزدلفہ میں رات گزرانے کے لیے ٹھہرتے ہیں۔ مزدلفہ میں قیام کی غرض ذکر الہٰی کے تسلسل کو قائم رکھنا ہے۔ فرمایا گیا ہے:

            فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ. (البقرہ۲: ۱۹۸)

             ‘‘ پھر جب تم عرفات سے چلو تو مشعر حرام میں ٹھہر کر خدا کو یاد کرو، اور اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تم کو ہدایت کی ہے۔ اس سے پہلے تم بلا شبہ صحیح راستے پر نہیں تھے۔’’

            دورِ جاہلیت میں اہل عرب عرفات سے واپسی کے بعد مزدلفہ میں قیام تو کرتے ، لیکن مشعر حرام کے پاس خدا کے ذکر و عبادت کے بجائے آباو اجداد کے مفاخر بیان کرتے تھے۔ اسلام نے جاہلیت کی اس رسم کو ختم کر کے اس کی جگہ ذکر خدا کی تلقین کی۔ مزدلفہ میں قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ حجاج تھوڑا آرام کر لیں تا کہ دوسرے روز مستعد اور چاق وچوبند ہو کر منیٰ میں بقیہ اعمال حج انجام دے سکیں۔

قیام منیٰ

            دسویں ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ ہوتے ہیں اور تین روز یہاں قیام کرتے ہیں۔ دور جاہلیت میں عربوں نے قیام مزدلفہ کی طرح قیام منیٰ کے مقاصد کو بھی ضائع کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ منیٰ میں ذکر خدا کے بجائے مختلف تفریحی مشاغل میں وقت گزارتے تھے۔ مکہ کے دوسرے بازاروں (عکاظ وذو المجاز وغیرہ) کی طرح یہاں بھی ایک بڑا بازار لگتا تھا جہاں اہل عرب جمع ہو کر تجارت کرتے، داد ودہش کا مظاہر ہ کرتے، قربانیاں کرتے او رمحفلِ شعر وسخن منعقد کرتے تھے۔ ان محافل میں مشہور شعرا او رخطبا اپنی طلاقت لسانی اور زبان دانی کا مظاہرہ کرتے۔ ہر قبیلے کا شاعر او رخطیب اپنے اپنے قبیلے کی شرافت ونجابت، کثرتِ تعداد اور شجاعت وسخاوت کے بیان میں ایک دوسرے سے مسابقت کرتا جو بسا اوقات جنگ و جدل کی صورت اختیار کر لیتی۔ اسلام نے ان جاہلانہ مشاغل اور رسموں کو ختم کیا اور منیٰ کے قیام میں زیادہ سے زیادہ ذکر خدا کو لازم ٹھہرایا، لیکن اس اجتماع کے دنیوی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ چنانچہ اجازت دی گئی کہ لوگ ذکر خدا کے ساتھ باہم تعارف کی مجلسیں منعقد کریں ، تاکہ دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمانوں میں اتحاد واخوت کا رشتہ مضبوط ہو۔

            قیام منیٰ کے اعمال میں رمی، قربانی اور حلق قابل ذکر ہیں۔ ان کو ہم قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

رمی جمار

            قیام منیٰ کے دوران میں ایام تشریق یعنی دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو تین مختلف سائز کے ستونوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اسی کو اصطلاحِ حج میں رمی جمار کہتے ہیں۔ رمی کے بارے میں مشہور قول یہ ہے کہ ان مواقع پر شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی سے باز آ جائیں۔ انھوں نے اس کو کنکریاں ماریں یعنی رجم کیا۔ موجودہ رمی جمار اسی عمل کی یادگار ہے۔ اکثر علما نے اسی قول کو لیا ہے۔ امام غزالی لکھتے ہیں:

            ‘‘ اس سے مقصود مجرد امتثال امر ہے تاکہ مکمل طور پر حکم الہٰی کے اتباع کا مظاہرہ ہو سکے۔ عقل ونفس کو اس میں کسی طرح کا حظ حاصل نہیں ہوتا۔ مزید برآں اس فعل کے کرنے میں حضرت ابراہیم سے تشبہ مقصود ہے ، اس لیے کہ اس مقام پر ابلیس ملعون ظاہر ہوا تھا تا کہ آنجناب کے دل میں شبہ پیدا کرے یا کسی معصیت میں مبتلا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اس کو کنکریاں ماریں تاکہ وہ ان کے پاس سے دفع ہو جائے اور اس کی (گمراہ کرنے کی) امید منقطع ہو جائے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت ابراہیم کے سامنے تو شیطان حقیقت میں ظاہر ہوا تھا اور آپ نے اس کو دیکھا تھا ، اس لیے انھوں نے اس کو مارا تھا۔ میں نے شیطان کو نہیں دیکھا ہے ، پھر کس لیے اس کو کنکریاں ماروں ۔ اس کو جان لینا چاہیے کہ یہ شبہ بھی شیطان ہی نے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس خیال کو تمھارے دل میں ڈالا ہے تاکہ شیطان کو ذلیل وخوار کرنے کا تمھارا ارادہ کمزور پڑ جائے اور تم یہ خیال کر بیٹھو کہ اس عمل سے کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تو محض ایک کھیل تماشا ہے ، اس لیے اس میں انہماک بے جا ہے۔ تم کو چاہیے کہ تم پوری دل جمعی او رثابت قدمی کے ساتھ شیطان کو ذلیل وخوار کرنے کے لیے کنکریاں مارو اور اپنے نفس سے اس کو دفع کرو اور یہ بھی جان لو کہ تم بادی النظر میں پتھر پر کنکریاں مارتے ہو، لیکن وہ درحقیقت شیطان کے منہ پر پڑتی ہیں اور اس کی کمر توڑ دیتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کی ذلت وخواری اس عمل سے سب سے زیادہ ہوتی ہے جس میں عقل اور نفس کے لیے کوئی سامان حظ نہیں ہوتا اور صرف اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اطاعت محض کے جذبے سے انجام دیا جاتا ہے۔’’ (احیا ء العلوم ۱ / ۲۴۰)                 دور آخر کے علما میں مولانا حمید الدین فراہی کا خیال اس سے بالکل مختلف ہے اور وہ اس میں منفرد ہیں۔ ان کے نزدیک رمی اصحاب فیل کی تباہی کی یادگار کے طور پر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

            ‘‘ حج اور اس کے تمام مناسک حضرت ابراہیم کے وقت سے چلے آرہے ہیں۔ عربوں نے مناسکِ حج انھی سے سیکھے ہیں۔ چنانچہ کلام جاہلیت میں اجمالاً وتفصیلاً ان تمام باتوں کا ذکر موجود ہے۔ احرام، استلام، طواف، طیر حرم، صفا ومروہ، ہدی ونحر، زیارت عرفہ، وقوفِ منیٰ غرض خانۂ کعبہ او رحج سے متعلق ساری چیزوں کا ذکر آپ کو شعراے جاہلیت کے شعروں میں مل جائے گا، لیکن رمی جمرات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نئی چیز ہے او رواقعۂ فیل کے بعد وجو د میں آئی ہے ۔ چوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ایک بڑے احسان کی یادگار ہے اور اس کی قدرت قاہرہ کی ایک عظیم الشان نشانی تھی اس وجہ سے اسلام نے اس کو باقی رکھا اور حج کے مراسم میں شامل ہو کر اس نے تکبیر وتہلیل کی ایک مخصوص سنت کی حیثیت اختیار کر لی۔’’( تفسیر نظام القرآن ۴۰۳، ۴۰۴)       

            مختلف سائز کے تین ستونوں پر کنکریاں مارنے کی توجیہ بیان کرتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے :

            ‘‘ ابرہہ کی فوج پر پہلے روز جو سنگ باری ہوئی ہو گی ، اس سے ایک حد تک نقصان اٹھا کر وہ آگے بڑھنے سے رک گئی ہو گی اور حجاج نے منیٰ میں واپس آکر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور قربانی اور تکبیر و تہلیل کے فرائض ادا کیے ہوں گے، لیکن ابھی دم خم باقی رہا ہوگا ، اس وجہ سے دوسرے دن پھر مکہ پر حملہ کرنا چاہا ہو گا، لیکن حجاج نے آگے بڑھ کر پتھراؤ کرکے روک دیا ہوگا۔ یہی واقعہ تیسرے روز بھی پیش آیا ہو گا یہاں تک کہ حجاج کی سنگ باری او ردست غیب کی کار فرمائیوں نے پوری فوج کو بالکل پامال کر دیا۔ چوتھی قابل لحاظ بات یہ ہے کہ رمی کے تین دنوں میں سے پہلے دن صرف اس ستون پر کنکریاں مارتے ہیں جو عقبہ کے پاس اور تینوں ستونوں میں مکہ سے قریب تر ہے۔ اس روز بقیہ دو ستونوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ غور کرو تو واقعہ کی فطری ترتیب کا تقاضا بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اصحاب فیل پہلے جوش میں تو مکہ کی طرف بڑھے ہوں گے اور مذکورہ حد تک پہنچ گئے ہوں گے، لیکن جب عربوں نے پتھراؤ کر کے چہرے بگاڑ دیے ہوں گے تو ان کا نشۂ جنگ تو ہرن ہو گیا ہو گا ، لیکن عربوں کا جوش مدافعت مضاعف ہو گیا ہو گا اورحوصلہ بڑھ جانے کے سبب سے دوسرے دن انھوں نے اور آگے بڑھ کر مورچہ قائم کیا ہو گا۔ جس ستون پر پہلے روز رمی کی جاتی ہے ، وہ تینوں میں سب سے بڑا ہے اور فوج کے حالات کے لحاظ سے یہی ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ پہلے دن کی شکست اور پامالی نے مقدمۃ الجیش کے حملہ آوروں کی تعداد بہت گھٹا دی ہو گی۔ اس وجہ سے ضروری ہوا کہ دوسرے ستون کا حجم پہلے کے مقابلے میں کم ہو کر واقعہ کی پوری تصویر یادگار کے آئینہ میں محفوظ رہے۔’’ ( تفسیر نظام القرآن ۴۰۶)                  رمی جمار کی یہ دو مختلف توجیہات ہیں جو اوپر پیش کی گئیں، لیکن راقم سطور کی نظر میں دونوں ہی توجیہات میں سقم ہے۔ جہاں تک روایت کا تعلق ہے تو اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور صرف اس عمل (رمی) کی توجیہ کے لیے یہ گھڑ لی گئی ہے۔ اگر اس روایت کو درست تسلیم کر لیا جائے تو بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب آسان نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہ شیطان کو تین دن کیوں سنگ سار کیا جاتا ہے، پہلے دن صرف ایک ہی ستون (جمرۂ عقبہ) پر کنکریاں کیوں ماری جاتی ہیں، پھر کنکریاں مار کر حاجی خانۂ کعبہ کا طواف کرنے کیوں جاتا ہے، کنکریاں مارنے کے لیے تین ستون اور وہ بھی مختلف سائز کے کیوں قائم کیے گئے ہیں، کیا شیطان بھی چھوٹا بڑا ہوتا ہے، اور کیا وہ تین کی تعداد میں حضرت ابراہیم کو بہکانے کے لیے آیا تھا، ہر بار ستون پر کنکریاں مارتے وقت تکبیر کیوں ضروری ہے، کیا خدا کے مقابلے میں شیطان اتنی بڑی قوت ہے کہ اس کی ظاہری پامالی پر اللہ کی کبریائی بیان کی جائے جو ساری کائنات کا بادشاہ ذو الجلال ہے وغیرہ؟ ان سوالات کو یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ بھی شیطان کی وسوسہ اندازی ہے جیسا کہ امام غزالی نے لکھا ہے۔ شریعت کا کوئی حکم ایسا نہیں جو مطابق عقل نہ ہو ، خواہ کسی وجہ سے وہ ہماری سمجھ میں نہ آتاہو۔

            رمی جمرات کے بارے میں قرآن وحدیث ، دونوں خاموش ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحابۂ کرام اس معاملے کی اصل حقیقت سے بے خبر تھے۔ وہ یقینا رمی جمار کی حقیقت سے پوری طرح واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال نہیں کیا، لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ رمی کی اصل حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہو گئی اور مذکورہ کم زور روایت نے اس کی جگہ لے لی اور صدیوں اسی روایت کے گرد ہمارا تقلید پرست ذہن گھومتا رہا۔ کسی نے تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی۔

            اس سلسلے میں مولانا فراہی کا خیال بلاشبہ تحقیق پر مبنی ہے اور ان کی اس بات میں بظاہر بڑا وزن ہے کہ شعراے جاہلیت کے کلام میں تقریباً تمام اعمالِ حج کا ذکر ہے ، لیکن رمی جمار کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمی کا تعلق بعد کے کسی بڑے واقعے سے ہے، اور وہ واقعہ اصحاب فیل کا ہے جو عربوں کے قدیم او رمحترم معبد کو ڈھانے کے ارادے سے آئے تھے ، لیکن غور سے دیکھیں تو مولانا کی یہ تحقیق بھی عیب سے خالی نہیں ہے۔ اس توجیہ کو قبول کرنے کی صورت میں ایک بڑا اشکال یہ سامنے آتا ہے کہ پہلے دن کی رمی کے بعد قربانی اورحلق کے اعمال کیوں انجام دیے جاتے ہیں؟ بطورِ شکر ان اعمال کی انجام دہی کا مناسب وقت وہ ہے جب دشمن کی فوج پوری طرح پامال ہو چکی تھی یعنی تیسرے دن۔ اور اس دن بھی صرف قربانی قابل فہم ہے نہ کہ حلق۔

            اس کے علاوہ ابرہہ کے لشکر کی تباہی کا معاملہ بھی قابل غور ہے۔ ابرہہ کو یہ بات معلوم تھی کہ عرب محترم مہینوں میں قتال سے احتراز کرتے ہیں ، اسی لیے اس نے اس موقع پر اپنے ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کیا تھا۔ بلاشبہ ، اگر ابرہہ نے کسی اورمہینے میں حملہ کیا ہوتا تو عرب جیسی بہادر قوم اپنے قومی معبد کو آسانی کے ساتھ منہدم ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی اور وہ یقینا جس طرح بھی ممکن ہوتا ، اس کا بے جگری سے مقابلہ کرتی۔ یہ دوسری بات ہے کہ عربوں کی مزاحمت چنداں کا ر گر نہ ہوتی اور وہ ابرہہ کے لشکر جرار کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے جس کی تعداد لگ بھگ ۷۵ ہزار تھی اور ہر طرح کے حربی ساز وسامان سے لیس تھا۔ جنگ خندق (غزوۂ احزاب) کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کفار عرب کی متحدہ قوت بھی دس ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ اس لیے یہ کہنا کہ عربوں نے ابرہہ کے لشکر پر سنگ باری کرکے اس کا چہرہ بگاڑ دیا، حد درجہ مبالغہ آمیز بات ہے اور رمی جمرات کو اس واقعے کی طرف منسوب کرنا کسی طرح صحیح نہ ہو گا۔

            اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حج کے جملہ مناسک کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی سے ہے، اس لیے رمی جمار کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ راقم کے خیال میں رمی کا تعلق ہے تو شیطان ہی سے ہے، لیکن اس کا وہ مطلب نہیں جیسا کہ علما نے بتایا ہے کہ شیطان نے انسانی شکل میں آ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قربانی سے روکنا چاہا تھا، بلکہ اس سے مراد نفس اور اس کی وسوسہ انگیزی ہے۔ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو انھوں نے اولاً گمان کیا ہو گا کہ یہ محض ایک خواب ہے ، اس لیے ناقابل توجہ ہے، لیکن تکرار خواب سے وہ بہت جلد حقیقت کی تہ تک پہنچ گئے اور ان کو شرح صدر ہو گیا کہ یہ خواب حقیقت پر مبنی ہے اور یہی اللہ کی مرضی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے پہلے خیال پر یقینا لا حول پڑھا ہو گا،اور پھر وہ تاریخی واقعہ ظہور میں آیا جس کے تصور سے آج بھی دل کانپ جاتا ہے۔ اس عمل سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ثابت کر دیا کہ وہ اللہ کے غلام ہیں نہ کہ نفس کے جس نے انھیں بیٹے کی محبت کے بہانے سے حکم خدا کی تعمیل سے روکنا چاہا تھا۔

            حج کے تمام اعمال سے بالکل ظاہر ہے کہ ان سے مقصود امر الہٰی کا امتثال اور نفس کی مخالفت ہے جو انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ منیٰ کے تین جمرات کا تعلق فی الواقع نفس امارہ سے ہے۔ ان پر کنکریاں مار کر جہاں حجاج اس سے اظہار برأت کرتے ہیں ، وہاں اپنے اس عزم کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ وہ جب بھی خدا کی نافرمانی کے لیے اکسائے گا تو اس کی سرکوبی وہ اسی طرح کریں گے جس طرح آج منیٰ کے میدان میں اس کو تمثیلاً زدو کوب کر رہے ہیں۔

            پہلے دن کی رمی کے بعد قربانی کی جاتی ہے اور سر کے بال منڈائے جاتے ہیں جو دراصل نفس امارہ کی قربانی اور اس کے بالمقابل خدا کی فرماں برداری اور اس کی غلامی کا اظہار واقرار ہے۔ ہم اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ اصلی قربان گاہ خانۂ کعبہ اور مروہ موقع ذبح اسماعیل ہے ، اس لیے حجاج پہلے دن کی قربانی کے بعد مکہ پہنچ کر خانۂ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں او رصفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی ۔ اس کے بعد منیٰ واپس آ کر بقیہ اعمال حج انجام دیتے ہیں۔

            رہی یہ بات کہ جمرات تین کیوں ہیں اور ان کے سائز مختلف کیوں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفس کی وسوسہ انگیزی کے کئی درجے ہیں۔ وہ ایک ہی بار اکسا کر خاموش نہیں ہو جاتا، بلکہ یہ سلسلہ جاری رکھتا ہے۔(الناس) اس کے علاوہ نفس کی وسوسہ انگیزی باعتبار قوت مختلف ہوتی ہے۔ پہلی بار یہ سخت و شدید ہوتی ہے، لیکن مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد اس کازور کم ہوتا جاتا ہے۔ اسی بات کو تین مختلف حجم کے جمرات کی صورت میں علامتی طور پیش کیا گیا ہے۔

قربانی

            منیٰ کے میدان میں جو قربانی کی جاتی ہے ، وہ حضرت ابراہیم کی قربانی ( ذبح اسماعیل) کی یادگار ہے۔ یہ دراصل نفس کی مخالفت کا انتہائی عمل ہے۔ قرآن مجید میں قربانی کے جانور کو شعائر اللہ کہا گیاہے۔(والبدن جعلنٰہا لکم من شعائر اللّٰہ... الخ ۔ (سورہ ٔحج ۲۲: ۳۶)شعیرہ کی جمع شعائر ہے جس کے معنی نشانی (Symbol) کے ہیں۔ معلوم ہوا کہ منیٰ میں جانور کی قربانی دراصل ایک علامتی قربانی ہے۔ ہم جانور ذبح نہیں کرتے ، بلکہ اپنے نفس امارہ کو ذبح کرتے ہیں اور اس عمل کے ذریعے سے اپنے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری نظر میں نفس کی حیثیت جانور سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر وہ خدا کے حکم سے سرتابی کرے گا تو اس کو اس جانور کی طرح ذبح کر دینے میں معمولی تامل بھی نہ ہو گا۔

            حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی کام کیا تھا۔ ایک طرف اکلوتے بیٹے کی محبت تھی اور دوسری طرف خدا کا حکم کہ اس کو خدا کی رضا کے لیے اپنے ہاتھوں سے ذبح کرو۔ بڑا کڑا امتحان تھا۔ عین ممکن تھا کہ بیٹے کی محبت جو مرغوبات نفس میں داخل ہے، خدا کا حکم بجا لانے میں حارج ہوتی اور نفس حیلہ جو کے فریب میں آ کر خدا کی حکم عدولی کر بیٹھتے ، لیکن وہ اس عظیم امتحان میں پورے اترے۔ انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کے بندے ہیں نہ کہ نفس کے، انھیں خدا کی رضا عزیز ہے نہ کہ دنیا کی متاع چند روزہ ، جو خس وخاشاک کی طرح بے وقعت ہے۔ دل کی پوری رضا کے ساتھ خدا کی کامل فرماں برداری کا نام قرآن مجید کی زبان میں تقویٰ ہے جو تمام عبادات کا مقصود ہے۔ فرمایا گیا ہے : لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلاَ دِمَآؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ. (الحج۲۲: ۳۷)

             ‘‘ خدا تک نہ جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اس تک جو چیز پہنچتی ہے، وہ تمھارا تقویٰ ہے۔’’

            قربانی کی اس حقیقت سے اکثر حجاج نا واقف ہیں۔ وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ حج تمتع اور حج قران کی صورت میں قربانی واجب ہے اور اس کا بڑا ثواب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جانور کی قربانی کے باوجود نفس امارہ کی سرکشی اپنی جگہ قائم رہتی ہے او ر زندگی کے اکثر معاملوں میں خدا کے حکم کے مقابلے میں نفس کا حکم اور اس کی خواہشات ہی غالب رہتی ہیں۔ کتنا بڑا تضاد ہے ہمارے ظاہر اور باطن میں۔

حلق راس

            پہلے دن کی رمی سے فراغت کے بعد قربانی کی جاتی ہے اور سر کے بال مونڈے یا ترشوائے جاتے ہیں، اور یہی حلق ہے۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ‘‘ سرمنڈانے کا راز یہ ہے کہ اس سے احرام سے نکلنے کا ایک ایسا طریقہ متعین ہو جاتا ہے جو وقار کے منافی نہیں ہے۔ اگر لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو ہر شخص جدا جدا راہ اختیار کرتا۔ اس کے علاوہ آشفتہ سری اور پراگندگی ختم ہونے کی علامت بھی ہے۔ اور یہ (حلق) ایسا ہے جیسے نماز میں سلام پھیرنا۔ طواف افاضہ سے قبل سر منڈانے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے، تاکہ اس کی حالت اس شخص کے مشابہ ہو جائے جو پراگندگی او رگردو غبار کو دور کرکے بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتا ہے ۔ ’’ ( حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۵)        

            راقم کے خیال میں حج کے دیگر ارکان کی طرح یہ عمل بھی ابراہیمی طریقے کی یادگار ہے۔ یہودیوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ جو شخص خدا کی نذر کیا جاتا تھا ، وہ اپنے سر کے بال اس وقت تک نہیں منڈاتا تھا جب تک کہ نذر کے دن پورے نہ ہو جاتے۔تورات میں ہے:‘‘ نذر کے دنوں میں اس کے سر پر استرہ نہ چلے، اور نذر کے دن جس میں وہ خود کو خداوند کے لیے علیحدہ کرتا ہے، پورے ہونے تک تقدس کے اظہار کے لیے اپنے سر کے بالوں کو بڑھائے۔ ’’( گنتی۶:۶)

            یہودی شریعت میں نذر کے یہ دن ساتویں روز پورے ہو جاتے ہیں اور آٹھویں روز نذر ماننے والا خیمۂ اجتماع کے دروازے پر خداوند کے لیے جانور کی قربانی پیش کرتا ہے اور خیمۂ اجتماع کے دروازے پر ہی وہ اپنے سر کے بال منڈاتا ہے۔(گنتی ۶: ۱۳، ۱۸) ٹھیک اس قدیم طریقۂ عبادت کے مطابق جو یقینا ابراہیم علیہ السلام کا طریقۂ عبادت رہا ہو گا ، حاجی پہلے قربانی کرتا ہے ، پھر بال منڈاتا ہے اور پھر مکہ جا کر بیت اللہ کا طواف کرتا ہے۔

            حلق راس کی ایک اور حکمت بھی ہے۔ عہد قدیم میں دستور تھا کہ جو شخص غلام بنا کر آزاد کیا جاتا تھا ، اس کے سر کے بال منڈوا دیے جاتے تھے اور یہ غلامی کی علامت سمجھی جاتی تھی ۔(طبقات ابن سعد، ۲/ ۳۷، سیرۃ ابن ہشام، ذکر بیر معونہ، واقعہ عمرو بن امیہ، بحوالہ سیر ت النبی ، ۵/ ۳۷۲)حج کیا ہے؟ خدا کی غلامی اور اس کی دائمی اطاعت کا عہد وپیماں۔ اور حلق راس سے یہی مقصود ہے۔

            افسوس کہ اکثر مسلمان حلق راس کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ ان کے اعمال سے بالکل بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ مکہ کی مقدس سرزمین سے خدا کی غلامی کا عہد واقرار کرکے لوٹے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

(بشکریہ ماہنامہ اشراق)