رات کا پچھلا پہر تھا ،یوں محسوس ہو ا کہ جیسے کسی نے دھیرے سے میرے دل پر ہاتھ رکھ دیا ہو ۔ میں چونک کر اٹھاتو دیکھا یہ کوئی اور نہ تھا بلکہ میرا ہی دل تھا۔میں نے کہا تجھے اس لمحے کیا سوجھی؟ دل نے کہا دیکھ !کوئی نہیں اس لمحے ،تیرے میرے پاس، ایسے میں چند سوالوں کے جواب چاہتا ہوں ۔ یہ جواب دے دے، ورنہ نہ خود سوؤں گا اور نہ تجھے سونے دوں گا۔ میں نے کہا بتا، کیا ہیں وہ سوال؟دل نے کہا ،تو کون ہے؟ کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ تجھے کہاں جانا ہے ؟ تو اس زمین پر خود سے آیا ہے یا کسی نے تجھے بھیجا ہے ؟
میں نے کہا مجھے نہیں معلوم ، میں توبس اتنا جانتا ہوں کہ میں ہوں، اور میرا ایک وجود ہے ۔ دل ہنسا اور کہا، وجود ؟ وجود تو کتے کا بھی ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے تجھ میں اور کتے میں کیا فرق؟ بلکہ کتا تجھ سے بہتر ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مالک کی خدمت کر تا ہے اور اس کا وفادار رہتاہے ۔ بتا تیرا مالک کون ہے ؟ اور کیا تو اس کی خدمت کر تا ہے ؟ اس کا و فادار رہتا ہے ؟ میں نے زچ ہو کر کہا دیکھ فضول سوال نہ کر ’ سونے دے ۔ دل نے کہا اچھاناراض نہ ہو بس ایک بات اور بتا دے کہ تو جو دن رات محنت کر کے اتنا مال جمع کر رہا ہے آخر اس کا کرے گا کیا؟ میں نے کہا بیوقوف تو نہیں جانتا ’ مال میں طاقت ہوتی ہے اور میں طاقتور بننا چاہتا ہوں۔ میں مال جمع کر کے بڑی بڑی عمارتیں بناؤں گاجن پر میرا نام لکھا ہو گا۔ دنیا کے ہر ملک میں میری تجارتی کمپنیوں کا جال بچھاہوگا ۔ لوگ اپنے کاموں کے لیے میرے اشارہ ابرو کے منتظر رہیں گے ۔میر ی نگاہ جدھر اٹھ جائے گی لوگوں کو اپنے کام بنتے نظر آئیں گے اور جدھر سے میر ی توجہ ہٹ جائے گی لوگوں کو اپنے کام بگڑتے نظر آئیں گے۔میں چاہتا ہوں کہ دنیا کی معیشت میرے قبضے میں ہو اور میں بغیر خون بہائے فاتح کہلاؤں۔قوموں کی تقدیر میری جیب میں ہو ۔ دل نے کہا پھر؟ میں نے کہا پھر ’ پھر میں خلاؤں کو تسخیر کروں گا۔ چاند ’ مریخ و زحل کے بعد سورج بھی میری گزر گاہ میں ہو گا ۔ اور پتا ہے پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ عناصر پر میرا کنٹرول ہو جائے گا۔زندگی اور موت بھی میرے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ابھی اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ دل نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا لیکن اس سے پہلے، اس سے پہلے ہی تو مر جائے گا۔اور موت جو ناگن بن کر سب کو ڈس لیتی ہے تجھ کو بھی ڈس لے گی۔ اور پھر تیر ا نام بھی کسی کو یاد نہ ہو گا۔ جیسے ایک وقت تھا اس دھرتی پر تیرا کوئی ذکر ہی نہ تھا جلد ہی تجھ پروہ وقت پھر آنے والا ہے کہ تیرا واقعتا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ (ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا۔)
موت کا نا م سن کر تو واقعی میر ی سٹی گم ہو گئی اور نیند میری آنکھوں سے کوسو ں دور بھاگ گئی۔میں جو عناصر پر کنٹرول کر کے خدا بننے کا سوچ رہا تھا یکدم مٹی سے بھی حقیر ہو کر رہ گیا۔ اور پھر مجھے یا د آیا کہ میری حیثیت ہی کیاہے پانی کا ایک گندہ قطرہ !مٹی سے بنا ہوا ایک حقیروجود،جو بچپن میں رینگ رینگ کر چلتا ہے اور بڑھاپے میں پھر ارذل عمر کو پہنچ جاتا ہے ۔ درمیان کے دس بیس سال کی توانائی پر اتنا اتراتا ہے کہ خدا بننے کے لیے پر تولنے لگتا ہے ۔
دل پھر ہنسا ، اور بولا ہا ں بس دس بیس سال کا کھیل ہے اور پھر معاملہ ختم۔ تیر ے سارے منصوبے ، تیری ساری چالاکی، تیری ساری دوڑ دھوپ، تیرا سارا مال، تیری ساری حکومت، تیری ساری قوت، اورتیری ساری طاقت خاک ہو کر رہ جائے گی ۔ دن رات کی محنت سے کمایا ہوا تیرا مال دوسروں کے قبضے میں چلا جائے گا ، تیری جائیداد بانٹ لی جائے گی، تیری زمین تقسیم ہو جائے گی ۔ وہ جن کے بغیر تیری صبحیں بے رونق اور تیری شامیں سونی ہوتی تھیں ، وہ جن کے بنا تیرا ایک پل نہ گزرتا تھا وہ تجھے خود اٹھا کر منوں مٹی تلے چھوڑ آئیں گے ۔ تیری بیویاں دوسرے شوہر کر لیں گی، تیری اولاد تیرے مال کی بندر بانٹ میں مگن ہو جائے گی اور تیر ے حشم و خدم تیری بے بسی پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے ہو ں گے ۔ جب مجھ میں مزید کچھ سننے کی تاب نہ رہی تو میں چیخا کہ بس کرو بس۔ اب مجھے سونے دو۔ کہنے کو تو میں نے چیخ کر دل کو خاموش کر وا دیا اور چپ ساد ھ کر پڑ رہا لیکن نیند نے اب کیا آنا تھا ؟میں تو کسی اورہی دنیا میں پہنچ گیا ۔ میں سوچنے لگا کہ اگر موت ہی میر ا مقد ر ہے تو کیا میں یہ ساری محنت موت کے گھاٹ اترنے کے لیے کر رہا ہوں؟ اگر موت ہی انجام ہے اور اس کے بعد کچھ نہیں تو پھر مجھے یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت؟ دس بیس سال رہنے کے لیے تویہ محنت بہت زیاد ہ ہے اور کیا میں بیوقوف ہوں کہ کم اجر کے لیے زیا دہ محنت کر رہا ہوں؟جب مجھے اس درخت کا پھل کھانا ہی نہیں ہے تو میں اسے کیو ں لگاؤں؟ جب مجھے اس مکان میں رہنا ہی نہیں ہے تو میں اسے کیوں بناؤں ؟ جب بڑ ی بڑ ی عمارتوں پر اپنا نام لکھا ہوا دیکھنا نصیب ہی نہیں ہو گاتو پھر ان کے لیے رات دن ایک کیوں کروں؟ جب طاقت اور قوت نے میرے پاس رہنا ہی نہیں تو پھر ان کے پیچھے خوار کیوں ہوں؟ سوچتے سوچتے یوں محسوس ہوا جیسے میں اندھیرو ں میں ڈوب رہا ہوں ہر طرف گھپ اندھیرا، مہیب سناٹا ! خدایا یہ کیا ؟ کیا یہ اندھیرے اور سناٹے ہی میرا مقدر ہو ں گے ؟دل پھر بول پڑا اور کہا کہ اور کیا ؟ تیر ا مقد ر اندھیر ا ہی توہے ۔ تو اندھیروں کا مسافر ہے، تو بند گلیوں کا مکین ہے ۔میں نے کہا نہیں نہیں، یہ نہیں ہو گا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ میرے سارے منصوبے ،ساری امیدیں،ساری تمنائیں،ساری خواہشات، سب دھری کی دھری رہ جائیں اور موت سب کچھ بہا کر لے جائے ۔
دل نے کہا تو اور کیا ہو گا یہی کچھ ہو گا ۔ تو اپنی ساری امیدوں، ساری تمناؤں، ساری خواہشات اور سارے منصوبوں سمیت دفن ہو جائے گا۔ اور مو ت خاک میں سب برابر کر دے گی۔میں نے کہا یہ کیسا خوفناک انجام ہے ۔ اندھیر ا ، سناٹا ، خاموشی ! زندگی کی کہانی کا ایسا ادھورا ، ایسا غیر منطقی انجام ؟ ایسا بے ڈھنگا خاتمہ کہ سب برابر ، ظالم اور مظلوم برابر، عالم اور جاہل برابر ؟ شریف اور بد معاش برابر، نیک اور بد برابر؟ اعلی اور ادنی برابر، امیر اورغریب برابر ؟ نمازی اور غیر نمازی برابر، سچا اور جھوٹا برابر ؟حاکم اور محکو م برابر ؟گویا گدھا اور گھوڑا برابر؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ دل نے کہا اگر تو موت اختتا م ہے تو پھر تو ایسے ہی ہو گا۔ لیکن اگر موت۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا لیکن کیا؟ موت ہی توزندگی کاا ختتام ہے ۔ دل نے کہا پگلے یہی تو توُسمجھا نہیں، موت انتہا نہیں ابتدا ہے ۔ میں نے کہا کیا؟ ابتدا کس کی ابتدا ؟ دل نے کہا حقیقی زندگی کی ۔ اس اصل کہانی کی ابتدا جس کی یہ تمہید ہے ۔اس فصل کی کاشت کی ابتداجس کا بیج یہاں بویا جار ہا ہے، اس کامیابی کی ابتدا جس کے لیے یہاں امتحا ن دیا جار ہا ہے، ظالم کو ظلم کا بدلہ ملنے کی ابتدا،مظلوم کی داد رسی کی ابتدا، نیکوں کی عزت کی ابتدا ،بروں کی رسوائی کی ابتدا، سچوں کی تکریم کی ابتدااور جھوٹوں کی تذلیل کی ابتدا۔۔۔۔
جوں جوں دل کہتا چلا گیا، اندھیرے چھٹتے چلے گئے ۔روشنی پھیلی ، سناٹا دور ہوا اور ساتھ ہی میرے چہرے پر رونق آ گئی۔ دل نے کہا اب تو بڑا خوش نظر آتا ہے ۔ میں نے کہا اب خوش کیوں نہ ہوں اب تو محنت کا مزہ آئے گا ۔ محنت کا مزہ تب ہی آتا ہے جب اس کا پورا پورا ثمر ملنے کی امید ہو ۔اور اب مجھے معلوم ہوا کہ حقیقی ثمر ملنے کی جگہ تو آخرت ہے نہ کہ یہ دنیا۔ دنیاتو بس محنت کی جگہ ہے ، نتیجے کی جگہ توآخرت ہے ۔
میں نے دل سے کہا بہت بہت شکریہ لیکن ایک بات اور بتاد ے کہ تجھے یہ ساری باتیں کیسے معلوم ہوئیں اس نے کہا کہ مذہب سے ۔ اس نے کہا پہلے میں بھی تیر ی ہی طرح اندھیروں کا مسافر تھا۔ میرے لیے بھی سب کچھ روشن تب ہی ہوا جب مذہب پر ایمان لایا ورنہ سب کچھ ادھور اتھا۔ دل نے کہا میں نے تجھ سے شروع میں جو سوال کیے تھے کہ تو تو کون ہے؟ کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ تجھے کہاں جانا ہے ؟ تو اس زمین پر خود سے آیا ہے یا کسی نے تجھے بھیجا ہے ؟ ان سب کے جواب بھی تجھے مذہب ہی دے گا اور اب تو پہلے کی طرح کسی کو بے بسی میں چپ نہیں کروائے گا بلکہ اطمینا ن سے جواب دے گا کیونکہ تجھے خود اطمینا ن حاصل ہو چکا ہو گا اور یا د رکھ کہ اطمینان مذہب کی چھاؤں تلے ہی ملتا ہے ۔ مجھے واقعتا ایسا اطمینا ن ملا کہ اس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی ایسی میٹھی نیند آئی کہ صبح جب میں بیدار ہوا تو نہ صرف یہ کہ سب کچھ روشن تھا بلکہ مجھ پر ایسی ترو تازگی بھی چھائی ہوئی تھی جس کا مجھے پہلے کبھی تجربہ نہ ہوا تھا۔
(آصف افتخار صاحب کے مضمون why Religionسے ماخوذ)