یہ آج سے پانچ برس پرانی بات ہے۔ ہم چار دوست اکٹھے رہتے تھے، ہمارے گھر قریب قریب تھے، ہم صبح ، دوپہر اور شام کو ایک دوسرے سے ملتے تھے، ہم سب ایک جیسے حالات سے دوچار تھے۔ ہم سب کی زندگیوں میں بے ترتیبی، بے سکونی اور بے چینی تھی، ہم ایک مشکل سے نکلتے تھے تو دوسری میں پھنس جاتے تھے، ایک پریشانی ختم ہوتی تھی تو دوسری کندھوں پر آبیٹھتی تھی۔ ہم میں سے تین عام دنیا دار قسم کے لوگ تھے، لیکن ہمارا چوتھا ساتھی دین دار، تہجد گزاراور صوفی منش شخص تھا، وہ چوبیس گھنٹے با وضو رہتا تھا، اس کے ہونٹوں پر ہر وقت ذکر چلتا رہتا تھا، مگر اس عبادت اور ریاضت کے باوجود اس کی زندگی بھی ہماری طرح بے سکونی اور عدم استحکام کا شکار تھی۔ وہ بھی ہماری طرح ہر وقت پریشان اور بے چین رہتا تھا۔ ایک دن ہم چاروں ایک درویش کے پاس حاضر ہوگئے۔
درویش ایک دلچسپ شخص تھا، وہ بیک وقت ایک کامیاب تاجر، ایک باعمل عالم، ایک تارک الدنیا صوفی اور ایک سخت مزاج منتظم تھا۔ وہ ہم سب کا مشترکہ دوست تھا۔ہم سب اس کے محل میں اس کے سامنے بیٹھ گئے، وہ اڑھائی ایکڑ کے ایک بڑے محل میں رہتا تھا،لیکن اس کا کمرہ بہت سادہ، بلکہ بہت غریبانہ تھا، پورے کمرے کی واحد قیمتی چیز گکھڑ منڈی کی دس بائی آٹھ فٹ کی بوسیدہ سی دری تھی۔ درویش کے پاس کپڑوں کے صرف دو جوڑے تھے، وہ چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار کھانا کھاتا تھا اور ہفتے میں پانچ دن روزے رکھتا تھا۔ اس نے ہماری پریشانیاں سن کر قہقہہ لگایا اور ہنستے ہنستے بولا:‘‘تم لوگ غلط انداز سے زندگی گزار رہے ہو، تمہاری زندگی کی ترتیب غلط ہے، لہٰذا تمہاری زندگیوں میں سکون اور آرام کیسے آسکتا ہے، تمہاری پریشانیاں کیسے کم ہوسکتی ہیں؟ ہم نے پریشان ہو کر اس کی طرف دیکھا، اس نے مسکرا کر چائے کے کپ ہمارے ہاتھوں میں تھما دیے۔
‘‘دیکھو! اگر تم زندگی کا سلیقہ جاننا چاہتے ہو تو وہ تمہیں سیرت النبیﷺ میں مِلے گا، سکون اور اطمینان تک پہنچنے کے سارے فارمولے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں پوشیدہ ہیں۔’’
وہ رکا، اس نے غور سے ہمارے چہرے دیکھے اور پھر گویا ہوا، اسلامی ریاست کے چار ستون تھے، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت ابوبکر عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ ان چاروں حضرات نے اسلام کی کامیابی میں بڑا مرکزی کردار ادا کیا، یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے اللہ کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیا، تم لوگ میری اس بات سے اتفاق کرتے ہو؟اس نے رک کر ہم سے پوچھا، ہم نے ہاں میں گردن ہلا دی، وہ اپنے مخصوص انداز سے مسکرایا اور آہستہ اور میٹھے لہجے میں بولا، یہ اصحابؓ کون تھے، کیا تم لوگوں نے کبھی سوچا، یقینا تم لوگوں نے انہیں اس زاویے سے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ یہ اصحاب یہ حضرات ایک مخصوص طرز زندگی گزارتے تھے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ فقر اور غنا کا دوسرا نام تھے، آپ محبت رسولﷺ میں سب کچھ لٹا دیتے تھے۔ حضرت عثمانؓ ایک مکمل اور مضبوط معیشت کی علامت تھے، ان کا شمار عرب کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب حضرت عثمانؓ کا آخری اونٹ شام سے نکلتا تھا توپہلا مدینہ پہنچ چکا ہوتا تھا۔ عرب میں کہا جاتا تھا کہ تجارت سیکھنی ہو تو عثمانؓ سے سیکھو، وہ کبھی گھاٹے میں نہیں رہتے، حضرت عمر ؓ منتظم تھے،وہ ایک مکمل روٹین، ایک شاندار ایڈ منسٹریشن کا نام تھے۔ وہ قوت ارادی اور اٹل پن کی علامت تھے۔ تم لوگ خود سوچو جس شخص کے ایمان کا آغاز ہی اس فعل سے ہو کہ وہ گھروں میں چھپے مسلمانوں کو ساتھ لے ، انہیں خانہ کعبہ میں لائے اور پھر کہے تم لوگ سب کے سامنے نماز پڑھو، عمرؓ کی تلوار تمہاری حفاظت کرے گی۔ اس شخص کی قوت ارادی کی کیا سطح ہوگی، وہ کس قدر مضبوط فیصلے کا مالک ہوگا اور آخر میں حضرت علیؓ ، درویش رکا، اس نے لمبی سانس لی اور اسی رواں لہجے میں بولا:‘‘حضرت علیؓ اس دور کے سب سے بڑے عالم تھے، یہ چار حضرات رسول اللہ کے اولین ساتھی تھے۔ ان حضرات کا ساتھ دینا ثابت کرتا ہے، اسلام جیسے مذہب کو بھی اپنے اظہار کے لیے فقر، معیشت، انتظامی مہارت اور علم کی ضرورت ہوتی ہے۔’’
وہ رکا تو میں نے بے چین ہوکر پوچھا‘‘یار درویش، تمہارے اس فلسفے کا ہمارے مسئلے سے کیا تعلق ہے، ہم اپنی بات کہہ رہے ہیں اور تم ہمارے گرد اسلام کا دائرہ کھینچ رہے ہو۔’’
درویش نے قہقہہ لگایا۔ ‘‘بے وقوفو! میں تمہارے مسئلے کا حل بتا رہا ہوں، یہ چاروں حضراتؓ ثابت کرتے ہیں ، اسلام جیسے آفاقی نظریے کو بھی عملی تفسیر کے لیے ایک فقیر، ایک منتظم، ایک معیشت دان اور ایک عالم کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا معاشرہ ہو یا فرد جس بندے کے پاس علم نہیں، جس کے پاس ضروریات زندگی کے لیے مناسب رقم نہیں، جس کی زندگی میں نظم و ضبط نہیں اور جس کی ذات میں حضرت ابو بکر جیسا فقر نہیں، وہ ایک اچھی اور پرسکون زندگی نہیں گزار سکتا ۔ تم لوگوں کا یہی مسئلہ ’’درویش رکا اور اس نے ہم میں سے ایک کے چہرے پر نظریں گاڑیں اور بولا‘‘ مثلاً تمہارے پاس روپیہ پیسہ تو ہے تم کروڑ پتی ہو لیکن تمہارے اندر کا فقیر مر چکا ہے، تمہارا علم اخبار بینی تک محدود ہے اور تمہاری انتظامی صلاحیتیں ختم ہوچکی ہیں ، لہٰذا تم بے سکون ہو ’’ اور وہ مولوی صاحب کی طرف مڑا‘‘تم نے پوری زندگی رکوع و سجود میں لگا دی، تمہارے بچے روز بھوکے پیٹ اسکول جاتے ہیں، خود تم اپنی بھوک کو روزے کی شکل دینے کی کوشش کرتے رہتے ہو ’’ اور تم، وہ میری طرف مڑا، ‘‘تم کتابوں کے پہاڑ سے کود کر خوش ہورہے ہو ’’ اور تم وہ ہمارے چوتھے ساتھی کی طرف مڑا، ‘‘تم اپنے گھر والوں کی ساری ضرورتوں، ساری خواہشوں کو ڈسپلن تلے کچل رہے ہو، تم اپنی ایڈ منسٹریشن کے ذریعے زندگی کو سیدھا اور ہموار بنانا چاہتے ہو، لیکن یاد رکھو: انتظام اچھی چیز ہوتا ہے، لیکن وہ ایک روپے کو پچاس روپے نہیں بنا سکتا۔’’
درویش نے ٹانگیں سیدھی کیں اور ہنس کر بولا، بے وقوفو! صرف عام شخص نہیں، دنیا میں صرف وہ ملک ترقی کی معراج تک پہنچتے ہیں جن کے پاس یہ چاروں چیزیں اکٹھی موجود ہوتی ہیں اور وہ تمام ملک پیچھے رہ جاتے ہیں جو ایک ستون پر پوری عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بے وقوفو! اگر صرف فقہ سے ملک چل سکتے تو طالبان کا افغانستان اس وقت دنیا کا ترقی یافتہ ترین ملک ہوتا، اگر ایڈمنسٹریشن ہی سب کچھ ہوتی تو سوویت یونین کبھی نہ ٹوٹتا، اگر صرف تعلیم سے ملک ترقی کر سکتے تو سری لنکا جنوبی ایشیا کا سب سے بڑاملک ہوتا اور اگر دولت ہی کافی ہوتی تو سعودی عرب اس وقت دنیا کی سپر پاور ہوتا، وہ رکا اور ہنس کر بولا، لیکن ایسا نہیں ہوا، دنیا کی کوئی عمارت صرف ایک ستون پر نہیں کھڑی رہ سکتی۔ اسے استحکام کے لیے بیک وقت چار ستون درکار ہوتے ہیں، تم لوگ بھی اپنی زندگی میں ایسی ترتیب پیدا کرو، تمہیں یہ دنیا جنت لگنے لگے گی اور حکومت کو بھی بتاؤ، وہ صرف معیشت پر توجہ نہ دے وہ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک میں درویشوں، عالموں اور منتظمین کی ایک بڑی فورس بھی پیدا کرے، تب کہیں جا کر ملک ترقی کرے گا۔’’