۱۹۴۶ء کے رمضان المبارک کا آخری عشرہ تھا، میں فجر کی نماز کے بعد جامع مسجد روڑی میں بیٹھا ہوا تھا کہ چند آدمی گھبرائے ہوئے آئے اور بیان کیا کہ ‘‘غضب ہوگیا۔ سننے میں آیا ہے کہ سکھوں کے لڑکوں نے قرآن کریم پھاڑ کر کنوئیں میں ڈال دیا ہے۔ اس پر مسلمان مشتعل ہورہے ہیں اور تھانہ والی مسجد میں جمع ہورہے ہیں۔’’میں فوراً بلا کسی تاخیر کے موقع واردات پر پہنچا تو معلوم ہو اکہ فی الواقعہ مسلمان مسجد کے صحن میں جمع ہورہے ہیں۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تو اتنا معلوم ہوا کہ اسی مسجد تھانہ والی میں سے چند روز ہوئے ایک حمائل شریف (جیبی سائز قرآن مجید) چوری ہوئی تھی، اسی کی بے حرمتی ہوئی ہے۔
‘‘بے حرمتی کرنے والے کون ہیں؟’’ میں نے دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ پرائمری سکول کے تین سکھ طالب ہیں جو موضع جٹانہ کلاں ریاست پٹیالہ کے رہنے والے ہیں۔
‘‘پرائمری سکول کے طالب علم’’ نے مجھے چونکا دیا میں ان کی عمریں دریافت کیں تو معلوم ہوا کہ بالترتیب آٹھ، نو اور بارہ سال ہیں۔ مجھے اس امر کا اسی وقت یقین ہوگیا ہے کہ یہ بے حرمتی غالباً کسی سازش یا کسی عناد کی نیت سے نہیں ہوگی۔ مگر بہر حال اس سلسلہ بہت کچھ احتیاط کی ضرورت تھی۔ تھانہ مسجد کے بالکل سامنے تھا۔ تھانیدار کو بلوایا تو معلوم ہوا کہ تھانیدار ہندو ہیں اور نووارد ہیں اور اس سانحے کی نوعیت کے پیش نظر گھبرا گئے ہیں اور تھانے کے رجسٹر میں روانگی دکھا کر روپوش ہوگئے ہیں۔ یہ اس کی انتہائی کمزوری تھی جس سے معاملہ اور بھی نازک صورت اختیار کر گیا۔ اب اس آگ کو بجھانے کے لیے سوائے حکمت عملی کے پانی کے اور کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ میں نے دو لڑکوں کو سکول کے ہیڈ ماسٹر کے پاس روانہ کیا کہ وہ فوراً پہنچے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب غالب بروالہ سیداں کے سید تھے مگر تھے اعصابی قسم کے آدمی گھبرا گئے اور آنے سے انکار کر گئے۔ میں نے دو اشخاص کو پھر روانہ کیا اور کہا کہ اس نازک موقع میں نہ آنا مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا دے گا۔ نہ آئیں تو زبردستی لے آئیں۔ چنانچہ ان حالات میں مِیر صاحب کو ‘‘ولے برندش’’ آنا پڑگیا۔میں نے انہیں تسلی دلا کر ان کے ‘‘شاگردانِ رشید’’ کے حالات دریافت کیے تو معلوم ہوا کہ دراصل یہ تینوں طالب علم اس لڑکپن میں ہی چوری کی عادت میں گرفتار ہیں۔ سکول کی لائبریری میں سے وہ ایک بار کتابیں چوری کرنے کے الزام میں استادوں سے سزا پا چکے ہیں۔ مسجدوں اور گوردواروں سے جوتیاں بھی چراتے رہتے ہیں۔ یہ حمائل بھی چھوٹے طالب علم نے ایک پوتھی سمجھ کر چوری کی تھی اور اسے چھپا کر اپنے گھر چٹانا کلاں لے جارہا تھا۔ واضح رہے کہ یہ طالب علم روزانہ سکول سے فارغ ہو کر اپنے گاؤں چلے جایا کرتے تھے جو ہمارے قصبہ سے اڑھائی میل کے فاصلہ پر تھا وہ جس روز قرآن پاک کو چرا کر گھر لے جارہا تھا تو دوسرے دونوں لڑکے بھی ہمراہ تھے۔ بڑے لڑکے نے بغل میں دبائے قرآن مجید کو دیکھ کر کہا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا ایک پوتھی ہے کہیں سے ہاتھ لگ گئی ہے۔اس نے چھین کر دیکھا اور کہا:‘‘ یہ تو مسلمانوں کا قرآن ہے اور تو نے بہت برا کیا، مسلمانوں کو پتا لگ گیا تو جان سے مار دیں گے۔ اگر خیر چاہتا ہے تو...’’
آگے راہ میں کنواں تھا۔ اس نے اس حمائل کو کنوئیں میں ڈال دیا اور آپس میں قسمیں اٹھا لیں کہ اس کا کہیں ذکر تک نہیں کریں گے۔ مگر چند دن بعد آپس میں کسی مال مسروقہ کی تقسیم میں جھگڑ پڑے اور فریق مخالف نے یہ راز استاد اور دوسرے لوگوں کے پاس اگل دِیا۔ میں نے یہ حالات سن کر مِیر صاحب سے کہہ دیا کہ بچوں کو تحویل میں رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی جوشیلا مسلمان ان کو ‘‘سورگ باش’’ کر دے۔ میرے علم میں اصل حقیقت تو آگئی تھی مگر میں اس کا اظہار ابھی نہیں کر سکتا تھا۔کسی قوم کے جذبات کو قابو میں لانا آسان بات نہیں ہے۔ بہر حال میں نے اس بات کے علم میں آجانے کے بعد کہ یہ سانحہ اتفاقی ہے ارادتاً نہیں ہوا، اپنی جگہ یہ فیصلہ کر لیاکہ الصلح خیر۔لیکن اس کے لیے صبر اور تحمل سے موقع کی تلاش کر رہا تھا۔ تھانیدار کے راہِ فرار اختیار کرنے کے بعد تھانہ کے سامنے مجمع کا کھڑا رہنا فضول تھا۔ میں مجمع کو لے کر بازار کے دروازہ کے سامنے اور بڑے تالاب کے پختہ گھاٹ کے چبوترے پر آگیا جہاں پیپل کا سایہ تھا۔ مقام سایہ دار پانی کا کنارہ تھا۔ اس لیے ٹھنڈ تھی تاکہ روزہ داروں کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ وہاں پہنچنے پر ہندو اورسکھ بھی آنے شروع ہوگئے اور مجمع بڑھتا گیا لیکن اس مجمع میں شرارتی عنصر نہیں تھا سب لوگ افسوس کرتے ہی نظر آتے تھے۔ اتنے میں مجھے خیال آیا کہ اب تک تو محض ہوائی بات ہوئی ہے موقع واردات پر جانا چاہیے لیکن اس طرح اگر پورے مجمع کو وہاں لے گئے اور اس کنوئیں میں سے قرآن مجید کے اوراق نکلے تو ممکن ہوسکتا ہے کہ مجمع بے قابو ہو جائے اس لیے مصلحت اسی میں ہے کہ میں خود نہ جاؤں ورنہ مجمع پر کنٹرول نہیں رہ سکے گا۔ میں یہیں رہوں اور دو تین اشخاص کو بھیج دوں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
ایک مسلمان لڑکا کنوئیں میں اتارا گیا۔ اس نے احتیاط سے قرآن مجید کے اوراق نکال لیے۔ پورا قرآن مجید نہیں ملا۔بہرحال بھیگے ہوئے اوراق کو نکال کر مجمع میں لے آئے اور میرے سامنے ہتھیلیوں پر رکھ کر مجھے دکھائے۔ اس منظر کو دیکھ پر پورے مجمع پر رقت طاری ہوگئی۔ مسلمان تو مسلمان ، ہندو بھی رونے لگے۔ میں نے اس صفحہ پر نظر کی تو چند آیات سامنے آئیں۔ افسوس ہے کہ وہ آیتیں مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ اس میں حکم تھا صبر کرو۔ صبر کرنے میں بھلائی ہے۔ میں نے ان آیات کی تلاوت کر کے مجمع کو سنائی اور پھر اس کا مفہوم بیان کیا اور کہا لڑائی جھگڑے سے قرآن پاک کی ان آیات نے ہمیں روک دیا ہے اب قانونی طور پر ہی اس کا فیصلہ کریں گے۔ اس نازک موقعہ پر قرآن پاک کی ان آیات کا سامنے آنا یقینا معنی خیز ہے اور قرآنی معجزہ۔
اتنے میں ان سکھ بچوں کے سرپرست آگئے۔ منتیں معافیاں اور معذرت کرتے ہوئے سامنے آئے۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے گاؤں کی پنچایت بلائیں، ہم اپنے شہر کی پنچایت کر کے فیصلہ کرتے ہیں۔دھوپ زیادہ تیز ہوگئی تھی اور روزہ داروں کو تکلیف ہو رہی تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ اب سب اپنے گھروں کو جاؤ۔ پھر ٹھنڈے وقت میں سوچیں گے شام کے وقت میں جامع مسجد میں موجود تھا کہ موضع جٹانہ کی بہت بڑی پنچایت جس میں وہاں کے تمام ہندو اور سکھ معززین شامل تھے آئے۔ میں اس منظر کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ ان میں اکثریت نیلی پگڑیوں والے سفید اور سیاہ داڑھیوں والوں کی تھی۔ سب ادباً اور احتراماً ہاتھ جوڑے ہوئے کھڑے تھے اور معافی مانگ رہے تھے میں نے جواباً انہیں خوش آمدید کہا اور کہا کہ آپ کا آنا سر آنکھوں پر مجھے اس کا احساس ہے اور میں اس سے بے حد متاثر ہوں کہ آپ سب لوگ خدا سے ڈرنے والے اور صلح پسند ہیں بہر حال آپ کی آمد اسی نیک ارادہ سے ہوئی ہے۔ قصورتین بیوقوف بچوں کا ہے جس کی ذمہ داری آپ لوگوں پر عائد نہیں ہوتی۔ اس لیے جی تو چاہتا ہے کہ میں ابھی آپ کو پوری ذمہ داری سے معافی دے کر اور مطمئن کرا کے واپس روانہ کر دوں مگر معاملہ فقط میرا نہیں ہے بلکہ معاملہ پورے علاقہ کا ہے۔ اس طرح فقط میرے معاف کر دینے سے یہ آگ ایک بار تو دب جائے گی لیکن پھر سلگ کر بھڑک اٹھے گی اور میرے بجھائے نہیں بجھے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ اس آگ کو حکمت، دانش اور محبت کے پانی سے بجھایا جائے تا کہ دوبارہ سلگ اٹھنے کا اندیشہ نہ رہے۔ اس لیے میں نے تدبیر سوچی ہے کہ کل صبح تک مسلمانوں کے بڑے بڑے گاؤں کے دس پندرہ نمائندہ حضرات کو بلوا لوں اور صورت معاملہ سے آگاہی کر کے پھر دونوں پنچایتوں کے مابین گفتگو کے بعد معاملہ ختم کراؤں۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ تنہا میرے فیصلہ پر مسلمان مجھ سے بگڑ جائیں۔
سب نے اس رائے کو پسند کیا۔ میں نے ا س موقع کو غنیمت تصور کر کے اس شر میں سے ایک خیر کا پہلو نکالنے کے لیے کہا کہ‘‘آپ صرف پانچ منٹ میری باتیں سن لیں تاکہ آپ کو یہ معلوم ہوسکے کہ یہ حادثہ کوئی معمولی حادثہ نہیں ہے۔’’
اس موقع پر میں نے جو تقریر کی اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:‘‘میرے ہندو اور سکھ بھائیو! قرآن پاک اور رسول پاکؐ صرف مسلمانوں کی کتاب اور مسلمانوں کے ہی پیغمبر نہیں اگر مسلمان ایسا خیال کرتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں اگر ہندو اور سکھ بھائی ایسا سمجھتے ہیں تو انہوں نے بھی غلط سمجھا ہے۔ قرآن جس طرح مسلمانوں کے لیے کتابِ ہدایت ہے اسی طرح تمام دنیا کے لیے بھی رہنمائی کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح حضرت محمد ﷺ بھی سب دنیا کے لیے ہادی ہیں۔ دیکھیے گورو نانک دیو جی کس کشادہ دلی سے اس کا اقرار کرتے ہیں۔‘‘تورات انجیل زبور ترے پڑھ سن ڈٹھے وید’’‘‘رہے کتیب قرآن ہی کلجگ میں پروار’’
اس کلجگ کے عالم میں رہنمائی کرنے والی کتاب صرف قرآن ہے اور جب گورو جی مکہ معظمہ گئے تو وہاں کے قاضی سے مخاطب ہو کے فرمایا:‘‘نانک آکھے رکن دین سچے سنو جواب۔ صاحب دا فرمایا لکھیا وچ کتاب۔ وچ دوزخ ہاویہ اوہ سڑے جو کہے نہ کلمہ پاک۔ مکروہ نریے دو جڑے روجڑے، پنج نماز طلاق۔’’
یہاں بھی قرآن پاک کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں.....کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ہاویہ دوزخ میں وہ لوگ عذاب بھگتیں گے جو کلمہ نہیں پڑھتے ہوں گے۔ تیسوں روزے نہ رکھتے ہوں گے۔ پانچوں نمازوں کو طلاق دے رکھی ہوگی۔ اور رسول پاک ﷺ کی عظمت شان کا اس طرح اعتراف کرتے ہیں۔
‘‘ڈٹھا نور محمدیؐ ڈٹھا نبی رسولؐ۔ نانک قدرت دیکھ کے خودی سب بھول’’
یعنی جب سے نور محمدی کا جلوہ دیکھا ہے۔ نانک اپنی خودی بھول گیا۔ تو میرا اس تقریر سے یہ مطلب ہے کہ قرآن صرف ہمارا نہیں ہے تمہارا بھی ہے۔ جس کو گورو جی اللہ کی کتاب تصور کرتے ہیں۔ اس کی بے حرمتی کا مسئلہ مسلمانوں کا ہی نہیں تمہارا بھی ہے۔’’اس کے بعد انہوں نے کہاکہ‘‘کہا آپ ان تینو ں بچوں کو کسی کی ضمانت پر ہمارے سپرد کر سکتے ہیں۔’’میں نے ان میں سے ایک صاحب کی ضمانت پر لے جانے کی اجازت دے دی اور وہ سکول سے لے گئے۔ میں خود بھی چاہتا تھا کہ وہ اپنے گھر پہنچ جائیں۔ رات کے وقت میں نے اپنے چند رفقا کے مشورہ سے یہ طے کیا کہ اپنے پڑوس کے بڑے بڑے مواضع میں قاصد بھیج کر وہاں کے آئمہ مساجد اور نمبرداروں کو بلوالیں۔ اس طرح کم از کم دس پندرہ گاؤں کے نمائندے بلوا کر آنے والی پنچایت سے معافی منگوادیں گے اور معاملہ رفت گزشت ہوجائے گا۔ اسی خیال کے ماتحت ہمارے ایک عزیز لڑکے محمد حنیف کو موضع علیکا ناگو کا پنہاری وغیرہ میں روانہ کر دیا گیا اور بے صبری سے صبح کا انتظار کرنے لگے۔ رات کو ہجوم افکار سے اچھی طرح نیندنہیں آئی۔ کبھی خیال آتا کہ بچے ہوں بوڑھے، بہر حال قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی ہے اس لیے بس ان لوگوں سے بھڑ جانا چاہیے، یہ سوچے بغیر کہ جو ہوتا ہے ہوجائے۔ آخر موت تو غیرتِ قرآنی پر آئے گی۔ مگر یہ خیال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا تھا۔ اسلامی عدل اور انصاف سامنے آجاتا تھا۔ غرضیکہ اسی ادھیڑ بن میں صبح کی نماز پڑھ کر موضع علیکا کے راستے کی طرف دیوانہ وار چلا گیا کہ مولوی عبدالطیف خان صاحب آرہے ہوں گے۔ان سے مل کر دریافت کروں گا کہ میرا یہ فیصلہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ کہیں عدل و انصاف کے پردے میں بزدلی تو کارفرما نہیں ہے۔ شہر سے باہر نکل کر اس مقام پر کھڑا ہوگیا جہاں سرسہ کی شاہراہ سے موضع علیکا کو راستہ نکلتا ہے۔ ابھی اسی مقام پر کھڑے ہوئے تھوڑا سا عرصہ گزرا تھا کہ سرسہ کی طرف سے ڈھول کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی گردو غبار کا طوفان اڑتا ہوا نظر آیا۔ میں نے حیرانی سے دیکھا چند ثانیہ بعد ایک بپھرا ہوا ڈانگوں سے مسلح مجمع نظر پڑا۔ جو ڈھول اور نقارہ بجاتا ہوا کھیتوں کو روندتا ہوا ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔مجمع نے قریب پہنچ کر مجھے دیکھا اور زور سے سلام علیکم کہا۔ میں جواب میں و علیکم السلام کہا۔ یہ موضع ناگوکا کے مسلمان تھے۔ دیہاتی اور جذباتی مسلمانوں کی نفسیات کو ذہن میں رکھ کر میں نے ایک تقریر کی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جزاک اللہ مسلمان ہوں تو ایسے ہوں۔ غیرتِ ایمانی ہو تو ایسی ہو۔ قرآن کے ماننے والے ہوں تو ایسے ہوں۔ بھائیو! میں سب کو اتنے مقدس جذبات رکھنے پر مبارک باد اور خوش آمدید کہتا ہوں۔ مگر مجھے یہ تو بتائیے کہ میں نے تو صرف مولوی صاحب اور نمبردار کو بلوایا تھا۔ آپ اتنے لوگ اور وہ بھی مسلح ہو کر کیوں آگئے؟’’وہ کہنے لگے‘‘ہم نے تو یہ سنا تھا کہ مولوی صاحب کو شہید کر دیا گیا ہے اور قرآن پاک کی بے حرمتی کر دی گئی ہے۔’’میں نے کہا:‘‘ میں توآپ کے سامنے زندہ اور سلامت موجود ہوں۔ باقی رہا قرآن پاک کا معاملہ وہ عنقریب بیان کرتا ہوں۔ معاملہ کچھ ایسا ہے کہ اس میں قصور وار چھوٹی عمر کے بچے ہیں۔ سارے مولوی جمع ہونے پر قرآن ہی سے فیصلہ چاہیں گے۔ پھر جو فیصلہ قرآنِ پاک کا ہوگا ہم اس پر عمل کریں گے مجھے بتایا جائے کہ کیا آپ بھی قرآن پاک کافیصلہ ماننے کو تیار ہیں؟’’سب نے یک زبان ہوکر کہا:‘‘بالکل!’’
‘‘اچھا تو پھر یہ لاٹھیاں اور ہتھیار جو لائے ہوئے ہو ان کو یہاں ڈال دو۔’’ انہوں نے اس کی پوری تعمیل کی۔ابھی ان سے ہتھیار رکھوائے ہی تھے کہ دوسری طرف سے ایک طوفان اٹھتا ہوا آیا اور اسی طرح ایک ہجوم ڈھول نقارے کی آواز کے ساتھ کھیتوں کو روندتاہوا آیا وہ لوگ قریب آئے تو معلوم ہوا کہ یہ موضع پنہاری کے مجاہدین ہیں ان سے بھی پہلی سی گفتگو ہوئی اور ان کو بھی غیر مسلح کر کے پاس بٹھالیا۔اس دوران میں ہمارے شہر کے ہندوؤں نے اس مجمع کو دیکھا تو شہر میں سناٹا چھا گیا۔ مسلمان اتنے قلیل تھے جیسے آٹے میں نمک.... پورے شہر میں دو صد کے قریب گھر تھے۔ باقی تمام شہر ہندوؤں اور سکھوں سے بھرا ہوا تھا۔ چنانچہ ہندو اور سکھ نوجوان کہہ رہے تھے کہ جلد مقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ اور ہندو آبادی کو اطلاع دے دو ۔ لیکن معمر اور سمجھ دار سب کو تسلی دے رہے تھے کہ مولوی صاحب سے ہمیں پوری امید ہے کہ وہ تصادم نہیں ہونے دے گا، تم بے فکر رہو۔
المختصر کتنے ہی گاؤں مسلح ہو کر ڈھول بجا کر آتے رہے اور جمع ہوتے رہے۔ جب مجھے تسلی ہوگئی کہ اب سب آچکے ہیں تو اس وقت ان سب سے نفس معاملہ بیان کر کے یہ عرض کر دیا گیا کہ آپ لوگ اپنے اپنے گاؤں سے ایک ایک مولوی اور دو دو نمبردار چھوڑ کر باقی سب لوگ واپس چلے جائیں ۔ آپ کو آپ کی نیت کا ثواب مل گیا۔ رہا قانونی فیصلہ تو وہ دونوں جانب کی پنچایتیں کر لیں گی۔
سامعین نے جواباً کہا کہ ہم تو آپ کے فرمان کے ماتحت واپس جانے کو تیار ہیں۔ مگر آپ خوب سوچ لیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ، ہمارے واپس چلے جانے کے بعد معاملہ بگڑ جائے اور پھر یہ لوگ خدانخواستہ اس افواہ کو سچ کردیں جسے سن کر ہم لوگ آئے ہیں (یعنی آپ کو شہید کردیں)
میں نے کہا کہ آپ مجھے اللہ کے حوالے کر دیں۔ اور اطمینان سے واپس لوٹ جائیں۔ میں ان لوگوں کو خوب جانتا ہوں۔ یہ لوگ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔اس پر تقریباً ستر اسی نمائندوں کو چھوڑ کر باقی سب لوگ واپس ہوگئے اور میں ان لوگوں کا درختوں کے نیچے ڈیرہ لگوا کر ان میں سے فقط علما کو ہمراہ لے لیا کہ ان علما سے مشورہ سے ہم قرآنی فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ مقام مجلس دواخانہ سلیمانی کی بالائی منزل قرار پائی۔میں نے علما کرام کے سامنے پوری صورتِ حال پیش کر کے عرض کیا کہ چونکہ ان نادان بچوں پر نہ تو کوئی تعزیر اسلام نافذ کرتا ہے اور نہ انگریزی قانون، اس لیے اگر آپ لوگ میری رائے میں کوئی وزن محسوس کریں تو ہم یہ معاملہ انہی لوگوں ہندوؤں اور سکھوں کی پنچایت کے سپرد کر دیں ۔سب علما نے اس پر اتفاق کیا چنانچہ میں نے ہمیر سنگھ وغیرہ کو بلوا کر یہ کہہ دیا کہ ہماری پنچایت نے یہ معاملہ تمہارے ہی سپرد کر دیا گیا ہے۔ ہر چند وہ اصرار کرتے رہے کہ آپ خودفیصلہ کریں۔ ہم بہ دل وجان اسے مانیں گے مگر ہم نے انہیں مجبور کر دیا اور وہ یہ اختیارات لے کر اپنی پنچایت میں چلے گئے۔ (غالباً ان کی پنچایت کا اجلاس چرنداسیوں کے ڈیرہ میں ہوا) وہ سب ایک فیصلہ پر پہنچ گئے۔
فیصلہ: مسلمان نمائندے سب خاموش تھے اور درختوں کے سایہ میں شہر سے باہر بیٹھے ہوئے اس انتظار میں تھے کہ دیکھیے ہندوؤں اور سکھوں کی پنچایت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اتنے میں تقریباًسو قدم دور شہر کی جانب سے کچھ لوگ آتے ہوئے نظر آئے مگر وہاں آکر رک گئے۔ اتنی دور سے باتیں تو نہیں سنی جا سکتی تھیں البتہ ان حرکات و سکنات سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ آنے میں متردد ہیں اتنے میں ایک آدمی آگے آیا اور بیان کیا کہ بعض لوگ یہاں آنے سے ڈر رہے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ کہیں یہاں آنے پر یکدم حملہ نہ ہوجائے میں نے جواباً تسلی دلائی اور کہا کہ میری ضمانت پر پوری تسلی اور بے فکری سے آجائیں چنانچہ وہ سب آگئے اور اس انداز سے آئے کہ سب نے ہاتھ جوڑ رکھے تھے۔ سب کے آگے ایک معمر سکھ سردار کرم سنگھ تھے۔(سردارسچا سنگھ ذیلدار حلقہ روڑی کے والد بزرگوار) انہوں نے کہا:‘‘ ہم نے اس معاملہ میں اپنا فیصلہ ان بزرگوں کے سپرد کر دیا ہے۔ انہوں نے جو فیصلہ دیا ہے وہ اب آپ کے سامنے پیش کر دیں گے۔’’
میں نے کہا:‘‘سردار صاحب بچے اگر چہ پاپی ہیں مگر بچے ہیں۔ اس لیے ہم ایسا ارادہ نہیں رکھتے اور اسی لیے یہ معاملہ آپ کے سپرد کیا ہے۔’’
کہنے لگا۔‘‘اچھا تو میرا فیصلہ سن لیں۔میں نے ان بچوں کے والدین پر پانچ صد روپے جرمانہ کیا ہے۔ جو ان سے وصول بھی کر لیا ہے اور وہ یہ حاضر ہے...’’ یہ کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر رقم رکھ کر میرے آگے کر دی...
میں نے کہا کہ ‘‘آپ کے فیصلہ کا بہرحال ہم بھی احترام کرتے ہیں مگر ہم یہ پانچ صد تو کیا پانچ کروڑ بھی ہو تو قرآن کریم کے ایک حرف کے بدلے بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ قرآن پاک کا کوئی مول نہیں ہے۔ ہاں البتہ آپ کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ اس روپے کو کسی ایسی جگہ خرچ کرو جو نہ صرف مسلمانوں کے کام آئے بلکہ اس سے تمام قومیں یکساں فائدہ اٹھائیں اور میری دانست میں وہ پیاؤ (سبیل) جو روڑی اور اسٹیشن بڑا گڈھا کے درمیان واقع ہے اور جہاں میلوں تک پانی میسر نہیں ہوتا۔ وہاں اس روپے سے ایک کمرہ تعمیر کر دیا جائے تا کہ آنے جانے والے مسافر پانی پی کر آرام بھی کر سکیں۔چونکہ اسٹیشن روڑی سے بارہ میل کے فاصلہ پر تھا اورسواری کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔ اس لیے مسافروں کو ایسے آرام دہ اور آرام بخش کمرہ کی ضرورت تھی۔ اس فیصلہ پر وہ لوگ بہت ہی خوش ہوئے اور پھر خود ہی کہنے لگے کہ ‘‘مسلمان بھائیو! اب سب مل کر دعا کرو کہ سچا بادشاہ خداوند کریم ہم پر راضی ہوجائے اور ہمارے قصور کو معاف کردے۔’’
چنانچہ ہندو مسلم سکھ سب نے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگی اور شکریہ ادا کیا کہ خدا نے مہربانی سے ایک بہت بڑے فساد سے بچا لیا۔ یہ دعا مانگ کر سب نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔
اب یہاں ایک بات بتانے کی رہ گئی تھی کہ اس فیصلہ کو صادر کرنے کے لیے کرم سنگھ کو کیوں منتخب کیا گیا حالانکہ ان سے زیادہ سمجھ دار اور ان سے زیادہ موثر شخص اور بھی موجود تھے، شاید اس کو فیصلہ کرنے والے اور فیصلہ سنانے والے خود بھی نہ جانتے ہوں گے۔ مگر الحمداللہ مجھے اس کا علم ہے۔
اس واقعہ سے سال دو سال پیشتر ایک بار سردار کرم سنگھ میرے پاس ایسی حالت میں آئے کہ ان کے سر پر قرآن مجید رکھا ہوا تھا اور وہ مجھے تلاش کر رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے کہ لو‘‘میاں صاحب! یہ غالباً قرآن مجید ہیں۔ آپ اسے اپنے پاس رکھ لیں۔ میں اسے دور سے لایا ہوں۔’’انہوں نے اس کی تفصیل اس طرح بیان کی کہ ‘‘ میں بٹھنڈہ سے چھوٹی لائن بی بی اینڈ سی آر کے ایک تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کر رہا تھا۔ اس میں چند مسافر موجود تھے۔اور یہ کلام مجید ایک کھونٹی پر لٹکا ہوا تھا۔ بٹھنڈہ سے شیر گڑھ اور راماں منڈی اسٹیشن پر مسافر اتر گئے حتی کہ کالانوالی منڈی کے اسٹیشن پر اس ڈبے میں میرے سوا کوئی مسافر نہیں رہا۔ میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے آگے والا اسٹیشن سکھ چین المعروف لکڑی والی تھا جہاں مجھے اترنا تھا۔ گاڑی چلی اور پھرمیرے اترنے کا اسٹیشن بھی آگیا۔ گاڑی رکی اور مجھے قرآن پاک نے اپنی طرف کھینچ لیا۔مجھے یہ خیال شدت سے آیا کہ اس قرآن کو اپنی تحویل میں لینے والا اب اس گاڑی میں کوئی نہیں ۔ جس کی تحویل میں تھا وہ بھول گیا۔ اس لیے اب مجھے چاہیے کہ میں اسے اپنے ہمراہ ادب سے لے آؤں اور میاں صاحب کے سپرد کر دوں۔ چنانچہ میں نے نہایت احتیاط سے سر پر اٹھا لیا۔ تیرہ چودہ میل کا سفر میں نے پیدل طے کیا ہے۔ کہیں پیشاب وغیرہ کے لیے نہیں رکا کہ ناپاک ہاتھ قرآن پاک کو نہ لگ جائیں۔ اس لیے بس سیدھا آپ کے ہاں چلا آرہا ہوں۔’’
اللہ میاں کو غالباً یہی ادا پسند آئی جو اس سانحے کا فیصلہ بھی انہی سے کرایا۔ حقیقتاً غیر مسلموں میں ان سے زیادہ اہل اور کون ہوسکتا تھا۔ اس موقعہ پر بیان کرنے کی ایک اور بات رہ گئی کہ اس مجمع میں مولوی شیر محمد صاحب سکنہ ‘‘ناگوکا’’ نے بھی ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ایک موثر تقریر کی تھی۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ :‘‘آپ کے فیصلہ کے تحت پانچ صد روپیہ جرمانہ وصول کرنا ہمیں صحیح معلوم نہیں ہوتامگر اس خیال سے کہ شاید یہ جرمانہ اس گناہ کے میل کو صاف کرنے کے لیے صابن کا کام دے سکے۔ ہم اس کو قبول کرتے ہیں۔’’
آپ کو یاد ہوگا کہ تھانیدار جو ہندو تھا، یہ شور اٹھنے پر تھانہ میں اپنی دیہات کی روانگی دکھا کر گھر میں جا چھپا تھا۔ ہماری باہمی مفاہمت ہوجانے کے بعد ڈی ایس پی صاحب نے جو کہ ہری سنگھ تلوہ کے خاندان سے تھے، تھانیدار پر سخت باز پرس شروع کی۔ اسے خطرہ ہوگیا کہ مجھے نقصان پہنچے گا تو پھر میری خوشامد شروع کی اور کہا کہ تلوہ صاحب آپ کے کردار سے بہت متاثر ہیں اگر میری سفارش کر دیں تو میرا بھلا ہوسکتا ہے۔ میں نے تلوہ صاحب کے پاس اپنا آدمی بھیجا اور کہا کہ اس فساد کا ہاتھی تو نکل گیا ہے اب تھانیدار صاحب والی دم پھنسی ہوئی نہیں رہنی چاہیے۔ یہ میرے لیے قابل شرم ہے۔ اس پر انہوں نے گلو خلاصی کردی۔
(بشکریہ ، ماہنامہ خطیب ، لاہور)