(ترجمہ:ڈاکٹر محمد بشیر انور ابوہری)
عام طور پر لوگ عربی اسلام، ایرانی اسلام اور ترک کے بارے میں بات کرتے ہیں، گویا اسلام کی تین اقسام ہیں، حالانکہ اسلام حقیقت میں ایک سے زیادہ نہیں ہے۔ البتہ قومی ، لسانی اور ثقافتی اعتبار سے مختلف اقوام ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے مقامی تشخص کے ساتھ امت مسلمہ کا ایک حصہ ہے۔ اسلام جہاں بھی پہنچا اس نے وہاں کے موجودثقافتی تشخص کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کی حفاظت اور اصلاح کی کوشش کی یہاں تک کہ وہ اس کی روح اور وحی الٰہی کے ظاہری احکام کے ساتھ سازگار ہوجائیں۔ اس وجہ سے دارالاسلام کی وسیع قلمرو نے قابل توجہ مختلف صورتحال کو اپنی طرف سے انسانی سطح پر متعارف کروایا اور اس کے ساتھ ہی ان سب سرزمینوں میں قرآن حکیم کا واحد پیغام جلوہ گر ہوگیا۔ اس طرح ہمیں چاہیے کہ ہم اس ثقافتی اور قومی صورت حال کی مختلف حالتوں کا پہلے ذکر شدہ عوامل کے ساتھ اضافہ کریں تا کہ مجموعی طور پر وہ نمونے جنہوں نے اسلام کی سرزمین میں پھیلے ہوئے، تنوع کو ظاہر کیا ہے اور زیادہ واضح دکھائی دیں۔
منطقہ عرب:
اسلامی دنیا میں پہلا ثقافتی خطہ، منطقہ عرب ہے جو عراق اور خلیج فارس سے ماریطانیہ تک اور ۱۴۹۲ء سے پہلے جزیرہ ایبری کے جنوبی حصے تک کے علاقے پر مشتمل تھا۔ مغربی مورخین کا خیال ہے کہ دنیائے عرب ہی اصل دنیائے اسلام ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے ۔اصل میں عرب مسلمان جن کی تعداد تقریباً ۲۲ کروڑہے سارے مسلمانوں کی تعداد کے پانچویں حصے سے بھی کم ہیں، لیکن چونکہ پیغمبر اسلام ؐعرب تھے اور پہلا اسلامی معاشرہ عربستان ہی میں وجود میں آیا تھااس لیے عرب منطقہ دارالاسلام ہونے کے ناطے سے امت اسلامی کا سب سے قدیم حصہ ہے اور اسی لیے یہ مرکزیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کی سب سے بڑی تعجب خیز باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب عرب سپاہیوں نے عربستان کی سرزمین سے باہر قدم رکھا تو وہ سب سرزمینیں، جو شمال اور مغرب کی جانب ان کے تصرف میں آئیں، انہوں نے اسلامی اور عربی دونوں اثرات اپنائے۔ لفظ عرب جب ‘‘دنیائے عرب’’ جیسی تراکیب میں استعمال ہوتا ہے تو وہ عربی زبان پر دلالت کرتا ہے لیکن عرب قوم پر نہیں۔ اگرچہ عربوں کی اکثریت دنیائے عرب میں آباد ہے۔ لیکن ‘‘دنیائے عرب’’ کے نام سے شہرت کی اصلی وجہ وہاں عربی زبان کا چلن ہے، جو مراکش سے عراق تک سارے علاقے میں رائج ہے، حتی کہ مصر جیسا ملک بھی اپنے بے مثال قدیم ماضی کے باوجود عربی زبان کی طرف مائل ہوا اور سچی بات یہ ہے کہ آج تک عربی ثقافت کی مرکزیت کا اختصاص مصر ہی کو حاصل ہے۔ اس کے برعکس اہلِ ایران جنہوں نے ساسانی شہنشاہیت کے زمانے یعنی ساتویں صدی عیسوی میں عربوں سے شکست کھائی اور اسلام قبول کر لیا، نہ صرف فارسی زبان کی اسی طرح حفاظت کی، بلکہ ایران کی قدیم زبانوں کی مدد سے فارسی زبان کو کامل کیا اور اپنے ممتاز ثقافتی منطقے کو دوام بخشا۔ ساسانی شہنشاہیت میں اگر کوئی استثنا تھا تو وہ عراق تھا، جہاں ساسانی پایہ تخت واقع تھا۔ اس نے نہ صرف عربی زبان کو قبول کیا بلکہ بعد میں عباسی خلافت کا مرکز بھی بن گیا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہاں بھی طاقتور ایرانی عوامل کا اثر و نفوذ بدستور قائم رہا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہم اسلام کے پھیلاؤ کا عیسائیت کے یورپ میں پھیلاؤ کے ساتھ موازنہ کریں۔ یورپ حضرت عیسیٰ ؑ کے دین کو قبول کر کے ‘‘جہانِ ابراہیمی’’ کاحصہ بن گیا، لیکن اس کے برعکس غیر عرب مسلمانوں نے اسلام تو قبول کیا، لیکن سامی اثرات کو بہت کم قبول کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ خود عیسائی مذہب پولیس قدیس کے ہاتھوں یورپ پہنچنے سے پہلے اپنے سامی اثرات کو کھو چکا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ عیسائی ہوگیا لیکن آرامی زبان کا رواج دوسری سامی زبانوں کے ہمراہ اس بر اعظم میں نہ ہو سکا جبکہ عربی زبان مشرق قریب اور افریقہ میں بلکہ ایرانیوں اور ہندستان کے درمیان بھی جو زبان اور نسل کے اعتبار سے یورپی خاندان سے تھے پھیل گئی۔ انجیل نہ یونانی زبان میں لکھی گئی اور نہ آرامی زبان میں کہ جس میں حضرت عیسیٰ ؑ گفتگو کرتے تھے ، بلکہ سب سے پہلے اور عام تحریر کے حوالے سے لاطینی زبان میں منتقل ہوئی اور اس طرح زبان کے لحاظ سے اپنی اصل سے دور ہوگئی۔ لاطینی زبان مغرب میں دین اور تعلیم کی زبان کی حیثیت سے اسی مقام کی حامل ہے، جو عربی زبان کو دنیائے اسلام میں اس اعتبار سے حاصل ہے یا عبرانی زبان کو یہودیوں کے مذہب میں حاصل ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے کہ لاطینی زبان عیسائی مذہب کی حمد کی زبان ہے اور وہ اس لحاظ سے حمد کی دوسری زبانوں مثلاً یونانی اسلاوی وغیرہ سے فرق نہیں رکھتی۔ اس وجہ سے آج کی عرب دنیا کا عربی ہونا اور عربی زبان کی غیر عرب مسلمانوں میں اہمیت کو یورپ کے عیسائی ہونے اور قرونِ وسطیٰ کے دوران مغرب میں لاطینی زبان کے کردار کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتا، ہر چند کہ ان دنوں دنیاؤں کے درمیان متعدد مشابہتیں موجود ہیں۔
عرب منطقہ جس کی خصوصیت عربی زبان سے ہے وہ نہ صرف دین کی زبان کی وجہ سے سب مسلمانوں کے درمیان رائج ہے بلکہ اس کا عمل دخل روز مرہ زندگی میں بھی ہے اور یہ پھر مشرقی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور اس کی سرحد لیبیا کے درمیان سے گزرتی ہے۔ عرب سرزمین جو قدیم عربی میں ‘‘المغرب’’ کے نام سے مشہور تھی، اب بھی ‘‘مغرب قریب’’ کے نام سے مشہور ہے اور ان میں مغربی لیبیا،تیونس اور الجزائر کا بہت سا حصہ شامل ہے۔ دوسرا ‘‘مغرب دور’’ ہے۔ جس میں مغربی الجزائر، مراکش اور ماریطانیہ شامل ہیں۔ تاریخِ اسلام کے آغاز ہی سے اندلس جزیرہ ایبری کے مسلمانوں کے علاقے کے حصے کے طور پر تقسیم ہوگیا تھا۔ البتہ مغربی حصے میں غیر عرب اہم گروہ رہتے ہیں جن میں سب سے اہم گروہ بربروں کا ہے جو زیادہ تر اطلس کے کوہستانوں میں رہتے ہیں اور ان کی اپنی مخصوص زبان ہے۔
منطقہ ایران:
اسلامی ثقافت کا دوسرا منطقہ جہاں کے لوگوں نے عربوں کے بعد دین اسلام کو قبول کیا اور پھر ان کے ساتھ مل کر اسلامی تمدن کو وجود میں لانے کے سلسلے میں کوششیں کیں، ایران تھا جوموجودہ ایران، افغانستان و تاجکستان (ازبکستان کے کچھ شہروں سمیت) پر مشتمل تھا۔ ان ملکوں کی اغلب زبان فارسی تھی جو تین مختلف مقامی ناموں فارسی، دری اور تاجک سے موسوم تھی اور ان تینوں کے درمیان اختلافات کی نوعیت وہی تھی جو آج ہم آسٹریلیا، انگلستان اور ٹیکساس کی انگریزی میں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح مشرقی قفقاز، خراسان قدیم، ماوراء النہر اور آج کے پاکستان کے کچھ حصے جہاں بعد میں متعدد قومی، جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں، بھی اس منطقے میں شامل تھے۔ ان علاقوں کے اکثر باشندے ایرانی نسل ہی سے تعلق رکھتے تھے جو آریانی یا ہند آریانی یا یورپین نام سے مشہور ہیں۔ فارسی زبان بھی اسی منطقے میں رائج دوسری ایرانی زبانوں مثلاً کردی، بلوچی، پشتو کی طرح ہند، یورپی زبانوں ہی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس منطقے کی آبادی تقریباً سو ملین افراد پر مشتمل ہے لیکن اس کے اثرات اپنی سرحدوں سے باہر اور ایشیا کے اسلامی ثقافت کے دوسرے منطقوں میں ترکوں اور ہندستانیوں سے لے کر چینیوں تک مکمل طور پر واضح ہیں۔
حضرت سلمان فارسیؓ پہلے ایرانی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ وہ غلام تھے، جنہیں رسول اکرمؐ نے آزاد کیا اور انہیں اپنے اہل بیت کے زمرے میں شمار کیا۔ ایرانی ابتدا ہی سے پیغمبر اکرمؐ کے اہل بیت اور آل اطہار کے لیے ، جن میں سے امام ہشتم علی ابن موسیٰ الرضا ؒ بھی شامل ہیں اور جن کا روضہ ایران میں ہے خصوصی احترام کے قائل تھے۔ البتہ اگر ہم ایسا سوچیں کہ ایرانی ہمیشہ شیعہ اور عرب ہمیشہ سنی تھے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ اہل تشیع عربوں ہی میں سے اٹھے اور دسویں صدی عیسوی میں اکثر مشرقی عرب علاقے شیعہ ہوگئے۔
خراسان جو کہ ایران کا ایک بڑا صوبہ تھا، اہل تسنن کا فکری مرکز سمجھا جاتا تھا۔ شیعہ مذہب نے ایران میں صفوی بادشاہوں کے زمانے میں غلبہ حاصل کیا اور شیعہ آبادی اس وقت بڑھی جب افغانستان جو بلوچستان کا کچھ حصہ تھا، ایران سے جدا ہوگیا اور ایران موجودہ شکل میں سامنے آیا۔
افغانستان آٹھویں صدی عیسوی سے صفی دور کے طولانی زمانے میں ایران کا حصہ تھا اور اس کے بعد یہ ہوا کہ افغا ن قبائل کے رہنماؤں نے صفویوں پر قدرت حاصل کر لی اور آخری صفوی بادشاہ کو قتل کر دیا۔ تھوڑے عرصے بعد مشرق کے آخری فاتح بادشاہ نادر شاہ نے دہلی تک ساری سرزمینوں کو فتح کر لیالیکن نادرشاہ کی وفات کے بعد افغانستان آزاد ہوگیا اور آخر کار انگریزوں کے دباؤ کے تحت انیسویں صدی عیسوی میں ایران، ہرات اور مغربی افغانستان پر اپنے قبضے سے دست کش ہوگیا اور یوں آج کا افغانستان وجود میں آگیا۔
منطقہ افریقہ:
اسلامی ثقافت کا تیسرا منطقہ بر اعظم افریقہ ہے۔ رسولِ اکرمؐ کے غلاموں میں سے حضرت سلمان فارسیؓکے علاوہ صحابہ میں ایک اور معروف غیر عرب افریقہ کے سیاہ فام حضرت بلال حبشیؓ تھے جو آپؐ کے موذن تھے۔ حضرت بلال ؓ کا وجود سیاہ فاموں کے درمیان اسلام کے سریع پھیلاؤ اور اسلامی ثقافت کے افریقہ کے منطقے میں وجود پذیر ہونے کا سبب بنا اور ایتھوپیا کی اونچائی پر پھیلے ہوئے علاقے سے جہاں اسلام ساتویں صدی عیسوی میں پہنچا، مالی اور سینیگال تک پھیل گیا۔ کہتے ہیں حضرت بلالؓ کی اولاد مالی کے علاقے میں ہجرت کر گئی اور رسول اکرمؐ سے ایک نسل بعد وہاں اسلام پھیلانے میں مصروف ہوگئی اور انہوں نے مندیکا کلن کیتاء کی تشکیل کی، جو وہاں پر مالی کی بادشاہت کی تاسیس میں موثر ثابت ہوئی۔ رسول اکرمؐ کے کچھ صحابہ چاڈ کے علاقے کو بھی ہجرت کر گئے اور آپؐ سے ایک نسل بعد وہاں اسلام پھیلانے میں مصروف ہوگئے۔ عام طور پرافریقہ میں اسلام تاجروں کے ذریعہ پھیلا اور سنھجہ جیسے قبائل نے اسی شروع کے زمانے میں اسلام قبول کر لیا اور عرب اور شمالی افریقہ کے مسلمانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن گئے یہاں تک کہ دسویں صدی میں گھانا میں ایک طاقتور اسلامی حکومت قائم ہوگئی اور چودھویں صدیع عیسوی تک مالے میں مسلمان حکومت دنیائے اسلام کی سب سے امیر شہنشاہی تصور کی جاتی رہی، جہاں کا سب سے معروف حاکم منہ موسیٰ تھا جو اسلامی دنیا کے قابل ترین حکمرانوں میں سے ایک تھا۔
مشرقی افریقہ میں اسلام مغربی افریقہ سے پہلے پہنچا اور اس کا راستہ مغربی افریقہ سے مختلف تھا۔ عرب اور ایرانی مہاجروں نے مغربی افریقہ کے ساحلوں پر گہر ااثر ڈالا۔
بارھویں صدی میں کیلوا کے مرکزکے تحت سواحلی بادشاہت وجود میں آئی اور عربی ،فارسی اور بانتو زبانوں کی آمیزش سے ایک جدید زبان سواحلی کے نام سے ابھری جو سیاہ فام افریقہ کے مسلمانوں کی شاید سب سے اہم اسلامی زبان ہے۔ سیاہ فام افریقہ کا اسلامی ثقافت کا حامل منطقہ عربی اور ایرانی منطقے کے برعکس کہ جہاں صرف ایک زبان کا غلبہ ہے، بڑے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، یہاں پر ہر علاقے کی اپنی مستقل زبان ہے اور یہ منطقہ ہوسا اور فولانی سے صومالیہ تک پھیلا لیکن یہ صرف انیسویں صدی عیسوی تھی کہ اسلام جنوبی سوڈان کے قدیم جنگل والے منطقوں میں منتقل ہوا۔ ان زبانوں میں سے کچھ اس منطقے کے عیسائیوں کی زبانیں بھی ہیں جو ثقافتی اعتبار سے افریقہ کے عیسائیوں کی زبانیں بھی ہیں ۔اگر چہ شمالی افریقہ اسلام کے ظہور میں آنے کے تقریباً سوسال بعد عربی زبان سے آشنا ہوا۔ منطقہ سوڈان قدیم بھی جو آج کے سوڈان کے سرسبز اور سٹیپ کے میدانوں سے لے لر سینیگال تک پھیلا ہوا ہے۔ وہاں بھی اسلام بہت پہلے پہنچا۔ البتہ جدید سوڈان، اریٹیریا اور صومالیہ کے مناطق بھی جو افریقہ شمالی(جو عرب تھے) اور افریقہ سیاہ فام کے درمیان واقع تھے کہ ان دونوں منطقوں کی ثقافت کی آمیزش وہاں چھائی ہوئی تھی۔ سیاہ فام افریقہ کا منطقہ پندرہ کروڑ افراد پر مشتمل ہے اور عجیب کیفیتوں کا حامل ہے اور وہ قابلِ توجہ قومی اور ثقافتی صورتحال کے ساتھ سیاہ فام افریقہ کی ثقافت کی مقامی وحدت کو سمیٹے ہوئے اسلام کی اپنی جامع وحدت کو بھی پیش کرتا ہے۔
منطقہ ترک:
اسلام کا چوتھا ثقافتی منطقہ، منطقہ ترک زبان ہے جس میں سب قسم کے لوگ رہتے ہیں اور جو آلتائی زبانوں میں سے ایک میں بات چیت کرتے ہیں۔ ان زبانوں میں سب سے اہم ترکی زبان ہے، لیکن آذری، چیچنی، یقوری، ازبکی، قرقیزی اور ترکمنانی زبانیں بھی ان میں سے ہیں۔ اس خطے کے لوگ جو دراصل صحرا نشین تھے، آلتائی کوہستانوں سے وسطِ ایشیا کو فتح کرنے کے لیے جو ایرانیوں کے قبضے میں تھا، جنوب کی طرف چل پڑے اور انہوں نے اس علاقے کی قومی شکل کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا، لیکن ثقافتی طور پر فارسی زبان کی دنیا سے زیادہ دور نہ رہے۔ جب وہ اس عہد کے ایران میں داخل ہوئے تو وہ سالہا سال پہلے اسلام قبول کر چکے تھے اور درحقیقت اسلام کے عظیم سپوتوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ترکوں نے نہ صرف یہ کہ ایران کے مقامی حاکموں مثلاً ساسانیوں پر فتح حاصل کی بلکہ مغرب کی جانب اناطولیہ پر بھی چڑھ دوڑے اور ۱۰۷۱ء میں انہوں نے ملازگرت کی جنگ میں بیزانس کے لشکروں کو روند ڈالا اور یہ اسلام کی تاریخ کی فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک تھی۔ اس فتح نے ترک زبان صحرا نشینوں پر اناطولیہ کی بلندیوں کے دروازے کھول دیے اور اس منطقے میں ترکی زبان اور ثقافت کے آغاز کے سبب عثمانی سلطنت کی تاسیس اور پھر ۱۴۵۳ء میں قسطنطیہ کی فتح کا موجب بنی۔ ترک فوجی لحاظ سے طاقتور تھے اور انہوں نے بہت سی اسلامی سرزمینوں مثلاً ایرا ن اور مصر کو اپنے ماتحت کر لیا لیکن وہ جدید اسلامی تاریخ میں کچھ زیادہ مقام نہیں رکھتے۔آج ترکی زبان اور افراد جو پندرہ کروڑ سے زیادہ آبادی کے مالک ہیں، مقدونیہ سے سائبیریا اور سارے ولاڈی واسٹک میں ثقافتی انتشار کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ترک گروہ دوسرے غیر ترک زبان علاقوں مثلاً ایران ، افغانستان، مصر، اردن ، شام اور روس میں آباد ہیں۔ روس میں ترکی بولنے والی اقلیتیں ان لوگوں میں سے ہیں جو روس کے زار خاندان کے بادشاہوں کی فتوحات کے ہاتھوں مغلوب ہوگئے تھے۔
منطقہ پاک و ہند:
اسلامی ثقافت کا پانچواں منطقہ برصغیر پاک و ہند ہے ۔ آٹھویں صدی عیسوی کی پہلی دہائی کے قریب محمد بن قاسمؒ کے لشکر نے سندھ کو فتح کیا اور یوں چند صدیوں بعد برصغیر میں اسلام کے نفوذ کی راہ ہموار ہوگئی لیکن اسلام کے پھیلاؤ کے اصلی عوامل، سارے ہندستان میں صوفیا کے گروہ تھے۔ ترک بادشاہوں نے بھی کئی بار ہندستان پر حملے کیے اور گیارہویں صدی عیسوی کے بعد سے ہندستان پر انگریز استعمار کے زمانے تک، ہندستان کے زیادہ تر علاقے خاص طور پر شمالی علاقے جہاں سولہویں صدی عیسوی میں مغلوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کی تھی۔ مسلمان حکمرانوں کے زیرِ نگیں رہے۔ ہندستان میں اسلام قومی سطح پر مشترک ہے۔ اگر چہ ہندستان کی مقامی آبادی میں ترک اور ایرانی عناصر بھی دیکھے جاسکتے ہیں لیکن ثقافتی اور لسانی اعتبار سے وہ بڑے متنوع واقع ہوئے ہیں۔
فارسی زبان تقریباً ہزار سال تک ہندستان کے مسلمانوں کی علمی اور ادبی زبان رہی لیکن مقامی زبانیں مثلاً سندھی ، گجراتی، پنجابی اور بنگالی بھی اسلامی زبانوں میں اہم مقام کی حامل رہی ہیں۔ آہستہ آہستہ چھٹی اور ساتوی صدی عیسوی میں، ہندی اور فارسی اور کسی حد تک ترکی زبان کی آمیزش سے ایک نئی زبان اردو کے نام سے وجود میں آئی۔ یہ زبان عربی و فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اور سواحلی، ترکی ، عثمانی اور دیگر اسلامی بول چال میں ایک اہم ذریعہ ابلاغ کے طور پر جلوہ گر ہوئی اور بعد میں پاکستان کی قومی زبان قرار پائی۔ ہندستان کے اسلامی ثقافتی منطقے میں پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور ہندستانی مسلمان اور سری لنکا کے اسلامی معاشرے شامل ہیں۔ یہ کوئی چالیس کروڑ کی آبادی ہے جو باقی چاروں منطقوں سے زیادہ ہے۔ اس آبادی کے زیادہ ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک، انیسویں صدی سے ہندستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی آبادی میں غیر معمولی اضافہ اور دوسرے یہ کہ برصغیر کی تقریباً ایک چوتھائی ہندو آبادی نے اسلام قبول کر لیا تھا کیونکہ یہ دین خوش قسمتی سے ان لوگوں کے لیے جو ہندو قوانین کے چنگل میں گرفتار تھے، نجات کا پیغام لے کر آیا تھا۔بر صغیر کے مسلمانوں نے اسلامی فنون و ثقافت کے بعض عظیم ترین آثار کو جنم دیا اگر چہ وہ ترکی زبان بادشاہوں کے سلسلوں کے زیر نگیں رہے تاہم انہوں نے ثقافت کے اعتبار سے آج کے جدید زمانے سے بڑھ کر فارسی زبان کی دنیا سے قربت حاصل کی۔
منطقہ ملایا:
اسلامی ثقافت کا چھٹا منطقہ جنوب مشرقی ایشیا کا ملایا کا علاقہ ہے۔ اسلام تیرھویں صدی عیسوی کے بعد عربی بولنے والے تاجروں کے ذریعے خلیج فارس اور بحر ہند کے راستے یہاں پہنچا۔ اس قافلے میں ہندستان کے تاجر اور صوفیا بھی شامل تھے۔ ملایا کا اسلام بھی اپنے عظیم قومی تشخص سے بھرا ہوا ہے اور اپنی خاص خصوصیات کا حامل ہے۔ اس علاقے میں بھی اسلام پر تصوف کے گہرے اثرات موجود تھے اور یہاں درحقیقت اسلام کی اشاعت اب بڑی حد تک اسی جماعت کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ عام طور پر اسلام نے ایک معتدل اور محبتوں کے طریق کار کو ملایا پر حاوی قومی تشخص کے ساتھ سازگار بنایا۔ یہاں ملائی اور جاوی زبانیں رائج ہیں اور یہ منطقہ انڈونیشیا، ملائشیا، برونائی کے علاوہ تھائی لینڈ اور فلپائن کے اکثریتی مسلم اقلیتوں اور کمبوڈیا اور ویتنام میں کم مسلم اقلیتوں کے علاقوں میں مسلمان آبادیوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے میں تقریباً بائیس کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ اگر چہ اس منطقے کے دارالاسلام کے ساتھ الحاق کو کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن اس کے باوجودملایا کے مسلمانوں کی مکہ و مدینہ سے شدید وابستگی اور رسولِ اکرمؐ کی سنتِ مبارکہ سے عشق مشہور ہے۔ افریقہ اور ہندستان کی طرح ملایا میں بھی اسلام تصوف سے بہت متاثر ہے اور ظاہری امور اور عمل میں صوفی اثرات وہاں پر غالب ہیں۔
منطقہ چین:
ان چھ اسلامی ثقافتی منطقوں کے بعد ایک چھوٹے منطقے یعنی چینی منطقے کا ذکر بھی ضروری ہے، جو ساتویں صدی عیسوی میں وجود میں آیا۔ ظہورِ اسلام کے بعد جلد ہی مسلمان تاجر چین کی بندرگاہ کانتون جیسی جگہوں پر جاکر بس گئے۔ اسی زمانے سے اسلام چین میں پہنچا لیکن اسلام کا آغاز زیادہ تر سنکیانگ سے ہوا جسے مسلمان جغرافیہ دان مشرقی ترکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
چینی مسلمان بھی ترکی زبان کے خاندان مثلاً ایغوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں چینی زبانوں کی مشہور زبان ‘‘ھوئی’’ بھی ہے۔ ھان نامی چینی قوم میں بھی مسلمان پائے جاتے ہیں۔ چین میں مسلمانوں کی تعداد ایک بڑا راز رہی ہے اور اس بارے میں ڈھائی کروڑ سے دس کروڑ تک کے اعداد سننے میں آتے ہیں۔چینی مسلمان فن معماری اور خوش نویسی میں ممتاز رہے اور وہ عقلی روایات سے بھی مکمل طور پر بہرہ ور ہیں وہ ایرانی تصوف کے انتہائی قریب ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی کے بعد سے چین میں اسلام کی علاقائی روایت آہستہ آہستہ قدیم چینی زبان میں نہ کہ فارسی اور عربی زبان میں ترقی کرگئی۔
منطقہ یورپ:
چینی مسلمانوں کے بعد یورپ میں آباد مسلمانوں کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ان میں بلغاریہ، یونان اور مقدونیہ میں بسنے والے ترک ہی نہیں بلکہ یورپ میں آباد خود مقامی گروہ بھی شامل ہیں جو پانچ سو سال پہلے مسلمان ہوئے۔ ان میں سے البانوی لوگوں کے گروہ قابل ذکر ہیں، جوسارے البانیہ، کوسووا اور مقدونیہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بوسنیا کے گروہ جو اکثر بوسنیا میں اور کسی حد تک کرداسی اور صربستان میں رہتے ہیں اور ان کی ثقافت کا فہم بھی اسلامی قلمرو کے سمجھنے میں مفید ہے اور ساتھ ہی اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان دوستانہ روابط کے سلسلے میں آج کے یورپ میں موثر ہے۔
آخر میں یورپ اور امریکا میں نئے اسلامی معاشروں کا جن میں باہر سے آنے والے اور اسلام قبول کرنے والے مقامی باشندے(نو مسلم) بھی شامل ہیں، ذکر لازم ہے (البتہ بہت سے مسلمان اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ انہیں نو مسلم کے بجائے واپس آنے والےRevertsکہا جائے اور یہ لوگ ہیں جو مومن فطرت Primoridal Religions اسلام کی طرف واپس لوٹے ہیں۔) یہ لوگ کئی ملین کی تعداد میں یورپ میں آباد ہیں۔ تقریباً تین ملین ترک اور کرد جرمنی میں ہیں۔ دو ملین سے زیادہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان مہاجرین انگلستان میں رہتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے اور کئی چھوٹے لیکن بہت اہم گروہ بھی یورپ کے تمام ملکوں میں آباد ہیں۔
امریکا میں بھی رہنے والے مہاجر مسلمان مشرقی عرب علاقوں ، ایران اور برصغیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں نو مسلم بھی ہیں جو حبشیوں اور سفید فام لوگوں کے درمیان اسلام کی اشاعت کا آغاز عالی جاہ محمد سے ہوا۔ اس نے ملتِ اسلامی کو زندہ کیا جس نے سفید فام لوگوں کو نسل پرستی کے خلاف جنگ کی حمایت کی۔ یہ تحریک بعد میں دو شاخوں میں بٹ گئی اور اس کے اکثر کارکن دوسرے امریکی سیاہ فام مسلمانوں کے ساتھ جلد ہی اسلام کے اصل اصولوں کے ساتھ مل گئے۔ اس ضمن میں مال الشبزAl-Haji Malik Shabazzکا، جو اکثر ملکم ایکسMalcolmx کے نام سے مشہور ہے، بہت اہم کردار ہے۔ پچاس لاکھ مسلمان یورپ میں ، تقریباً ساٹھ لاکھ مسلمان امریکا میں، ۵ لاکھ کینیڈا میں اور شاید ۲۰ لاکھ سے زیادہ مسلمان جنوبی امریکا میں رہتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں کہ اسلامی دنیا کو بین الاقوامی سطح پر سامنے رکھیں تو ہمیں چاہیے کہ مغرب میں اسلامی اجتماعی زندگی کو بھی سامنے رکھیں۔ خاص طور پر ان کو جو ایک اہم رابطہ کے پل کے طور پر دارالاسلام کے درمیان کہ وہ خود اس سے مربوط ہیں، کردار ادا کرتے ہیں اور مغرب کو جو ان کا وطن ہے، وہاں اس کردار کو نبھاتے ہیں۔
اسلامی ثقافت کے یہ منطقے جن کا ذکر اجمالاً ہم نے کیا ایک نمائش گاہ کی طرح ہیں جس میں قومیتوں کا عجیب و غریب مجموعہ، مختلف فنون اور موسیقی کا مجموعہ اور انسانی زندگی کے مختلف آداب دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسلام بورینو کے جنگلوں سے لے کرکوہِ ہندوکش کے پہاڑوں تک اور پھر ماریطانیہ کے بیابانوں تک اپنے پیرو کار رکھتا ہے جن کے درمیان سفید فام، سیاہ فام، زردفام اور حقیقت میں دوسری نسلوں کے لوگ بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس واضح تنوع کے اندر ایک ایسی وحدت موجود ہے جس کا سرچشمہ اسلام ہے اور اس کے جلوے کو عربی زبان میں قرآن حکیم کی تلاوت میں، مشرق سے لے کر مغرب تک ہر روز مکہ کی طرف منہ کرکے نمازوں کی اقامت میں رسولِ اکرمؐ کی شریعت کی پیروی میں ایک نمونہ قرار دینے میں ۔ صوفیا کے گروہوں کی معنوی خوشبو میں ، نقش و نگار میں، اسلامی آرٹ میں موجود جامع ہم آہنگیوں میں اور دوسرے بہت سے عوامل میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اسلامی دنیا میں موجود وحدت کبھی بھی متحد الشکل ہونے کے معنی میں نہ تھی، بلکہ اس کی امتیازی خصوصیت ہمیشہ تنوع ہی رہی ہے۔ اس وحدت کو سمجھنے اور اس میں موجود تنوع کے ادراک کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اس راستے کو تلاش کریں جس پر چل کر اسلا م نے ان سارے انسانی معاشروں کو اپنی طرف کھینچا اوران کے خداد اختلافات کے عین عروج میں ایک عالمگیر تمدن کو پیدا کیا کہ توحید کی اصل ان کے ایک ہونے کا سبب بنی اور ہر جگہ وہ حاکم ہے۔
بشکریہ: معارف فیچر سرس، شمارہ: ۱۶ جولائی،۲۰۰۷