آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ‘‘ دنیا میں مشکل ہی سے تم نے دس دن گزارے ہو ں گے’’ (طہ، ۲۰: ۱۰۳) اس وقت ان میں جو زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گا نہیں، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی۔(طہ، ۲۰: ۱۰۴) وہ کہیں گے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ہم وہاں ٹھہرے ہیں ۔شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے ۔(النور ۲۴: ۱۱۳)(آج دنیا کی زندگی میں مست ہیں) جس روز اللہ ان کو اکٹھا کرے گا(تو یہی دنیا کی زندگی انہیں ایسی محسوس ہو گی) جیسے گویا محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرے تھے ۔ ( یونس ۱۰: ۴۵) جب وہ ساعت برپا ہو گی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے ہیں ۔(الروم ۳۰:۵۵)جس روز یہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو انہیں محسوس ہو گا کہ (دنیا میں یاحالت موت میں) بس ایک دن کے پچھلے پہر، یا اگلے پہر تک ٹھہرے ہیں ۔( النازعات ۷۹: ۴۶)
اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا ، مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔ (النحل ۱۶:۷۷)
پھر ۔۔۔۔۔یایھا الانسان ما غرک بربک الکریم (الانفطار ۸۲:۹)
پھر اے انسان،کس چیز نے تجھے اپنے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔