سرسید کے برعکس اقبال کو دعاؤں اور ان کی اجابت پر یقین کامل تھا۔ انہوں نے اپنے کلام میں جا بجا بحضور حق دعائیں کی ہیں۔ یہ دعائیں ذاتی مقاصد کے لیے بھی ہیں اوراجتماعی و قومی مقاصد کے لیے بھی۔ ان کے برادر زادے شیخ اعجاز احمد اس کی شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں‘‘ چچا جان کو دعا پر بڑا اعتقاد تھا ۔ ان کا کلام پڑھنے سے اس اعتقاد کا احساس ہوتا ہے ۔ اپنے اشعار میں جہاں دعا کی ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ دعا رسماً نہیں بلکہ دل سے نکلی ہے ۔ نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنا بھی ان کے معمولات میں شامل تھااور اپنے خطوں میں اس کی تاکید فرماتے تھے ایک خط میں لکھا کہ ‘‘مسلمان کی بہتر ین تلوار دعا ہے ۔ اس سے کام لینا چاہیے ۔ہر وقت دعا کرنی چاہیے اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنا چاہیے ’’ اورادکے بھی قائل تھے ۔ جب مجھے بی ۔اے کا امتحان دینا تھاتو دادا جان کی ہدایت پر میری کامیابی کے لیے آیہ کریمہ کا ورد کیا تھا چنانچہ دادا جان کو لکھا کہ امید ہے آپ کی دعا سے اعجاز امتحان میں کامیاب ہوجائے گا۔ آیہ کریمہ کا ورد شروع ہے ۔’’
(مرسلہ ،خضر حیات ناگپوری ، بحوالہ روز گار فقیر ص ۱۷۵ ، جلد دوم کراچی)