اگر ، مگر ، لیکن

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جولائی 2007

 

            باپ اگر ماں کے حقوق ادا نہ کرے تو کیا بیٹا باپ کی جگہ لے سکتا ہے؟یہ وہ سوال تھاجسے سن کر میرے دوست کا لیکچر کچھ دیر کو رکا تو مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا ورنہ پچھلے ایک گھنٹے سے وہ مسلسل بولے جا رہاتھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم پرجہاد فرض ہو گیا ہے کیونکہ دنیا میں کہیں بھی مسلم حکومتیں اپنے فرائض پورے نہیں کر رہیں اس لیے ہمیں خود آگے بڑھ کر جہاد شروع کر دینا چاہیے او ر حکومتوں کو معزول کر کے اقتدار خود سنبھال لینا چاہیے کیونکہ یہ انقلاب اور خلافت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اس نے کہا کہ ظلم ، بہر حال ظلم ہے اور جو بھی مسلمان ظلم کو دیکھے اس کی ذمہ داری ہے کہ اسے طاقت( ہاتھ) سے روک دے اگر یہ ہمت نہیں رکھتاتو زبان سے منع کرے ورنہ دل سے تو ضرور برا جانے ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنا ہے،وہ کہہ رہا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہماری سب کی ذمہ داری ہے، وہ یہ بھی کہہ رہاتھا کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے اب ہماری ذمہ دار ی ہے کہ دین کے غلبے کی جدوجہد کریں ۔اس سارے لیکچر میں وہ بہت ساری آیات اوراحادیث کے حوالے بھی دے رہا تھا۔

             میں نے عرض کیا کہ جو قرآنی آیا ت یا احادیث تم پیش کر رہے ہو کیا ان کو تم سے پہلے بھی امت کے جلیل القد ر علما میں سے کسی نے سمجھنے کی کوشش ہے ؟ اس نے کہا کیوں نہیں ہر دور میں علما یہ کام کرتے رہے ہیں۔میں نے کہا تم نے اپنی بات اوردعوت بیان کرنے سے قبل ،کیا ہرصدی کے جلیل القدر آئمہ اور علما کی بات سمجھ لی ہے ۔اس نے کہا ایسا تو نہیں ہے۔ میں نے کہا اصول یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی ہر ہر بات کوعلم کی پوری روایت کے اندر کھڑے ہو کر سمجھا جائے نہ کہ الگ سے۔ اور جب ہم اس روایت کے تسلسل میں کھڑ ے ہوتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری آیات اور احادیث ہرصدی کے جید علما کا موضوع رہی ہیں ۔وہ ان کا مطلب بھی بیا ن کر تے رہے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے رہے ہیں۔

            ہر صدی کے اکابر علمااورمحققین کا اس امر پر اتفاق رہا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرصاحبان اقتدار کا کام ہے اور اس کے لیے قوت ، اقتدار اور اتھارٹی کی ضرورت ہے ۔جس کے پاس ، جس دائرے میں جتنی اتھارٹی ہے وہ اسے صرف اسی دائرے میں استعمال کر نے کا مجاز ہے نہ کہ اس دائرے سے باہر یا جہاں اس کا دل کرے ۔ یہی مطلب اس حدیث کا ہے کہ جس میں ظلم اوربرائی کے خلاف ہاتھ یازبان یا دل کا ذکر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ جہاں کوئی ہاتھ استعمال کرنے کا مجاز ہے یعنی جہاں اسے ہاتھ کے استعمال کی اتھارٹی اوراجازت دی گئی ہے اس دائرے میں اگر وہ ہاتھ کا استعمال نہیں کرتا تو عنداللہ مسؤل ہوگا اور جس دائرے میں وہ ہاتھ استعمال کر نے کا حق نہیں رکھتا وہاں زبان استعمال کرے گااوراگر زبان استعمال کرنے کا دائرہ بھی نہیں ہے تو دل سے لازماً برا جانے گا۔اور اس میں مضمر بات یہ بھی ہے کہ جہاں وہ ہاتھ استعمال کرنے کا مجاز نہ تھا وہاں اگر اس نے اس کو استعمال کیاتو پھر بھی مجرم ہوگا۔

            ہماری غلط فہمی یہ ہے کہ ہر دائرے کو ہم اپنا دائرہ سمجھنے لگتے ہیں اور جو حقیقت میں اپنادائرہ ہوتا ہے اسے پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔اپنے دائرے میں کام نہ کرنا اور دوسرے کے دائرے میں مداخلت بے جا معاشرے میں فساد کا موجب بنتی ہے ۔ جو کام حکومت کا ہے، اسے ہم اپنے ذمہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اورجو کام ہمارے ذمہ ہے اسے پس پشت ڈالتے رہتے ہیں۔ ہمارے ذمے اپنے اوپر ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا نفاذ ہے ، اپنے ماحول میں نیکی کی دعوت ہے اور اپنے اپنے دائرے میں نیکی کا بالقوۃ نفاذ ہے ۔مثلاً باپ اپنے گھر کا، افسر اپنے ماتحتوں کااورحاکم اپنی رعایا کا راعی ہے وہاں اگر وہ ہاتھ استعمال نہیں کرے گا تو مجرم ہو گا ۔ ہم اپنے ہمسائے کے ساتھ ‘ہاتھ ’کے استعمال کے مجاز نہیں۔ وہاں البتہ زبان کے استعمال کا دائرہ ہے وہاں اگر زبان استعمال نہیں کریں گے تو مجرم ہوں گے اور گھر میں موقع محل کے مطابق اگرہاتھ استعمال نہیں کریں گے تو مجرم ۔ جب ہم زبان کی جگہ ہاتھ اور ہاتھ کی جگہ زبان استعمال کرنے لگتے ہیں تو فساد پیدا ہوتا ہے۔ معاشرے پر قوانین کا بالقوۃ نفاذریاست کا کام ہے اور ریاست کی نمائندہ یعنی حکومت اگر یہ کام نہیں کرتی تو کیا ہم خود کرنے لگ جائیں؟ میرے دوست کا کہنا تھا کہ ہاں اگر حکومت نہیں کرے گی تو ہم خود کریں گے جب کہ میں عرض کر رہا تھا کہ تمہیں وہیں کرنا چاہیے جہاں اللہ اوراس کے رسول نے تمہیں اختیار د یا ہے۔ جہاں جو اختیار، اللہ نے تفویض کیا ہی نہیں اس کے بارے میں وہ سوال بھی نہیں کرے گا۔ کوئی اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتا دیکھے تب بھی قصاص لینے کامجاز نہیں۔ چور کو اپنے ہاتھوں پکڑبھی لے تب بھی ہاتھ کاٹنے کا مجاز نہیں کیونکہ حدودکے نفاذکی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ریاست کے سر ڈالی ہے ۔ فرد صرف ریاست کوبتائے گا اور مجرم پر حدکے نفاذمیں ریاست کی مدد کرے گا ۔ اس سے زیادہ فرد کی کوئی ذمہ داری نہیں۔کوئی کسی کے قاتل کو خود سے قتل کر دے اورکہے کہ میں نے قصاص لیا ہے اس کا دعوی نہ صرف غلط سمجھا جائے گابلکہ وہ بھی قتل کا مجرم گردانا جائے گا حالانکہ اس نے اپنی طرف سے قصاص لیا ہے اسی طرح جہاد ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ کوئی ایک فرد ، کوئی ایک گروہ ، کوئی ایک جماعت یا بہت سی جماعتیں مل کر بھی اپنے طور پر اس کی ذمہ دار نہیں ہیں ۔البتہ حکومت اور ریاست کو اس طرف متوجہ کرنا ان کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کامطالبہ حق ہے تو وہ اس کے لیے ریاست کو مجبورکرنے کے لیے پرامن احتجاج اور پریشر بھی پیداکر سکتے ہیں۔ اور اس عمل میں اگر ریاست کی طرف سے تشد د ہو تو اس پر صبر ،برداشت اور عزیمت یقیناحالات کو بدل کے رکھ دے گی۔مسلمانوں کی تاریخ میں اکابرین نے ہمیشہ یہی کیا نہ کہ خود سے اقتدار کے داعی بن بیٹھے۔امام ابوحنیفہؒ سے لے کر امام مالکؒ تک اور امام مالکؒ سے لے کر امام احمد ؒبن حنبل تک سب نے یہ فریضہ ادا کیا ۔ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کو پوری قوت سے کہامگر کسی نے نہ کوئی گروپ بنایا اورنہ جماعت ، نہ معاشرے میں انارکی پھیلائی اور نہ فساد کی بنارکھی۔خود ہر ظلم برداشت کیا ، اور ان کی یہی برداشت اورعزیمت ہی حکمرانوں کی موت بن گئی۔یہی نسخہ آج کے علما ، اکابرین اور افراد کو استعمال کرنا چاہیے مگر یہ وادی ، وادی ء پرخا ر ہے اس میں کون قدم رکھے ؟

            اللہ ہم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے دوسرے کے دائرے میں کام کیوں نہیں کیا ہاں البتہ جو دائرہ ہمارے ذمے تھا اس کے بارے میں سوال ضرور ہو گا۔ ہم دوسروں کے کا م اپنے سر کیوں لیتے رہتے ہیں؟ قرآن مجید ابدی ہدایت کی کتاب ہے ۔ ہر قدم پر قرآن و سنت سے پوچھ پوچھ کر چلنا ہی ہماری فلاح کا باعث بن سکتا ہے ۔ ہمیں پوری دیانتداری سے اس بات کا تعین کرنا چاہیے کہ ہم اصل میں ہیں کیا؟ اور پھر جو حیثیت متعین ہو اس کے مطابق قرآن وسنت سے پوچھا جائے کہ اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ میں اگر ایک باپ ہوں تو مجھے قرآن وسنت سے پوچھنا ہے کہ بحثیت باپ میری کیا ذمہ داری ہے ۔ میں اگر ایک طالب علم ہوں تو اس حیثیت سے ، میں ایک استاد ہوں تو اس حیثیت سے ، میں حاکم ہوں تو اس حیثیت سے، میں اگر محکوم ہوں تو اس حیثیت کے اعتبارسے قرآن وسنت سے پوچھوں کہ مجھے کیا کرنا ہے اور میرے فرائض کیا ہیں۔قرآن مجید کا ہر حکم ہر ایک کے لیے نہیں ہے ۔ بعض احکام سب کے لیے اور بعض خاص خاص طبقات کے لیے مثلاً بعض صرف علما کے لیے ، بعض صرف عام افراد کے لیے ، بعض صرف عورتوں کے لیے ، بعض صرف مردوں کے لیے ، بعض صرف اساتذہ کے لیے ، بعض صرف طلبا کے لیے اسی طرح بعض صرف حکمرانوں کے لیے اور بعض صرف رعایا کے لیے ۔ ہم اپنی حیثیت کا تعین ہی نہیں کر پاتے اور غلط فہمی سے حکومت سے متعلقہ احکام کو اپنے سے متعلق سمجھ لیتے ہیں۔ اور جو اپنے سے متعلقہ ہیں انہیں بھولے رہتے ہیں۔میں جب اپنی حیثیت متعین کرکے قرآن وسنت سے ہدایت کے لیے رجوع کروں گا تو ممکن نہیں کہ مجھے ہدایت نہ ملے لیکن مجھے اپنی حیثیت متعین کرنے میں دیانتدار ہونا چاہیے۔اگرعورت مردوں سے مخصوص احکام کو اپنے لیے سمجھ لے اور مرد عورت سے مخصوص احکام کو اپنے لیے ،تو جو نتیجہ ظاہر ہونا ہے وہی مسلم معاشروں میں ظاہر ہو رہا ہے یعنی ابتری ، فساد اور انارکی۔

            میری معروضات سن کر میرے دوست نے کہایہ باتیں تو ٹھیک ہیں اور تمہار ے سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ جو بھی ہو جائے بیٹا باپ نہیں بن سکتا ،لیکن بات اصل میں یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔

            میں نے کہا‘لیکن ’سے تو پہلی بات کی نفی ہوجاتی ہے۔ ایک طرف تو تم یہ کہہ رہے ہو کہ بیٹا وہ جگہ نہیں لے سکتا اور دوسری طرف لیکن سے پھر وہی بات شروع کیے جار ہے ہو۔اس نے کہا لیکن دل نہیں مانتا۔میں نے عرض کی کہ قرآن و سنت کے احکامات دل کی مرضی سے وابستہ نہیں ہوتے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی منشا پر منحصر ہوتے ہیں اور ہمارے دل کا کام یہ ہونا چاہیے کہ اس منشا کو دیانتداری سے سمجھنے کی کوشش کریں۔دل مانے یا نہ مانے ہمیں تو بہر حال حکم کے منشا کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی سعی کرنی ہے۔

            المیہ یہی ہے کہ ہم وزنی سے وزنی اور مضبوط سے مضبوط دلیل پانے کے بعد بھی حتیٰ کہ قرآن و حدیث سن کر بھی ‘لیکن ’لگاکر اپنی بات پہ قائم رہنے کی نہ صرف سعی کرتے ہیں بلکہ دوسروں سے منوانے کی بھی ہر ممکن کوشش کر تے ہیں۔ہمارے ہاں پہلے سے موجود کچھ ذہنی سانچے ہوتے ہیں اورہم ان سانچوں کی تائید میں قرآن وحدیث سے دلائل ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔ہم اپنے ذہنی سانچے قرآن و سنت سے پوچھ کرنہیں بناتے بلکہ سانچے پہلے بنا تے ہیں اور قرآن وسنت سے دلائل بعد میں لاتے ہیں اور اس بات کی کبھی زحمت ہی نہیں گوارا کرتے کہ ایک لمحے کو رک کر یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا یہ سانچے درست بھی ہیں کہ نہیں۔میرے اس دوست کے بھی کچھ ایسے ہی سانچے تھے اور وہ پچھلے کئی برس سے پورے خلوص کے ساتھ ان سانچوں کے مطابق قرآن وسنت کو ڈھالنے کی کوشش میں مگن تھا۔اور آج بھی وہ یہی کام کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔اوراگر ، مگر، لیکن سے کام لے کر ہر بات کی نفی کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے سوچا میرے دوست پر ہی کیا موقوف ، دور حاظر میں تو اکثر مسلم جماعتیں ، تنظیمیں اور گروہ اسی اگر، مگر اور لیکن سے کام لے رہے ہیں۔لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر ، مگر اور لیکن کب تک؟