ہر دکھ اور ہر عذاب کے بعد زندگی آدمی پر اپنا راز کھول دیتی ہے ۔ برگدکی چھاؤں تلے بدھ بھی ایک دکھ بھری تپسیا سے گزرے تھے۔ جب پیٹ پیٹھ سے لگ گیا، آنکھیں اندھے کنویں کی تہ میں بے نو ر ہو گئیں اور ہڈیوں کی مالا میں بس سانس کی ڈوری اٹکی رہ گئی تو گوتم بدھ پر بھی ایک بھید کھلا تھا۔ جیسا اورجتنا اور جس کارن آدمی دکھ بھوکتا ہے، ویسا ہی بھید اس پر کھلتا ہے نروان ڈھونڈنے والے کونروان مل جاتا ہے اور جو دنیا کی خاطر کشٹ اٹھاتاہے تو دنیا اس کو راستہ دیتی چلی جاتی ہے ۔
آب گم۔ مشتاق احمد یوسفی