اسکارف سے سیکولرازم کو لاحق خطرات

مصنف : جاوید چودھری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2007

میڈم مروے کا تعلق فضیلت پارٹی سے تھا۔ وہ ۱۸ اپریل ۱۹۹۹ء کے الیکشن میں ترک پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئی۔ مئی میں حلف برداری کا موقع آیا تو مروے سر پر اسکارف لے کر پارلیمنٹ چلی گئیں۔ یہ جدید ترکی کی ۷۶سالہ تاریخ کا حیران کن واقعہ تھا کیونکہ جب ۲۹، اکتوبر ۱۹۲۳ء کو ترکی آزاد ہوا تھا کمال اتاترک نے عربی رسم الخط’ دینی تعلیم اور اذان کے ساتھ ساتھ سر ڈھانپنے اور حجاب لینے پر بھی پابندی لگا دی تھی’ کمال اتاترک کا کہنا تھا اگر ہم ترکی کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اسے سیکولر ثابت کرنا ہوگا۔ اس وقت سے ترکی میں عورت کا ننگا سر اور سیکولرزم ایک ہوچکے ہیں لیکن مئی ۱۹۹۹ء میں مروے نے اسکارف کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہوکر سیکولرزم کے ترک فلسفے کو چیلنج کردیا۔ مروے کی اس حرکت پر پارلیمنٹ میں زلزلہ آگیا’ سیکولر ارکان نے آسمان سر پر اٹھا لیا’ ترکی میں سیکولرازم کی ضامن فوج نے بھی مروے کی جسارت کا سنجیدگی سے نوٹس لیا۔ لہٰذا صدر سلیمان ڈیمرل نے مروے کی رکنیت اور شہریت دونوں منسوخ کردیں’ یہ ایک سیکولر اسٹیٹ کا ایک ایسے آزاد شہری سے انتقام تھا جو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو یہ صورت حال ایک بار پھر زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آئی۔ اس دن ترک قوم نے اپنا ۸۰واں یومِ آزادی منایا۔ قومی دن کی روایات کے مطابق صدر کی بیگمات بھی شریک ہوتی ہیں لیکن اس بار کیونکہ ترکی میں طیب اردگان کی سربراہی میں ایک اسلامی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت تھی اور اس پارٹی کے زیادہ تر عہدیداروں کی بیگمات سروں پر اسکارف باندھتی ہیں لہٰذا صدر کے لیے ان تمام حضرات کو دعوت دینا مسئلہ بن گیا۔ صدر نے طویل غوروخوض کے بعد اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ انھوں نے حکومت’ پارلیمنٹ کے ارکان اور حکمران پارٹی کے چیدہ چیدہ ممبروں سے درخواست کی: ‘‘آپ تقریب میں بیگمات کو ساتھ نہ لائیں’’۔ صدر کے اس فارمولے کی زد میں وزیراعظم طیب اردگان بھی آگئے کیونکہ ترکی کی خاتونِ اول بھی سر پراسکارف باندھتی ہیں’ اس اقدام پر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے صدارتی تقریب کا بائیکاٹ کیا اور صدر احمد نجات سیزر سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔

ترکی کے صدر احمد نجات سیزر کے اس فارمولے نے دنیا بھر کے دانش وروں’ فلاسفروں اور تجزیہ نگاروں کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کردیا: ‘‘کیا سیکولرازم اور اسکارف’ کیا ماڈرن ازم اور حجاب ایک دوسرے کے دشمن ہیں؟ کیا ترکی اور پردہ ایک دوسرے سے مزاحم ہیں’ کیا سروں پر دوپٹے اور چہروں پر حجاب کرنے والی خواتین اور ان سے متعلقہ اقوام دنیا کو تشدد’ بنیاد پرستی’ جہالت اور پس ماندگی کا تاثر دیتی ہیں اور کیا جن ملکوں میں اسکارف اوڑھے جاتے ہیں وہ ملک’ وہ اقوام کبھی سیکولر نہیں ہو سکتیں۔ اس نقطے پر پہنچ کر جب دنیا بھر کے دانشور اور فلاسفر غور کرتے ہیں تو انھیں مسلمانوں کی کوتاہ فہمی اور احساس کمتری پر حیرت ہوتی ہے کیونکہ اسکارف اور حجاب سے سیکولرازم’ وسعت فکر اور روشن خیالی کو ذرا برابر خطرہ نہیں۔ اس وقت پورے یورپ میں چھوٹے بڑے ۷ لاکھ چرچ اور مذہبی اسکول ہیں۔ امریکہ کے اندر ایک لاکھ ۲۲ ہزار چرچ ہیں۔ ان ۸ لاکھ ۲۲ ہزار چرچوں میں ۲۶ لاکھ ننیں (سسٹرز اینڈ مدرز) ہیں اور یہ تمام ننیں سروں پر اسکارف لیتی اور برقعہ نما ڈھیلا ڈھلا گاؤن پہنتی ہیں اگر ان کے گاؤنوں اور اسکارفوں کے باوجود وہاں ترقی ہوئی’ یورپ اور امریکہ سیکولر کہلائے تو مسلم دنیا کیوں نہیں کہلا سکتی’ ترقی کیوں نہیں کرسکتی اور مزید یورپ’ امریکہ اور مشرق بعید میں کسی نن کے اسکارف پر آج تک اعتراض نہیں ہوا’ کسی نے ان کے سر ننگے کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ لوگ یہ مطالبہ’ یہ اعتراض کریں بھی کیوں؟ جب یورپ’ امریکہ اور مشرق بعید کی تمام ریاستوں میں شہری آزاد ہیں’ وہ چاہیں تو گلیوں میں برہنہ پھرنا شروع کر دیں اگر قانون ان کی اس ‘‘آزادی’’ کو پورا پورا تحفظ فراہم کرتا ہے تو پھر وہاں چرچ اور چرچ میں پروان چڑھتی ننوں کو بھی سر ڈھانپنے اور سترپوشی کا پورا پورا حق حاصل ہے اور کوئی شخص ان کے اس حق پر انگلی نہیں اٹھا سکتا لیکن اس حقیقت کے باوجود مسلم دنیا کا احساس کمتری بھی ملاحظہ کیجیے۔ دنیا بھر کے تمام متشدد اور بے لچک یہودی ناف تک داڑھی رکھتے ہیں، ہمہ وقت کالا کوٹ اور ٹوپی اوڑھے پھرتے ہیں لیکن دنیا کو نہ ان کی داڑھی نظر آتی ہے اور نہ ہی ان کے عیارانہ متشدد نظریات۔ صیہونیت کا تو مطلب ہی فلسطین پر زبردستی قبضہ’ ایک مضبوط یہودی ریاست کی تشکیل اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی ہے لیکن دنیا کے کسی کونے سے صیہونیت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ کہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں اسکارف اور داڑھی پر جتنا شرمندہ مسلمان ہے اتنی شرمندگی طوطے کو اپنے سبز رنگ اور مور کو اپنے بھدے پروں پر نہیں ہوتی۔ المیہ دیکھیے یہودی غزہ کی پٹی اور اُردن کے مغربی کنارے پر سیکڑوں مسلمانوں کو ٹینکوں تلے روندیں تو مسلم ممالک سمیت دنیا کا کوئی ملک انھیں دہشت گرد نہیں کہتا لیکن ۶۱ اسلامی ممالک اپنے مدرسوں’ اپنے مجاہدوں’ اپنے جبوں’ اپنی داڑھیوں اور اپنے حجابوں پر اپنے گھر میں شرمندہ بیٹھے ہیں’ وہ اپنے شہداء کو دہشت گرد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں’ وہ اسکارف لینے والی خواتین کی شہریت منسوخ کر دیتے ہیں’ انھیں صدارتی تقریب سے خارج کر دیتے ہیں۔

یہ عجیب بات نہیں ایک اسکارف برطانیہ’ فرانس’ جرمنی’ اٹلی’ یونان اور آسٹریا کی خاتون لیتی ہے تو پورا یورپ اسے جھک کر سسٹر یا مدر کہتا ہے لیکن وہی اسکارف ترکی’انڈونیشیا’ ملایشیا’ سعودی عرب اور پاکستان کی عورت سر پر رکھ لیتی ہے تو اسے نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اسے جاہل’ گنوار’ غیر ترقی یافتہ اور فنڈامنٹلسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ یقینا عجیب بات ہے لیکن اس سے بھی بڑی عجیب بات مسلم ممالک کا رویہ ہے۔ ۶۱مسلم مالک خود داڑھی اور پردے کو خلافِ مصلحت قرار دے رہے ہیں’ یہ خود اسلامی احکامات کو دہشت گردی اور شدت پسندی کہہ رہے ہیں۔ افسوس آج اسلام جتنا بے بس اسلامی ممالک میں ہے اتنا بے بس’ اتنا مجبور سیکولرممالک میں نہیں’ بے دین اور غیرممالک میں نہیں۔

(بشکریہ ماہنامہ بیداری ’ جنوری ۲۰۰۷ء)

٭٭٭

اسی بارے میں چند اور خبریں اور تبصرے ملاحظہ فرمائیں۔(ادارہ)

یہ تمام خبریں اور تبصرے ہم بی بی سی ڈاٹ کام کے شکریے کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔

ترکی میں حجاب پر پابندی کی تائید

 انسانی حقوق کے لیے یورپی عدالت نے ترکی کی یونیورسٹیوں میں اسلامی طریقے سے سر ڈھانپنے پر لگائی جانے والی پابندی کی تائید کی ہے۔

عدالت نے ایک خاتون کی جانب سے اسلامی طریق حجاب پر اس پابندی کے خلاف کی جانے والی یہ اپیل مسترد کر دی کہ اس پابندی سے اس کا تعلیم حاصل کرنے کا حق متاثر ہوتا ہے اور وہ امتیاز کا نشانہ بنتی ہے۔ لیلیٰ ساہن نے یہ اپیل 1998 میں سکارف لینے کی بنا پر کلاس سے نکالے جانے کے بعد کی تھی۔ وہ استنبول یونیورسٹی کی طالبہ تھیں۔ لیکن عدالت نے اس بارے میں اپنی رولنگ میں کہا ہے کہ سکارف لینے پر لگائی جانے والی پابندی بجا ہے کیونکہ یہ امن اور کسی ایک مذہب کو ترجیح دینے سے بچنے کے لیے نا گزیر ہے۔ترکی اگرچہ مسلم اکثریت کا ملک ہے لیکن سرکاری طور پر سیکولر ہے اور اس کی تمام یونیورسٹیوں اور سرکاری عمارتوں میں سکارف لینے پر پابندی ہے۔استنبول سے بی بی سی کی نامہ نگار سارہ رینسفورڈ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے دور رس اثرات ہونگے اور اس کا ترکی کی ان ایک ہزار سے زائد خواتین پر بھی اثر پڑے گا جنہوں نے اس طرح کی درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں۔

تیونس: حجاب پر پابندی نافذ

 تیونس میں حکام نے حجاب کے پہننے کے خلاف ایک مہم شروع کر دی ہے۔پولیس اب سنہ 1981 میں بنائے گئے اس قانون کو بہت گرم جوشی سے نافذ کررہی ہے جس کے تحت عوامی مقامات میں حجاب کے پہننے پر پابندی ہے۔تیونس میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حکام ملک کی خواتین کو ایک ایسے بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ انہیں آئین کے تحت حاصل ہے۔

سنہ 1981 کی پابندی کے تحت خواتین کو سکولوں یا سرکاری دفاتر میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں ہے لیکن حال میں پولیس نے سڑکوں پر محجبہ خواتین کو روک کر ان کے حجاب اتروا کر ان سے وعدے ناموں پر دستخط کرائے ہیں کہ وہ آئندہ یہ نہیں پہنیں گی۔ایک خاتون نے بتایا ہے کہ ان کو اپنے بیٹے کے سکول میں داخل ہونے سے روکا گیا۔

 تیونس کے صدر زین العابدین بن علی نے حجاب کو ایک ‘مخصوص فرقے’ کا لباس قرار دیا ہے جو بقول ان کے ‘تیونس میں باہر سے لایا گیا ہے۔’صدر بن علی ملک میں ایسے علامات اور خیالات کو رائج ہونے سے روکنا چاہتے ہیں جن سے ممنوعہ مذہبی جماعتوں کی حمایت ظاہر ہو۔انہوں نے نوّے کی دہائی میں اس وقت ملک کی مذہبی جماعتوں پر پابندی لگائی تھی جب پڑوس ملک الجزائر میں اسلامی جماعتوں اور حکومت کے خلاف لڑائی جاری تھی۔نسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے لوگ نا خوش ہیں لیکن تیونس کے سیاسی ماحول میں وہ اس کا اظہار کرنے سے سے گھبراتے ہیں۔

٭٭٭

انسانی حقوق کا علمبردار، فرانس اور حجاب

حجاب پہننے پر نام خارج

فرانس میں تین مزید مسلمان طالبات کے نام حجاب پہننے پر پاپندی کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر سکولوں سے خارج کر دیے گئے ہیں۔

دو طالبات کے نام منگل کو سکول سے خارج کر دیے گئے تھے۔ سکول سے نکالی جانے والی ایک طالبہ نے کہا کہ اس فیصلے نے ان کی زندگی کو تباہ کر دیا ہے۔ان طالبات کے نام وزارت تعلیم کے اس حکم کے بعد خارج کیے گئے ہیں جس میں سکولوں کی انتظامیہ کو اس قانون کی پاسداری نہ کرنے والے بہتر طالب عملوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی گئی تھی فرانس کے سیکولر (لادینی) تشخص کو برقرار رکھنے کی غرض سے اس قانون کے تحت تمام مذاہب کے واضح نشانات کو تعلیمی اداروں میں پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔بدھ کو مشرقی فرانس کے علاقے مل ہاؤس میں مینلی اور توبا نامی طالبات کے سکول سے خارج کر دیے گئے۔ نارمنڈی میں بھی ایک لڑکی کو سکول سے نکال دیا گیا۔

 ٭٭٭

فرانس کی صورت حال پر بی بی سی کی نامہ نگار کا تبصرہ

 بی بی سی کی نامہ نگار کیرولین وائٹ بتاتی ہیں کہ گزشتہ جون کی ایک خوشگوار شام میں جب وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ مختلف موضوعات پر باتیں کرتی ہوئی آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہی تھی تو اس کی دوست کے منہ سے اچانک نکلا ‘یہ کیا بکواس ہے۔’ ‘میں چونک گئی اور میں نے ایک بار پھر آتے جاتے لوگوں پر نظر ڈالی۔ میں اس علاقے میں قیام پذیر تھی جہاں باہر سے آئے ہوئے سیاحوں اور ہم جنسوں کی اکثریت شام ہوتے ہی سمٹ آتی ہے تا کہ اپنی شام اور پھر رات کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنا سکیں۔’‘میرے سامنے سے تنگ ٹی شرٹوں اور پتلونوں میں ملبوس دو نوجوان اپنے اعضاکی نمائش کرتے ہوئے گزر رہے تھے وہ دو چار قدم چل کر رکتے اور پْر جذبات انداز میں ہم بوسہ ہوتے اور پھر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے آگے چل پڑتے۔’‘کیا یہ دو نوجوان؟’ میں نے ان کی طرف اشارہ کیے بغیر اپنے ادھیڑ عمر ساتھی سے پوچھا، جو ایک اعتدال پسند خیالات رکھنے والا فرانسیسی تاجر ہے۔ میرے لہجے میں حیرت تھی کیونکہ اب فرانس میں اور خاص طور پر اس علاقے میں جہاں ہم بیٹھے تھے اس طرح کی باتوں پر توجہ نہیں دی جاتی تھی۔‘نہیں، نہیں، وہ نہیں، وہ ، ان کے پیچھے، وہ دو لڑکیاں۔’ اس نے بھی ان کی طرف اشارہ کیے بغیر کہا۔میں نے پھر ان کی طرف دیکھا لیکن میں کوئی غیر معمولی بات محسوس نہ کر سکی، سوائے اس کے کہ دو لڑکیاں ہیں جو ایک دوسرے سے گفتگو میں منہمک گزر رہی ہیں۔‘وہ دو لڑکیاں، جنہوں نے سر ڈھانپے ہوئے ہیں؟’ میرے سوال سے بے یقینی صاف عیاں تھی۔‘ہاں، وہ حجاب والیاں۔’ انتونیو نے اس طرح کہا جیسے اس کے منہ میں اچانک کوئی بدمزہ چیز آ گئی ہو‘ فرانس میں اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔’میرے لیے انتونیو کی یہ بات حیران کن تھی۔اس کے بعد انتونیو نے آدھے گھنٹے تک مسلسل مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اور اس کے دوست فرانس میں سر اوڑھنے کے بڑھتے ہوئے رحجان یا حجاب لینے والیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خوفزدہ ہیں۔ انتونیو کا موقف تھا ‘عورتوں کے لیے توہین آمیز ہے ہر چند کہ کچھ عورتیں انہیں اپنی مرضی سے بھی پہنتی ہیں۔ میں سن رہی تھی اور انتونیو کی خود کلامی جاری تھی‘اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ فرانسیسی اقدار اور ثقافت کو مسترد کر رہے ہیں اور اپنی شناخت کے لیے مذہبی اقدار کواپنا رہے ہیں۔

کم و بیش ایسے ہی دلائل فرانسیسی صدر ڑاک شیراک نے بھی فرانسیسی ایوان صدر میں مذہبی شناختوں کو اجاگر کرنے والے لباسوں اور نشانیوں پر پابندی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے استعمال کیے تھے۔انہوں نے برابری، آزادی، تنوع،اور فرانس کے غیر مذہبی ریاست ہونے کی بات کی اور ایسے تمام پہناووں پر اسکولوں میں پابندی کی بات کی جن سے طالب علموں اور طالبات کے مذاہب کی سناخت ہوتی ہو۔لیکن ان تمام الفاظ کے باوجود سبھی کو علم تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس پابندی سے ان کا مطلب ہرگز گلے میں زنجیر سے لٹکی ہوئی چھوٹی سی صلیب یا سر کے چھوٹے سے حصے کو ڈھانپنے والی ننھی سی وہ ٹوپی نہیں جو یہودی استعمال کرتے ہیں بلکہ حجاب تھا۔میرا دماغ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا کیونکہ میں نے اس سلسلے میں جتنی بھی مسلمان لڑکیوں سے بات کی وہ اس بارے میں انتہائی مختلف خیالات رکھتی تھیں۔میری ایک ایرانی دوست کا کہنا تھا کہ ‘ایران میں مردوں کو یہ جنون ہے کہ وہ عورتوں کو یہ بتائیں کہ وہ کیا کیا پہنیں اور فرانس میں ان کا جنون یہ ہے کہ عورتیں کیا نہ پہنیں۔’

اس کے بعد میری سترہ سالہ تشیر بن نصر سے ملاقات ہوئی۔اس کا کہنا تھا ‘آزادی کی اس سر زمین پر کیسے فرانس میرا یہ حق چھین سکتا ہے کہ میں جو عقائد رکھتی ہوں ان کا اظہار نہ کروں؟ اس کا فیصلہ تو میں کروں گی کہ اپنے بال ڈھانپوں یا نہ ڈھانپوں؟’ اس بحث نے مجھے الجھا کر رکھ دیا ہے۔ میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی اور سوچتی ہوں کہ یہ فیصلہ فرانس ہی کو کرنا ہے کہ بطور ایک قوم اس کے مستقبل کے لیے کیا بہتر ہے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ‘فرانس چاہے اسے پسند کرے یا نہ کرے، وہ ابھی کثیرالثقافتی ملک بنا ہو یا نہ بنا ہو اب وہ ایک کثیر المذاہب ملک بن چکا ہے اور حجاب کی بحث کچھ اور بتاتی ہو یا نہ بتاتی ہو یہ ضرور منکشف کرتی ہے کہ بطور ایک ملک فرانس تارکین وطن کی ایک بڑی برادری کو اپنی ثقافتی اور تہزیبی روایت میں جذب اور ہم آہنگ کرنے میں ناکام رہا ہے۔اور پھر اس بات کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے کہ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے بعد اچانک آنکھیں وہ سب کیوں دیکھنے لگیں ہیں جو انہیں پہلے دکھائی نہیں دیتا تھا۔

٭٭٭

اسکارف سے فٹ بال کو خطرہ

گیارہ سالہ مسلمان لڑکی کو سکارف پہن کر فٹبال کھیلنے سے روکنے پر کینیڈین صوبے کیوبک میں ایک بار پھر اقلیتوں کے حقوق کی بحث چھڑ گئی۔

سکارف پہن کر فٹبال کھیلنے کے اس تنازعہ پر سنیچر کو برطانیہ کے شہرمانچسٹر میں فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے اجلاس میں بحث ہوگی۔ آٹوا کی فٹبال ٹیم نیپئین سنیچر ب کی طرف سے کھیلنے والی اسماہان منصور کو کینیڈا کے فرانسیسسی اکثریت والے صوبے کیوبک کے شہر لاوال میں ہونے والے ایک فٹبال ٹورنامنٹ میں میچ ریفری نے سکارف پہن کر کھیلنے سے روک دیا۔ ریفری کے اس فیصلے کے بعد اسماہان کی پوری ٹیم نے بھی کھیلنے سے انکار کردیا۔اسماہان نے بتایا کہ جب وہ کھیلنے کیلیے میدان میں گئیں تو ریفری تیزی سے ان کی طرف آئیں اور ان سے کہا کہ وہ فوراً میدان سے باہر چلی جائیں۔ اسماہان کہتی ہیں کہ انہوں نے سوچا کہ انہوں نے ایسا کیا کیا ہے کہ ریفری انہیں میدان سے جانے کے لیے کہہ رہی ہیں۔

ریفری لئیس عارفہ نے ان سے کہا کہ ‘تم نہیں کھیل سکتیں’۔ ریفری اور اسماہان کی اس گفتگو کے دوران ٹیم کے کوچ بھی وہاں آ گئے اور ان کی ریفری سے تلخ کلامی شروع ہو گئی۔ اس کے بعداسماہان کی پوری ٹیم ان کے ساتھ گراؤنڈ سے باہر آگئی۔ یاد رہے کہ ریفری خود بھی مسلمان ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ نہیں ہے اور انہیں قوانین کے تحت اپنے فرائض انجام دینے ہیں۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کینیڈا میں اس قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی فیفا کے قوانین کی رو سے خواتین کھلاڑیوں کے سکارف پہننے پر کوئی پابندی ہے۔ تاہم صوبے کیوبک کی فٹبال فیڈریشن نے ریفری کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔

کیوبک فٹبال فیڈریشن کی ترجمان مشعیل ڈوگاس کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی وضاحت کے لیے فٹبال کی دوسری صوبائی تنظیموں کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے اور اگر وہ اس بات پر متفق ہوں گے کہ فٹبال کھیلنے کے دوران حجاب یا سکارف پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے تو وہ کیوبک میں بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی اور اس فیصلے کے لیے طویل انتظار بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

 اس واقعہ کے بعد کینیڈا بھر میں کیوبک حکومت اور فٹبال فیڈریشن کو مسلمان حلقوں میں زبردست تنقید کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ صوبہ کیوبک میں اقلیتوں کا شروع دن سے یہ شکوہ ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اور اس واقعہ کے بعد یہ بحث دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ ریفری لئیس عارفہ کا کہنا ہے کہ دوران کھیل سر پر کسی قسم کی ایسی چیز پہننا ممنوع ہے جوکھیل کے دوران کھلاڑی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہو اور یہ فٹبال قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لڑکی کی والدہ ماریہ منصور نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس واقعہ کا سخت صدمہ ہے اور اس سے لڑکی کو شدید ذہنی کوفت پہنچی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ واقعہ نسلی تعصب کی بنا پر پیش آیا ہے۔ مسلم کونسل آف مانٹریال کے ترجمان سلمان المناوی کا کہنا ہے کہ صوبہ انٹاریو میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور وہاں پر کھلاڑیوں کو ان کے مذہبی ملبوسات پہننے کی مکمل اجازت ہے اور کیوبک صوبے کو بھی کھلاڑیوں کے مذاہب کا احترام کرنا چاھیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اقلیتوں کو مکمل آزادی ہونی چاہیے نہ کہ ان کی شناخت اور حقوق پر پابندیاں عائد کی جائیں۔

آسٹریلیا اور حجاب

 آسٹریلیا میں خواتین کا ایک فٹبال میچ اس وقت روکنا پڑا جب ایک مسلمان خاتون کھلاڑی کو تنبیہ کی گئی کہ میچ میں کھیلنے کے لیے اسے اپنا سر کا سکارف یا حجاب اتارنا ہوگا۔عفیفہ سعد خواتین کے ساکر کلب جنوبی میلبورن کے لیے چوتھے سیزن میں کھیل رہی ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک سفید سکارف سے سر ڈھانپ کر اور لمبا ٹراؤزر پہن کر میچ میں شریک ہوتی ہیں۔لیکن اتوار کے میچ میں پہلی مرتبہ کسی ریفری نے انہیں سکارف اتارنے کا کہا۔ انہوں نے ریفری کے اس مطالبے کو رد کردیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی اپنی ٹیم اور مخالف ٹیم دونوں ہی نے ان کی حمایت کی۔ٹیم کی کوچ ایلیکس ایلیکسوپولس نے کہا ‘جب یہ واقعہ ہوا تو وہ رو رہی تھیں۔ ان کی ساتھی کھلاڑی ان کے گرد جمع ہوگئیں جوکہ ایک زبردست بات تھی’۔ وکٹوریہ ساکر فیڈریشن سے صلح مشورے کے بعد بالآخر کوچ نے انہیں سکارف کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دے دی تاہم کھیل میں آنے والی تاخیر کے باعث اسے مؤخر کرنا پڑا۔آسٹریلیا میں مساوی حقوق کے کمیشن کی سربراہ ڈائیان سسلی کا کہنا ہے عفیفہ ریفری کے خلاف مذہبی بنیادوں پر امتیاز کی شکایت درج کروا سکتی ہیں۔انہوں نے کہا ‘میں ریفری سے پوچھنا چاہوں گی کہ حجاب کس طرح کسی کے ساکر کھیلنے کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے’۔تاہم وکٹوریہ ساکر فیڈریشن کے حکام کا کہنا ہے کہ ریفری نے مذہبی بنیادوں پر امتیاز نہیں کیا ہے لیکن عفیفہ سے بہرحال انہیں معافی مانگنی چاہئے۔اب عفیفہ سعد اتوار کو اگلے میچ میں حجاب کے ساتھ کھیلیں گی۔

٭٭٭

جرمن ریاست’ حجاب پر پابندی

 شمالی جرمنی کی ریاست بدین ویور ٹمبرگ میں خواتین اساتذہ کے سر ڈھکنے یا حجاب پہننے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی عائد کرنے والی یہ پہلی جرمن ریاست ہے۔ ریاستی اسمبلی میں یہ تحریک اکثریت سے تو منظور کی گئی مگر مسلمان گروپوں کے مطابق ان کے اسلامی تشخص اور آزادی کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ قانون گزشتہ برس جرمنی کی سب سے بڑی عدالت کے اس فیصلے کے تحت منظور کیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا ریاست کو اس صورت میں حجاب پر پابندی عائد کرنے کا اختیار ہو گا اگر حجاب کے ذریعے لوگوں پر غلط تاثر ڈالنے کی کوشش کی جائے۔جرمنی کی سولہ میں سے مزید پانچ ریاستیں اس پابندی کو جلد لاگو کرنے والی ہیں۔اس ریاست میں یہ مسئلہ 1998 میں فرشتے لودن نام کی خاتون استاد کے حجاب پہننے کی وجہ سے ملازمت سے انکار کے بعد شروع ہوا تھا۔جرمنی کے نئے قوانین کے تحت ریاستیں اپنے طور پر علیحدہ علیحدہ قوانین بھی منظور کر سکتی ہیں۔

٭٭٭

تاہم یہ مسئلہ صرف جرمنی تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی یورپی ممالک بشمول فرانس، روس، ترکی وغیرہ بھی اس معاملے پر تنازعات کھڑے کر رہے ہیں۔

فرانس حکومت، سکولوں میں مسلمان طالبات کے سر ڈھکنے سے ناخوش تھی۔ اور اسی ناخوشی کا اظہار پیرس میں ایک سکول سے دو مسلمان طالبات کو معطل کرکے کیا گیا۔ سنگاپور میں ایک سکول کی چار مسلمان طالبات کو اس لئے معطل کردیا گیا تھا کہ وہ سکارف پہنتی تھیں۔ یہاں نہ صرف مسلمان طالبات کے سکارف پہننے پر پابندی عائد کی گئی بلکہ وہ خاتون وکیل جو اس مقدمہ میں طالبات کا دفاع کررہی تھیں، ان پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ روس میں خواتین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ پاسپورٹ کی تصاویر کے لئے اپنے سکارف اتار دیں۔ ترکی کا قانون بھی اجازت نہیں دیتا کہ خواتین سرکاری عمارتوں یا تقاریب میں سر پر سکارف پہنیں۔ کئی مغربی ممالک میں کسی وجہ کے بغیر مسلمان خواتین کو حجاب ترک کرنے پر یہ کہہ کر مجبور کیا جارہا ہے کہ اس طرح وہ مسلمانوں اور دیگر افرادکے درمیان امتیاز ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کسی کو اس کی مرضی کے خلاف ایک روایت یا اس کی مذہبی ضرورت ترک کرنے پر مجبور کرنا در اصل خود امتیازی سلوک کے زمرے میں آتا ہے۔

سکارف پہننا کسی کی مذہبی ضروریات سے زیادہ ایک سیاسی معاملہ سمجھا جانے لگا ہے۔ حجاب کو مغربی ممالک اسلام میں عورت پر پابندیوں اور ظلم و ستم کی علامت قرار دیتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ کوئی عورت بذاتِ خود اپنی مرضی سے ظلم و ستم کی علامت بننا پسند نہیں کرے گی۔ وہ بھی ایک مغربی ملک میں جہاں اسے ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔دنیا میں ہزاروں خواتین سکارف پہنتی ہیں۔ بلاشبہ کئی کو ایسا کرنے پر مجبور بھی کیا جاتا ہوگا تاہم بے شمار خواتین اپنی مرضی اور خوشی سے سر ڈھانپتی ہیں۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں لاکھوں خواتین انسانی حقوق کے مسائل سے دوچار ہیں جن میں سے بیشتر مسلمان ہیں لیکن حجاب کو ان مسائل کی علامت سمجھنا درست نہیں ہے۔ یہ تو مرضی کا معاملہ ہونا چاہئے، خاص طور پر‘ آزاد’ مغربی ممالک میں۔ بظاہر یہ تنازعہ فریقین کے درمیان ایک چھوٹا سا اختلاف معلوم ہوتا ہے تاہم اس کے پیچھے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان نظریاتی اختلاف کی عکاسی ہوتی ہے۔دونوں کے درمیان ایک دوسرے کو سمجھنے اور برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔خاص کر گیارہ ستمبر کے بعد مسلمانوں اور دیگر دنیا کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں اور سر ڈھکنے یا نہ ڈھکنے کی بحث بھی شاید اسی کا حصہ ہے۔