جسے دنیا میں جنتی شخص دیکھنے کا شوق ہو وہ عروہ بن زبیرؒ کو دیکھ لے
(عبدالملک بن مروان)
آفتاب اپنی سنہری روپہلی کرنوں کو بیت اللہ سے سمیٹتے ہوئے اپنے رخ زیبا کو پردہ غروب میں چھپا کر شبنم سے لبریز ہوا کے خنک جھونکوں کو خانۂ خدا کے پاکیزہ صحن میں رقصاں و خراماں رہنے کا اذن عام دے چکا تھا۔
اس سہانی و دلفریب فضا میں صحابہ کرامؓ اور تابعین ذی وقار اللہ اکبر اور لا الٰہ الا اللہ کے دلاویز و پُرکیف نغموں سے اور بارگاہ ایزدی میں دلگداز آہنوں’ سسکیوں اور پُرسوز دعاؤں سے بیت اللہ کی فضا کو معطر کر رہے تھے۔
لوگ ہیبت و جلال کے مظہرواستقلال کے پیکر بیت اللہ کے اردگرد گروہ در گروہ حلقے بناکر بیٹھ گئے اور اپنی آنکھوں کو خانۂ خدا کی زیارت سے خیرہ کرنے لگے اور ساتھ ہی محبت بھرے انداز میں ایک دوسرے سے محو گفتگو بھی تھے۔ رکن یمانی کے قریب خوبرو’ خوش شکل اُجلے سفید اور صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے چار کڑیل جوان بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ یوں دکھائی دیتا تھا کہ ان کا تعلق کسی معزز گھرانے اور عالی مرتبت خاندان سے ہے’ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ وہ عبداللہ بن زبیرؓ، مصعب بن زبیرؒ، عروہ بن زبیرؒ اور عبدالملک بن مروان ہیں۔
٭٭٭
ان چار نیک فطرت نوجوانوں کے درمیان دھیمے گداز اور نرم لہجے میں تبادلہ خیال ہونے لگا۔ ان میں سے ایک نے کہا: آج ہم میں سے ہر ایک اللہ رب العزت کی بارگاہ سے اپنی دلپسند چیز کا مطالبہ کرے۔ یہ بات سن کر وہ خیالات کی غیبی دنیا میں اور تمناؤں کے سرسبز و شاداب خیالی باغات میں طواف کرنے لگے اور پھر تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک نوجوان عبداللہ بن زبیرؒ اپنے سر کو جھٹک کر چوکس ہوا اور کہنے لگا: میری دلی خواہش ہے کہ میں حجاز کا حکمران بنوں اور خلافت کا تاج میرے سر پر ہو۔
ان کے بھائی مصعب بن زبیرؒ نے کہا: میری دلی تمنا ہے کہ میں کوفہ اور بصرہ کا حکمران بنوں اور کوئی بھی میرا مخالف نہ ہو۔
تیسرے نوجوان عبدالملک بن مروان نے کہا: اگر تم دونوں اتنے ہی پر اکتفا کربیٹھے ہو تو تمھیں مبارک’ سنو میری دلی خواہش ہے کہ میں پوری دنیا کا حکمران بنوں اور حضرت امیرمعاویہ کے بعد خلافت مجھے ملے لیکن حضرت عروہ بن زبیرؒ خاموش بیٹھے رہے ۔ اس نے کچھ نہ کہا: تینوں نوجوان اس کی طرف لپکے’ کہنے لگے’ خاموش کیوں بیٹھے ہو۔ آپ کچھ بولتے نہیں۔ کیا ارادے ہیں۔ کچھ تو دل کی بات ظاہر کرو؟
اس نے کہا: جو کچھ تم نے مانگا وہ تمھیں مبارک ہو۔ میری دلی تمنا یہ ہے کہ میں عالم باعمل بنوں۔ لوگ مجھ سے قرآن و حدیث کا علم سیکھیں اور مجھ سے دینی احکامات معلوم کریں اور پھر آخرت اللہ کی رضا اور جنت کو میرا مقدر بنا دیا جائے۔
٭٭٭
دن گزرتے گئے’ گردش زمانہ سے وہ وقت بھی آگیا کہ یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد حجاز’ مصر’ یمن’ خراسان اور عراق پر حکومت کرنے کے لیے خلافت کا تاج حضرت عبداللہ بن زبیرؒ کے سر پر رکھا گیا۔ پھر چشم فلک نے وہ دلخراش منظر بھی دیکھا کہ انھیں بیت اللہ کے قریب اس جگہ سے چند قدم کے فاصلے پر قتل کردیا گیا جہاں انھوں نے خلیفہ بننے کی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ حضرت مصعب بن زبیر کو ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن زبیرؒ نے عراق کا گورنر مقرر کر دیا تھا۔ اور پھر انھیں بھی خلافت کے دفاع کی آڑ میں قتل کردیا گیا۔پھر عبدالملک بن مروان اپنے باپ کی وفات کے بعد خلیفہ بنے۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؒ اور ان کے بھائی مصعب بن زبیرؒ کے قتل کے بعد تمام مسلمانوں نے عبدالملک کی خلافت کو بخوشی تسلیم کرلیا۔ پھر وہ اپنے دور میں دنیا بھر کے حکمرانوں سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئے اور ان کی حکومت بھی سب سے زیادہ وسیع و عریض علاقے پر تھی۔ اس طرح تینوں جوانوں کی تمنائیں پوری ہوئیں لیکن حضرت عروہ بن زبیرؒ کی تمنا کا کیا بنا۔ آیئے اب ہم ان کی نصیحت آموز داستان کا آغاز کرتے ہیں۔
٭٭٭
حضرت عروہ بن زبیرؒ حضرت فاروق اعظمؓ کی وفات سے ایک سال پہلے ایک عالی شان اور معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم حضرت زبیر بن عوامؓ حواری رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور انھیں اسلام کی سربلندی کے لیے سب سے پہلے تلوار اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوا اور یہ ان دس صحابہ کرامؓ میں سے تھے جنھیں زندگی میں جنت کی بشارت دی گئی۔ ان کی والدہ ماجدہ حضرت صدیق اکبرؓ کی بیٹی حضرت اسماء تھیں جو ذات النطاقین کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ ان کے نانا حضرت صدیق اکبرؓ تھے جنھیں خلیفہ رسول علیہ السلام اور رفیق غار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
ان کی دادی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب تھیں جو رسول اقدس ؐ کی پھوپھی تھیں اور ان کی خالہ حضرت عائشہؓ کی وفات ہوئی۔ انھیں دفن کرنے کا وقت آیا تو پہلے یہ قبر میں اُترے’ لحد کو اپنے ہاتھوں سے درست کیا۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی حسب و نسب ہے جو حضرت عروہ کو میسر آیا۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی عزو شرف ہے جو انھیں حاصل ہوا۔
غرضیکہ عروہ بن زبیرؒ نے بیت اللہ کے پاس بیٹھ کر جس دلی تمنا کا اظہار کیا تھا وہ انھیں میسر آئی۔ یہ علم حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ جلیل القدر صحابہ کرامؓ جو اس وقت زندہ تھے انھیں غنیمت سمجھتے ہوئے ان کے گھروں کے چکر لگانے لگے۔ ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے’ ان کی مجلسوں میں بیٹھتے’ ان سے کتاب و سنت کا علم حاصل کرتے’ انھوں نے حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت ابوایوب انصاریؓ، حضرت اسامہ بن زیدؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت نعمان بن بشیرؓ اور اپنی خالہ حضرت عائشہؓ سے قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا۔ اور ان کے حوالے سے متعدد احادیث کی روایت کا اعزاز حاصل کیا۔ یہاں تک کہ مدینہ منورہ کے ان سات فقہاء میں ان کا شمار ہونے لگا جن سے لوگ دینی مسائل دریافت کرنے کے لیے رجوع کیا کرتے تھے اور حکمران رعایا سے متعلق دینی اور دنیاوی امور نبٹانے کے لیے ان سے تعاون لیا کرتے تھے۔
جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو ولید بن عبدالملک نے مدینے کا گورنر بناکر بھیجا تو لوگوں نے انھیں خوش آمدید کہا اوران کا والہانہ استقبال کیا’ نماز ظہر ادا کرنے کے بعد فقہاء مدینہ کو مدعو کیا۔ ان میں سے سرفہرست حضرت عروہ بن زبیرؒ تھے۔ جب وہ تشریف لائے تو عمر بن عبدالعزیزؒ نے انھیں خوش آمدید کہا اور بڑی عزت و اکرام سے انھیں اپنے ساتھ بٹھایا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد ارشاد فرمایا: میں نے جس کام کے لیے تمھیں اپنے پاس بلایا’ یقینا اس پر تمھیں اجروثواب ملے گا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ تم حق و صدقت میں میرے مددگار بنو گے’ میں چاہتا ہوں کہ ہر کام آپ کے مشورے سے پایۂ تکمیل کو پہنچاؤں۔ اگر آپ دیکھیں کہ کوئی کسی پر زیادتی کررہا ہے یا آپ کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ کسی حکومت کے نمائندے نے کسی پر کوئی ظلم روا رکھا ہے تو برائے مہربانی مجھے ضرور بتائیں۔ اس سلسلے میں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ امید ہے آپ ضرور میرا ساتھ دیں گے۔
٭٭٭
حضرت عروہ بن زبیرؒ علم و عمل کے پیکر تھے۔ موسم گرما میں کثرت سے روزے رکھتے’ شب زندہ دار اور ذکرالٰہی سے رطب اللسان رہتے۔ علاوہ ازیں کتاب الٰہی قرآن مجید کے ساتھ ان کی دوستی مثالی تھی۔ اکثروبیشتر اس کی تلاوت میں منہمک رہتے۔ روزانہ قرآن مجید کے چوتھائی حصے کی تلاوت دیکھ کر کیا کرتے تھے۔ پھر رات کے وقت یہی حصہ نوافل میں زبانی پڑھتے۔ عنفوان شباب سے وفات تک ان کا یہی معمول رہا۔ صرف ایک مرتبہ ناغہ ہوا۔ وہ دلخراش و عبرت ناک واقعہ سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔
٭٭٭
حضرت عروہ بن زبیرؒ نماز کو اپنے دل کا سکون اور اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک خیال کیا کرتے تھے۔ نماز کی حالت میں یوں معلوم ہوتا کہ زمین پر انھیں جنت نصیب ہوگئی ہے لہٰذا نماز خوب دل لگاکر پڑھتے۔ اس کے تمام شعائر انتہائی اطمینان و تسلی سے ادا کرتے اور ہر رکعت ممکن حد تک طویل کرتے۔ انھوں نے ایک مرتبہ کسی شخص کو جلدی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسے اپنے پاس بلایا اور محبت بھرے انداز میں فرمایا۔ بیٹے کیا تجھے کوئی ایسی ضرورت لاحق نہیں جو رب تعالیٰ کے دربار میں پیش کرو؟
رب کائنات کی قسم! میں تو اللہ تعالیٰ سے ہرچیز مانگتا ہوں اور لجاجت سے مانگتا ہوں یہاں تک کہ نمک بھی۔
٭٭٭
حضرت عروہ بن زبیرؒ نہایت نرم مزاج’ خوش اخلاق او ر بہت بڑے سخی تھے’ ان کا مدینہ منورہ میں سب سے بڑا باغ تھا’ جس میں میٹھے پانی کے چشمے’ گھنے سایہ دار اور پھلدار درخت تھے۔ درختوں کی حفاظت کے لیے سال بھر اس باغ کے اردگرد دیوار بنائے رکھتے تاکہ مویشی اور بچے نقصان نہ پہنچائیں۔ جب پھل پک کر تیار ہوجاتا’ نگاہیں اس کی طرف اٹھتیں اور دل لپکتے تو یہ اپنے باغ کی دیوار مختلف مقامات سے گرا دیتے’ تاکہ آسانی سے لوگ باغ میں داخل ہوکر اور پکا ہوا لذیذ پھل کھا کر دل شاد کریں۔ لوگ آتے جاتے باغ میں داخل ہوتے اور جو پھل انھیں پسند آتا وہ کھاتے اور جاتے ہوئے جتنا چاہتے اپنے ہمراہ گھر لے جاتے۔ حضرت عروہ بن زبیرؒ جب بھی اپنے باغ میں داخل ہوتے تو قرآن مجید کی یہ آیت بار بار پڑھتے: ولولا اذ دخلت جنتک قلت ماشآء اللّٰہ لا قوۃ الا باللّٰہ۔
٭٭٭
ولید بن عبدالملک کے دور حکومت میں حضرت عروہ بن زبیرؒ کو ایک ایسی آزمائش سے گزرنا پڑا کہ جس میں کوئی ایسی عظیم ہستی ہی ثابت قدم رہ سکتی ہے جس کا دل ایمان و یقین سے لبریز ہو۔ خلیفۃ المسلمین ولید بن عبدالملک نے بڑی محبت اور اشتیاق سے انھیں دارالخلافہ دمشق میں ملاقات کے لیے دعوت دی۔ انھوں نے بصد شوق دعوت قبول کی۔ اپنے بڑے بیٹے کو ہمراہ لیا اور دمشق روانہ ہوگئے۔ جب وہاں پہنچے تو خلیفہ نے والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا اور انھیں شاہی مہمان کا اعزاز دیا گیا۔
پھر وہی ہوا جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔ بسااوقات ہوائیں مخالف سمت چلنے لگتی ہیں۔ ہوا یہ کہ حضرت عروہ بن زبیرؒ کا بیٹا سواری کے شوق میں شاہی اصطبل میں داخل ہوا۔ جونہی وہ ایک مونہہ زور گھوڑے کے قریب آیا تو اس نے زور سے لات ماری جو اس کے سینے میں لگی اور جان لیوا ثابت ہوئی۔ پھر غموں سے نڈھال باپ جب اپنے لاڈلے بیٹے کی قبر پر مٹی ڈال رہا تھا تو اس دوران ان کے پاؤں میں اچانک شدید درد ہونے لگا ۔ پاؤں میں ورم پیدا ہوا اور وہ بڑی تیزی سے پنڈلی کی طرف پھیلنے لگا۔ حالت تشویش ناک حد تک بگڑ گئی۔ خلیفۃ المسلمین ولید بن عبدالملک پریشان ہوگئے۔ فوری طور پر شاہی اطباء کو کہا کہ علاج پر پوری توجہ دی جائے اور اس میں ایک لمحے کی غفلت بھی نہ برتی جائے۔ معائنے کے بعد تمام اطباء نے متفقہ فیصلہ دیا کہ ٹانگ کاٹ دی جائے ورنہ مریض کی موت کا سبب بن جائے گا۔
جب ٹانگ کاٹنے کے لیے ایک ماہر جراح اپنے اوزار لے کر حاضر ہوا تو طبیب نے حضرت عروہؒ سے کہا ہم آپ کو تھوڑی سی شراب پلائیں گے تاکہ ٹانگ کٹنے کی زیادہ تکلیف محسوس نہ ہو۔ آپ نے یہ بات سن کر فرمایا: ایسا قطعاً نہیں ہوسکتا میں حرام کے ذریعے سے اپنی عافیت کی امید نہیں رکھتا۔
طبیب نے کہا: تو پھر کوئی نشہ آور چیز آپ کو پلا دیتے ہیں ورنہ تکلیف ناقابلِ برداشت ہوگی۔
آپ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ میرے جسم کا کوئی عضو اس حالت میں کاٹا جائے کہ مجھے درد کا کوئی احساس بھی نہ ہو۔آپ بغیر کوئی نشہ آور چیز دیئے اسے کاٹیں اس درد میں بھی ان شاء اللہ مجھے ثواب ملے گا۔
جب جراح ٹانگ کاٹنے کے لیے تیار ہوا تو بہت سے آدمی حضرت عروہؒ کے قریب آئے۔ آپ نے پوچھا: یہ جمگھٹا کیا ہے تو آپ کو بتایا گیا کہ ان افراد کو اس لیے بلایا گیا کہ جب آپ کی ٹانگ کٹنے لگے تو یہ مضبوطی سے آپ کو تھامے رکھیں گے’ ہو سکتا ہے آپ شدید درد سے سنبھل نہ سکیں اور علاج میں رکاوٹ پیدا ہوجائے جو آپ کے لیے نقصان دہ ہو۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ان تمام افراد کو پیچھے ہٹا دیں ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے لیے اس اندوہناک وقت میں صرف اللہ کی یاد اور اس کی حمدوثنا اور تسبیح و تقدیس کا نغمہ الاپنا ہی کافی ہوگا۔ بسم اللہ پڑھ کر آپ اپنا کام شروع کریں۔ میری فکر نہ کریں۔ میرا اللہ حامی و ناصر ہوگا۔ جراح نے پہلی قینچی کے ساتھ ٹانگ کا گوشت کاٹا اور پھر ہڈی پر آری چلائی ادھر حضرت عروہؒ نے بلندآواز سے لا الہ الا اللہ ’ اللہ اکبر مسلسل پڑھنا شروع کردیا۔ جراح اپنے کام میں مشغول رہا اور حضرت عروہؒ ذکرالٰہی میں محو رہے۔ ٹانگ کٹ گئی اور جب خون بند کرنے کے لیے کھولتے ہوئے تیل میں ٹانگ کو ڈبویا گیا تو آپ بے ہوش ہوگئے۔ ان کی پوری زندگی میں یہی وہ موقع ہے جس میں قرآن مجید کی منزل پڑھنے میں ناغہ ہوا۔
جب حضرت عروہ بن زبیر علیہ الرحمہ صحت یاب ہوگئے اسے پکڑ کر غور سے دیکھنے لگے اور اسے اپنے ہاتھ سے اُلٹانے پلٹانے لگے۔ پھر درد بھرے لہجے میں فرمایا: اے ٹانگ گواہ رہنا’ مجھے اللہ کی قسم جس نے تجھے پیدا کیا اور تیرے ذریعے چل کر میں مساجد میں جاتا رہا وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے میں کبھی تجھے کسی حرام کام کی طرف چلا کر نہیں لے گیا۔ پھر بنوخزیمہ کے ایک معروف شاعر معن بن اوس کے برجستہ یہ اشعار پڑھے:
لعمرک ما اھویت کفی لریبہ
ولا حملتنی نحو فاحسہ رجلی
ولا قادنی سمعی ولا بصری لما
ولا دلنی رائی علیھا ولا عقلی
واعلم انی لم تصبی مصیبہ
من الدھر الا قد اصابت فتی قبلی
خلیفۃ المسلمین ولید بن عبدالملک کو اپنے معزز مہمان کی مصیبت کو دیکھ کر بہت دلی رنج ہوا کہ چند دنوں میں یہ اپنے لاڈلے نوجوان بیٹے اور اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے۔ ایک دن یہ مہمان خانہ میں انھیں دیکھنے کے لیے جانے لگے تو اچانک بنو عبس قبیلے کا ایک وفد ملاقات کے لیے پہنچ گیا۔ آپ نے اسے اندر بلا لیا ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وفد میں ایک نابینا شخص بھی شامل ہے۔ خلیفہ نے اس سے پوچھا کہ آپ کی نظر کو کیا ہوا۔ اس نے بتایا: امیرالمومنین قبیلہ بنوعبس میں سب سے زیادہ مال و منال اور اہل و عیال میرے پاس تھا۔ میں اپنا سب کچھ ہمراہ لے کر اپنے قبیلے کے علاقے میں گیا اور ایک نشیبی جگہ پڑاؤ کیا۔ رات کے وقت اچانک ہولناک سیلاب آیا اور وہ سب کچھ بہا لے کر گیا۔ صرف ایک نومولود بچہ اور ایک اُونٹ میرے ہاتھ لگے۔ اُونٹ مونہہ زور تھا۔ وہ رسّی چھڑا کر بھاگ نکلا۔ میں بچے کو زمین پر لٹا کر اُونٹ پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا۔ تو مجھے بچے کے چیخنے کی آواز آئی۔ مڑ کر دیکھا تو یہ دہشت ناک منظر دکھائی دیاکہ ایک خونخوار بھیڑیا بچے کے سر کو اپنے خونی مونہہ میں دبائے کھڑا ہے اور بچہ زور سے چِلّا رہا ہے۔ میں اسے چھڑانے کے لیے سرپٹ اس کی طرف دوڑا لیکن میرے وہاں پہنچنے سے پہلے وہ میرے لخت جگر کا سر چبا چکا تھا۔ جب میں اسے وہیں چھوڑ کر اونٹ پکڑنے کے لیے بھاگا’ ابھی اُونٹ کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اس نے زور سے مجھے لات ماری جو میری پیشانی پر لگی اور اس کی ہڈی ٹوٹ گئی اور نظر جاتی رہی۔ تو اس طرح میں ایک ہی رات میں اہل و عیال’ مال و منال اور بصارت جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوگیا۔
خلیفۃ المسلمین ولید بن عبدالملک نے یہ دردبھری داستان سن کر آہ بھری اور اپنے دربان سے کہا: اسے ہمارے معزز مہمان عروہ بن زبیرؒ کے پاس لے جاؤ تاکہ وہ ان کی داستان غم سن کر اندازہ لگائیں کہ ان سے بھی بڑھ کر دنیا میں دکھی اور مصیبت زدہ انسان ہیں۔
٭٭٭
جب حضرت عروہ بن زبیرؒ کو شاہی سواری پر پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ مدینہ منورہ لے جایا گیا۔ آپ نے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے اہل خانہ کو مخاطب ہوکر کہا: جو تم دیکھ رہے ہو اس سے گھبرانا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے چار بیٹے عطا کیے ۔ ایک اس نے لے لیے تین ابھی باقی ہیں۔ اس کا شکر ہے۔ اللہ نے مجھے چار اعضاء عطا کیے’ ایک اس نے لے لیا۔ تین ابھی باقی ہیں ۔ اس کا شکر ہے۔ واللہ! اس نے تھوڑا لیا ہے اور زیادہ میرے پاس باقی رہنے دیا ہے۔ اس نے زندگی میں صرف ایک ہی مرتبہ آزمائش میں ڈالاہے اور بے شمار آفات سے مجھے بچایا ہے۔
٭٭٭
جب اہلِ مدینہ کو اپنے ہر دلعزیز امام اور جید عالمِ دین’ فقیدالمثال محدث’ اور قابلِ رشک فقیہ کی آمد کا پتہ چلا تو جوق در جوق ان کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے۔
سب نے بیٹے کی تعزیت کی اور انھیں ٹانگ کی محرومی پر دلاسا دیا۔ حاضرین میں سے سب سے بہترین تعزیتی کلمات ابراہیم بن محمد بن طلحہ کے تھے’ اس نے ملاقات کے وقت درد بھرے انداز میں کہا:
جناب من! آپ کے جسم کا ایک حصہ اور آپ کی اولاد میں سے ایک بیٹا آپ سے پہلے جنت میں پہنچ چکے ہیں اور باقی ماندہ بھی ان شاء اللہ جنت میں جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب سے ہمارے لیے وہ چیز باقی رہنے دی جس کے ہم محتاج تھے’ اور اس سے ہم کبھی بھی مستغنی نہیں ہوسکتے تھے اور وہ ہے آپ کا علم’ فقہہ اور جچی تلی ہوئی رائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہمیں ان قیمتی اوصاف سے فائدہ پہنچائے۔ اللہ آپ کو اجروثواب دینے پر قادر ہے اور آپ کے حسن حسب کا ضامن ہے۔
٭٭٭
حضرت عروہ بن زبیرؒ زندگی بھر مسلمانوں کے لیے مینارۂ ہدایت’ فلاح و بہبود کے سنگ میل اور خیروبھلائی کے داعی رہے۔ انھوں نے اپنی اولاد کی تربیت کا خصوصی طور پر اور ابنائے اسلام کی تربیت کا عمومی طور پر اہتمام کیا۔ اور انھیں پندونصائح کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیاکرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کو علم حاصل کرنے کی بار بار ترغیب دلائی۔ آپ اکثر یہ کہا کرتے تھے:
‘‘میرے پیارے بیٹو! علم حاصل کرو اور اس کا حق ادا کرو اگر تم اپنی قوم میں کمزور بھی ہوئے تو اللہ تعالیٰ علم کی برکت سے تمھیں ممتاز بنا دے گا۔ پھرآہ بھر کر کہنے لگے:
ہائے افسوس!کیا دنیا میں جاہل سے بڑھ کر کوئی بدبخت ہوگا۔ ہرگز نہیں! وہ اپنی اولاد کو اس بات کی تلقین کیا کرتے تھے’ کہ اللہ کی راہ میں صدقہ اس طرح دیا کرو جس طرح ہدیہ یا تحفہ کسی عزیز کو پیش کیا جاتا ہے۔ میرے پیارے بیٹو! کبھی بھی راہِ خدا میں کوئی ایسی چیز بطور صدقہ نہ دینا جو تم اپنی قوم کے کسی عزیز کو دیتے ہوئے شرماؤ۔
اللہ تو بڑی عزت’ شان و شوکت اور جاہ و جلال والا ہے’ اس کی عظمتوں کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو چیز بھی اس کے نام پر دی جائے’ وہ بھی قابلِ قدر دلربا’ پسندیدہ اور ہرلحاظ سے عمدہ اور دیدہ زیب ہو۔
وہ اپنے بیٹوں کی رہنمائی معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی مثالیں دے دے کر کیا کرتے تھے اور ان میں قابل جوہر کے اوصاف اپنانے کی تلقین کیا کرتے تھے۔وہ اکثر یہ فرمایا کرتے:
میرے پیارے بیٹو! جب کسی شخص کو اچھا کام کرتے دیکھو تو تم اس سے خیروبھلائی کی ہی امید رکھا کرو۔ اگرچہ وہ شخص لوگوں کی نظروں میں برا ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اس سے مزید اچھے کاموں کی توقع رکھی جاسکتی ہے اور جس شخص کو برا کام کرتے دیکھو اس سے اجتناب کرو اگرچہ وہ لوگوں کی نظر میں اچھا آدمی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اس سے کسی وقت بھی کوئی اور برائی سرزد ہوسکتی ہے۔
میرے پیارے بیٹو! خوب اچھی طرح یہ بات دلنشین کرلو’ کیونکہ ایک نیکی مزید بہت سی نیکیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور ایک برائی مزید کئی ایک برائیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔
٭٭٭
وہ اپنے بیٹوں کو تواضع’ انکساری’ حسنِ سلوک’ خوش گفتاری اور خندہ پیشانی سے رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے وہ یہ بھی فرمایا کرتے:
میرے بیٹو! حکمت و دانائی کے ضمن میں یہ با ت طے شدہ ہے جس کی بات میں مٹھاس ہو’ چہرے پہ مسکراہٹ کی ہر دم چمک ہو’ وہ لوگوں میں اس شخص سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے جو ان پر بے دریغ مال خرچ کرتا رہتا ہے جب دیکھتے کہ لوگ عیش و عشرت کی طرف مائل ہو رہے ہیں’ اور نازونعم کے دلدادہ ہوچکے ہیں تو انھیں شاہ اُمم سلطان مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ اور مصائب و مشکلات سے بھرپور زندگی یاد دلاتے’ مدینہ منورہ میں رہنے والے ایک معروف تابعی جناب محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیرؒ مجھے ملے۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اے ابوعبداللہ!
میں نے کہا: جی۔
فرمایا: میں ایک دفعہ اماں عائشہؓ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا: بیٹا! میں نے کہا: جی اماں حضور! فرمایا: اللہ کی قسم شاہ اُمم سلطان مدینہﷺ کے گھر چالیس چالیس راتیں آگ نہیں جلتی تھی نہ چراغ روشن ہوتا اور نہ چولہا جلتا۔ میں نے ادب سے عرض کیا: اماں حضور تو پھر کس طرح آپ کا گزارہ ہوا کرتا تھا۔
فرمایا: بس کھجور اور پانی سے ہم گزارہ کیا کرتے تھے۔
٭٭٭
حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے زندگی کی اکہتر بہاریں دیکھیں جو اللہ کے فضل و کرم سے خیروبرکت’ امن و آشتی اور نیکی و بھلائی سے بھرپور تھیں۔ آپ زندگی بھر تقویٰ کا زریں تاج زیب سرکیے رہے’ جب آخری وقت آیا۔ تو آپ کا روزہ تھا۔ اہل خانہ نے روزہ افطار کرنے کے لیے کہا لیکن آپ نہ مانے۔
آپ کی دلی خواہش تھی کہ میں روزہ حوضِ کوثر کے پانی سے شیشے کے جنتی برتن میں حورعین کے ہاتھ سے لے کر افطار کروں۔
ان کی یہ تمنا پوری ہوئی اللہ اس پہ راضی اور وہ اپنے اللہ پہ راضی۔
ترجمہ ،محمود احمد غضنفر