حضرت امام ابوحنیفہؒ

مصنف : عبدالرحمان رافت الباشا

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : مئی 2007

ترجمہ: محمود احمد غضنفر

خوب رو’ خوش منظر’ شیریں کلام’ درمیانہ قد’ نہ زیادہ لمبے اور نہ ہی زیادہ چھوٹے’ دیکھنے والا رشک بھری نگاہوں سے دیکھتا ہی رہ جاتا۔ لباس بہت عمدہ اور صاف ستھرا پہنتے۔ سراپا بارعب’ عمدہ عطریات کا استعمال بڑی کثرت اور اہتمام سے کرتے’ جن راہوں سے گزرتے’ لوگ انھیں دیکھے بغیر خوشبو ہی سے پہچان جاتے کہ اس راہ سے حضرت کا گزر ہوا ہے۔

ان اوصاف سے آراستہ عظیم المرتبت شخصیت کا نام نعمان بن ثابت مرزبان ہے جو ابوحنیفہ کنیت سے مشہور ہوئے’ جنھوں نے سب سے پہلے فقہ کی گتھیاں سلجھائیں اور عمدہ انداز میں مسائل کا استخراج اور دینی نکات سے لوگوں کو متعارف کرایا۔

٭٭٭

امام ابوحنیفہؒ نے بنواُمیہ کا آخری اور بنوعباس کا ابتدائی دورِ حکومت دیکھا۔ امام موصوف نے ان حکمرانوں کے دور میں زندگی بسر کی جو علماء کے قدردان تھے۔ حکومت کی جانب سے علماکو وافر مقدار میں مالی وسائل مہیا کیے جاتے جس سے ان کی گزربسر خوشحالی سے ہوتی اور انھیں تلاش روزگار کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ لیکن امام ابوحنیفہؒ نے خودداری کا قابلِ رشک مظاہرہ کرتے ہوئے عزتِ نفس اور علمی وقار کو پیش نظر رکھا اور اپنی اقتصادی حالت کو حکومت کا مرہونِ منت نہ ہونے دیا۔ انھوں نے پوری زندگی خود کما کر کھایا اور ان کی مقدور بھر یہی کوشش رہی کہ ان کا ہاتھ بلند رہے کیونکہ دینے والا ہاتھ لینے والوں سے بہتر ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ حکمران وقت منصور نے ملاقات کے لیے امام ابوحنیفہؒ کو اپنے دربار میں بلایا۔ جب آپ وہاں پہنچے’ اس نے شاہانہ انداز سے استقبال کیا’ عزت و اکرام کے ساتھ اپنے ساتھ بٹھایا۔ دین و دنیا کے بارے میں بہت سے سوالات کیے۔ جب ملاقات کے بعد آپ واپس جانے لگے تو اس نے عزت’ اکرام اور ادب کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ایک تھیلی پیش کی جس میں تیس ہزار درہم تھے حالانکہ منصور بخل کے اعتبار سے بہت مشہور تھا۔ امام ابوحنیفہؒ نے ارشاد فرمایا:

(امیرالمومنین میں بغداد میں اجنبی ہوں۔ یہ مال سنبھالنے کے لیے میرے پاس جگہ نہیں مجھے اندیشہ ہے کہ یہ ضائع ہوجائے گا’ آپ اسے اپنے پاس بیت المال میں سنبھال لیں جب مجھے ضرورت ہوگی میں آپ سے لے لوں گا۔)منصور نے آپ کی دلی رغبت کا احترام کرتے ہوئے وہ مال امانت کے طور پر بیت المال میں رکھ دیا۔ اس واقعہ کے تھوڑے ہی عرصے بعد امام ابوحنیفہؒ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ وفات کے وقت ان کے گھر سے لوگوں کی امانتیں اتنی مقدار میں موجود تھیں جن کی مالیت اس سے کہیں زیادہ تھی جو حاکمِ وقت منصور کی جانب سے بیت المال بحق امام ابوحنیفہؒ میں محفوظ تھی۔ منصور کو جب اس صورت حال کا پتہ چلا تو اس نے آہ بھر کر کہا اللہ تعالیٰ ابوحنیفہ پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اس نے ہمارا عطیہ قبول کرنا گوارا ہی نہیں کیا۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ امام ابوحنیفہؒ کا موقف یہ تھا کہ انسان جو خود اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتا ہے وہ زیادہ پاکیزہ’ عمدہ اور دل پسند کھانا ہوتا ہے۔

 ہم امام موصوف کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ آپ نے امور تجارت کو سرانجام دینے کے لیے وقت مخصوص کر رکھا تھا۔ آپ ریشم اور اس سے تیار کردہ کپڑوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔ عراق کے مختلف شہروں میں تجارتی کام کا خوب چلن تھا۔ ان کی ایک مشہور و معروف منڈی بھی تھی جس میں خرید و فروخت کے لیے لوگ کشاں کشاں پہنچتے۔ وہاں پوری صداقت و امانت سے لین دین ہو تا۔ لوگ بڑے اطمینان سے سودا سلف خریدتے۔ کسی کو کوئی اندیشہ نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی خطرہ محسوس کرتا۔لوگوں کو منڈی میں خریدنے کے لیے اعلیٰ اور نفیس ورائٹی ملتی جس سے بلند ذوقی کا احساس پیدا ہوتا۔تجارت سے امام موصوف کو خاطر خواہ نفع حاصل ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وافر مقدار میں مال و دولت میسر آتا۔ حلال کماتے اور اپنے مال کو اس کی اصلی جگہ خرچ کرتے’ عرفِ عام میں یہ بات مشہور تھی کہ جب سال پورا ہوجاتا تو آپ تجارت سے حاصل ہونے والے تمام منافع کا حساب لگاتے’ اپنے ذاتی اخراجات کے لیے مال رکھنے کے بعد باقی مال سے علماء محدثین’ فقہاء اور طلباء کے لیے ضروری اشیاء’ خوراک اور لباس خریدتے۔ اور کچھ جیب خرچ کے لیے انھیں نقد رقم فراہم کرتے ہوئے فرماتے:یہ مال تمھارا ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے میرے ہاتھ سے تمھارے مال میں منافع عطا کیا ہے۔ بخدا میں اپنے مال سے تمھیں کچھ نہیں دے رہا۔ یہ اللہ کا خاص فضل ہے جو میرے ذریعہ آپ تک پہنچ رہا ہے۔اللہ کے رزق میں’ اللہ کے سوا کوئی دم نہیں مار سکتا۔

٭٭٭

امام ابوحنیفہؒ کے جود و سخا کی خبریں مشرق و مغرب میں پھیل چکی تھیں’ خاص طور پر اپنے ہم نشینوں اور ساتھیوں پر بے دریغ خرچ کیا کرتے تھے۔

ایک روز امام موصوف کا ایک ہم نشین منڈی میں آیا اور اس نے کہا:اے ابوحنیفہ! مجھے ریشم کا کپڑا چاہیے۔امام ابوحنیفہؒ نے پوچھا: کس رنگ کا کپڑا مطلوب ہے؟اس نے رنگ کے بارے میں وضاحت کی۔آپ نے فرمایا: صبر کرو اس رنگ کا کپڑا ملتے ہی تیرے لیے محفوظ کرلوں گا۔ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد مطلوبہ کپڑا ملا تو آپ لے کر اپنے ساتھی کے گھر گئے اور اس سے کہا لیجیے آپ کی پسند کے مطابق کپڑا مل گیا ہے۔ اس نے دیکھا تو اسے بہت پسند آیا۔ پوچھا کتنی قیمت پیش کروں؟فرمایا : صرف ایک درہم!اس نے بڑے تعجب سے پوچھا: صرف ایک درہم؟آ پ نے فرمایا: ہاں! اس نے کہا: آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ فرمایا: مذاق نہیں کر رہا’ دراصل میں نے یہ اور اس کے ساتھ دوسرا کپڑا بیس دینار ایک درہم کا خریدا تھا۔ دوسرے کپڑے سے میرے پیسے پورے ہوگئے ہیں یہ باقی رہ گیا تھا آپ سے ایک درہم کا مطالبہ اس لیے کر رہا ہوں کہ میں اپنے ساتھیوں سے منافع نہیں لیا کرتا۔

٭٭٭

ایک بوڑھی عورت نے امام صاحب سے ریشم کا کپڑا مانگا۔ آپ نے مطلوبہ کپڑا اس کے لیے نکالا۔ اس نے کہا میں ایک عمر رسیدہ عورت ہوں۔ اشیاء کی قیمتوں کا مجھے علم نہیں۔ برائے مہربانی آپ مجھے تھوڑے سے منافع پر کپڑا دے دیں۔ میں ایک کمزور و ناتواں عورت ہوں۔آپ نے فرمایا: میں نے دو تھان ایک ساتھ خریدے تھے۔ ایک تھان فروخت کرنے سے مجھے چار درہم کم پوری رقم مل گئی ہے۔ آپ یہ دوسرا تھان صرف چار درہم دے کر لے جائیں۔ میں آپ سے کوئی منافع نہیں چاہتا۔

٭٭٭

ایک روز آپ کے پاس ایک ساتھی پھٹے پرانے کپڑے پہنے ملاقات کے لیے آیا۔ جب سب لوگ چلے گئے۔ آپ نے اس سے کہا: مصلی اُٹھائیں اس کے نیچے جو کچھ ہے وہ لے لیں۔اس شخص نے مصلی اٹھایا دیکھا کہ اس کے نیچے ایک ہزار درہم پڑا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے ارشاد فرمایا: یہ اپنے پاس رکھیں اپنے لیے نیا عمدہ لباس تیار کریں۔اس نے کہا: میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے مجھے اس کی ضرورت نہیں۔امام ابوحنیفہؒ نے اس سے کہا: اگر اللہ نے آپ پر اپنا فضل و کرم کیا ہے اور اپنی نعمتوں سے نوازا ہے تو ان نعمتوں کے آثار کہاں ہیں۔ آپ ان نعمتوں کو استعمال کیوں نہیں کرتے؟ کیا آپ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام نہیں پہنچا:

ان اللّٰہ یحب ان یری اثر نعمتہ علی عبدہ ‘‘بلاشبہ اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اپنی نعمت کے آثار اپنے بندے پر دیکھے’’۔آپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی حالت کو سنوارو تاکہ آپ کو دیکھ کر آپ کے کسی ساتھی کو کوفت نہ ہو۔

٭٭٭

امام ابوحنیفہؒ کے جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی اپنے اہلِ خانہ پر خرچ کرتے تو اتنی ہی مقدار میں مساکین’ فقراء اور حاجت مندوں کے لیے مال صدقہ کرتے۔ جب کبھی خود کوئی نیا کپڑا پہنتے اتنی ہی قیمت کے کپڑے مساکین کو سِلا کر دیتے۔ جب آپ کے سامنے کھانا رکھا جاتا آپ اتنی ہی مقدار میں یا اس سے دگنا کھانا مساکین میں تقسیم کردیتے۔

٭٭٭

امام موصوف کے بارے میں حکایت مشہور ہے کہ اگر کبھی دوران گفتگو انھوں نے قسم کھالی تو وہ اس کے بدلے میں ایک درہم اللہ کی راہ میں صدقہ کردیتے۔ پھر انھوں نے اپنے اوپر یہ لازم کرلیا کہ اگر گفتگو کرتے ہوئے حلفیہ کلمات نکل جاتے تو سونے کا ایک دینار اللہ کی راہ میں خرچ کرتے۔ یہ اس صورت میں تھا جبکہ آپ کی قسم بالکل سچی ہوتی تو ایک دینار راہِ خدا میں صدقہ کرتے۔

٭٭٭

حفص بن عبدالرحمن تجارت میں امام ابوحنیفہؒ کے شریک تھے۔ امام موصوف انھیں ریشم کا سازوسامان دے کر عراق کے بعض شہروں کی طرف روانہ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کافی مقدار میں سامان دے کر بھیجا اور اسے بتا دیا کہ فلاں فلاں کپڑا داغی ہے۔ جب آپ اسے فروخت کریں تو خریدار کو اس عیب سے آگاہ کر دینا ۔جناب حفص بن عبدالرحمن نے تمام سامان بیچ دیا اور خریداروں کو ناقص کپڑوں کے بارے میں بتانا بھول گئے۔ انھوں نے بڑی کوشش کی کہ ان خریداروں کے نام یاد آجائیں جنھوں نے ناقص کپڑا خریدا ہے لیکن وہ پورے جتن کے باوجود ان کے نام یاد کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جب امام ابوحنیفہؒ کو صورت حال کا علم ہوا اور ان لوگوں کے پہچاننے میں ناکامی کا پتہ چلا تو بڑے بے چین ہوگئے۔ جب تک آپ نے اس پورے مال کی قیمت کا مال اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرلیا انھیں دلی اطمینان نصیب نہ ہوا۔

٭٭٭

امام ابوحنیفہؒ خوش اخلاق’ خوش اطوار’ حلیم الطبع اور خوش مذاق تھے۔ آپ کے پاس بیٹھنے والا سعادت حاصل کرتا۔ آپ کا مخالف بھی غیرحاضری میں آپ کو اچھے الفاظ سے یاد کرتا۔ آپ کے ایک قریبی ساتھی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مبارک کو حضرت سفیان ثوریؒ سے یہ بات کہتے ہوئے سنا کہ:اے ابوعبداللہ امام ابوحنیفہؒ غیبت سے بہت نفرت کرتے تھے۔ میں نے کبھی ان کو اپنے دشمن کے خلاف برا بھلا کہتے ہوئے نہیں سنا۔ امام سفیان ثوری نے کہا: امام ابوحنیفہؒ بڑے دانش مند تھے۔ وہ کسی ایسی چیز کو اپنی نیکیوں پر غالب نہیں آنے دیتے تھے جو ان پر پانی پھیر دیتے۔ امام ابوحنیفہؒ کو لوگوں کی محبت اور الفت شکار کرنے کا بہت شوق تھا اور وہ ہمیشہ ان سے خوشگوار تعلقات کے خواہاں رہتے۔آپ کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ جب کوئی اجنبی آپ کے پاس آکر بیٹھ جاتا۔ جب وہ اٹھ کر جانے لگتا اور آپ اس سے آمد کا مقصد ضرور دریافت کرتے اگر وہ فقیر ہوتا تو آپ اس کی مالی مدد کرتے’ اگر وہ بیمار ہوتا تو اس کی تیمارداری کرتے’ اگر وہ ضرورت مند ہوتا تو آپ اس کی ضرورت کو پورا کرتے۔ یہاں تک کہ اس کا دل جیت لیتے اور وہ دعائیں دیتا جاتا۔

٭٭٭

امام ابوحنیفہؒ اکثرو بیشتر دن کو روزہ رکھتے اور رات کو عبادت میں مصروف رہتے۔ قرآن حکیم کو بڑی محبت اور چاہت کے ساتھ پڑھتے یوں معلوم ہوتا کہ آپ قرآن حکیم کے بڑے گہرے دوست ہیں۔ سحری کے وقت استغفار کرتے’ کثرت عبادت اور اس میں مگن ہونے کا اصلی سبب یہ تھا کہ ایک دن انھوں نے لوگوں میں سے چند افراد کو یہ کہتے ہوئے سن لیا تھا کہ یہ شخص بڑا عبادت گزار ہے۔ رات بھر عبادت میں مصروف رہتا ہے۔ جب آپ نے اپنے بارے میں یہ بات سنی تو فرمانے لگے کہ میرا طرزِ عمل تو لوگوں کے جذبات کے بالکل برعکس ہے’ کیوں نہ میں ویسا ہی بن جاؤں جیسا لوگ میرے بارے میں خیال ظاہر کرتے ہیں۔ پھر انھوں نے عزم کرلیا کہ میں زندگی بھر اپنے سر کے نیچے تکیہ نہیں لوں گا۔پھر ان کی یہ عادت بن گئی کہ رات کا بیشتر حصہ وہ عبادت میں صرف کرتے۔ جب رات تاریکی کی چادر کو کائنات پر پھیلا دیتی جب لوگ نیند کے مزے لینے لگتے تو یہ عمدہ لباس پہنتے۔ داڑھی میں کنگھی کرتے’ خوشبو لگاتے پھر محراب میں قیام’ رکوع اور سجدے کی حالت میں رات کا بیشتر حصہ گزار دیتے’ کبھی گڑگڑا کر اللہ کے حضور دعائیں مانگتے اور کبھی یہ آیت بار بار پڑھتے جاتے:

بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھی وامر اور اللہ کی خشیت سے زاروقطار ایسا روتے جس سے دل دہل جاتے’ خوفِ خدا سے روتے ہوئے بعض اوقات ایسی گھگھی بندھتی جس سے عام آدمی کا جگر چھلنی ہوجائے۔اور جب آبِ سورہ زلزال پڑھتے تو آپ کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی’ دل خوف سے تھرتھر کانپنے لگتا۔ اپنی داڑھی کو ہاتھ میں پکڑ کر یہ کہتے اے ذرہ برابر نیکی کا بدلہ دینے والے! اے ذرہ برابر شر کی سزا دینے والے! اپنے بندے نعمان کو جہنم کی آگ سے بچا لینا۔الٰہی! اپنے بندے کو ان برائیوں سے دُور کردے جو جہنم کے قریب کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ یاارحم الراحمین! اپنی رحمت کے وسیع سائے میں اپنے بندے کو داخل کرلے۔

٭٭٭

ایک روز امام ابوحنیفہؒ امام مالک کے پاس آئے۔ وہاں چند ساتھی اور بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ جب ملاقات کر کے واپس چلے گئے تو آپ نے ساتھیوں سے پوچھا: کیا تم جانتے ہویہ شخص کون ہے؟سب نے کہا: نہیں ہم تو نہیں جانتے۔آپ نے فرمایا: یہ نعمان بن ثابت ہیں۔ یہ وہ شخص ہے کہ اگر یہ اس ستون کو کہہ دے کہ یہ سونے کا ہے اسے ثابت کرنے کے لیے ایسے دلائل دے گا کہ مدمقابل کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہوگا۔ وہ دلائل سے مرعوب ہوکر تسلیم کرلے گا کہ واقعی یہ سونے کا ہی ہے۔

امام مالک نے امام ابوحنیفہؒ کی قوتِ استدلال ’ بیدار مغزی اور زود فہمی کے بارے میں کوئی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا۔ تاریخ و سیر کی کتابوں میں ایسے واقعات درج ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ امام موصوف اپنے مدمقابل کو دلائل سے ایسا زچ کرتے کہ وہ بات کرنے کے قابل ہی نہ رہتا جیساکہ امام مالک نے ان کے بارے میں فرمایا کہ اگر یہ اپنے مدمقابل کو کہہ دیں کہ تیرے سامنے جو مٹی پڑی ہے یہ سونا ہے تو اسے سونا ثابت کرنے کے لیے ایسے دلائل دیں گے کہ بالآخر اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ واقعی یہ سونا ہے۔ لیکن اگر یہ کسی دینی مسئلے میں ایک موقف اختیار کرلیں تو اسے حق ثابت کرنے میں یہ یدطولیٰ رکھتے ہیں۔

کوفہ میں ایک ایسا گمراہ شخص رہائش پذیر تھا۔ جسے بعض لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی باتیں غور سے سنا کرتے۔ اس نے ایک دفعہ لوگوں سے کہا: (نعوذ باللہ نقل کفر کفر نہ باشد) کہ عثمان بن عفانؓ حقیقت میں یہودی تھا اور وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی یہودی ہی رہا۔ امام ابوحنیفہؒ نے جب یہ بات سنی تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ آپ فوراً اس کے پاس پہنچے’ اس سے ملاقات کی اور فرمایا میں آج ایک خاص کام کے لیے آیا ہوں۔ اس نے کہا: چشم روشن دل ماشاد فرمایئے۔ کیا کام ہے سرآنکھوں پر خوش آمدید۔ آپ فرمائیں آپ جیسے معزز انسان کی بات کو قبول کرنا سعادت ہے۔ امام صاحب نے فرمایامیں چاہتا ہوں کہ آپ کی بیٹی کی نسبت میں اپنے فلاں ساتھی سے کردوں کیا آپ کو منظور ہے ؟کیوں نہیں کیوں نہیں’ لیکن منگیتر کا ذرا تعارف تو کرائیں کہ وہ کون ہے؟آپ نے فرمایا: وہ بڑا مال دار ہے۔ اپنی قوم میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بڑا سخی ہے کھلے ہاتھ کا مالک ہے۔ حافظ قرآن ہے۔ شب زندہ دار ہے۔ اللہ کے خوف کی وجہ سے آہ و زاری’ کمال اندازمیں کرتا ہے۔اس نے اتنی تعریف سن کر کہا: بس بس اتنا ہی کافی ہے۔ ایسا شخص ہی میرا داماد بننے کے قابل ہے۔امام ابوحنیفہؒ نے اس کے خوشگوار موڈ کو دیکھتے ہوئے کہا: میری یہ بات بھی ذرا غور سے سنیں اس میں ایک برائی بھی ہے۔اس نے چونک کر کہا’ وہ کیا؟آپ نے فرمایا: وہ شخص یہودی ہے۔ یہ بات سن کر وہ شخص بدکا اور کہنے لگا ارے یہودی ہے۔اے ابوحنیفہ کیا آپ میری بیٹی یہودی کے نکاح میں دینا چاہتے ہیں؟ اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میں اپنی بیٹی کی شادی کسی یہودی کے ساتھ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا خواہ اس میں زمانے بھر کی خوبیاں جمع کیوں نہ ہوجائیں۔امام ابوحنیفہؒ نے کہا: اب کیوں اُچھلتے ہو۔ اپنی بیٹی کا یہودی کے ساتھ نکاح کرنے سے کیوں اتنا بدکتے ہو۔ تجھے یہ کہتے ہوئے قطعاً شرم نہ آئی کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیوں کی شادی ایک یہودی سے کردی۔ کچھ شرم و حیا کرو’ بے غیرت انسان تیرے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔وہ شخص یہ باتیں سن کر کانپنے لگا اور فوراً پکار اُٹھا: الٰہی! میری توبہ’ مجھے بخش دے ’ یہ بری بات جو میری زبان سے نکلی یہ افتراء اور بہتان جو میں نے باندھا الٰہی مجھے معاف کردے۔ بلاشبہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔

٭٭٭

ایک دفعہ کا واقعہ ہے ضحاک شاری نامی ایک خارجی امام ابوحنیفہؒ کے پاس آیا اور اس نے دیکھتے ہی یہ کہا: اے ابوحنیفہ! اللہ سے معافی مانگو ’ توبہ کرو۔آپ نے پوچھا: میں نے کیا جرم کیا ہے جس کی معافی مانگوں۔خارجی نے کہا: آپ نے حضرت علیؓ اور امیرمعاویہ کے مابین پیدا ہونے والے اختلافات میں تحکیم کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔امام ابوحنیفہؒ نے کہا کہ تم اس مسئلے پر میرے ساتھ مناظرہ کرنا چاہتے ہو۔خارجی نے کہا: ہاں میں تیار ہوں۔امام ابوحنیفہؒ نے کہا: ہمارے درمیان ہونے والے مناظر ے کا فیصلہ کون کرے گا؟خارجی نے کہا: جس کو آپ چاہیں جج بنا لیں۔ امام ابوحنیفہؒ نے خارجی کے ساتھیوں پر نظر دوڑائی اور فرمایا اس کو حکم بنا لیں۔ میں آپ کے ساتھی کو جج بنانے پر راضی ہوں کیا تم بھی راضی ہو؟خارجی خوش ہوگیا اور اس نے کہا: مجھے منظور ہے۔امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: بڑے افسوس کی بات ہے۔ تم آج خود میرے اور اپنے درمیان ہونے والے جھگڑے کا فیصلے کرنے کے لیے تحکیم کو جائز قرار دیتے ہو اور اللہ کے دو عالی شان صحابہ کے درمیان ہونے والے اختلافات کو مٹانے کی خاطر تحکیم کا انکار کرتے ہو۔ مجھے افسوس ہے تیری عقل و دانش پر اور تیرے اندازِ فکر پر۔یہ سن کر خارجی ششدر رہ گیا اور اسے کوئی جواب سجھائی نہ دیا۔

٭٭٭

ایک روز سرزمین اسلام میں شر کا بیج بونے والا گمراہ کن فرقہ جہمیہ کا سربراہ جہم بن صفوان امام ابوحنیفہؒ سے ملنے کے لیے آیا۔ اس نے کہا: میں آپ کے ساتھ چند ضروری باتیں کرنے کے لیے آیا ہوں۔ امام ابوحنیفہؒ نے کہا تمھارے ساتھ بات کرنا معیوب ہے۔جن نظریات کا تو حامل ہے اس میں غوروخوض اور بحث و تمحیص آگ کا بھڑکتا ہوا شعلہ ہے۔جہم نے کہا: یہ آپ نے فیصلہ مجھ پر کیسے صادر کیا حالانکہ اس سے پہلے آپ نہ مجھ سے کبھی ملے ہیں اور نہ ہی آپ نے میری کبھی کوئی بات سنی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ ؒ نے فرمایا: آپ کی بہت سی ایسی باتیں مجھ تک پہنچ چکی ہیں جن کا صدور کسی مسلمان سے ممکن نہیں۔جہم نے کہا: کیا تم غیب کی بنیاد پر فیصلہ دیتے ہو۔امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: تیرے نظریات لوگوں میں عام پھیل چکے ہیں۔ عام و خاص بخوبی ان نظریات سے واقف ہوچکے ہیں۔ اس بنا پر میرے لیے تیرے بارے میں یہ فیصلہ کرنا جائز ہے کیونکہ یہ درجہ تواتر کو پہنچ چکے ہیں۔جہم نے کہا: میں آپ سے صرف ایمان کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔امام ابوحنیفہؒ نے ارشاد فرمایا: ابھی تک تجھے ایمان کا ہی پتا نہیں چلا کہ آج اس کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو؟جہم: نہیں مجھے ایمان کا تو علم ہے لیکن اس کے چند پہلوؤں میں چنداں شکوک و شبہات ہیں۔امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: ایمان میں شک و شبہ کفر ہے۔جہم نے کہا: آپ کے لیے یہ درست نہیں کہ مجھے اس وقت تک کفر کے ساتھ منسلک کرو جب تک میری طرف سے کوئی ایسی بات معلوم نہ کرلو جو کفر کے مترادف ہو۔امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: چلو پوچھو جو تم پوچھنا چاہتے ہو؟جہم نے کہا: کوئی شخص جس نے اللہ کو اپنے دل سے پہچانا ہواور ااس نے اپنی زبان سے ایمان کا اعلان نہ کیا ہو، پھر اسی حالت میں مر گیاہو تو کیا ایسا شخص مومن مرا یا کافر؟امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: اس کی موت حالت کفر میں ہوئی۔ وہ جہنمی ہوگا جبکہ اس نے اپنی زبان سے اس ایمان کا اقرار نہیں کیا جس کی معرفت اس کے دل نے حاصل کر لی تھی۔ جبکہ زبانی وضاحت کے سلسلے میں وہاں کوئی مانع اور رکاوٹ بھی نہیں۔جہم نے کہا: وہ بھلا مومن کیوں نہیں اس نے تو اللہ کی معرفت اسی طرح حاصل کی جیساکہ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: اگر تم قرآن کو حجت مانتے ہو’ قرآن پر تیرا ایمان ہے، تو میں قرآن حکیم سے دلائل پیش کروں اور اگر قرآن پر تیرا ایمان نہیں تو میں عقلی دلائل سے اپنی یہ بات ثابت کروں۔جہم نے کہا: میں قرآن کو حجت مانتا ہوں اور قرآن کی صداقت پر میرا ایمان ہے۔امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایمان کو جسم انسانی کے دو اعضاء کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ دل اور زبان ایمان کی صحت کے لیے ان دونوں کا اعتراف و اقرار ضروری ہے۔صرف ایک کا اعتراف قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ کتاب اللہ اور حدیث رسولؐ میں اس کی وضاحت ملتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق یقولون ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاھدین وما لنا لا نومن باللہ وماجاء نا من الحق ، نطمع ان یدخلنا ربنا مع القوم الصالحین- فاثابھم اللّٰہ بما قالوا جنات تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا وذلک جزاء المحسنین (المائدہ:۷۵)

انھوں نے اپنے دل سے حق پہچان لیا تا اور اپنی زبان سے اس کا اقرار بھی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے زبانی اعتراف کی بنا پر ایسے باغات میں داخل کیا جن میں نہریں بہتی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قولوا آمنا باللّٰہ وما انزل الینا وما انزل الی ابراھیم واسماعیل واسحاق ویعقوب والاسباط وما اوتی موسی وعیسی وما اوتی النبیون من ربھم (البقرہ: ۱۳۴)

اللہ نے انھیں زبانی اقرار کا حکم دیا صرف دلی معرفت پر اکتفا نہیں کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قولوا لا الہ الا اللہ تفلحون ‘‘تم اقرار کرو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں’ کامیاب ہوجاؤ گے’’۔

آپ نے صرف دلی معرفت کو فلاح و کامیابی کا معیار قرار نہیں دیا بلکہ اس کے زبانی اقرار کو بھی لازمی قرار دیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

یخرج من النار من قال لا الٰہ الا اللّٰہ ‘‘جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جہنم سے نکل جائے گا’’۔اس فرمان میں یہ نہیں کہا کہ جس نے اللہ کو دل سے پہچان لیا وہ جہنم سے باہر آجائے گا۔

اگر ایمان کا تعلق صرف دل سے ہوتا’ زبانی اقرار کی کوئی حیثیت نہ ہوتی تو ابلیس بڑا مومن ہوتا۔ وہ اپنے رب کو پہچانتا تھا کہ اس نے اسے پیدا کیا وہی اسے مارے گا وہی اسے زندہ کرے گا اسی نے راندہ درگاہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا مکالمہ قرآن میں بیان کیا ہے:

خلقتنی من نار وخلقتہ من طین (اعراف:۱۲) ‘‘تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس آدم کو تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے’’۔

ابلیس نے یہ کہا : رب فانظرنی الی یوم یبعثون (الحجر:۳۶) ‘‘میرے رب مجھے قیامت تک مہلت دے دیجیے’’۔اس نے یہ بھی کہا: فبما اغویتنی لا قعدن لھم صراطک المستقیم ‘‘جیساکہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں بھی تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا’’۔امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: اگر تیرا خیال درست ہوتا تو اکثر کافر مومن کہلاتے کیونکہ وہ اپنے دلوں سے رب تعالیٰ کو پہچانتے تھے جبکہ اپنی زبانوں سے اقرار نہیں کرتے تھے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وجحدوا بھا واستیفنتھا (النمل:۱۴)

دیکھئے ان کے دلی یقین کی بنا پر انھیں مومن قرار نہیں دیا بلکہ ان کے زبانی انکار کی وجہ سے انھیں کافر قرار دیا گیا ہے۔

امام ابوحنیفہؒ مسلسل قرآن و حدیث کے دلائل دیئے جا رہے تھے جنھیں سن کر جھم کے چہرے پر پریشانی و پشیمانی کے آثار واضح دکھائی دے رہے تھے۔ دلائل کی بھرمار سن کر وہ یہ کہتے ہوئے کھسکنے لگا کہ آپ نے مجھے بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا ہے۔ میں پھر کبھی دوبارہ آپ کے پاس آؤں گا یہ کہہ کر وہ چل دیا۔ اس کے بعد اس نے نہ آنا تھا اور نہ ہی وہ آیا۔

٭٭٭

ایک دفعہ امام ابوحنیفہؒ کی ملاقات ملحدین کے ساتھ ہوئی جو وجود باری تعالیٰ کے منکر تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا ایسی کشتی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو سازوسامان سے بھری ہوئی ہو اور وہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طوفانی لہروں میں گھری ہوئی ہو’ تیز آندھی کے تھپیڑے چاروں طرف سے اس سے ٹکرا رہے ہوں لیکن اس کے باوجود وہ سیدھے راستے پر ہی اپنی منزل کی طرف بڑے اطمینان سے چل رہی ہو۔ اس میں کوئی اضطراب’ خلل یا انحراف کا کوئی شائبہ تک نہ ہو اور نہ اس میں کشتی کو چلانے والا کوئی ملاح موجود ہو’ کیا یہ بات ماننے میں آتی ہے سب نے بیک زبان ہوکر کہا کوئی عقلمند اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔آپ نے فرمایا: سبحان اللہ!تم اس بات کا تو انکار کر رہے ہو کہ سمندر کی سطح پر ایک کشتی بغیر کسی ملاح کے سیدھی سمت چل ہی نہیں سکتی اور اس بات کا تم بغیر سوچے سمجھے اقرار کر رہے ہو کہ اتنی بڑی کائنات جس میں ساتوں آسمانوں کی وسعتیں اور زمین کی گہرائیاں پہاڑوں کے سلسلے سمندروں کے گہرے پانی اور دریاؤں کے بہاؤ بغیر کسی صانع کے معرضِ وجود میں آگئے اور بغیر کسی محافظ کے درست سمت اور اپنے دائرے میں رہ کر اپنا فرض سرانجام دے رہے ہیں۔ کوئی اس کی تدبیر کرنے والا نہیں’ کوئی ان کی حفاظت کرنے والا نہیں۔ افسوس تمھاری عقل پر صد حیف تمھاری سوچ پر۔

امام ابوحنیفہؒ نے زندگی بھر دلائل سے دین کا دفاع کیا اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دین کی بھرپور خدمت کی۔ منطق کو ذریعہ اظہار بناتے ہوئے بڑے بڑے جغادری مناظرہ کرنے والوں کے دانت کھٹے کیے۔

جب موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت کی کہ مجھے پاکیزہ جگہ میں دفن کیا جائے۔ ایسی جگہ میں دفن کرنے سے اجتناب کیا جائے جس میں غصب کا کوئی شائبہ تک بھی ہو۔

جب آپ کی وصیت حاکمِ وقت منصور تک پہنچی تو اس نے برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا: امام ابوحنیفہؒ کی زندگی بھی قابلِ رشک اور ان کی موت بھی قابلِ رشک ہے۔

انھوں نے نہ اپنی زندگی میں ہمیں انگشت نمائی کا کبھی موقع دیا اور نہ موت کے وقت۔ اللہ ان پر رحم فرمائے اور ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے۔

امام ابوحنیفہؒ نے یہ بھی وصیت کی کہ مجھے حسن بن عمارہ غسل دے۔ وصیت کے مطابق انھوں نے بڑے اہتمام سے غسل دیا اور کہا:

اے ابوحنیفہ! اللہ تجھ پر رحم فرمائے’ تجھے اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کارناموں کی بنا پر بخش دے جو تو نے دین کی سربلندی کے لیے سرانجام دیئے۔ اللہ تیرے مرقد پر رحمت کی برکھا برسائے۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔