۱۱ مارچ ۲۰۰۶ء کو شام کی فلائٹ سے میں حیدرآباد سے دہلی آرہا تھا۔ میرے ساتھ سی پی ایس ٹیم کے کئی اور افراد شامل تھے۔ اس جہاز میں ایک خاتون نیہا بٹوارا (Neha Batwara) بھی سفر کر رہی تھیں۔ ہماری ٹیم کے لوگ جہاز کے اندر مسافروں کے درمیان دعوہ ورک کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے نیہا سے بھی بات کی اور انھیں دعوتی پمفلٹ دیے۔ یہ خاتون دہلی ایئرپورٹ پر اُتر کر اپنے وطن الور چلی گئیں۔ بعد کو حیدرآباد سے ان کا ایک خط مورخہ ۲۸ مارچ بذریعہ ای میل موصول ہوا۔ وہ خط حسب ذیل تھا:
Respected Maulana!
I am Neha, working in an MNC for some people, it cannot be better than to get a job in top MNC just after graduation. But believe me, I am in search of a more purposeful life, that's why I am writing to you.
I met priva Malik, Khalid Ansari and Sadia Khan on a flight to Delhi and coud apparently see the difference your guidance has made to their lives.
Maulana, I know we have been created by God, and we all have a purpose here to fulfill on earth, which, if done, will be more satisfying than getting heaven after death. The point where I am lacking is to know the purpose for which I have been sent here. I could not come to your class in Delhi, beacuse my family was against some spiritual classes. You understand.
I will be grateful to you for the whole of my life if you culd help me in any way. I am currently in Hyderabad.
Regards
Neha Batwara, Softwere Engg. Miel Hyderabad, ext_ 3355, Tel: 040-23308090
یہ خط سادہ طور پر صرف ایک خاتون کا خط نہیں ہے’ بلکہ وہ ہر روح کی پکار ہے۔ یہ خط گویا ہرعورت اور مرد کے دل کی ترجمانی ہے۔ ہر انسان ایک بامقصد زندگی (purposeful life) کی تلاش میں ہے۔ یہ ہر انسان کی فطرت کی آواز ہے لیکن لوگ یہ چاہتے ہیں کہ یہ بامقصد زندگی ان کو پوری طرح موت سے پہلے کے دور ِ حیات میں مل جائے۔ موت کے بعد کے دورِحیات کا نہ ان کو شعور ہے اور نہ وہ اس کا انتظار کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ آدمی اس بامقصد زندگی کو کہاں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں یا خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد اس کو خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں حاصل کرنا ہے۔ کیوں کہ خود اپنی بنائی ہوئی دنیا اس کے لیے سرے سے موجود ہی نہیں۔
ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات ہے کہ آدمی سب سے پہلے یہ جانے کہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا کے قوانین کیا ہیں اور اس کے بنانے والے نے کس تخلیقی منصوبے کے تحت اس کو بنایا ہے۔ کیوں کہ اس کی مطابقت کے بغیر وہ کسی بھی حال میں اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتا۔
اگر آپ کے پاس ایک اچھی کار ہو اور اس کو آپ سڑک پر دوڑانا چاہیں تو آپ کو سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ جس ملک میں آپ اپنی گاڑی دوڑانا چاہتے ہیں وہاں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو (left hand drive ) کا اصول ہے یا رائٹ ہینڈ ڈرائیو (right and drive) کا۔ کامیاب سفر کے لیے اس بات کو جاننا ضروری ہے۔ اگر آپ ایسا کریں کہ لیفٹ ہینڈ ڈرائیو کے ملک میں اپنی گاڑی دائیں طرف دوڑانے لگیں’ یا رائٹ ہینڈ ڈرائیو کے ملک میں اپنی گاڑی بائیں طرف دوڑانے لگیں تو دونوں حالتوں میں آپ کامیاب سفر سے محروم رہ جائیں گے۔
یہی معاملہ زندگی کے وسیع تر سفر کا بھی ہے۔ انسان اپنی زندگی کا وسیع تر سفر کسی خلا میں یا خود اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں کرتا۔ وہ اپنا یہ سفر خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں کرتا ہے۔ اس لیے ہر عورت اور مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کو سمجھے اور اس کے مطابق’ اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو ناکامی سے نہیں بچا سکتا۔
خود انسان کا اپنا تجربہ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ ہر انسان کا یہ مسئلہ ہے کہ اس کو پیاس لگتی ہے۔ وہ اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہے مگر یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر انسان اپنی پیاس بجھانے کے لیے پانی کو استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ پانی کے سوا کسی اور چیز سے وہ اپنی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اسی طرح انسان کو بھوک لگتی ہے۔ بھوک کے معاملے میں بھی انسان یہی کرتا ہے کہ وہ فطرت کی فراہم کردہ غذا کے ذریعے اپنی بھوک مٹائے۔ ہر انسان کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر انسان آکسیجن لینے کے لیے اسی نظام کو استعمال کرتا ہے جو اس کے باہر فطرت نے قائم کیا ہے۔ یہی تمام دوسری ضرورتوں کا معاملہ ہے۔
ٹھیک یہی معاملہ مقصدحیات کا بھی ہے۔ مقصدحیات کے معاملے میں بھی انسان کو اپنے خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan ) کو جاننا ہے۔ اس معاملے میں کوئی دوسرا متبادل’ انسان کے لیے نہیں۔
قرآن خالق فطرت کی کتاب ہے۔ قرآن میں اس سوال کا جواب اس کی سورہ نمبر ۱۰۳ میں دیا گیا ہے۔ قرآن کا یہ جواب اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ ہے:
History is a witness that man is in loss, execpt those who follow the course of life set by the creator.
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ خالق نے انسان کی زندگی کو دو دوروں میں تقسیم کیا ہے۔ قبل از موت دور’ اور بعد ا ز موت دور۔ موت سے پہلے کا دور عمل کرنے کا دور ہے اور موت کے بعد کا دور عمل کا انجام پانے کا دور۔ جو کچھ موت کے بعد ملنے والا ہے وہ موت سے پہلے نہیں مل سکتا۔ جو کچھ موت سے پہلے کرنا ہے اس کو کرنے کا موقع موت کے بعد باقی نہیں رہے گا۔
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان لامحدود خواہشوں (unlimited desires) کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ خواہشیں ہر ایک کو بہت محبوب ہوتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک شخص بھی اپنی ان خواہشوں کی تکمیل نہ کرسکا۔ مختلف انسانوں نے اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے ساری عمر محنت کی۔ بظاہر انھوں نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ مگر ہر ایک اس حسرت کے ساتھ مرا کہ وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل نہ کرسکا۔ آج کی دنیا میں وہ جس خوشی کو پانا چاہتا تھا اس کو پانے میں وہ ناکام رہا۔دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ جوڑوں (pair) کے اصول پر قائم ہے۔ یہاں ہر چیز اپنا جوڑا رکھتی ہے۔ ہرچیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنے وجود کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ اصول عالمی سطح پر قائم ہے۔ زمین سے لے کر اسپیس تک ہر جگہ یہی نظام رائج ہے۔ نیگٹیو پارٹکل کا جوڑا پازیٹیو پارٹکل’ نباتات میں میل میکس اور فی میل سیکس’ حیوانات میں مؤنث حیوان اور مذکر حیوان ’ انسان میں عورت اور مرد ’ وغیرہ۔
جوڑا یا زوجین کا نظام تمام مخلوق میں عالمی سطح پر قائم ہے۔ اس وسیع اور کامل نظام میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ انسانی خواہشات کا ہے۔ ہر انسان خواہشات کا گہرا احساس لے کر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ہر انسان اپنی ان خواہشات کی تکمیل کیے بغیر مرجاتا ہے۔ دنیا میں خواہش ہے مگر اس کا جوڑا’ تکمیل خواہش یہاں موجود نہیں۔
یہ سوال اس دنیا میں آنے والے ہر عورت اور مرد کا سوال ہے۔ ہر پیدا ہونے والا اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے سوال کا تشفی بخش جواب پائے وہ حسرت کے ساتھ اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
امریکی مشنری بلی گرہم (Billy Graham ) نے لکھا ہے کہ ایک بار اس کے پاس امریکا کے ایک عمر رسیدہ دولت مند کا ارجنٹ مسیج آیا۔ بلی گراہم اپنے پروگرام کو ملتوی کر کے فوراً روانہ ہوگئے۔ وہ امریکی دولت مند کے گھر پہنچا تو اس کو ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ وہاں اس کی ملاقات امریکی دولت مند سے ہوئی۔ ا مریکی دولت مند نے کسی تمہید کے بغیر کہا:
You see, I am an old man. Life lost all meanng. I am going to take a fateful leap into the unknown. Young man can you give me a ray of hope.
بلی گراہم کے پاس اس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب نہ تھا۔ امریکی دولت مند جواب سے محرومی کا احساس لے کر مرگیا۔ خود بلی گراہم کا یہ حال ہوا کہ تازہ اطلاع کے مطابق ’ وہ شدید حادثے کا شکار ہوکر معذوری کی حالت میں بستر پر پڑا ہوا ہے’ اور اپنے آخری انجام کے طور پر موت کا انتظار کر رہا ہے۔
یہی معاملہ اس دنیا میں ہر عورت اور مرد کا ہے۔ ہر ایک اپنی زندگی کا مقصد جاننا چاہتا ہے۔ ہر ایک’ ایک پُرمسرت زندگی کی تلاش میں ہے۔ ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اس کو ایسی زندگی ملے جس میں اس کو پوری طرح فل فلمینٹ (fulfillment) حاصل ہو۔ مگر ہر ایک کا انجام صرف ناکامی پر ختم ہو رہا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ ہر عورت اور مرد نے یہ سمجھا کہ دنیا کے مادی سازوسامان ہی اصل ہیں۔ ہر ایک نے مادی سازوسامان اکٹھا کرکے اس کے ذریعے فل فلمینٹ کی زندگی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مگر کسی استثنا کے بغیر ایک شخص کو بھی مطلوب فل فلیمنٹ حاصل نہ ہوسکا۔
ایسی حالت میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس ناکام تجربے کو دہرایا جاتارہے۔ اب اس معاملے میں اصل مسئلہ نظرثانی (reassessment) کا ہے۔ اب اصل کام یہ ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچا جائے کہ دنیا کی قابلِ حصول مادی چیزوں میں تو ثابت شدہ طور پر فل فلیمنٹ کا سامان موجود نہیں۔ ایسی حالت میں پھر یہ سامان کہاں ہے۔ جب انسانی خواہش کا تسلسل جاری ہے تو یہ ماننا ہوگا کہ وہ ایک حقیقی چیز ہے’ اور جب وہ ایک حقیقی چیز ہے تو یقینا اس کی تکمیل کا سامان بھی کائنات میں ہونا چاہیے۔
اس معاملے کو سفر کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کوئی شخص جب سفر کرتا ہے ’ خواہ وہ ٹرین سے سفر کرے یا ہوائی جہاز سے’ اس کے سفر کے دو مرحلے ہوتے ہیں: ایک’ وہ جب کہ وہ حالتِ سفر میں ہوتا ہے۔ دوسرا’ وہ جب کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ کامیاب سفر کے لیے ضروری ہے کہ مسافر دونوں حالتوں کے فرق کو سمجھے۔ جو مسافر اس فرق کو نہ جانے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوجائے گا اور غیرضروری پریشانی میں مبتلا ہوکر اپنی عقل کھو بیٹھے گا۔
صحیح مسافر وہ ہے جو سفر کو سفر سمجھے’ وہ سفر کو منزل کی حیثیت نہ دے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ سفر کے دوران میں وہ سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں جو منزل پر پہنچ کر حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن ہر مسافر اس کو گوارا کرتا ہے کیونکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ سفر کی حالت ایک وقتی حالت ہے۔ آخرکار اس کا سفر ختم ہوگا اور وہ اپنی مطلوب منزل پر پہنچ جائے گا۔ منزل پر پہنچنے کے بعد اس کو وہ سب کچھ مل جائے گا جس کو وہ چاہتا تھا اور جسے وہ سفر کے دوران میں حاصل نہ کرسکا۔
ہماری موجودہ زندگی بے حد مختصر مدت کے لیے ہے۔ اس کا مختصر مدت کے لیے ہونا خود اس بات کاثبوت ہے کہ وہ دوران سفر کی حالت ہے’ وہ منزل پر پہنچنے سے پہلے کا لمحہ ہے۔ اس بنا پر یہ ممکن نہیں کہ موجودہ مختصر زندگی میں ہم وہ تمام چیزیں پا لیں جن کو ہم پانا چاہتے ہیں۔ یہ چیزیں بلاشبہ ہم کو ملیں گی لیکن منزل پر پہنچ کر ملیں گی’ سفر کے درمیانی مرحلے میں وہ ہرگز ہم کو ملنے والی نہیں۔
جیساکہ معلوم ہے’ ہماری زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے۔ موت سے پہلے کا مرحلہ اور موت کے بعد کا مرحلہ۔ موت سے پہلے کا مرحلہ گویا حالت سفر کا مرحلہ ہے’ اور موت کے بعد کا مرحلہ گویا منزل پر پہنچنے کا مرحلہ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو جاننا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہر انسان کی زندگی کو بامعنی بناتی ہے’ جو ہر عورت اور مرد کو اس مقصد سے متعارف کراتی ہے جو اس کی زندگی کو پوری طرح بامعنی بنا دے جو اس کو اطمینان کا سرمایہ عطا کرے۔
زندگی کی یہ توجیہ اس سوال سے جڑی ہوئی ہے کہ موت کے بعد دوبارہ انسان زندہ ہوتا ہے۔ کیا موت کے بعد بھی اسی طرح زندگی ہے جس طرح موت سے پہلے ہم زندگی کا تجربہ کر رہے ہیں۔ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ اس سوال کا جواب ہم عین اسی سائنسی طریقے کے ذریعے جان سکتے ہیں جس سائنسی طریقے سے دوسری حقیقتوں کو جانا جاتا ہے۔
حقیقتوں کو جاننے کے معاملے میں سائنٹفک میتھڈ کیا ہے؟ وہ یہ نہیں ہے کہ جس بات کو جاننا ہے’ وہ اپنی کامل صورت میں سائنس دان کے سامنے آجائے۔ اگر یہ شرط ہو تو ساری حقیقتیں سائنسی طور پر غیرمعلوم رہ جائیں۔ علم کی ترقی رک جائے۔ حقائق کی نسبت سے انسان ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں پڑا رہے۔ کیوں کہ کوئی بھی حقیقت اس طرح علم میں نہیں آتی کہ وہ پہاڑ کی طرح مشہور چیز کے طور پر سامنے آجائے۔
اس کے بجائے جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مطالعے کے دوران میں سائنس دان کے سامنے ایک سراغ (clue) آتا ہے۔ اس سراغ پر غور کر کے وہ ایک ایسی حقیقت تک پہنچتا ہے جو پہلے اس کو معلوم نہ تھی۔ اس دنیا میں ہر حقیقت سراغ کی سطح پر دریافت ہوتی ہے۔ اس دنیا میں سراغ ہی تمام حقیقتوں کی دریافت کی کنجی ہے۔
مثلاً سائنس میں اس کو بطور حقیقت مان لیا گیا ہے کہ تیرہ بلین سال پہلے بِگ بینگ کا واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح سائنس میں یہ مان لیا گیا ہے کہ زمین پر حیاتیاتی ارتقا کا واقعہ ہوا۔ اسی طرح سائنس میں یہ مان لیا گیا ہے کہ ہماری کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات (expanding universe ) ہے ’ وغیرہ۔
اس قسم کی حقیقتیں جو آج مسلّم حقیقت بن چکی ہیں وہ اس طرح حقیقت نہیں بنیں کہ انسان نے اس کو مشاہداتی سطح پر دیکھ لیا۔ اس کے بجائے جو کچھ ہوا وہ صرف یہ تھا کہ ایک سراغ انسان کے علم میں آیا۔ پھر اس سراغ پر غور کرکے انسانی علم ایک بڑی حقیقت تک پہنچا۔ یہ بڑی حقیقت اگرچہ دکھائی نہیں دے رہی تھی مگر وہ موجود تھی۔ اس کی موجودگی کو بطور ایک واقعہ کے تسلیم کرلیا گیا۔ اگرچہ اس سلسلے میں سراغ کے سوا کوئی اور چیز انسان کے مشاہدے میں نہیں آئی تھی۔
یہی معاملہ موت کے بعد زندگی کا یا اگلے دورِ حیات کا ہے۔ اگلے دورِ حیات کے بارے میں بھی واضح سراغ موجود ہیں۔ سراغ پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو وہ ہمیں اس یقین تک پہنچاتے ہیں کہ موت کے بعد بھی زندگی ہے۔ موت کے بعد بھی اسی طرح ایک اور مرحلہ حیات ہے جو لازمی طور پر ہر ایک کے سامنے پیش آئے گا۔
وہ سراغ کیا ہے’ مثلاً انسان کا جسم بے شمار خلیوں (cells) پر مبنی ہے۔ یہ خلیے ہر وقت ٹوٹتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا نظامِ ہضم یہ کام کرتا ہے کہ جو کچھ ہم کھاتے ہیں وہ خلیوں کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ہمارا نظام ہضم گویا خلیہ ساز فیکٹری ہے۔ اس نظام کے تحت یہ ہوتا ہے کہ عملاً تقریباً ہر دس سال میں ہمارا پورا جسم بدل جاتا ہے۔ نئے خلیوں کے ساتھ مکمل طور پر ایک نیا جسم وجود میں آجاتا ہے۔
گویا کہ ہمارے جسم پر بار بار ‘‘موت’’ طاری ہوتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا ذہنی وجود نہیں مرا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ذہنی وجود ہی انسان کا اصل وجود ہے۔ یہ ذہنی وجود بظاہر جسمانی موت کے باوجود یکساں طور پر باقی رہتا ہے۔ یہ ایک سراغ ہے جو بتاتا ہے کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ابدی مخلوق ہے۔ اس کے ابدی وجود کا تھوڑا سا حصہ قبل از موت مرحلہ حیات میں ہے’ اور اس کا بقیہ پورا حصہ بعد از موت مرحلہ حیات ہیں۔
اسی طرح اس معاملے کا ایک سراغ یہ ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طور پر عدل (justice) کا تصور پایا جاتا ہے۔ انسان اپنے فطری ذہن کے تحت’ یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عدل قائم ہو۔ یعنی اچھا عمل کرنے والوں کو اچھا انجام ملے اور برا عمل کرنے والوں کو برا انجام ملے۔ اس سراغ کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو انسانی ذہن اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ موجودہ مرحلہ حیات چونکہ اپنی مدت کے اعتبار سے نہایت ناکافی ہے۔ اس لیے بعد کے مرحلہ حیات میں عدل کے تقاضے کی تکمیل ہو۔ بعد کے مرحلہ حیات میں ہر انسان کو اس کے کیے کے مطابق’ جزا یا سزاملے۔
اسی طرح اس معاملے کا ایک سراغ یہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پر معیاری دنیا (perfect world) چاہتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا کی محدودیت (limitations) کی بنا پر یہاں مطلوب معیاری دنیا بن نہیں پاتی۔ اس سراغ پر غور کرتے ہوئے انسانی ذہن اس دریافت تک پہنچتا ہے کہ جو معیاری دنیا قبل از موت مرحلہ حیات میں محدود حالات کی بنا پر حاصل نہ ہوسکی۔ وہ بعد از موت مرحلہ حیات میں اپنی مطلوب معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
اسی طرح اس معاملے میں ایک سراغ یہ ہے کہ انسان استثنائی طور پر ایک ایسی مخلوق ہے جو کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ کسی بھی دوسرے حیوان یا غیر حیوان کے اندر کل کا تصور موجود نہیں۔ اس سراغ کو لے کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ موجودہ محدود حالات میں آدمی اپنی جس مطلوب دنیا کو نہیں پاتا اس کو وہ موت کے بعد آنے والے لامحدود مرحلہ حیات میں پا لے گا۔ یہ دنیا وہ ہوگی جہاں آدمی اپنے لیے پوری طرح فل فلیمنٹ کا تجربہ کرسکے گا۔
موت کے بعد معیاری دنیا بننا ویسا ہی ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جیساکہ دوسرے ثابت شدہ واقعات۔ تاہم مستقبل کی اس معیاری دنیا میں ہر ایک کو خود بخود جگہ نہیں مل جائے گی بلکہ صرف وہ عورت اور مرد اس معیاری دنیا میں جگہ پائیں گے جوموت کے پہلے کی اس دنیا میں اس کا استحقاق ثابت کرسکیں۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ ہر انعام مستحقین کو ملتا ہے۔ غیر مستحقین کے لیے کبھی کوئی بڑا انعام مقدر نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے اپنے آپ کو اس معیاری دنیا کا مستحق بنانے کا فارمولا کیا ہے۔ وہ فارمولا صرف ایک ہے’ اور وہ ہے اپنی روح کی تطہیر (purification of soul)
جو آدمی مستقبل کی اس معیاری دنیا میں اپنے لیے جگہ حاصل کرنا چاہتا ہو اس کو آج کی اس دنیا میں یہ ثبوت دینا ہے کہ اس نے دکھائی دینے والی دنیا (seen world) میں نہ دکھائی دینے والی دنیا (unseen world ) کو اپنی بصیرت سے جانا۔ اس نے کنفیوژن کے جنگل میں سچائی کو دریافت کیا۔ اس نے منفی تجربات کے ماحول میں اپنے آپ کو مثبت رویے پر قائم رکھا۔ اس نے اپنے آپ کو حیوانی سطح سے اُوپر اٹھایا اور انسانیت کی اعلیٰ سطح پر کھڑا کیا۔ اس نے اپنے آپ کو بے اعترافی’ بددیانتی’ سرکشی’ خودغرضی’ خواہش پرستی اور انانیت جیسی پست صفات سے بچایا۔ جو پورے دل اور جان کے ساتھ جنت کا طالب بنا۔ خلاصہ یہ کہ جس نے خدا رخی زندگی (God oriented life)کو پوری طرح اختیار کیا۔
یہ صفات رکھنے والے عورت اور مرد خلاصہ انسانیت ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مستقبل کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے لیے منتخب کیے جائیں گے۔ جو لوگ اس معیار پر پورے نہ اُتریں ان کو رد کر کے کائناتی کوڑا خانے میں ڈال دیا جائے گا۔ جہاں وہ ہمیشہ کے لیے حسرت کی زندگی گزاریں گے۔ وہ کبھی اس ذلت اور حسرت کی زندگی سے نجات نہ پاسکیں گے۔