من الظلمت الی النور
میں کیسے مسلمان ہوئی
محترمہ شہناز
سوال : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟
جواب : میں جموں شہر کے ایک پڑھے لکھے ملہوترا خاندان میں پیدا ہوئی میری پیدائش ۴ مئی ۱۹۷۵ ء کو ہوئی میرے والد کل دیپ ملہوترا کامرس کے لیکچرر تھے ، میری والدہ بہت شریف اور مصیبت زدہ خاتون تھیں کم عمری ہی سے وہ بیمار ہوگئی تھیں اور قسمت کی بات یہ ہے کہ شادی کے بعد بھی ان کو سکھ چین نہیں مل سکا۔ میری عمر ۵ یا ۶ سال کی ہوگی کہ انکا انتقال ہوگیا۔ میرے ایک بڑے بھائی تھے سندیپ ملہوترا انکی عمر ۱۰ سال تھی، ایک مرتبہ میری والدہ مجھے دریا میں ڈالنے کے لئے لے گئیں ، ایک آدمی نے انکو دریا کے پل پر کھڑا دیکھا تو وجہ معلوم کی وہ بولیں میں اپنی اس بچی کو دریا میں ڈالنے آئی ہوں کیونکہ اگر میری طرح اس کا بھی مقدر خراب ہوا تو ساری زندگی مصیبت بھرے گی، اس سے تو اچھاہے ابھی مر جائے۔ اس آدمی نے انکی خوشامد کی اور سمجھایا کہ اس بچی کی تقدیر تو بہت اچھی ہوگی تم اس کی فکر نہ کرو اور اس کو دریا میں نہ ڈالو اس نے نہ جانے کس ہمدردی میں اس نے یہ الفاظ کہے تھے کہ میری والدہ نے مجھے دریا میں ڈالنے کا ارادہ ملتوی کردیا ، مجھے گھر لے آئی اور ایک سال بعد انکا انتقال ہو گیا۔ میری والدہ کے انتقال کے ۶ ماہ بعدمیرے والد نے دوسری شادی کرلی سوتیلی ماں (اللہ تعالیٰ ان کے احسان کا بدلہ عطا فرمائے) ان کا برتاؤ میرے ساتھ بڑا سخت تھامجھ پر کام کا بہت بوجھ رہتا تھا، سخت حالات میں میں نے میٹرک پاس کیا۔ میرا گھر میرے لئے جیل بلکہ جہنم کی طرح تھا، میں گھر کے مظالم سے اس قدر تنگ آگئی کہ کئی بار خود کشی کی نا کام کوشش کی۔ ایک بار نیند کی بہت ساری گولیاں کھالیں ، کئی بار پہاڑ پر چڑھ کر گرنے کی کوشش کی مگر میرے کریم اللہ نے مجھے نوازنا تھا اس لئے خود کشی کی کو ئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ میری سوتیلی والدہ ہمارے والد صاحب کو میرے خلاف شکایت لگا کر بھڑکاتی رہتیں وہ مجھ پر ترس کھانے کے بجائے مجھے ڈانٹا کرتے ، میں مندروں میں جاتی، مزاروں پر جاتی اور بجائے پوجا کے میں یہ سوال کرتی کہ مجھے بتاؤ میری اندھیری رات کی صبح کب ہوگی، ہوگی بھی یا نہیں؟ مگر وہ بے جان میرے سوال کا جواب کیا دیتے، کاش میں قرآن کی اس صدا کو جانتی تو ان بے جان چیزوں سے منھ نہ مارتی۔ میں آج قرآن حکیم پڑھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ قرآن کی یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی ۔
اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے اور اگر سنتے تو تم کو جواب نہیں دیتے اور قیامت کے دن منکر ہوں گے تمہارے شریک ٹھہرانے کے اور کوئی خبر رکھنے والے کی طرح نہیں بتلائے گا۔(سورۃ فاطر : ۱۴)
ایک روز میں نے ایک قبر میں مردے کو دفن ہوتے دیکھا تو میں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ میری قبر ہی بنانامجھے جلانا نہیں۔ میری سوتیلی ماں روز مجھے ڈانٹنے اور والد صاحب سے ڈنٹوانے کے لئے نئی نئی باتیں نکالتی تھیں۔انہوں نے ایک روز مجھ پر پرس سے پانچ سو روپے نکالنے کا الزام لگایا، میری برداشت کی حد ہوگئی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ انہوں نے آج مجھ پر چوری کا الزام لگایا ہے میرا وجود انکو گوارا نہیں نہ جانے کل کوئی اس سے بڑا الزام مجھ پر لگادیں۔ میرے پاس ۱۰۰ ؍روپے تھے چند جوڑی کپڑے اور وہ روپے لے کر میں نکل پڑی اور گھر ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟
جواب : میں نے اصل میں وہی بتانے کے لئے بات شروع کی ہے ۔ میری سوتیلی ماں کا احسان ہے کہ ان کے مظالم ہی میری ہدایت کا سبب بنے۔ میرے کریم اور ہادی رب کے قربان جس نے ظلم کے اندھیروں سے نکال کر مجھ پر رحمت اور ہدایت کی بارش فرمائی ۔میں گھر سے نکلی تو ایک کپڑے بیگ میرے ہاتھ میں تھا، ہمارا گھر ایک تنگ گلی میں تھا میں گلی سے نکل رہی تھی میرے والد کالج سے آگئے وہ میرے برابر سے نکلے مگر انکی نگاہ مجھ پر نہیں پڑی ورنہ وہ مجھے اس طرح سامان کے ساتھ جاتا دیکھ کر واپس لے جاتے اور نہ جانے کیا کرتے ۔میں ریلوے اسٹیشن پہنچی گھر سے باہر کبھی نکلی نہیں تھی میں نے دہلی کا ٹکٹ لیا اور دہلی کی ٹرین میں بیٹھ گئی، مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کس ڈبہ میں بیٹھنا چاہئے ، فوجیوں کے ایک ڈبہ میں چڑھ گئی ان بیچاروں نے لڑکی سمجھ کر جگہ دے دی ۔گاڑی چلی ریزرویشن ٹی ٹی آیا فوجیوں کے ڈبے میں مجھے دیکھا تو ٹکٹ معلوم کرنے لگا برابر میں بیٹھے فوجی نے کہا یہ میری بہن ہے۔ یہ میرے اللہ کی مدد تھی اس فوجی نے بہن بنانے کے بعد سارے راستہ میرا بہن کی طرح خیال رکھا اوپر کی برتھ خالی کرکے اس پر سونے کو کہا اور بار بار تسلی دیتا رہا بہن تم فکر نہ کرو۔
میں آرام کے ساتھ دہلی پہنچی اسٹیشن سے باہر نکلی تو سامنے سی ٹی بس آتی دکھائی دی میں اس پر چڑھ گئی میری سیٹ کے آگے دونوجوان لڑکے بیٹھے تھے، جو آپس میں باتیں کررہے تھے، ان کی باتوں سے مجھے شرافت کا احساس ہوا میں نے ان سے کہا بھیا مجھے یہاں دہلی میں کوئی گرلز ہوسٹل بتادو انہوں نے مجھ سے میرا پتہ معلوم کیا میں نے اپنا پتہ بتادیا وہ میری مشکل کو بھانپ گئے انہوں نے کہا گرلز ہوسٹل دور ہے آپ ایسا کریں کہ ہماری بہن سے مل لیں تھوڑی دیر و ہاں آرام کریں وہ پڑھی لکھی ہیں، آپ کو گرلز ہوسٹل خود پہنچادیں گی۔ ان کے گھر میں کوئی مرد بھی نہیں ہے مجھے ان کی شرافت کی وجہ سے اطمینان ہوگیا۔ وہ مجھے ساوتھ ایکسٹینشن اپنی بہن کے یہاں لے گئے ان کی بہن نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ناشتہ وغیرہ کرایا ایک دو روز اطمینان سے رہنے کو کہا اور اطمینان دلایا کہ میں خود آپکو اچھے ہوسٹل میں لے چلوں گی۔ ان کی بہن نے مجھے اپنے ایک عزیز عشرت صاحب سے ملنے کو کہا کہ ان سے ملنے کے بعد ہی میں ہوسٹل وغیرہ کا فیصلہ کروں ۔ میں عشرت صاحب کے آفس گئی انہوں نے کچھ دیر بات کرکے اپنے آفس کی ایک عورت کو بلا کر انکے ساتھ اپنی بیوہ بہن کے پاس بھیج دیا، ان کے ایک عزیز عارف صاحب تھے جو ان کے یہاں آتے تھے، انہوں نے مجھے مورتی پوجا کے بارے میں سمجھایا، ان کی باتیں میری عقل کو بہت بھائیں اور مجھے مورتی پوجا بڑی حماقت لگنے لگی۔ ایک کے بعدایک کئی مسلمانوں کے معاملات ان کی شرافت اور ایک جوان لڑکی کے ساتھ محتاط شرافت اورکچھ کچھ ااسلامی تعلیمات کے تعارف نے مجھے اسلا م کی طرف راغب کیا اور ایک روز میں نے عارف صاحب سے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ ایمان ہر انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے مگر تم پریشان حال ہو ہمارے یہاں رہ رہی ہو کسی مجبوری یا ہماری تھوڑی سی ہمدردی کا بدلہ دینے کے لئے اسلام قبول کرنا ٹھیک نہیں لیکن سوچ سمجھ کر اپنی سب سے بڑی ضررورت جان کر اسلام قبول کرنا چاہتی ہو تو اس سے زیادہ ہمارے لئے خوشی کی بات اور کیا ہوگی کہ ہماری ایک بہن ہمیشہ ہمیشہ کی دوزخ کی آگ سے بچ جائے، میں نے بہت اطمینان اور خوشی سے اسلام قبول کرنے کو کہا انہوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا میں نے اسلامی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے مجھے میوات بھیج دیا۔
سوال : میوات کے دیہاتی ماحول میں تو آپ کو بڑا عجیب سا لگا ہوگا؟
جواب : ابتداء میں ذراپریشانی ہوئی مگر بعد میں مانوس ہوگئی اسلامی تعلیم کے سلسلہ میں میرا وہاں رہنا بہت مفید ثابت ہوا، نماز وغیرہ الحمدللہ اچھی طرح یاد ہوگئی نو دس مہینہ میں کچھ قر آن شریف اور اردو پڑھنا بھی آگئی ۔
سوال : مولانا جاوید اشرف ندوی سے آپ کی شادی کس طرح ہوئی؟
جواب : میوات سے دہلی آئی تو عارف صاحب نے بارہ بنکی کے ایک لڑکے سے میرا رشتہ کردیا وہ لڑکا دیندار نہیں تھا، میرے لئے اب دین ہی سب کچھ تھا میں نے ڈرتے ڈرتے عارف صاحب سے کہا کہ میرے لئے کسی دیندار لڑکے کو تلاش کریں، چاہے بالکل فقیر ہی کیوں نہ ہو، میری خواہش پر انہوں نے وہ رشتہ رد کردیا ،عارف صاحب نے اپنی لڑکی کے رشتہ کے لئے قومی آواز میں اشتہار دیا تھا وہ اشتہار مولاناجاوید اشرف ندوی صاحب نے دیکھا انکی شادی ہوگئی تھی مگر بد قسمتی سے بلکہ میری خوش قسمتی سے وہ شادی نِبھ نہیں سکی اور طلاق ہوگئی ان کے والدین کا انتقال ہوگیا تھا، اشتہار دیکھا تو بھائیوں کی مرضی کے بغیر عارف صاحب کے یہاں رشتہ کے لئے پہنچے شاید عارف صاحب نے انکی دوسری شادی کی وجہ سے یا میری محبت میں، یا اپنی بیٹی سے جوڑ نہ بیٹھنے کی وجہ سے میرے بارے میں بتایا اور مجھ سے شادی کرنے کو کہا اس دوران میں نے اپنی آپ بیتی اور قبول اسلام کی کہانی ’’ کڑواسچ ‘‘ کتاب کے طور پر لکھ لی تھی عارف صاحب نے مولانا کو وہ کتاب دکھائی، مولانا کتاب دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور ملاقات کی خواہش ظاہرکی ملاقات ہوئی اور نسبت طے ہوگئی چند روز کے بعد ایک دن ظہر کی نماز میں میرا نکاح ہوگیا، مولانا مجھے اپنے گھر نہیں لے جاسکتے تھے، خاندان اور برادری کی مخالفت کا خوف تھا، اس لئے لکھنو لے گئے پھر اپنے ایک اورساتھی مفتی عبدالحمید صاحب کے پاس بمبئی لے گئے ان کے یہاں ایک سال رکھا، مفتی صاحب اور انکی والدہ نے میرے ساتھ ایسا برتاؤ کیا کہ حقیقی ماں اور بھائی بھی نہیں کر سکتے ۔
سوال : آپ مدینہ منورہ کس طرح آئیں؟
جواب : میرے اللہ کے کرم کی ہوا چلی تھی کہ کر م پہ کرم ہوتا گیا مولانا صاحب (مولانا جاوید اشرف ندوی) کا مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا مولانا نے کسی طرح مجھے عمرہ کے ویزے پریہاں بلالیا اللہ تعالیٰ نے مجھے مدینہ کی محبت عطا کی تھی میرا دل واپسی کو نہ چاہا اور سالوں تک غیر قانونی طور پر یہاں رہی میرے تین بچے اللہ نے مجھے مدینہ منورہ میں عطا کیے، مدینہ کی گلیوں میں کھوجانے کا مزہ میرے کریم اللہ نے مجھے چکھایا مولانا کی شکل میں مجھے اللہ تعالیٰ نے انتہائی نرم خو، حلیم، سلیم الطبع اور کریم النفس شوہر عطا کیا اس پر مدینہ منورہ کی رہائش عطا کرکے میرے سارے غم بھلادئے۔
سوال : حضرت مفتی عاشق الٰہی بلند شہریؒ کے گھرانے سے آپ کا تعلق کیسے ہوا؟
جواب : ہمارے شوہر مولانا صاحب میں شرم بہت ہے کسی بڑے آدمی یا عالم سے ملتے ہوئے جھجکتے ہیں مجھے معلوم ہواکہ ہمارے یہاں کے بڑے عالم حضرت مفتی صاحب یہاں رہتے ہیں میں ان کے گھر گئی اور حضرت مفتی صاحب کی بیوی(امّی جان) سے ملی پہلی ملاقات کے میرے تعارف نے ان کو مجھ پر شفیق بنادیا انہوں نے حضرت مفتی صاحب سے میرا ذکر کیا مفتی صاحب پر غیر مسلموں میں دعوت کا بہت غلبہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ آپ کے ابی مولانا کلیم صاحب سے بہت تعلق رکھتے تھے انہوں نے ہمارے شوہر کو بلوایا اور دونوں نے مجھے اپنی بہن بنا لیا اور واقعی ماں باپ کی طرح میری سرپرستی فرمائی امی جان اب بھی ضعف کے باوجود میرے بچوں کے کپڑے اپنے ہاتھ سے سی کر پہناتی ہیں میں کسی کی دعوت کردوں تو کوئی چیز خود بنا کر لے آتی ہیں ، وہ مجھ سے میرے بچوں سے کس قدر محبت کرتی ہیں میں بیان نہیں کرسکتی حضرت مفتی صاحب میرے پورے خاندان سے حد درجہ محبت فرماتے تھے ، الحمدللہ حضرت کے گھر والے بیٹے بیٹیاں بھی مجھ سے بالکل بہنوں جیسا سلوک کرتے ہیں بلکہ سب بہنوں سے زیادہ میرا خیال کرتے ہیں۔
سوال : ہماری امی جان (دادی) بھی تو آپ کو بیٹی کہتی ہیں اور آپ کو بہت یاد کرتی ہیں ان سے آپ کا تعلق کس طرح ہوا؟
جواب : آپ کے ابی مولانا کلیم صاحب سے میرے شوہر مولانا جاوید صاحب کے کچھ تعلقات تھے ایک بار وہ والدہ کو لیکر عمرہ کے لئے آئے میں ان سے ملنے گئی اور مدینہ کا مکین ہونے کی وجہ سے کچھ ضیافت کی کوشش کی ان کو مجھ سے محبت ہوگئی، میں تم کو تجربے کی بات بتاتی ہوں، خدمت میں اللہ نے بڑی تاثیر رکھی ہے، آدمی اگر خدمت کا عادی ہو تو پتھر جیسے دل میں بھی جگہ بنا لیتا ہے، مجھے اپنے بڑوں کی خدمت کا پیدائشی شوق ہے۔ کسی بڑے کے کپڑے دھونے، اس کے سر پر مالش کرنے، یا پاؤں وغیرہ دبانے میں بہت مزہ آتا ہے۔بوڑھی عورتوں کو تو خدمت کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور بڑوں کا کیاذراسی دیر میں کلیجہ سے دعائیں دینے لگتے ہیں۔ اگر ذراسا آرام قربان کرکے آدمی کسی خدمت کرلے تو پھر ان دعاؤں سے دنیا اور آخرت بنتی ہے۔ میں نے بڑوں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر دیکھی ہے۔
سوال : مدینہ منورہ میں پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں میں نے سنا ہے آپ کا کوئی دور کا جاننے والا یا ملنے والا آجائے ایک پاؤں پر آپ اس کے لئے کھڑی ہوجاتی ہیں پانچ چھوٹے چھوٹے بچے اور آپ ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں کیا آپ تھکتی نہیں ہیں؟
جواب : میرے اللہ نے مجھے مدینہ منورہ کی سکونت کا شرف بخشا ہے، یہاں کے پانی اور فضاء میں اکرام ضیف اور مہمانوں کی خاطر داری رکھی ہے، ہم غیر اختیاری طور پر مجبور ہوتے ہیں کہ مدینہ کے مہمانوں کی خدمت اور ضیافت کا مزہ لیں۔ میرے دل میں آتا ہے کہ ہمارے رسولﷺ کے مہمان ہیں اور آپ ﷺ تک ہمارے حالات پہنچتے ہیں اپنے مہمانوں کی ضیافت سے آپ کس قدر خوش ہوتے ہوں گے۔ جب یہ بات ہو تو تھکن کا کیا مطلب، میری پیاری اس خیال سے بھی خوشی اور مزہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺ کے مہمانوں کی ضیافت اور خدمت کا شرف مل رہا ہے۔ میں تو بچوں کی خدمت بھی اللہ کا حکم سمجھ کر کرتی ہوں اور ٹیوشن اپنے شریف اور مسائل کے بوجھ تلے دبے ہوئے شوہر کا بوجھ کم کرنے کے لئے پڑھاتی ہوں۔ مجھے الحمدللہ اس نیت کی وجہ سے ہر کام میں مزہ آتا ہے، کرنے کے بعد فرحت ہوتی ہے، واقعی ہمارے دین نے ہمیں نیت کو خالص کرنے کا حکم دے کر احسان کیا ہے، نیت ٹھیک ہوتو ہر چیز میں مزہ ہے۔
سوال : سنا ہے آپ مدینہ منورہ سے جانا پسند نہیں کرتیںیہاں پرروزگاروغیرہ کے مسائل بھی بہت ہوئے اوردوسری جگہوں سے بلاوے بھی بہت آئے؟
جواب : اصل میں مدینہ جس نے دیکھ لیا وہ جنت کے علاوہ کہیں جانا چاہے ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ میری خواہش اور آخری تمنا ہے کہ بقیع پاک کی خاک مجھے مل جائے، تم بھی دعا کرنا (روتے ہوئے) میں یہاں کے کبوتروں کو دیکھتی ہوں تو دعا کرتی ہوں کہ یا اللہ آپ نے بقیع پاک کے دانے ان کو مقدر کردئیے میرے لئے اپنے نبی ﷺکے قدموں کی یہ خاک مقدر فرما دیجئے۔
سوال : آپ نے اپنے گھر والوں کی کچھ خیر خبر نہیں لی، انہوں نے آپ کو تلاش بھی نہیں کیا؟
جواب : شاید انہوں نے تو مجھے تلاش نہیں کیا، اصل میں انہوں نے تو یقین کر لیا تھا کہ میں نے خودکشی کرلی ہے۔ گذشتہ سال سے میرے والد اور بھائی سے میرا رابطہ ہوا ہے، یہاں مدینہ منورہ میں جموں کے ایک طالب علم پڑھتے تھے انہوں نے میرے والد کو میرا پتہ بتا دیا وہ بے چین ہوگئے میں ویزا لگوانے ہندوستان گئی تھی جب ہی جھجک کر بار بار ہاں اور نہ نہ کرکے ایک جگہ میری ان سے پرانی دہلی میں ملاقات ہوگئی۔ وہ بہت روئے اور جب میں نے سارے حالات بتائے تو وہ بہت نادم ہوئے، اب وہ مجھے دوسرے تیسرے روز فون کرتے ہیں۔مولانا جاوید اشرف اور میں نے ان کو اسلام کی دعوت بھی دی ہے انہوں نے بت پرستی چھوڑ دی ہے، ہم لوگوں نے آپ کے ابی مولانا کلیم صاحب سے درخواست کی ہے بلکہ انھوں نے خود ہی ان کا پتہ لیا ہے، انہوں نے اپنے ساتھیوں کو لگایا ہے اور امید دلائی ہے کہ وہ انشاء اللہ ضرور اسلام قبول کر لیں گے۔
سوال : آ پ کی سوتیلی والدہ حیات ہیں؟ ان سے بھی کوئی رابطہ کیا؟
جواب : ہاں وہ بھی زندہ ہیں ان سے بھی میں نے فون پر ایک بار بات کی وہ بہت معافی مانگ رہی تھیں، مگر میں اپنی قسمت کے بننے اور غم کے اندھیرے کی صبح ہونے میں سب سے بڑا احسان ان ہی کا مانتی ہوں کہ ان کے مظالم ہی میری ہدایت کا ذریعہ بنے، میں نے ملتزم پر اور ہر خاص موقع پر اپنے ایک بڑے محسن کی طرح ان کے لئے دعائیں کی ہیں، میرے اللہ کی عجیب شان کہ ان کے سارے مظالم مجھے آخری درجہ کے احسان لگتے ہیں، ان کے لئے میں بلک بلک کر ہدایت کی دعائیں کرتی ہوں۔ گذشتہ حج کے موقع پر عرفات میں میں نے سب سے زیادہ ان کے لئے ہدایت کی دعا مانگی ۔
سوال : بچوں کی تعلیم کے لئے آپ کا کیا ارادہ ہے ؟
جواب : یہاں سعودی عرب کے اسکولوں میں تربیت کا نظم بہت عجیب ہے، ہمارا ارادہ ہے کہ ہماراایک ایک بچہ داعی بنے اور دین کی خدمت کرے۔ الحمدللہ میں نے بھی حضرت مفتی عاشق الٰہی کی تفسیر ’’انوارالبیان‘‘ کا ہندی ترجمہ حضرت کی حیات میں شروع کیا تھا میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم کی یہ خدمت مجھ سے لے لے، اس لئے ہم لوگ مدرسہ سے زیادہ گھر پر انکی تعلیم و تربیت کی فکر میں ہیں۔
سوال : ارمغان کے واسطے سے آپ مسلمانوں کے لئے کچھ پیغام دیناچاہیں گی؟
جواب : میں درخواست ہی کرسکتی ہوں کہ وہ اپنا منصب پہچانیں اور غیر مسلموں سے رابطہ قائم کریں اور ساتھ ہی اپنے کردار کو اسلام سے آراستہ کریں اور اپنے آپ کو مجسم دعوت بنائیں اوراپنے عمل سے حضور اقدسﷺکا تعارف کرائیں،اگر ہمارے نبی ﷺ کا اسوہ لوگوں کے سامنے آجائے تو لوگ ایکٹروں، لیڈروں، کھلاڑیوں کو آئیڈیل بنانے کے بجائے صرف صرف ہمارے نبی کو آئیڈیل بنائیں گے، اس سے زیادہ پر کشش کوئی اور کردار ہو ہی نہیں سکتا دوسرے یہ کہ ریڈیو، ٹی ،وی اور میڈیا کے واسطے سے(حدود شریعت میں رہ کر) اسلام لوگوں تک پہنچایا جائے اور اس کے لئے تحریک چلائی جائے۔
دوسری درخواست یہ ہے کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اپنے دین کی دعوت کے لئے قبول کرلیں اور مجھ سے کچھ کام لے لیں بس میری یہی حسرت ہے کہ میں اور میری نسلیں دین کی خدمت خصوصاََ دین کی دعوت کے لئے قبول ہوجائیں، ہمائے بعض متعلقین کہتے ہیں کہ تم لوگ اتنے دنوں سے مدینہ میں رہتے ہو گھر بھی نہیں بنایا ؟ میں اکثر ان سے کہتی ہوں کہ ہم مدینہ میں بقیع پاک کا پیوند بننے کے لئے پڑے ہیں، دنیا بسانے کے لئے تو ہم پیرس جاتے یا نیویارک جاتے یہ ان کے جواب کے لئے کہتی ہوں، ورنہ میرا خیال ہے کہ دنیا کی زندگی کا مزہ اور راحت بھی مدینہ منورہ کی زندگی میں ہے،پیرس کے لوگوں کو اس کی خاک بھی نصیب نہ ہوگی۔
***
اپنی ماں کے بہتے آنسو دیکھ کے اک معصوم سا لڑکا۔۔اپنی ماں کو چوم کے بولاپیاری ماں تو کیوں روتی ہے؟۔۔ماں نے اس کا ماتھا چوما ،گلے لگایا،اس کے بالوں کو سہلایا۔۔گہری سوچ میں کھو کر بولی۔۔’’کیونکہ میں اک عورت ہوں‘‘۔۔بیٹا بولا،میں تو کچھ بھی سمجھ نہ پایاماں مجھ کو کْھل کر سمجھاؤ۔۔اس کو بھینچ کے ماں یہ بولی’’بیٹا تم نہ سمجھ سکو گے‘‘۔۔شام ہوئی تو چھوٹا لڑکا،باپ کے پہلو میں جا بیٹھا۔۔باپ سے پوچھا’’ماں اکثر کیوں رو دیتی ہے‘‘۔۔باپ نے اس کو غور سے دیکھا ،کچھ چکرایا،پھر بیٹے کو یہ سمجھایا’’یہ عادت ہے ہر عورت کی،دل کی بات کبھی نہ کہنا۔۔فارغ بیٹھ کے روتے رہنا‘‘۔۔باپ کا مْبلغ علم تھا اتنا ،بیٹے کو بتلاتا کیا۔۔اس کے سوا سمجھاتا کیا۔۔جب بچے نے ہوش سنبھالا۔۔علم نے اس کے ذہن و دل کو خوب اجالا۔۔اس نے اپنے رب سے پوچھا۔۔میرے مالک میرے خالق، آج مجھے اک بات بتا دے ۔۔الجھن سی ہے اک سلجھا دے ۔۔اتنی جلدی اتنی جھٹ پٹ ہر عورت کیوں رو دیتی ہے۔۔دیکھ کے اس کی یہ حیرانی،بھولے سے من کی ویرانی۔۔پیار خدا کو اس پر آیا،اس کو یہ نکتہ سمجھایا ۔۔عورت کی تخلیق کا لمحہ خاص بہت تھا۔۔مرد کو سب کچھ دے بیٹھا تھا پھر بھی میرے پاس بہت تھا۔۔میں نے چاہا عورت کو کچھ خاص کروں میں۔۔چہرہ مقناطیسی رکھوں لیکن دل میں یاس بھروں میں۔۔میں نے اس کے کاندھوں کو مضبوط بنایا۔۔کیونکہ اس کو بوجھ بہت سے سہنے تھے۔۔اور پھر ان کو نرم بھی رکھا۔۔کیونکہ ان پر سر کو رکھ کربچوں اور شوہرنے دکھڑے کہنے تھے۔۔اس کو ایسی طاقت بخشی ہر آندھی طوفان کے آگے وہ ڈٹ جائے ۔۔پر دل اتنا نازک رکھا تیکھے لفظ سے جو کٹ جائے ۔۔اس کے دل کو پیار سے بھر کر گہرائی اوروسعت دے دی ۔۔پھولوں جیسا نازک رکھا پھر بھی کافی قوت دے دی ۔۔تا وہ اپنے پیٹ جنوں کے سرد رویوں کو سہہ جائے ۔۔ان راہوں پر چلتی جائے جن پر کوئی چل نہ پائے ۔۔بچوں کی گستاخی جھیلے ،پیار کا امرت بانٹے ۔۔اپنی روح پہ جھیل سکے فقروں کے تپتے چانٹے ۔۔شوہر کی بے مہری بھول کے ہر پل اس کو چاہے ۔۔اس کی پردہ پوشی کر کے زخم پہ رکھے پھاہے ۔۔اتنا بوجھل جیون اس کو دے کر میں نے سوچا۔۔نازک سی یہ ڈالی اتنے بوجھ سے ٹوٹ نہ جائے۔۔اس کے نازک کاندھوں پر جب رکھا اتنا بار۔۔اس کی آنکھوں میں رکھ دی پھر اشکوں کی منجدھار۔۔اس کو فیاضی سے میں نے بخشی یہ سوغات۔۔تا وہ دیپ جلا کر کاٹے غم کی کالی رات۔۔غم کی بھاپ بھرے جب دل میں یہ روزن کھل جائے۔۔رو کر اس کے دل کی تلخی پل بھر میں دھل جائے جائے۔۔اس کے سندر مکھڑے پھر روپ وہی لوٹ آئے۔۔عرشی بے حس دنیا کو جو رب کی یاد دلائے۔۔زبیر ارشد عرشی