وقت ایک فنا ہونے والی چیز ہے۔ انسان کو اس کی فراہمی نہایت سُست روی اور بہت تھوڑی مقدار میں ہوتی ہے لیکن اس کا استعمال انتہائی زیادہ اور تیزرفتاری سے ہوتا ہے۔ بظاہر تو یہ مفت میں ملنے والی چیز ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی مول نہیں۔ یہ شاید دنیا کی واحد چیز ہے جس کو اسٹور کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہاں تک کہ اس کو محفوظ کرنے کا بھی ابھی تک کوئی تصور وجود میں نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا کوئی نعم البدل نہیں اور نہ ہی کوئی دوسری شے اس کی جگہ لے سکتی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام کرنے کے لیے ہمیں وقت ہی کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ وقت کو بہتر سے بہتر انداز میں کس طرح گزارا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ایک بار وقت کا درست استعمال کرنا جان جائیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ زندگی میں بے شمار فوائد حاصل نہ کرسکیں’ مثلاً:
۱- آپ اپنے لیے پہلے سے زیادہ وقت بچا سکیں گے۔
۲- آپ وقت پر اپنے اہداف حاصل کرسکیں گے۔
۳- آپ پہلے سے کہیں زیادہ سرگرم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی بھی بڑھا لیں گے۔
۴- آپ کو وقت کی تنگی اور کمی کا احساس بھی کم ہوگا۔
۵- آپ ذہنی طور پر زیادہ پُرسکون رہیں گے۔
یہ تمام چیزیں آپ کو اپنی منزل کی نشاندہی کرنے میں معاونت کریں گی۔ آپ زیادہ محنت’ دلجمعی اور لگن سے اپنے اہداف کی طرف بڑھیں گے۔ آپ کے لیے کامیابیوں اور مسرتوں کا حصول زیادہ آسان ہوجائے گا۔
آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کا وقت کن سرگرمیوں کے تحت گزرتا ہے؟ ایک عام اندازے کے مطابق ایک شہری اپنی زندگی کے ۲۰سال صرف سو کر گزار دیتا ہے۔ ۱۰سال پیسہ کمانے میں صرف کرتا ہے۔ ۴ سال کھانا کھاتے گزارتا ہے اور ایک ماہ ٹریفک کے اشاروں کی تبدیلی کے انتظار کی نذر کردیتا ہے۔ ۸ دن اس کے جوتوں کے تسمے باندھتے اور کھولتے گزرتے ہیں۔ تیس دن ٹیلی فون ڈائل کرتے گزارتا ہے اور تقریباً ۳ ماہ دانتوں کو برش کرتے صرف ہوتے ہیں جب کہ ایک عام عورت اپنی زندگی کے ۵ سال میک اَپ کرنے اور اتارنے میں گزار دیتی ہے اور اس سے بھی زیادہ وقت اس کا اپنی سہیلیوں سے گپ شپ کی نذر ہوجاتا ہے۔ ٹائم مینجمنٹ کے ماہرین کے خیال میں زندگی کے ۴ مختلف حلقے ہیں جن کے اندر ہم اپنا وقت گزارتے ہیں۔ پہلا حلقہ اپنی ذات کا ’ دوسرا معاشی تگ و دو کا’ تیسرا خاندان کا’ جب کہ چوتھا حلقہ سماج کا ہے۔
اب ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ کون سا حلقہ ہمارا وقت ضائع کرنے کا باعث ہے۔ ماہرین نے انھیں مختلف اقسام میں بیان کیا ہے: پہلی قسم وقت ٹریپ کرنے والوں کی’ دوسری وقت ضائع کرنے والوں کی’ تیسری وقت چوری کرنے والوں کی’ چوتھی وقت پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی جب کہ پانچویں اور آخری قسم وقت کے دشمنوں کی ہے۔
وقت کو ٹریپ کرنے والے:
وقت کو ٹریپ کرنا ایک فن کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے خود کو کام میں مصروف رہنے کا تاثر دیا جاتا ہے۔ بظاہر تو ایسے افراد کام میں مگن دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کام نہیں کر رہے بلکہ صرف وقت گزاری کر رہے ہیں۔
وقت ضائع کرنے والے:
اس قسم کے افراد وقت کو بغیر سوچے سمجھے گزارتے ہیں۔ ان میں اپنے کاموں کو ترتیب و توازن سے سرانجام دینے کا قطعی کوئی رجحان نہیں ہوتا اور نہ وقت کے درست استعمال کے بارے میں سوچتے ہیں۔ انھیں وقت کی قدروقیمت کا اندازہ کرنے کی کبھی فرصت نہیں ملتی یا وہ وقت پر غور کرنے کو درست ہی نہیں سمجھتے۔
وقت چوری کرنے والے:
اس قسم کے افراد اجازت لیے بغیر دوسروں کی مصروفیات میں مخل ہوتے ہیں۔ انھیں آپ کے اور اپنے قیمتی وقت کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ غیرضروری فون کا لیں کرنا اور طویل گفتگو کرنا دوستی کی آڑ میں اپنا حق سمجھتے ہیں۔
وقت پر ڈاکہ ڈالنے والے:
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایمرجنسی کی صورت میں دوسروں کا کوئی جواز تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ وہ تعلقات میں بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ انھیں وقت کے ڈاکو کہا جاسکتا ہے۔ یہ اپنے عزیزوں اور دوستوں سے اس قسم کے جملے ادا کرتے ہیں۔ ‘‘تمھیں میرے ساتھ ہر صورت جانا ہوگا! میں انکار نہ سنوں! تم مجھے نہیں انکار کرو گے؟ وغیرہ وغیرہ’’۔
ٹائم مینجمنٹ کے ایکسپرٹ کے مطابق ۱۲،ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو وقت کی قدرشناسی سے دُور رکھتی ہیں اور اسے وقت کی بہتر منصوبہ بندی نہیں کرنے دیتیں۔ جس فرد میں یہ چیزیں ہوں گی ’ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شخص وقت کا درست استعمال نہیں کر رہا اور اس کی زندگی عدم تواز ن کا شکار ہے۔ ایسے شخص کو یہ جان لینا چاہیے کہ اسے اپنے طرزِزندگی پر نظرثانی کی ضرورت ہے بلکہ اسے اپنے معمولات ہرصورت میں بدلنا ہوں گے۔
۱- کسی ضروری کام کو نمٹانے کے لیے وقت نہ مل رہا ہو۔
۲- کسی اہم کام کے بجائے فوری نوعیت کے کام پر زیادہ وقت صرف کرتا ہو۔
۳- کوئی روزانہ دفتر دیر تک رُکنے کا عادی ہو۔
۴- کسی کو اپنا پیپرورک کرنے کے لیے کبھی کبھار ہی وقت ملتا ہو۔
۵- گھر کا کوئی نہ کوئی کام نامکمل رہنے کا احساس ہوتا رہے۔
۶- کوئی اپنا زیادہ سے زیاہ وقت دوسروں کے کام کرنے میں گزار دیتا ہو۔
۷- کسی کو ہر وقت یہ احساس ہو کہ فلاں کام اس کے بغیر نہیں ہوسکے گا۔
۸- کسی کو بہت ساری میٹنگوں میں شرکت کرنا ضروری ہو۔
۹- دوسروں کو انکار کرنا جسے نہ آتا ہو۔
۱۰- کسی سے اکثر پوچھتا ہے کہ وہ اپنا وقت کس طرح گزارتا ہے۔
۱۱- ہر وقت دباؤ محسوس کر تا ہو’ پریشان رہتا ہو اور وقت کے انتہائی کم ہونے کا احساس رہتا ہو۔
۱۲- کبھی کبھار ہی وہ اپنا کام وقت پر سرانجام دینے میں کامیاب ہوتا ہو۔
آپ اپنا جائزہ لیں اور اگر آپ کے ساتھ اس قسم کے معاملات ہیں تو یقینا آپ کو معمولاتِ زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی۔ آپ دیکھیں کہ کون سی چیزیں ہیں جو وقت کے ضیاع کا سبب بن رہی ہیں۔ پہلے ان کی اپنے تئیں نشاندہی کریں’ اس کے لیے درج ذیل سوالنامہ پر غور کریں آپ کو اس سے مزید مدد ملے گی۔
وقت کی منصوبہ بندی کرنے والے ماہرین کے خیال میں وقت کی قدرشناسی اور اس کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ وقت کے ضیاع میں سب سے اہم کردار آپ کو اپنا ہوتا ہے۔ دوسرے اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ وقت پر ڈکیتی مارنے والوں کا بھی اتنا قصور نہیں ہوتا۔ اس کا موقع آپ انھیں خود دیتے ہیں۔ ماحول یا دوسروں کو اس کا موردِالزام ٹھہرانا بھی قطعی درست نہیں۔ آپ چاہیں تو ایسا نظام تشکیل دے سکتے ہیں اور ان عوامل کو دُور کرسکتے ہیں جو وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنا خود احتساب کریں۔
اپنے جوابات کو نوٹ بک میں درج کرلیں نہ کہ سادہ کاغذ پر کیونکہ اس کے ضائع ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ اس طرح آپ ان باتوں کو جان جائیں گے جو وقت ضائع کرنے کا باعث ہیں اور ان کے مطابق اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لایئے۔ جو نتائج حاصل ہوتے ہیں انھیں بھی نوٹ کرتے جائیں۔
ممکن ہے کہ کوئی اسے بھی وقت کے ضیاع میں شمار کرنا شروع کردے لیکن اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو اپنی کامیابیوں کی رفتار کا اندازہ ہوتا رہے گا۔ پھر جونہی آپ اپنے مطلوبہ معیار کے مطابق وقت کو ترتیب دے لیں’ آپ لکھنا بند کرسکتے ہیں۔
ماہرین زندگی کو بہتر نظم و ضبط کے دائرے میں گزارنے کے لیے مزید مشورے دیتے ہیں:
(بشکریہ معارف فیچر سروس’ ۱۶ دسمبر ۲۰۰۶ء)