ہمارے ہاتھ امریکہ میں Rand Corporationکی طرف سے نیشنل سیکورٹی ریسرچ ڈویژن کے تعاون سے مرتب ہونے والی ایک اہم رپورٹ آئی ہے۔ اس کا مرتب کنندہ شیرل بینرڈ ہے اور اس کی تیاری میں افغانستان اور اب عراق میں امریکہ کے افغان نژاد سفیر زلمے خلیل زاد سمیت لگ بھگ آٹھ دوسرے دماغوں نے معاونت کی۔ سول ڈیموکریٹک اسلام’ پارٹنرز’ ریسورسز اینڈ سٹریٹجس کے نام سے شائع ہونے والی ۷۲صفحات کی اس رپورٹ کو ایک اہم تھنک ٹینک دی سمتھ رچرڈ فاؤنڈیشن نے اسپانسر کیا ہے۔ ابتدا میں دیباچے کے بعد اس کا خلاصہ دیا گیا ہے۔ رپورٹ کا تحقیقی مواد تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں ایشوز کو گنوایا گیا جن کو آج مغرب اسلامی دنیا کے ساتھ وجہ نزاع سمجھتا ہے۔ دوسرے باب میں ‘‘جمہوری اسلام کے فروغ کے لیے شراکت داروں کی تلاش’’ کا نقشہ اور تدابیر ہیں۔ تیسرا باب ‘‘مجوزہ حکمت عملی’’ پر مشتمل ہے۔ آخر میں چار اہم ملحقات یا ذیلی حصے ہیں۔ ان میں تیسرے ملحقہ یا ذیلی حصے کو ‘‘گہری حکمت عملی’’ کے عنوان سے دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے خلاصے اور اس حصے کے نکات میں مماثلت ہے۔ اس لیے ہم قارئین کی دلچسپی اور اہل فکرونظر کے غوروفکر کے لیے اس حصے کا ترجمہ و تلخیص یہاں پیش کر رہے ہیں۔ ہم یہاں رپورٹ کے مرتبین کے عزائم اور اسلام و مسلم دشمنی کے باوجود اس امر کی داد دیتے ہیں کہ انھوں نے اپنے زاویے سے اسلام اور اس کی تاریخ اور قرآن و سنت کا خوب مطالعہ پیش کیا ہے۔ کاش کہ اسلام اور اس ملت مظلومہ کی وکالت کرنے والے مسلم دانشور’ صحافی اور علما بھی مغربی تہذیب’ مغربی اقدار اور مغربی سوچ کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ان کا اسی گہرائی اور غیرجذباتی انداز میں مطالعہ کر کے ایک حکیمانہ پالیسی وضع کریں۔ پچھلی صدی کے وسط اول میں مغرب کی فکری یلغار کا انتہائی فراست سے جواب دینے والے اصحاب علم وفکر اس دنیا سے اُٹھ گئے ہیں۔ نئے دماغوں کی ضرورت ہے جو اس محاذ پر اسی فراست سے مقابلہ کرسکیں۔
مذکورہ رپورٹ عالمِ اسلام کے جغرافیائی تناظر کو ملحوظ رکھ کر کسی خاص ملک کے لیے نہیں بلکہ مجموعی طور پر پوری مسلم ملت کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی ہے۔ مسلمانوں کو اس رپورٹ میں فکری اور اعتقادی و نظریاتی طور پر چار بڑے گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر اسی تقسیم کی بنیاد پر ان میں مزید تقسیم یا تصادم’ توافق یا تباعد یا تعاون یا تفریق پیدا کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ چار بڑے گروہوں میں رپورٹ کے مطابق مغرب کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور مسئلہ ثابت ہونے والا گروہ ہے بنیاد پرست۔ اس کے قریب قریب مغرب کے لیے الجھن ثابت ہونے والا دوسرا گروہ ‘‘روایت پسندوں’’ کا گروہ ہے۔ تجدد پرست (ماڈرنسٹ) تیسرا گروہ ہے اور ‘‘لادین’’ چوتھا فریق ہے۔
رپورٹ میں وضع ہونے والی پالیسی مسلمان اُمت کے اندر انھی چار گروہوں کے گرد گھومتی ہے۔ ضمنی طور پر تعلیم کے میدان اور نوجوان نسل کو بھی اس رپورٹ کے اہداف سے باہر نہیں رکھا گیا ہے۔ ‘‘تعلیم اور نوجوان پر توجہ’’ کی سرخی کے تحت بتایا گیا ہے کہ ریڈیکل اسلامی تحریکوں سے عہدوفا رکھنے والے پختہ عمر لوگوں کے نظریات کو متزلزل کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ اگر تعلیمی اداروں کی نصابی کتابوں میں ‘‘جمہوری اسلام’’ کا پیغام داخل کر دیا جائے تو اگلی نئی نسل کو ذہنی طور پر متاثر کیا جاسکتا ہے۔ نصاب تعلیم کے علاوہ نئی نسل کو متاثر کرنے کے لیے عوامی میڈیا کو بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔ ریڈیکل بنیاد پرستوں نے تعلیم کے میدان کو اپنے اثراور گرفت میں رکھنے کے لیے دُور تک اپنے اثرات پھیلا رکھے ہیں۔ ان سے یہ میدان سخت جدوجہد کے بغیر نہیں چھینا جا سکتا۔ ان سے یہ خاص میدان چھیننے کے لیے ان کے برابر پرجوش اور توانا کاوشوں کی ضرورت ہوگی۔
‘‘حکمت عملی کی تقویت و تنقید کے لیے قطعی اور متعینہ اقدامات اور سرگرمیاں’’ کے ذیلی عنوان کے تحت تجویز کیا گیا ہے کہ:
٭ تجدد پرست (ماڈرنسٹ) اور عوامی حلقوں میں معروف سیکولر اہلِ دانش اور اصحاب قلم کی بھرپور حمایت کی جائے۔ ان کی عملی و فکری کاوشات کی طباعت اور تقسیم میں ان کی مدد کی جائے۔ ان کی ہمت بندھائی جائے اور رہنمائی کی جائے کہ وہ وسیع عوامی حلقوں اور نواجوں کو مخاطب بنا کر اپنی قلمی مہم کو آگے بڑھائیں۔ ان کے نظریات کو اسلامی نصابی کتابوں میں شامل کرانے کی کوشش کی جائے۔ ان کو پبلک پلیٹ فارم’ اخبارات و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا میں جگہیں دلائی جائیں۔
٭ بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کے پاس ویب سائٹس ہیں’ اشاعتی مراکز ہیں’ اسکول اور ادارے ہیں اور دیگر متعدد وسائل ہیں جن کے ذریعے وہ آسانی سے اپنا پیغام پھیلاتے ہیں۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے جدیدیت پسند اور سیکولر دانشوروں کے افکار عام کرنے اور مختلف دینی تعبیرات و تشریحات میں ان کی آراء اور فیصلوں کو مقبول بنانے کے لیے وسیع انتظام کیا جائے۔
٭ ایک طرف قدامت پسندی اور بنیاد پرستی ہے’ وہ مسلمان نئی نسل جو ابھی ذہنی طور پر کسی سے متاثر نہیں اس کے سامنے جدیدیت کو ثقافتی توڑ کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ وہ جدیدیت کی طرف مائل ہوسکے۔
٭مسلمان ملکوں اور خطوں کی تاریخ کا ایک وہ دور ہے جو اسلام کے پہنچنے کے بعد شروع ہوا۔ ایک دور وہ تھا جب وہاں اسلام نہیں تھا۔ اس دور کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جائے جو اسلام سے پہلے اور اس کی تعلیمات کے پھیلنے سے پہلے تھا۔ ان قبل یا بغیر از اسلام ادوار کی تہذیب و ثقافت کی علامتوں کو میڈیا کے ذریعے اُبھارا جائے اور نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے۔
٭ سیکولر سماجیاتی اور ثقافتی اداروں اور پروگراموں کو مقبول بنانے اور تقویت پہنچانے کی تدابیر کی جائیں۔ ہم نے اُوپر بتایا ہے کہ رپورٹ میں بنیاد پرست اور روایت پسند اور سیکولر اور ماڈرنسٹ گروہوں میں مسلم اُمت کو تقسیم کیا گیا ہے۔ روایت پسندوں کی طرف جو اشارہ ہے وہ غالب انداز میں سلفی مکتب فکر کی طرف ہے اور بنیاد پرستوں سے مراد ائمہ کی تقلید کے قائلین کی اکثریت ہے۔ دونوں مکاتب فکر میں اپروچ کا فرق مدتوں سے رہا ہے۔ امریکہ اور مغرب کے خلاف جہادی تحریکوں نے اس فرق کو بڑی حد تک کم کرکے انھیں مشترک مقاصد کی روشنی میں بہت قریب کردیا ہے۔ رپورٹ میں اسی قرب و تعلق کو مٹانے اور ان کے اندر دراڑیں پیدا کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے:
٭روایت پسندوں نے بنیاد پرستوں کے تشدد اور انتہاپسندی پر جو اور جب کبھی تنقید کی ہے ان کی خوب تشہیر کی جائے اور دونوں فریقوں کے اختلافات کو گہرا کرنے کی کوشش کی جائے۔
٭ روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں میں اتحاد و اتفاق کے امکانات کو مٹانے کی پوری کوشش کی جائے۔
٭ اس کے برعکس روایت پسندوں اور جدیدیت پسندوں کے مابین قرب و تعاون کے امکانات تلاش کیے جائیں۔ روایت پسندوں کے اداروں میں جدیدیت پسندوں کی موجودگی اور اہمیت بڑھانے کی کوشش کی جائے۔
٭ روایت پسندی کے بھی مختلف روپ ہیں۔ کچھ اہلِ حدیث گروہوں میں ہیں اور کچھ مقلد طبقوں میں۔ ان میں جو فرق و اختلاف ہے اسے نمایاں کیا جائے۔
٭ حنفی اپروچ کے مختلف روپ ایسے ہیں جن کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرکے وہابی دینی آراء اور فتوؤں کو کمزور کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں صدر پرویز مشرف کی سرپرستی میں قائم ہونے والی صوفی کونسل محض اتفاق نہیں ہے۔ مغرب زدہ ماڈرن طبقہ ایمان و یقین کے اعتبار سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ بظاہر جدیدیت پسندی اور روشن خیالی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے اور باطن میں حددرجہ توہم پرست ہوتا ہے۔ بے نظیر اور آصف زرداری ہوں’ یا نواز شریف اور ان کا خاندان’ پرویز مشرف ہوں یا چودھری شجاعت’ جمالی’ شوکت عزیز یا مشاہد حسین سید’ سب ہی توہم کی لپیٹ میں ہوتے ہیں۔ اسلام کے علمی و فکری سرمائے سے کماحقہ’ آگاہی نہ ہونے کے باعث اندر پائے جانے والے خلا کو تصوف سے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صوفی ازم بے شمار شرعی قیود سے آزادی کی راہیں کھولتا ہے اور بہت سی دینی پابندیوں کو ختم کرتا ہے۔ عملی طو ر پرخدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں کو بھی ذہنی سکون اور ‘‘روحانی سرور’’ کی حاجت ہوتی ہے تو وہ صوفی ازم کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مرتبین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں چنانچہ انھوں نے رپورٹ میں ایک اہم نکتہ یہ شامل کیا ہے کہ:
٭ صوفی ازم کی مقبولیت سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس کی قبولیت کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ حال ہی میں برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس اپنی اہلیہ کے ساتھ پاکستان کے دورے پر آئے تو ہر جگہ مذہبی ہم آہنگی’ امن و آشتی’ رواداری اور اعتدال پسندی کے لیے صوفی ازم ہی کو بطور نسخہ پیش کیا گیا۔
صوفی ازم اگر دنیا پرستی’ حرص و ہوس’ لذات طلبی سے پرہیز میں مددگار اور تعلق باللہ’ تزکیہ نفس اور اصلا ح باطن کا وسیلہ بنے تو مطلوب و مقصود ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان کے اندر سے دینی غیرت اور اطاعت رب کے سچے جذبے نکال کر بندے کی بندگی کو وسیع المشربی اور اعتدال پسندی کے نام پر ایسا رنگ دے دیا جائے کہ مسلمان اور کافر میں فرق ہی مٹ جائے تو ایسے صوفی ازم کی اسلام سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ پھر صوفی ازم اگر ایسا نسخہ ہے جو دشمنانِ دین و ملت کی طرف سے تجویز ہو رہا ہے تو خود اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس سے وہ کیسا کام لینا چاہتے ہیں۔ زیربحث رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ امریکی تھنک ٹینک اور اصحاب رائے نے اُمت مسلمہ کے اندر اپنا اصل حریف اس گروہ کو قرار دے رکھا ہے جس پر وہ بنیاد پرست ہونے کا لیبل لگائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس کا ہر نکتہ اسی حریف کو نیچا دکھانے کی ایک تدبیر پر مشتمل ہے۔ آگے کہا جا رہا ہے:
٭ بنیاد پرستوں کا ہر جگہ مقابلہ اور مخالفت کریں۔ اسلامی تعبیرات و تشریحات کے سوالات پر ان کے خیالات کی غلطیوں کو اُجاگر کیا جائے۔
٭ غیرقانونی گروہوں اور سرگرمیوں سے ان کے تعلق کا خوب چرچا کیا جائے۔
٭ ان کی پرتشدد کارروائیوں کے منفی نتائج و اثرات کی تشہیر کی جائے۔
٭ اس امر کو لوگوں کے ذہن نشین کیا جائے کہ بنیاد پرستوں کے اندر وہ صلاحیت نہیں پائی جاتی کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کو بہبود اور ترقی کی منزل سے ہمکنار کرسکیں۔
٭ یہی پیغام مغربی ممالک کی مسلمان اقلیتوں’ مسلمان عورتوں اور نوجوانوں کو دیا جانا چاہیے۔
٭ بنیاد پرستوں کو برے ہیرو کے طور پر بھی پیش نہ کریں۔ یہ ثابت کریں کہ یہ دماغی طور پر مختل اور بزدل لوگ ہیں۔
٭ ان صحافیوں اور دانشوروں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جائے جو بنیاد پرست اور دہشت گرد حلقوں کی بدعنوانی ’ منافقت اور غیراخلاقی حرکات کو موضوع بنا کر لکھتے ہیں۔
٭یہ اہتمام کیا جائے کہ سیکولر عناصر کا قوم پرستی یا بائیں بازو کے نظریات سمیت کسی بھی بنیاد پر امریکہ مخالف قوتوں کے ساتھ الحاق و اتحاد قائم نہ ہونے پائے اور بنیاد پرستی کو دائیں یا بائیں باز کے یا قوم پرست سیکولر عناصر کا مشترک دشمن تصور کیا جائے۔
٭ اس تصور کی شدومد کے ساتھ تائید کیجیے کہ جس طرح مغرب میں دین کو سیاست سے الگ کر دیا گیا ہے اسلام میں بھی دین و سیاست کی جدائی ضروری اور ممکن ہے اور اسی سے دین و ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
ہمیں احساس ہے کہ ۷۲ صفحات کی اس انتہائی اہم رپورٹ کا چند صفحات میں خلاصہ لانا بہت مشکل کام تھا’ بہت سے اہم پہلو اس خلاصے میں آنے سے رہ گئے ہیں تاہم جو گوشے خلاصے میں بے نقاب ہوئے وہ قارئین کو ان خطرات کی چاپ سنانے میں کافی ہوں گے جو اس اُمت کا تعاقب کر رہے ہیں۔
(بشکریہ ماہنامہ خطیب’ جنوری ۲۰۰۷ء)