بے گناہ کو پھانسی پر چڑھانے کے بعد قدرت نے اس سے بیوی اور اولاد سمیت ہر چیز چھین لی اور اس کی زندگی جہنم کے عذاب سے بھی بدتر ہوگئی۔
یہ واقعہ مجھے اوکاڑہ کے بزرگ استاد ماسٹر علی احمد صاحب نے سنایا۔ موصوف ۱۹۳۳ء میں برخ جیوے کے علاقہ (اوکاڑہ) میں پیدا ہوئے لیکن جوانی میں سندھ چلے گئے۔ وہیں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازم ہوگئے۔ زندگی کا بیشتر حصہ نواب شاہ میں گزارا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول میں ریاضی اور انگلش پڑھاتے رہے۔ ۱۹۹۲ء کی بات ہے کہ وہ نواب شاہ میں مارکیٹ روڈ نمبر۲ پر ایک مکان میں کرایہ دار تھے۔ یہ مکان ایک شخص مختار احمد کی بہن کا تھا اور مختاراحمد ہی اس کا کرایہ وصول کیا کرتا تھا۔
ماسٹر صاحب نے مجھ سے واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ میں کرایہ دینے کے لیے مختار کے گھر گیا تو اس کی بری حالت تھی’ وہ زار وقطار رو رہا تھا۔ میں نے سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہا ہوں…… تین سال پہلے بیوی فوت ہوگئی اور ایک ہفتہ قبل اکلوتا جوان بیٹا قبر میں اتر گیا ہے اور میری اپنی زندگی جہنم بن کر رہ گئی ہے۔
میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ ‘‘میں پولیس میں ملازم تھا’ ترقی کرکے ہیڈکانسٹیبل بن گیا’ ایک بار ڈاکے اور قتل کے ایک ملزم کو جیل سے عدالت تک پہنچانا تھا۔ اس روز فیصلے کی تاریخ تھی’ میرے ساتھ ایک کانسٹیبل کی ڈیوٹی لگی ہم دونوں نے ملزم کو جیل سے لیا اور چونکہ عدالت تک فاصلہ زیادہ نہ تھا اس لیے ہم تینوں پیدل ہی چل پڑے۔
یہ راستہ کچھ ویران سا تھا۔ ایک جگہ تو اُونچے قد کی بہت سی جھاڑیاں تھیں بالکل جنگل کا منظر تھا۔ وہاں اس ملزم نے بڑی لجاجت سے درخواست کی کہ میرے پیٹ میں کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے’ میری ایک ہتھکڑی کھول دیں اور اجازت دیں کہ جھاڑیوں کی اُوٹ میں پیشاب وغیرہ کرلوں۔ ہمیں ترس آگیا’ ہم نے اس کی ایک ہتھکڑی کھول دی اور وہ قریب ہی جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھ گیا۔ ابھی اسے بیٹھے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ کھلے منہ کی ایک گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی آئی’ اس میں سے سات آٹھ تنومندآدمی اترے’ انھوں نے آناً فاناً ہماری رائفلوں پر قبضہ کیا۔ ہمارے ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے باندھے’ ہمیں جھاڑیوں میں پھینکا اور ملزم کو اٹھاکر گاڑی میں ڈال کر یہ جا وہ جا۔ یہ سب کچھ پنجابی فلموں کے انداز میں اس قدر اچانک ہواکہ ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا’ تاہم ان لوگوں نے مہربانی کی کہ جاتے ہوئے وہ ہماری رائفلیں ہمارے قریب ہی پھینک گئے۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ قدموں کی چاپ سے اندازہ ہوا کہ کوئی شخص اس راستے پر چلا آ رہا ہے۔ ہم نے جھاڑیوں کے اندر سے آواز دی کہ جانے والے ذرا ٹھہر جانا اور ہماری مدد کرنا’ وہ آدمی ٹھہر گیا اور ہمارے قریب آگیا۔ تب ہم نے اسے اپنی بپتا سنائی کہ ہم پولیس ملازم ہے’ ڈاکو ہمیں بے بس کرکے یہاں پھینک گئے ہیں’ مہربانی کرو اور ہمارے ہاتھوں اور پیروں کی رسیاں کھول دیں۔ اس شخص نے ہمارے ہاتھ پاؤں کی رسیاں کھول دیں’ ہم اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ وہ شخص ہمدردی سے ہمارا حوصلہ بڑھانے اور ہاتھوں سے ہمارے کپڑوں کی مٹی صاف کرنے لگا۔
جب تک ہم زمین پر گرے پڑے تھے اس وقت تک جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور کوئی بات سوجھ نہیں رہی تھی ’ لیکن اب نتائج و عواقب کے بارے میں سوچ کر میں تو چکرا کر رہ گیا۔ ہمارے ساتھ تو بہت ہی دردناک حادثہ ہوا ہے اب کیا ہوگا؟!! اگر ہم اسی طرح خالی ہاتھ عدالت میں جاتے ہیں اور وہاں بتاتے ہیں کہ ایک ڈاکو اور قاتل کو اغوا کرلیا گیا ہے تو کوئی ہماری بات نہیں مانے گا۔ سب یہی کہیں گے کہ انھوں نے کوئی بھاری رشوت لے کر ڈاکو اور قال کو بھگا دیا ہے۔ چنانچہ ہمیں فوراً ملازمت سے برطرف کر کے گرفتار کر لیا جائے گا۔ ہم پر لازماً مقدمہ چلے گا اور ہم کسی سخت سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔ پھر کیا کیا جائے؟ بچت کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟و کیا طریقہ ہو سکتا ہے کہ ہم شدید قسم کی پریشانی سے بچ جائیں؟!!
اور اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک عجیب شیطانی تجویز نے سر اُٹھایا’ پھر کیا ہے اگر ملزم بھاگ گیا ہے’ اس کے بدلہ میں ہمیں ایک بندہ تو مل گیا ہے’ پھر اسے ہی کیوں استعمال نہ یا جائے اور اس سوچ کے ساتھ ہی میں اُچھل کر اس مہربان شخص پر حملہ آور ہوگیا اور مکوں اور تھپڑوں سے اسے پیٹنے لگا۔ میرا ساتھی کانسٹیبل حیران ہوگیا’ لیکن میں نے اسے ڈانٹا کہ یہی ہمارا ملزم ہے’ پکڑلو اور اس کی خوب ٹھکائی کرو۔ چنانچہ ہم دونوں نے مل کر اسے خوب مارا’بے چارا تیور کھا کر گر پڑا’ پہلے اس نے کچھ آہ و بکا کی’ مگر پھر اس کے حواس جواب دے گئے اور وہ سر گھٹنوں میں دبا کر نیم مدہوش زمین پر بیٹھ گیا۔ ہمارے پاس ایک فالتو ہتھکڑی موجود تھی اس میں اس کے دونوں ہاتھ جکڑ لیے اور کھینچتے ہوئے کچہری کی طرف چل پڑے۔ اس کش مکش میں ہم خاصے لیٹ ہوگئے۔ جج نے پوچھا کہ لیٹ کیوں ہوئے اور ملزم کا منہ کیوں سوجا ہوا ہے؟ تو ہم نے بتایا کہ اس نے ہمیں دھوکا دے کر بھاگنے کی کوشش کی تھی اس لیے اسے قابو کرنے میں کچھ وقت صرف ہوگیا اور اس کی مرمت بھی کرنی پڑی۔ وہ مظلوم شخص ہماری بے رحمانہ مار سے اس قدر ہراساں ہوگیاتھا کہ عدالت میں اس کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی’ اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے اور وہ خوفزدہ نظروں سے بٹربٹر دیکھتا رہا۔
سچ ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے’ جج کو اس روز مقدمے کا فیصلہ سنانا تھا چنانچہ اس نے کوئی تحقیق نہ کی اور تھوڑی دیر میں اس بیچارے کو موت کی سزا سنا دی۔ اس کے منہ سے ایک دردناک چیخ نکلی اور ہم اسے کھینچتے ہوئے جیل میں چھوڑ آئے۔
ریٹائرڈ سب انسپکٹر مختار احمد آج اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا’ وہ روتا رہا اور اپنے ظلم کی داستان کی ساری جزئیات سناتا رہا۔ اس نے بتایا: ماسٹرصاحب! یہ ٹھیک ہے کہ میری نوکری بچ گئی’ مجھ پر کوئی مقدمہ نہ بنا لیکن خداکا کوڑا حرکت میں آگیا۔ میرے ضمیر نے میرا جینا حرام کردیا اور رات سونے کے لیے جب میں چارپائی پر لیٹا تو نیند کوسوں دُور تھی۔ رہ رہ کر اس مظلوم دیہاتی کی شکل نظروں کے سامنے گھوم جاتی’ جسے میں نے کسی قصور کے بغیر ہی پہلے بے رحمی سے مارا اور پھر پھانسی کی سزا دلوا دی۔ اور اس کی شکل مجھے ایسے کرب میں مبتلا کرتی تھی کہ میں اٹھ کر بیٹھ جاتا’ پھر یند غلبہ کرتی اور لیٹتا تو دوبارہ یہی صورت پیدا ہوجاتی’ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں’ جمائیوں پر جمائیاں آرہی تھیں لیکن نیند مجھ سے روٹھ گئی تھی’ ساری رات اسی کیفیت میں مبتلا رہا اور میں ایک لمحہ کے لیے بھی سکون کی نیند نہ سو سکا۔ مسلسل بے خوابی اور شدید ذہنی و اعصابی دباؤ نے مجھے کئی بیماریوں میں مبتلا کردیا’ معدہ خراب ہوگیا اور ٹانگوں میں درد رہنے لگا’ زندگی سے سکون اور راحت جیسے رخصت ہی ہوگئی۔
اللہ کی شدید ترین ناراضی اس صورت میں بھی ظاہر ہوئی کہ اس واقعے کے چند ہی ماہ کے بعد میری بیوی یکایک فوت ہوگئی ’ وہ بظاہر بھلی چنگی تھی’ چھوٹی موٹی عام تکالیف کے سوا اسے کوئی بیماری نہ تھی’ مگر اسے چند روز تک سر میں شدید درد ہوا اور اسی حالت میں ایک روز وہ دم توڑ گئی۔ میری دنیا اندھیری ہوگئی’ گھر کا سارا نظام ہی برباد ہوگیا۔ زچ ہوکر میں نے ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور اپنے آبائی شہر نواب شاہ آگیا۔ یہاں میں نے کریانہ کی ایک دکان کرلی’ ایک بیٹا تھا’ وہ پڑھتا تھا۔ اسکول سے آکر وہ دکان پر بیٹھ جاتا اور مجھے کچھ آرام مل جاتا’ اور ساری ذہنی و جسمانی تکلیفوں کے باوجود زندگی کسی نہ کسی طرح گزرتی چلی گئی۔
لیکن لگتا یہ ہے کہ میں نے بھیانک قسم کے جس ظلم کا ارتکاب کیا تھا’ اللہ اس کے نتیجے میں مجھے آخری حد تک سزا دینا چاہتا ہے۔ چنانچہ ایک ہفتہ قبل میرے بیٹے کے پیٹ میں درد اٹھا اور وہ شدت اختیار کرتا چلا گیا’ بہت علاج کیا۔ ڈاکٹروں’ حکیموں کے پاس دوڑتا رہا لیکن افاقے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی۔ درد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ تین دن تک تڑپتا رہا اور آخرکار مجھے تنہا چھوڑ کر انتقال کر گیا۔ وہی میرا واحد سہارا تھا اور اسی کو میں دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔
یہ عبرت ناک کہانی سناتے ہوئے مختار زار و قطر روتا رہا۔ اس نے بتایا کہ میری زندگی جہنم سے بدتر ہوگئی ہے۔ معدہ کوئی چیز قبول نہیں کرتا’ بھوک لگتی ہے کچھ زہر مار کرتا ہوں تو ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ کھایا پیا حلق کو چڑھنے لگتا ہے اور پیٹ میں شدید مروڑ اٹھنے لگتی ہے۔ پُرسکون نیند ایک عرصے سے خواب و خیال ہوکر رہ گئی ہے۔ کبھی آنکھ لگتی ہے تو وہ دیہاتی جسے میں نے پھانسی تک پہنچایا تھا آدھمکتا ہے اور دونوں ہاتھوں سے میرا گلا دبانے کی کوشش کرتا ہے اور میں چیخ مار کر بیدار ہوجاتا ہوں اور تھرتھر کانپنے لگتا ہوں۔ موت کا خوف ہمہ وقت میرے سر پر سوار رہتا ہے’ اس کے باوجود میں چاہتا ہوں کہ میں مرجاؤں تاکہ ہر وقت کی اذیت سے چھٹکارا پا جاؤں۔ لیکن بدقسمتی سے موت بھی نہیں آتی اور خودکشی کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں ہے۔
ماسٹر علی احمد صاحب نے بتایا کہ مختاراحمد ایک عرصے تک عذاب کی اسی کیفیت میں مبتلا رہا۔ میں جب بھی اس سے ملتا وہ حزن و ملال اور کرب کی شدید ترین کیفیت سے دوچار نظر آتا اور کم و بیش ڈیڑھ دو سال تک انتہائی عبرت ناک زندگی گزار کر موت کی آغوش میں چلا گیا۔