مغربی ماہرین کے تجزیے
جب سے ٹی وی ایجاد ہوا ہے’ ڈاکٹر اس کے جسمانی نقصانات سے مسلسل آگاہ کرتے آرہے ہیں۔ آیئے اس کا ایک مختصر سا مطالعہ کرتے ہیں:
٭…… جرمنی کے مشہور ڈاکٹر والٹر بوہلہ لکھتے ہیں کہ ‘‘بعض چھوٹے چھوٹے جانور اور چڑیا وغیرہ کو اگر ٹی وی کے سامنے رکھ دیا جائے تو تھوڑی دیر میں اس کی اسکرین کی شعاعوں کی تیزی کی وجہ سے وہ مر جائیں گے’’۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک کمرے میں ٹی وی چل رہا ہے تو ساتھ والے کمرے میں بیٹھنے والے لوگوں کی صحت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے’’۔
٭…… مشہور صحافی ڈاکٹر این ویگمور اپنی کتاب Why Suffer میں لکھتی ہیں کہ ‘‘سچائی تو یہ ہے کہ ٹی وی ایک طرح کی ایکسرے مشین ہے۔ فرق دونوں میں یہ ہے کہ ایکسرے مشین میں خطرے سے بچنے کا مناسب انتظام ہوتا ہے’ جب کہ ٹی وی میں ایسا کوئی انتظام نہیں۔ چنانچہ مسلسل ٹی وی اسکرین سے چپکے رہنے والے امریکہ کے بوسٹن نامی شہر کے ایک ہسپتال میں خونی کینسر کا شکار ۶۰۰ لڑکے اور لڑکیاں زیرعلاج ہیں’’۔
٭…… ڈاکٹر گروڈبے لکھتے ہیں کہ سیاہ ٹی وی سیٹ میں ۱۹ کلو وولٹ اور رنگین ٹی وی میں ۲۵ کلوووٹ تک کی ٹیوب ہوتی ہے۔ شروع میں جب ۱۶ کلو وولٹ والی ایکسرے مشین بھی اس کا استعمال کرنے والی ٹیکنی شن کے جسموں میں کینسر کا کیڑا پیدا کر دیتی تھی تو اندازہ کیجیے کہ ۱۹ کلو اور ۲۵ کلو وولٹ کی ٹی وی کیا کچھ تباہی نہ پیدا کرتی ہوگی’’۔
٭…… عکسی تصویر کے مشہور ماہر ڈاکٹر آئل کروب نے شکاگو کے ایک ہسپتال میں جان کنی کے عالم میں نہایت تلخی کے ساتھ یہ تاکید کی کہ ‘‘گھروں میں ٹی وی کا وجود ایک جان لیوا کینسر کی مانند ہے جو بچوں کے جسموں میں رفتہ رفتہ ہدایت کرتا ہے’’۔ یہ ڈاکٹر بھی ہزاروں امریکیوں کی طرح ٹی وی کی شعاؤں سے پیدا شدہ مہلک مرض کینسر کا شکار تھا۔
٭…… ڈاکٹر ایچ پی شوین کا کہنا ہے کہ ‘‘تجربات نے بتایا ہے کہ اس سے فالج ہوتا ہے اور اس کی شعاعوں سے آنکھوں کی بینائی پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں’’۔ ڈاکٹر ایچ پی شوین کا تجربہ ہے کہ ‘‘ایک حاملہ خاتون پر دو ماہ تک ٹی وی کی شعاعیں پڑنے دی گئیں’ اس کے بعد اس نے چار بچوں کو جنم دیا جو سبھی فالج زدہ اور اندھے تھے۔ ایک اور شخص نے اپنے طوطوں کا پنجرہ ٹی وی سیٹ کے سامنے رکھ دیا’ نتیجہ یہ نکلا کہ طوطوں کے پیر بیکار ہوگئے۔
ان تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ ٹی وی کی شعاعیں جسمانی صحت کے لیے انتہائی تباہ کن اور خطرناک قسم کی مہلک بیماریوں بالخصوص کینسر کو جنم دینے والی ہیں۔
امریکی سائنس دانوں نے ٹی وی کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہوئے بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں نیل پوسٹ مین کی کتاب Amusing Overselves of Death’ جیری مینڈر کی کتاب Four Arguments for Elimination of Televisionاور میری ون کی کتاب بجلی سے چلنے والا نشہ The Plug-in Drugجیسی کتابیں شامل ہیں۔
جیری مینڈر خود گذشتہ ۱۵ سالوں تک ایک اشتہاری ادارے کی صدر ہیں۔ پھر انھوں نے ٹی وی پر کام کرنے سے توبہ کی اور ٹی وی اور کمپیوٹر کی خرابیوں اور ان کے مضر اثرات کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔ آخر گھر کے بھیدی سے زیادہ لنکا کی حقیقت سے کون واقف ہوگا؟
اسی طرح جان ہیلی Educational Psychologist جن کا اس میدان میں ۳۵ سالوں کا تجربہ ہے وہ بھی ٹی وی کے خلاف لوگوں میں شعور پیدا کر رہے ہیں۔ ان تمام ماہرین کے لمبے غوروفکر کی بنیاد پر جو باتیں سامنے آئیں وہ اس طرح ہیں:
٭…… ٹی وی اسکرین پر تصویریں سیکنڈ کے تیسویں حصے سے زیادہ تیزی کے ساتھ حرکت کرتی ہیں جس کی وجہ سے دماغ میں ان کو جانچنے اور پرکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور انسانی دماغ ان کی اچھائی یا برائی کی تمیز کیے بغیر انھیں قبول کر لیتا ہے۔
٭…… اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایک عام امریکی آدمی ہفتہ میں ۳۰ گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے جب کہ ماں باپ روزانہ اپنے بچوں کو ۱۵ منٹ سے کم وقت دیتے ہیں یعنی ماں باپ کے مقابلہ میں ٹی وی بچوں کے ساتھ ۱۷ گنا زیادہ وقت گزارتا ہے۔ مسلمان والدین کا حال بھی اس سے بہت زیادہ بہتر نہیں ہے کیوں کہ ہر معاملہ میں امریکہ اور یورپ کی اندھی تقلید کرنے کو انھوں نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔
٭…… گذشتہ ۲۰ سالوں میں جیسے جیسے بچوں میں ٹی وی دیکھنے کا رجحان عام ہوا ہے’ اسی رفتار سے امتحانات میں بچوں کے نتائج بھی خراب آنے شروع ہوئے ہیں۔
٭…… ٹی وی دیکھنا چونکہ ایک passive یعنی بغیر کسی حرکت کا کام ہے’ اس لیے اس کی وجہ سے لوگوں کی طبیعت میں سستی اور کاہلی بڑھتی جارہی ہے۔
٭…… ماہرین نفسیات کی کئی سالوں کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگ جب ٹی وی پروگرام مثلاً ڈرامے اور فلمیں وغیرہ دیکھتے ہیں تو ان میں پیش کیے گئے خیالات اور اعمال کو غیرشعوری طور پر اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کا یہ رجحان ایک دوسرے کے لیے غصہ’ بغض’ حسد اور دشمنی جیسی خرابیوں کو پروان چڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
٭…… ٹی وی اور کمپیوٹر جب چلتے ہیں تو ان کی اسکرین میں سے Cathode Raysنامی شعاعیں نکلتی ہیں جو ہمارے دماغوں میں پیدا ہونے والی ‘‘گاما شعاعوں پر غالب آجاتی ہیں جس کے نتیجے میں دماغ میں پیدا ہونے والی Neuro Chemicals میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں’ جس کا سب سے خطرناک اثر چھوٹے بچوں اور حاملہ خواتین پر پڑتا ہے۔ بچوں میں تیزی سے پروان چڑھتی غوروفکر میں کمی کی بیماری Attention Deficit Syndrome میں سب سے زیادہ دخل ٹی وی کا ہے۔ اگر بچہ ماں باپ کو پریشان کر رہا ہے تو ٹی وی آن کردینے سے بچہ وقتی طور پر خاموش تو ہوجاتا ہے مگر اس کی قیمت بعد میں ادا کرنی پڑتی ہے۔
میری سینڈر نے اپنی کتاب In the Abscence of a Sacred میں لکھا ہے کہ ایک شہر میں ریڈ انڈین قبیلے آباد تھے جن کا رہن سہن بہت کچھ مسلمانوں جیسا ہی تھا۔ جیسے یہ کہ وہ اپنے بزرگوں کا احترام کرتے تھے’ وہاں کے سفیدفام حکمرانوں نے ریڈ انڈین لوگوں کو اپنے جیسا بنانے کی بہت کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔ آخرکار انھوں نے ریڈ انڈین لوگوں کو مفت میں ٹی وی سیٹ بانٹنے’ وہاں کے چینلوں پر بے شرمی اور بے حیائی پھیلانے والے پروگرام دکھائے جانے لگے کیونکہ انگریز ایسا ہی چاہتے تھے’ پھر کیا تھا؟ ۲۰ سال کے اندر ریڈ انڈین کا پورا سماج تباہ ہوکر رہ گیا۔ ان کے نوجوانوں میں بے حیائی اور آوارگی پھیلنا شروع ہوگئی اور نوجوانوں نے اپنے والدین کے خلاف بغاوت کر دی۔ جو کام گورے دوسرے ذرائع سے نہ کرسکے وہ کام ٹی وی نے بڑی کامیابی سے کردیا۔
بچوں کو ٹی وی کی ماں یعنی کمپیوٹر سکھانا اور ان کا انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرنا ایک قابلیت سمجھی جاتی ہے حالانکہ اصل قابلیت تعلیم اور کتابوں کو پڑھنے سے آتی ہے۔ کمپیوٹر کے آجانے کے بعد بچوں کی reasoning powerدماغی اور ذہنی قوت میں کافی کمی آئی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اب جوڑنے اور گھٹانے کے معمولی سے حساب کے لیے بچوں کو calculatorاور computerکی ضرورت پڑنے لگی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں نئی نسل کی writing skillلکھنے کی صلاحیت تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے۔ ٹیکنالوجی پر یہ انحصار اور کیا گل کھلائے گا’ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن مسلمانوں کو تو قرآن کے اس فرمان کی پیروی کرنا چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ نے قلم کا تذکرہ بطور نعمت کیا ہے۔ ‘‘ہم نے تمھیں قلم کے ذریعہ علم دیا’’۔(العلق)
کیا ٹی وی چھوڑنا ناممکن ہے؟
ابتدا میں جب آپ ٹی وی دیکھنا ترک کریں گے تو آپ کو سخت بے چینی ہوگی کیونکہ یہ ایک طرح کا نشہ ہے جسے میری ون نے بجلی سے چلنے والا نشہ (plug in drug)کہا ہے۔ لیکن اگر آپ پختہ عزم کریں’ قبر کے عذاب اور آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہی کا احساس اپنے دل میں پیدا کر کے ایک ماہ تک ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں تو یقینا اس کے بعد آپ کا دل ٹی وی کی طرف راغب نہیں ہوگا۔
اگر ٹی وی کو ہم اپنی زندگی سے نکال دیں توا س کی جگہ اور بہت سے مشغلے ہیں جنھیں اختیار کیا جانا چاہیے۔ مثلاً دینی کتابوں کا مطالعہ’ سننا’ سنانا اور اس کے مباث پر گفتگو کرنا’ بچوں کو اسلامی اور تاریخی کہانیاں سنانا’ یہ بات بظاہر بہت چھوٹی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ذہین بنے تو آپ اسے کہانیاں ضرور سنائیں۔
ٹی وی پر وقت برباد کرنے کے بجائے گھروں پر قرآن و حدیث کے پڑھے جانے کا بھی اہتمام کریں’ چاہے قرآن کی دو آیت اور ایک حدیث ہی کیوں نہ ہو’ دین کی معلومات ٹی وی پر حاصل کرنے کے بجائے علماء کی صحبت سے حاصل کریں۔ مساجد میں ہونے والے وعظ و نصیحت کے سننے کا اہتمام کریں’ خاص طور پر جمعہ کی نماز میں خطبہ سے قبل جاکر بیٹھیں’ دینی تحریکوں کی جانب سے ہونے والی مجالس میں حصہ لیں’ نیز وہاں سنی ہوئی بتوں کو گھر میں آکر بتانا نہ بھولیں۔
ہم اپنے بچوں کو نبیوں’ صحابہ’ غازیوں اور مجاہدین کی زندگیاں پڑھ کر سنائیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو اسلام کی تاریخ ساز شخصیات سے آگاہ نہیں کریں گے تو بچے اپنی ذہنی ضرورت کی وجہ سے ٹی وی یا فلموں کے کسی ایکٹر یا کسی کھلاڑی کو اپنا رول ماڈل بنا لیتے ہیں اور پھر اسی جیسا بننے میں اپنی صلاحیتیں لگا دیتے ہیں۔ یوں وہ ہاتھ سے بے ہاتھ ہوجاتے ہیں۔ (بشکریہ ، ماہنامہ نوائے ہادی’انڈیا، جون ۲۰۰۶ء)