جہنم کاعذاب ،قرآن و حدیث کی روشنی میں
جہنم ذلت’ بدبختی’ عذاب اور بے عزتی کا مقام ہے جہاں آہیں بھرنے اور آنسو بہانے کے علاوہ کوئی کام نہ ہوگا۔ نیچے آگ کا فرش اور اُوپر آگ کا سائبان’ گندھک کا لباس’ ہاتھوں میں بیڑیاں’ گردنوں میں طوق’ کھانے کے لیے زقوم ، پینے کے لیے اُبلتا ہوا پانی جو پیٹ کے اندر کی ہر چیز گلا کر رکھ دے اور پیٹ کے اندر جاکر کھولے گا۔ جہنمی ہر لمحہ موت کی دعا کریں گے مگر ان کی دُعا قبول نہ ہوگی۔ نہ صبر ہی سے یہ عذاب دُور ہوگا اور نہ چیخنا چلانا دُکھوں میں کمی کا باعث ہوگا۔ یہ انجام ہم میں سے کسی کا بھی خدانخواستہ مقدر ہوسکتا ہے جو بھی اس سے لاپروائی کی زندگی گزارے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘تو جس نے (دنیا میں) سرکشی کی تھی اور دُنیا کی زندگی کو (آخرت پر) ترجیح دی تھی اُس کا ٹھکانہ تو بس جہنم (ہوگی)’’۔ (النازعات ۷۹: ۳۷-۳۹)
ہم میں سے اکثر نے جہنم کا صرف سنا ہے اُس کی ہولناکی کی ہمیں خبر نہیں و رنہ ہم اُس سے بڑھ کر کسی خطرہ کے لیے سنجیدہ نہ ہوتے۔ اگر کسی راستے پر سانپ کے ہونے کا ذرا سا بھی خطرہ ہو تو انسان اس راہ سے گزرنے پر تیار نہیں ہوتا لیکن کیسا عجیب ہے یہ انسان کہ جس خطرے سے خبردار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے’ کتابیں بھیجیں’ اس کے وجودمیں اور اردگرد بے شمار نشانیاں بکھیر دیں، اس کے بارے میں چند لمحے بھی سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دردناک عذاب کی ایسی بدترین جگہ پر اُس انسان کی زندگی کیسی ہوگی جو اپنی ہتھیلی پر چھوٹا سا آبلہ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ انسان جو جون جولائی کی تپتی لُو نہیں برداشت کرسکتا’ شیطان کے بہکانے میں آکر ایسے راستے پر دوڑا چلا جا رہا ہے جہاں اَبدی عذاب اس کے منتظر ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے دین سے بے خبری اور سنی سنائی باتوں پر زندگیوں کے دارومدار نے نوبت یہاں تک پہنچا دی ہے کہ لوگ ایک طرف وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جن سے ہزاروں لاکھوں زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں مثلاً بے ہودہ فلمیں بنا رہے ہیں’ قومی دولت لوٹ رہے ہیں’ جعلی ادویات بنا رہے ہیں اوردوسری طرف بڑے اطمینان میں ہیں کہ جنت میں اُن کی سیٹ مختص ہے حالانکہ اُن کے جرائم سے لاکھوں کروڑوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں جن کے ہاتھ روزِ قیامت اُن کے گریبانوں پر ہوں گے۔ اِن لوگوں اور اِن کی نسلوں کو پہنچنے والے نقصان کا خمیازہ اِنھیں اَدا کرنا پڑے گا۔
مرتے وقت نہ ہمارے پاس وہ لذتیں ہوں گی جو ہم نے گناہ کر کے چکھی تھیں اور نہ وہ مشقتیں ہوں گی جو عبادت یا اطاعت کی وجہ سے برداشت کی تھیں۔ دونوں کیفیات ختم ہوجائیں گی لیکن اُن کے ابدی نتائج گناہ یا ثواب کی شکل میں باقی رہیں گے۔
جہنم …… قرآن و حدیث کی روشنی میں
جہنم کی زنجیریں اور تارکول:
‘‘اس دن تم مجرموں کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھو گے اُن کے لباس تارکول کے ہوں گے اور آگ اُن کے چہروں پر چھائی ہوئی ہوگی’’۔ (ابراہیم ۱۴: ۴۹-۵۰)
جہنم کی پیپ:
جہنم کی وسعت اور گہرائی:
سب سے کم عذاب والا جہنمی:
جہنم کی تپش اور پکار:
آگ کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں ٹھنسنے کا عذاب:
اہلِ جہنم کی حسرت:
جہنمیوں کے کھانے:
سانپوں اور بچھوؤں کا عذاب:
ایک عام زہریلے سانپ کے ڈسنے سے انسان بے ہوش ہوجاتا ہے۔ پھر متاثرہ حصہ مفلوج ہو کر ناک’ منہ’ کان’ حتیٰ کہ آنکھوں سے بھی خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بچھو کے ڈسنے سے جسم سوج جاتا ہے اور پھر سانس لینے میں تکلیف اور گھٹن محسوس ہوتی ہے۔
تصور کیجیے جس انسان کو یہاں کے مقابلے میں لاکھوں گنا زہریلے سانپ اور بچھو بار بار ڈسیں گے’ گوشت نوچیں گے تو مدہوش’ مفلوج’ خون آلودہ’ ہانپتے کانپتے انسان کا کیا حال ہو رہا ہوگا؟…… خدا کی پناہ!
عذابِ جہنم کی ہولناکی:
جہنم میں جانے والے
ذیل میں وہ آیات اور احادیث درج کی جارہی ہیں جن میں اُن گنہگار لوگوں کا ذکر ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اُن کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ یہ مکمل فہرست نہیں’ صرف چند عمومی گناہوں کا بیان کیا جا رہا ہے۔ ہر مسلمان کو معاملہ کی سنگینی سمجھتے ہوئے قرآن و حدیث کا مطالعہ کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال کو جان کر ان سے بچنا چاہیے۔
کافر:
‘‘اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی جہنمی ہوں گے (اور) وہ ہمیشہ (ہمیشہ) جہنم میں رہیں گے’’۔ (بقرہ ۲:۳۹)
مشرک:
‘‘جس کسی نے اللہ کے ساتھ (کسی دوسرے کو) شریک ٹھہرایا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے’’۔ (المائدہ ۵:۷۲)
منافق:
‘‘منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے’’۔ (النساء ۴: ۱۴۵)
میراث اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے:
ہمارے معاشرے میں اکثریت کسی کے مرنے کے بعد اس کی میراث اسلامی قانون کے مطابق تقسیم نہیں کرتی۔ خواتین کو تو عموماً حصہ نہیں دیا جاتا۔ قرآنِ مجید میں سورۃ النساء میں آیات ۷ تا ۱۲ میں احکام وراثت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں انھیں ‘حدود اللہ’ کہا اور فرمایا کہ جو اِن حدود سے تجاوزکرے گا اُسے ہمیشہ کے لیے آگ میں ڈالا جائے گا۔
‘‘اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اُس کی (ٹھیرائی ہوئی) حدبندیوں سے باہر نکل جائے گا (تو) اللہ اُسے جہنم میں داخل کرے گا اور وہ اُس میں ہمیشہ (ہمیشہ) رہے گا اور اُس کے لیے رُسواکن عذاب ہوگا’’۔ (النساء ۴:۱۴)
یتیم کا مال کھانے والے:
‘‘جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں انگارے بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جھونکے جائیں گے’’۔ (النساء ۴:۱۰)
مومن کو قتل کرنے والے:
‘‘اور کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے’’۔ (النساء ۴:۹۳)
معاشرے میں بے حیائی پھیلانے والے:
‘‘ جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں فحش پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے’’۔ (النور ۲۴:۱۹)
اللہ کے نازل کردہ احکامات کو چھپانے والے:
‘‘جو لوگ ان احکام کو جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں’ چھپاتے ہیں اور اس کے معاوضہ میں (دنیا کی) متاع قلیل خریدتے ہیں (تو یقین کرو) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں اور قیامت کے روز اللہ ان سے نہ کلام کرے گا نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے’’۔ (البقرہ ۲:۱۷۴)
پاک داَمن عورتوں پر تہمت لگانے والے:
‘‘جو لوگ (زنا کی) تہمت لگاتے ہیں ان عورتوں پر (جو) پاک دامن (ہیں اور ایسی باتوں سے) بے خبر (اور) ایمان والیاں ہیں’ ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں ملعون ہیں اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے’’۔ (النور ۲۴:۲۳)
غلط طریقے سے مال کمانے والے:
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو’ ایک دوسرے کے مال ناحق خوردبرد نہ کیا کرو…… اور جو کوئی ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا ہم اُس کو ضرور آگ میں جھونکیں گے’’۔ (النساء ۴: ۲۹-۳۰)
سود کھانے والے:
‘‘(جو) لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن) کھڑے نہ ہوسکیں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کردیا ہو…… اور جو کوئی (اس حکم کے بعد پھر اس حرکت کا) اعادہ کرے تو ایسے ہی لوگ جہنمی ہیں اور وہ جہنم میں ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے’’۔ (البقرہ ۲:۲۷۵)
گناہِ کبیرہ کے ارتکاب کے بعد توبہ نہ کرنے والے:
‘‘لیکن ان لوگوں کی توبہ (توبہ) نہیں جو (عمربھر) بُرے کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے جب کسی کے سامنے موت آکھڑی ہوئی تو لگا کہنے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور (اسی طرح) ان لوگوں کی توبہ بھی (توبہ) نہیں جو کافر ہی مر گئے۔ ایسے تمام لوگوں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے’’۔ (النساء ۴:۱۸)
مال کی محبت میں مست چغل خور:
‘‘تباہی ہے ہر ایسے شخص کے لیے جو پس پشت عیب جوئی کرنے والا اور طعنہ دینے والا ہو’ جو مال جمع کرتا (رہتا) ہو اور اسے گن گن کر رکھتا ہو’ خیال کرتا ہو کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں وہ شخص تو چکناچور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا’’۔ (الہمزہ ۱۰۴:۱-۴)
بے ہودہ باتوں کے ذریعے دین سے ہٹانے والے:
‘‘اور (دیکھو) لوگوں میں (کوئی) ایسا بھی ہے جو واہیات (خرافات) قصے (کہانیاں) خرید کر لاتا ہے تاکہ (لوگوں کو سنا کر) بے سمجھے بوجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے اور اس (راہ) کا مذاق اُڑائے’ ایسے ہی لوگوں کے لیے آخرت میں رسوا کن عذاب ہے’’۔ (لقمان ۳۱:۶)
مسلم معاشرے میں فساد اور دہشت گردی کرنے والے:
‘‘جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا تو بس یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں گے یا ان کے ہاتھ اور پیر مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے’’۔ (المائدہ ۵:۳۳)
اعمال کے پلڑے ہلکے ہونے والے:
‘‘اور جس (کے اعمال) کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور (اے پیغمبرؐ) تم کیا سمجھے کہ وہ (ہاویہ) ہے کیا چیز؟ (وہ ہے جہنم کی) دہکتی ہوئی آگ’’۔ (القارعہ ۱۰۱: ۸-۱۱)
قرآن کے مقابلے میں تکبر کرنے والے:
‘‘جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی’ ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے جب تک اُونٹ سوئی کے ناکے میں سے (ہوکر نہ) گزر جائے اور ہم مجرموں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اُوڑھنا اور ہم ظالموں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں’’۔ (الاعراف ۷: ۴۰-۴۱)
پیغمبر کی اطاعت سے انحراف کرنے والے:
‘‘اور وہ (جہنمی) کہیں گے’ کاش ہم نے (پیغمبر کے کہنے کو) سنایا سمجھا ہوتا تو (آج) جہنمیوں میں نہ ہوتے۔ غرض کہ جہنمی اپنے گناہوں کا اقرار کرلیں گے’ سو لعنت ہے جہنمیوں پر’’۔ (الملک ۶۷: ۱۰-۱۱)
بے عمل واعظ:
‘‘ایک آدمی قیامت کے دن لایا جائے گا اور آگ میں پھینک دیا جائے گا تو اس کی انتڑیاں آگ میں نکل پڑیں گی۔ پھر وہ آگ میں اس طرح پھرے گا جیسے گدھا اپنی چکی میں پھرتا ہے تو دوسرے جہنمی لوگ اُس کے پاس اکٹھے ہوں گے اور پوچھیں گے: ‘‘اے فلاں یہ تیرا کیا حال ہے۔ کیا تم دنیا میں ہم کو نیکیوں کی تلقین نہیں کرتے تھے؟ اور برائیوں سے نہیں روکتے تھے؟ (ایسے نیکی کے کام کرنے کے باوجود تم یہاں کیسے آئے)؟ وہ شخص کہے گا: ‘‘میں تمھیں تو نیکیوں کی تلقین کرتا تھا اور خود اس کے قریب نہیں جاتا تھا اور برائیوں سے تم کو روکتا تھا پر خودکرتا تھا’’۔ (بخاری)
متکبر:
‘‘قیامت کے دن متکبروں کو چیونٹیوں کی مانند انسانوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا ان پر ہر طرف سے ذلت چھائی ہوگی۔ جہنم میں وہ ایک جیل کی طرف ہانکے جائیں گے جس کا نام ‘بولس’ ہوگا۔ بدترین آگ انھیں گھیر لے گی اور انھیں جہنمیوں کے جسموں سے رسنے والا (پیپ اور خون وغیرہ) پینے کو دیا جائے گا’’۔ (ترمذی)
خودکشی کرنے والے:
‘‘جو شخص اپنا گلا گھونٹ کر مرا وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو شخص تیر (خنجر’ پستول’ بندوق وغیرہ) سے اپنے آپ کو مارے وہ جہنم میں بھی اپنے آپ کو تیر مارتا رہے گا’’۔ (بخاری)
جہنم سے ڈرنے والے
صحابہؓ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت و فرمانبرداری کے باوجود اللہ کی پکڑ سے اِس قدر خوفزدہ رہتے تھے کہ جیسے ہی آخرت کا تذکرہ ہوتارونے لگتے۔ داڑھیاں مبارک آنسوؤں سے تر ہوجاتیں’ روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں’ تلاوت کرتے ہوئے اللہ کے خوف سے آواز نکلنا بند ہوجاتی’ بعض روتے ہوئے گر پڑتے’ بعض بستر پر رات بھر کروٹیں بدلتے رہتے۔ نیند نہ آتی اور فرماتے: ‘‘یا اللہ! جہنم کا خوف میری نیند لے گیا’’۔ اس کے بعد اُٹھ کر صبح تک نماز میں آہ و زاری کرتے۔ بعض نے فرمایا: ‘‘کاش میں ایک پودا ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا اور جانور چارہ بنا لیتے’’۔ اور بعض کہتے: ‘‘کاش میں کسی ٹیلہ پر پڑی ہوئی راکھ ہوتا جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتیں’’۔ ایک صحابیؓ لوہار کی دکان کے پاس سے گزرے۔ اُس نے آگ سے (سرخ) لوہا باہر نکالا تو یہ کھڑے ہوکر رونے لگے۔
ایک وہ پاکیزہ ہستیاں تھیں جن کے دن اطاعت اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزرتے اور راتیں اپنے رب کے آگے قیام اور الحاح و زاری میں گزرتی تھیں۔ پھر بھی وہ ہر آن اپنے رب کے عذاب کے خوف سے لرزتے تھے۔ وہ ایمان و عمل کے بعد بھی رب کی پکڑ سے بے خوف نہ تھے اور آج ہم ہیں کہ نہ ایمان کی اور نہ عمل کی دُرستی کی فکر اور جہنم سے ایسے بے خوف جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائیں۔
صحابہ کرامؓ سے بہتر کون جانتا تھا کہ اللہ غفور رحیم ہے مگر اس سے وہ گناہوں پر دلیر نہ ہوئے۔ پس اللہ کی مغفرت اور بخشش کی اُمید اس شخص کو رکھنی چاہیے جو اللہ سے ڈر کر زندگی بسر کر رہا ہو اور نادانستہ ہونے والے گناہوں سے اللہ کی مغفرت مسلسل طلب کر رہا ہو لیکن جو شخص مسلسل گناہ کیے چلا جا رہا ہے اور ساتھ ہی یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ سراسر شیطان کے فریب میں مبتلا ہے جس کا انجام ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ مومن کو ہمیشہ اللہ کی رحمت کا امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف رہنا چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اگر کافر کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کی رحمت کس قدر وسیع ہے تو وہ جنت سے کبھی مایوس نہ ہو اور اگر مومن کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا کیا عذاب ہیں تو وہ کبھی جہنم سے بے خوف نہ ہو’’۔ (بخاری)
خبردار!
یہ دنیا سراسر دھوکے اور فریب کا سودا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘اور یہ دُنیا کی زندگی تو بس (جی کا) بہلاوا اور کھیل تماشا ہے اور اصل زندگی تو دارِآخرت کی زندگی ہے۔ کاش یہ لوگ جانتے’’۔ (العنکبوت ۲۹:۶۴)
یہاں چیزوں کی اصل حقیقت وہ نہیں جو نظر آرہی ہے۔ بے زکوٰۃ’ سونے چاندی کے ڈھیر’ سونا چاندی نہیں بھڑکتی ہوئی آگ کے انگارے ہیں’ سانپ ہیں۔ سود’ رشوت’ جوا’ چوری’ ڈاکہ اور دیگر حرام ذرائع سے حاصل ہونے والا مال’ مال نہیں آگ کے سانپ اور بچھو ہیں۔ جھوٹ’ مکروفریب سے حاصل کیے ہوئے عہدے اور مناصب باعث ِ عزت نہیں آگ کی بیڑیاں اور زنجیریں ہیں۔ فحاشی اور بے حیائی کے ذریعے پھیلا ہوا کاروبار’ کاروبار نہیں عبرت ناک عذاب کا سامان ہے۔
پس یتیموں اور بیواؤں کے مال غضب کرنے والو!…… دوسروں کی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرنے والو!…… قومی خزانے کی دولت لوٹنے والو!…… جوا’ سود اور شراب سے رنگ رلیاں منانے والو!…… ایک بار نہیں ہزار بار سوچ کر فیصلہ کرو کیا جہنم میں پیدا ہونے والا زقوم کا درخت اور کانٹے دار گھاس کھا لو گے؟…… آگ میں جلے ہوئے اِنسانی گوشت سے بننے والے خون اور پیپ کو پی لوگے؟…… بدبودار اور غلیظ اور سیاہ پانی کے کھولتے ہوئے جام نوش کرلو گے؟…… آج گندگی کا ایک قطرہ کسی کھانے پینے کی چیز میں گر جائے تو تم اسے فوراً گرا دیتے ہو’ کیسے تم خدا کی نافرمانیاں کرکے خود کو دائمی عذاب کا شکار بنانے پر تلے ہوئے ہو؟…… اس دنیا کی عیاشیاں کس کام کی جن کے عوض لامتناہی عذاب جھیلنا پڑے؟!!
یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے۔ ہمارا اصلی وطن جنت ہے۔ ہمارا اَزلی دشمن شیطان جس نے ہمارے ماں باپ حضرت آدم و حوا علیہ السلام کو دھوکے اور فریب سے عارضی طور پرجنت سے محروم کیا تھااب چاہتا ہے کہ ہم ہمیشہ ہمیشہ اس سے محروم رہیں ہے’ اُس کا کھلا چیلنج ہے:‘‘میں دُنیا میں اُن کے لیے دلفریبیاں پیدا کر کے اُن سب کو بہکا کے رہوں گا سوائے تیرے چیدہ بندوں کے’’۔ (الحجر ۱۵:۳۹-۴۰)
پس خبردار شیطان ملعون کے سارے وعدے جھوٹے ہیں جو اس کے دھوکے میں آگیا وہ اسے اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جائے گا۔
آخری بات
انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی بلا سے مثلاً اپنی طرف آنے والے کسی خوفناک درندے سے یا اپنا تعاقب کرنے والے کسی سخت ظالم اور طاقت ور دشمن سے جان بچانے کے لیے بھاگتا ہے تو بس بھاگا ہی چلا جاتا ہے اور جب تک مکمل اطمینان نہ ہوجائے’ نہ سوتا ہے اور نہ آرام کرتا ہے۔ اِسی طرح جب کسی انتہائی محبوب چیز کے حصول کے لیے تگ و دو کرتا ہے تو راہ میں نہ سوتا ہے’ نہ چین سے بیٹھتا ہے لیکن دوزخ اور جنت کے معاملہ میں انسانوں کا عجب حال ہے۔ دوزخ سے بڑھ کر کوئی خوفناک بلا نہیں’ مگر جن کو اس سے بچنے کے لیے بھاگنا چاہیے وہ غفلت کی نیند سوتے ہیں اور جنت جس کے حاصل کرنے کے لیے دل و جان سے جدوجہد کرنا چاہیے اُس کے چاہنے والے بھی محوخواب ہیں۔
کرنے کا کام یہ ہے کہ انسان دین کا مستند علم حاصل کرے یعنی وہ علم جو قرآن و سنت کے ساتھ انسان کو جوڑے۔ جہالت اور لاعلمی خواہ دُنیا میں ہو یا دین کے معاملے میں’ انسانوں کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے اور پھر گھر کا ماحول مسلمان بنائیں۔ نیز تمام کبیرہ گناہوں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ اور اگر کبھی ہوجائے تو احساس ہوتے ہی فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ استغفار کی جائے اور آیندہ اس گناہ کے قریب نہ جانے کا پختہ عزم کیا جائے۔ اگر اِس گناہ میں کسی آدمی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اُس کی تلافی کی جائے یا اُس سے معافی مانگی جائے۔ اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو (مثلاً وہ شخص فوت ہوچکا ہو) تو اُس کے حق میں بکثرت استغفار کیا جائے۔ صغیرہ گناہوں کو معاف کرانے والے نیک اعمال مثلاً نفل نمازیں’ نفل روزہ’ نفل صدقہ وغیرہ بکثرت کیے جائیں اور جہنم سے نجات اور جنت پانے کی دعا بکثرت کی جائے۔
مذکورہ اُمور کی پابندی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے قوی اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ضرور جہنم کے عذاب بچا لے گا اور اپنی نعمتوں بھری جنت میں داخل کرے گا۔
رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ - اِنَّ عَذَابَہَا کَانَا غَرَامًا o اِنَّہَا سَآءَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا o (الفرقان ۲۵: ۶۵-۶۶)
‘‘اے ہمارے رب! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے اس کا عذاب تو چمٹنے والا ہے۔ (اور) وہ (بڑی ہی) بری جگہ ٹھہرنے اور رہنے کی ہے’’۔ (آمین!)