بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
یہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا ہے’ یہاں ہمیں خدا کی مرضی کے مطابق رہنا چاہیے۔ دنیا میں خدا کی مرضی کے مطابق رہنے کا طریقہ کیا ہے؟…… یہی وہ سوال ہے جس کا جواب دینے کے لیے خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کھڑے کیے۔ پیغمبروں نے انسان کو آسان زبان میں کھول کھول کر بتایا کہ انسان سے خدا کو کیا مطلوب ہے۔ قرآن اِس خدائی ہدایت کا مستند مجموعہ ہے۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ خدا اُس کو اپنے وفادار بندوں میں شمار کرے اور اُس کو اپنی ابدی رحمتوں میں حصہ دار بنائے’ اس کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کومع ترجمہ پڑھے اور اس کو اپنی زندگی کا راہنما بنائے۔ قرآن اس کائنات میں انسانوں پر خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام ہے۔ قرآن مجید وہ نعمت ہے کہ اگر ہم اس سے وابستہ رہتے ہیں تو ہماری دنیا بھی سُدھر جاتی ہے اور آخرت بھی۔ اب ہم مسلمانوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ ہمارے پاس وہ نسخۂ ہدایت موجود ہے جو دنیا اور آخرت کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے لیکن ہم اس کی عظمت سے ناواقف ہیں۔ ہماری مثال اُس فقیر کی سی ہے جس کے کشکول میں ہیرا موجود ہو لیکن وہ اپنی نادانی میں اسے کانچ کا ٹکڑا سمجھ کر دوسروں سے بھیک مانگتا پھرتا ہو۔ ہمارا اصل کام یہ ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ پہلے یہ سمجھیں کہ قرآن کے ہم پر کیا حقوق عائد ہوتے ہیں۔ پھر ان کی بہترین طریقے سے ادایگی کی بلاتاخیر فکر کریں۔ اس لیے کہ ان کا براہِ راست تعلق ہماری نجات سے ہے۔ ہم پر قرآن مجید کے پانچ حقوق ہیں:
۱- قرآن پر ایمان لائیں
۲- اس کی تلاوت کریں
۳- اس کو سمجھیں اور اس میں غوروفکر کریں
۴- اس پر عمل کریں
۵- اور اسے دوسروں تک پہنچائیں۔
۱- پہلا حق:
یہ بات بظاہر عجیب سی معلوم ہوگی کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لائیں۔ لیکن یہ بات آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے اگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ایمان کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک زبان سے اقرار کرنا اور دوسرا دل سے تصدیق کرنا۔ اور ایمان مکمل بھی تبھی ہوتا ہے جب زبانی اقرار کے ساتھ دل کا یقین بھی انسان کو حاصل ہوجائے۔ اس لیے کہ جس چیز پر ہمارا یقین ہو’ ہمارا عمل اس کے خلاف نہیں ہوتا۔ ہمیں معلوم ہے کہ آگ جلاتی ہے اس لیے کوئی شخص آگ میں اُنگلی نہیں ڈالتا۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن مجید پر یقین کامل ہے لیکن ہمارا طرزِ عمل اس کے خلاف ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ دراصل ہمارا ایمان نہیں ہے یا کمزور ہے۔ ہم زبان سے تو اِس کے کلام الٰہی ہونے کے یقین کا اعلان کرتے ہیں لیکن قلبی یقین کی دولت سے ہم محروم ہیں ورنہ جسے یہ یقین حاصل ہوجائے اُس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے۔ ایمان کی اس کمی کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی خود قرآن ہی ہے۔
جب ہمیں یقین حاصل ہوجائے گا کہ قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ہماری ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے تو پھر اس کے ساتھ ہمارے ایک نئے تعلق کا آغاز ہو گا۔ پھر ہمیں محسوس ہوگا کہ قرآن سے بڑھ کر کوئی دولت اور اس سے عظیم تر کوئی نعمت نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘‘جس شخص کو قرآن جیسی دولت عطا ہوئی اور پھر بھی اُس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی کو اُس سے بڑھ کر نعمت ملی’ اُس نے قرآن کی قدرو منزلت کو نہیں پہچانا’’۔
تلاشِ حق کی نیت سے اسے پڑھا اور اس میں غوروفکر کیا جائے تو سارے حجابات دُور ہوتے چلے جاتے ہیں اورانسان کا باطن نورِ ایمان سے جگمگا اُٹھتا ہے۔
۲- دوسرا حق:
ہم مسلمانوں پر قرآن کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ بار بار تلاوت کیوں ضروری ہے۔
انسان کے وجود کے دو حصے ہیں۔ ایک اُس کا جسم جو مٹی سے بنا ہے اور دوسرا حصہ روح پر مشتمل ہے جس کی نسبت خود خداتعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف فرمائی ہے۔ حیوانی وجود چونکہ مٹی سے بنا ہے لہٰذا اس کی تمام تر ضروریات زمینی وسائل ہی سے پوری ہوتی ہیں۔ ہم زمین کی خوراک جتنی زیادہ اور بہتر کھائیں گے اتنا ہی ہمارا حیوانی وجود صحت مند و مضبوط ہوتا جائے گا لیکن رُوح کا تعلق چونکہ اِس زمین سے نہیں لہٰذا اس کی غذا بھی زمین سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ وحی الٰہی کی شکل میں آسمانوں سے آئی ہے۔ اس لحاظ سے قرآنِ حکیم دراصل ہماری روح کے لیے غذاکا کام دیتا ہے اور اس کی تلاوت روح کی نشوونما اور اسے تروتازہ رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔ جس طرح ہم اپنے جسم کو صحت مند اور توانا رکھنے کے لیے مسلسل محنت کرتے اور اچھی سے اچھی غذا کا اہتمام کرتے ہیں اسی طرح اپنی روح کو تروتازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بار بار قرآن مجید کی تلاوت کریں۔ قرآن صرف ایک بار پڑھ لینے کی چیز نہیں بلکہ بار بار اور ہمیشہ پڑھتے رہنے کی چیز ہے۔ اس لیے کہ یہ رُوح کے لیے غذا ہے اور جس طرح انسانی جسم کو زندگی برقرار رکھنے اور قوت و توانائی کے لیے مسلسل غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کے لیے غذا قرآنِ حکیم ہے۔ اگر قرآن ایک بار سمجھ لینے کی چیز ہوتی تو کم از کم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس کے بار بار پڑھنے کی قطعاً کوئی حاجت نہ ہوتی لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو مسلسل قرآن پڑھتے رہنے کی بار بار تاکید ہوئی ہے ۔قرآن ایمان کو تروتازہ اور سرسبز و شاداب رکھنے کا اہم ترین ذریعہ اور مصائب و مشکلات کے مقابلے کے لیے سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ا رشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘(اے پیغمبرؐ!) کہہ دیجیے کہ اس (قرآن) کو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے نازل کیا ہے تاکہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں اُن کو ثابت قدم رکھے’’۔ (النحل ۱۶: ۱۰۲)
ہر شخص قرآن کے اُس حصے کو جو اُسے یاد ہو اپنا اصل اثاثہ اور سرمایہ سمجھے اور اُس میں مسلسل اضافے کے لیے کوشش کرتا رہے تاکہ اپنی روح کو زیادہ سے زیادہ عمدہ صورت میں غذا فراہم کرسکے۔ نیز تلاوت کو باقاعدہ اپنے روزانہ کے معمولات میں شامل کیا جائے اور اچھی سے اچھی آواز سے پڑھا جائے۔
۳- تیسرا حق:
قرآن مجید کا تیسرا حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے۔ قرآن کتابِ ہدایت ہے۔ قرآن اپنے آپ کو مجسم یاد دہانی اور نصیحت کہتا ہے۔ یاد دہانی ہمیشہ کسی بھولی بسری بات کی کروائی جاتی ہے اور یاد دہانی کے لیے کوئی نشانی بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے کسی عزیز دوست نے چند سال قبل آپ کو تحفے میں کوئی قلم دیا’ قلم آپ کہیں رکھ کر بھول گئے۔ کافی عرصہ بعد وہ قلم کہیں نظر آنے پر اس دوست کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح قرآن کی آیات بھی نشانی کا کام کرتی ہیں۔ ہم اپنی غفلت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں لیکن جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اس کا ہر جملہ نشانی کا کام کرتا ہے اور اس پر غور کرنے سے خدا تعالیٰ کی یاد دل میں تازہ ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے ہر جملے کو ‘آیت’ کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے ‘نشانی’۔ یعنی قرآن کی آیات کو اگر ہم سمجھ کر پڑھیں تو خدا پر ایمان اور اُس کی بندگی کے عہد کی یاد دہانی ہوجاتی ہے اور چونکہ اس یاد دہانی کی ضرورت ہر شخص کو ہے لہٰذا خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کو اس پہلو سے نہایت آسان بنا دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے موزوں بنا دیا ہے تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے’’۔ (القمر ۵۴: ۱۷)
۴- چوتھا حق:
قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے اور اسے اپنی زندگی کے لیے راہنما بنائے۔ قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا بھی تب ہی زیادہ مفید ہوگا جب اس پر عمل بھی کیا جائے۔ انسان میں اصل عزت و شرف کی چیز عقل ہے جو اُسے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ تاہم عقل کو بھی بعض معاملات میں دھوکہ کھانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ وحی اِن معاملات میں عقل کی رہنمائی کرتی ہے لہٰذا قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر عمل کرنا ہے اور کن باتوں سے اجتناب کرنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:‘‘وہ شخص قرآن پر ایمان نہیں لایا جس نے اِس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرلیا’’۔ (ترمذی)
ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن کو اِس ارادے سے پڑھیں اور سمجھیں کہ ہمیں ہر صورت قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔ چاہے ہمیں کتنی ہی تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں اور کیسی ہی قربانیاں دینی پڑیں۔ اس کے بغیر قرآن پر عمل کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ قرآن کے بعض پڑھنے والے ایسے ہیں جنھیں سوائے لعنت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس لیے کہ جب وہ قرآن میں یہ پڑھتے ہیں: ‘جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو’ اگر وہ خود جھوٹ بولتے ہیں تو یہ لعنت خود انھی پر ہوئی۔ اسی طرح کم تولنے’ تھوڑا ناپنے’ پیٹھ پیچھے برائی کرنے اور طعنہ دینے والے قرآن حکیم کو پڑھتے ہوئے خود قرآن مجید کی دردناک سزاؤں کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں قرآن رچا بسا ہوا تھا۔ ان کا ہر ہر عمل اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ اُنھوں نے قرآن کو واقعی اپنا راہنما مان کر اپنی مرضی کو خدا تعالیٰ کے فیصلے کے آگے جھکا دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایک حدیث کے مطابق قرآن ہی تو تھی۔ ہمارے لیے اس میں رہنمائی یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زندگی گزاریں تو ہمارے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنا قرآن پر عمل کرنے کا ذریعہ ہے۔ تاہم خیال رہے کہ قرآن کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنا دنیوی و اُخروی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ یہودیوں میں یہ گمراہی پیدا ہوگئی تھی کہ وہ تورات کی بعض ہدایات پر عمل کرتے اور بعض احکامات کو توڑ ڈالتے تھے۔ اس پر خدا تعالیٰ نے بڑے سخت الفاظ میں انھیں ڈانٹا:‘‘کیا تم کتابِ الٰہی کے بعض احکامات کو تو مانتے ہو اور بعض احکامات سے انکار کیے دیتے ہو’ تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں اور جو کام تم کرتے ہو’ اللہ اُن سے غافل نہیں’’۔ (البقرہ ۲: ۸۵)
آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلت اور رسوائی کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم قرآن کے بعض احکامات پر تو عمل کرتے ہیں لیکن اکثر قرآن کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ بلکہ قرآن سے ہماری بے پرواہی کا یہ عالم ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ قرآن میں ہمیں کیا ہدایات اور احکامات دیئے گئے ہیں۔ انسان قرآن کی انگلی پکڑ کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش عملاً شروع کر دے تو صراطِ مستقیم پر گامزن ہوجائے گا اور درجہ بدرجہ ہدایت میں ترقی کرتا چلا جائے گا۔ اگرا نسان جانتے بوجھتے قرآن کے احکامات پر عمل نہ کرے تو یہ جرمِ عظیم ہے جس کی سب سے بڑی سزا توفیق سلب ہونے کی شکل میں ملتی ہے۔ غرض یہ کہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کی صحیح ترین صورت یہ ہے کہ اس کا جتنا علم اور سمجھ انسان کو حاصل ہو وہ ساتھ ساتھ اپنے اعمال و افعال’ عادات و اطوار اور کردار کا جزو بناتا چلا جائے اور اس طرح قرآن اس کی شخصیت میں مسلسل سرایت کرتا جائے۔ بصورت دیگر خدشہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق: ‘‘قرآن یا تو تمھارے حق میں حجت بنے گا یا تمھارے خلاف’’۔ (مسلم) ڈرنا چاہیے کہ کہیں قرآن روزِ قیامت ہمارے خلاف نہ کھڑا ہوجائے۔
۵- پانچواں حق:
قرآن حکیم کا آخری حق یہ ہے کہ اس کے پڑھنے’ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام لوگوں تک خدا کے ابدی پیغام کو پہنچائیں۔ اس لیے کہ ہم مسلمان اِس قرآن کو پوری دنیا تک نہیں پہنچائیں گے تو اور کون پہنچائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔ لہٰذا جن لوگوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام ابھی تک نہیں پہنچا’ اُن تک اِس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل ۲۳سال اسی قرآن کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا اور یاد رکھیے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بہت پُرمشقت اور محنت طلب کام تھا۔ اس راہ میں آپ نے ہر طرح کی مصیبتوں کو پورے صبروتحمل سے برداشت کیا اور اپنے مشن کو جاری رکھا۔ پھر اپنے آخری خطبۂ حج کے موقع پر پہلے تو آپؐ نے تمام صحابہؓ سے گواہی لی کہ کیا میں نے خدا تعالیٰ کا دین اور اُس کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ اور جب تمام صحابہؓ نے بلند آواز سے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا’ تب آپؐ نے فرمایا:‘‘اب جو لوگ یہاں موجود ہیں اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین اور اُس کے پیغام کو اُن لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں’’۔ (بخاری)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کو پورا فرمانے کے بعد اب قیامت تک آنے والی بقیہ پوری نوعِ انسانی تک خدا تعالیٰ کے کلام کو پہنچانے کی ذمہ داری اُمت کے کندھوں پر ڈال دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے’’۔ (بخاری)
ہرمسلمان کے لیے یہ بات نہایت پسندیدہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت کی حد تک اپنے اہل و عیال’ اپنے رشتہ داروں’ ہمسایوں’ اپنے ماحول میں رہنے والوں’ اور اپنے معاشرے کے کارفرما طبقات کو قرآن مجید کا پیغام پہنچائے۔ کسی بھی انسان کو دین کی دعوت دینے کا سب سے کارگر طریقہ اُس کو قرآن سے روشناس کرا دینا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘اس قرآن کے ذریعے سے ہر اُس شخص کو یاد دہانی کراؤ جو آخرت کے دن کا خوف رکھتا ہو’’۔ (ق ۵۰: ۴۰)
علماء قرآن کے حقائق و معارف لوگوں میں عام کریں اور عوام اس کام میں ان کے دست و بازو بنیں ۔ ان کی لکھی ہوئی کتب اور دروس کی کیسٹ پھیلا کر’ سیکھ کر اور دوسروں کو سکھا کر۔قرآن کے پیغام کو چھپانے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے شدید وعید بیان فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ ہم نے انھیں لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے (تو یقین کرو کہ) یہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے (بھی) اِن پر لعنت کرتے ہیں مگر جنھوں نے توبہ کی اور (اپنی حالت کی) اصلاح کرلی اور (احکامِ حق کو چھپانے کی جگہ انھیں) بیان کرنے لگے تو ایسے لوگوں کی توبہ ہم قبول کرلیں گے اور ہم بڑے ہی درگزر کرنے والے (اور) رحم فرمانے والے ہیں’’۔ (البقرہ ۲: ۱۵۹- ۱۶۰)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
اَللّٰھُمَّ اَجْعَل الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَنُوْرَ صَدْرِیْ وَجَلَآء حُزْنِیْ وَذَہَابَ ہَمِّیْ وَغَمِّیْ -
‘‘اے اللہ! قرآن کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور بنا دے اور میرے رنج و غم کو اور میری پریشانیوں کو دُور کرنے کا ذریعہ بنا دے’’۔