آج تیسری شب تھی ۔ اسے کام کرتے ہوئے ۴۸ گھنٹے بیت چکے تھے ۔ اس اثنا میں سوائے معمولی وقفوں کے اس نے نہ آرام کیا تھا اور نہ وہ سویا تھا۔اس نے سوچا اگر آج کی شب بھی مسلسل کام کر لوں تو بیٹے کے کالج کی فیس ادا ہو جائے گی۔ چنانچہ حسب معمول وہ گندم کی بوریاں اپنی کمر پر اٹھا اٹھاکر ٹرکوں پرلوڈ کرنے لگا۔تیسر ی شب کے ابھی دو ہی گھنٹے بیتے تھے اور وہ بوری کمر پر اٹھا کر ٹرک کی طرف جا رہاتھا کہ اسی حال میں اسے نیند آ گئی ۔ نیند کے جھونکے سے اسے چکر آیا ، بوری ایک طرف گری اور وہ دوسری طرف۔
یہ کہانی بیان کرتے ہوئے وہ زارو قطار رو رہا تھا۔ جب یہاں تک پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھا ،پتا شاہ جی! جب میرا یہ حال ہوا تو اس وقت میں نے کیا دعا کی تھی ؟میں نے کہا نہیں تو ،آپ ہی بتائیے۔ اس نے کہا اس وقت میں نے اپنے اللہ سے کہا تھامیرے مالک میری اولاد کو یہ دن نہ دکھانا اور انہیں وافر اورآسان رزق حلال نصیب فرمانا۔ میں اس بد نصیب باپ کی دعاکے اثرات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاتھا۔ ان پڑھ باپ کے بیٹے نے ایم اے کیا اورلاہور کے ایک اچھے محکمے میں اچھی جگہ ملازم ہو گیا۔ لاہور سے کوسوں دور ایک گاؤں کے کچے مکان میں رہنے ،پلنے اور پڑھنے والے اس بیٹے کو لاہور کی اہم آباد ی میں بڑا گھر بھی مل گیا اور عزت و دولت بھی مگرنہ اس دولت میں ماں باپ کے لیے کچھ حصہ تھا اورنہ اتنے بڑے گھر میں ان کے لیے کوئی جگہ ۔اس وقت وہ باپ مجھ سے یہ کہنے آیا تھا کہ شاہ جی تم حج پر جا رہے ہوتو وہاں سے میرے لیے آلہ سماعت لیتے آنا ۔ میں نے کہا‘ چا چا جی’ میں تو انشا ء اللہ لے ہی آؤں گا لیکن آپ کا بیٹا ماشا ء اللہ جب چاہے اور جتنا قیمتی چاہے لے سکتا ہے ۔ بوڑھے باپ نے کہا،شا ہ جی اسے پتا نہیں گھر سے اجازت ملے کہ نہ۔ اللہ اکبر، اس سب کے بعد بھی یہ باپ اپنے بیٹے کو‘الاؤنس ’دے رہا تھا اور گویا اسے بری الذمہ قرار دے کر سارا دوش اس کی بیوی کے سر ڈال رہا تھا۔ اکثر سوچتا ہوں کہ اس بیٹے کی دستار عزت کے سارے موتی اصل میں اس کے باپ کے پسینے کے قطرے ہیں۔ اس کے گھر کا رنگ وروغن کچھ بھی تو نہیں مگر اس کے باپ کا خون جگر ہے اور اس کے ہاں کی ساری روشنی اس کے باپ کی تاریک راتوں کا صدقہ ہے۔ اگر یہ بیٹا ساری عمر بھی باپ کے پاؤں دھو دھو پیتا توشاید اس ایک رات کی قیمت بھی ادا نہ ہو سکتی کجا یہ سلوک! نہ جانے لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آج جو بوڑھا ہے وہ بھی کبھی جوان تھا اور آج وہ اگر جوا ن ہیں تو بہت جلد وہ بھی بوڑھے ہو جائیں گے۔ماں باپ تو خیر بہت بڑی بات ہے ہر بوڑھا ہی تجربات کا انمول خزانہ ہوا کرتا ہے اور خزانے کا دستور یہ ہے کہ اسے چاہا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے نہ کہ اس سے کنارا کشی۔ہاں کنارا کشی بھی کی جاتی ہے مگر فالتو سامان سے ۔ماں باپ سے یہ سلوک کرنے والے بھی شاید انہیں فالتو سامان ہی سمجھتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ بھول رہے ہوتے ہیں کہ بہت جلد وہ بھی فالتو سامان بننے والے ہیں۔
قارئین محترم !اس تحریر کے آغاز میں بیان کر دہ بات محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کا یہ راقم چشم دید گواہ ہے ۔یہ کہانیاں دو چار ہوتیں تو شاید یہ تحریر قلم کی زبان تک نہ آتی لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسی بہت سی حقیقتیں اب ہمارے معاشرے میں عام ہوتی جا رہی ہیں۔اب ہمارے معاشرے میں بھی اولڈ ہومز کی باتیں ہو رہی ہیں اور اب ہمارے معاشرے میں بھی فادرز ڈے اور مدرز ڈے منائے جا رہے ہیں۔وہ معاشرہ جہاں ماں کے قدموں تلے جنت ہوا کرتی تھی اور جہاں باپ کی رضا میں رب کی رضا ہوا کر تی تھی ، وہ معاشرہ اس جنت اور اس رضائے ربانی سے دامن بچا نا چاہتا ہے ۔تقلید بر ی بات نہیں مگر اندھی تقلید دین میں ہو یا دنیا میں مہلک ہو اکر تی ہے ۔ مغرب کی اندھی تقلید ہمیں بھی مہلک مقام تک لے آئی ہے ۔ اوراب معاشر ے کی بنیاد ی اکائی یعنی خاندان کی چولیں ڈھیلی ہو رہی ہیں اور اس اکائی کی بنیاداورجڑ یعنی والدین کو گھروں سے اکھاڑ کر اولڈ ہومز میں پھینکا جارہا ہے ۔ اور پھر سال کے بعد ان کا ایک دن منا کر حق ادا کر دیا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں توہر یوم فادرز ڈے اورہر دن مدرز ڈے ہوا کرتا تھا مگر برا ہو اندھی تقلید کا کہ اب ہم بھی سال بعد ماں باپ کو یادکر نے کی باتیں کرتے ہیں۔یہ محمد کا دین نہیں کسی اورکا دین ہے ۔ محمد کے دین میں تو ما ں باپ کومرکز ی مقام حاصل ہے اور وہ گھروں کے تاحیات سربراہ ہو ا کرتے ہیں ان کی معزولی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ محمد کے دین کے ماننے والوں کو اس کا بھی حساب اسی طرح دینا ہے جس طرح نماز روزے اور زکوۃ و حج کا۔ ہاں کوئی یہ چاہے کہ وہ نماز روزہ تو محمد کے دین کا لے لے اور والدین کے بارے میں فادرز ڈے اورمدرز ڈے منانے والوں کا تصور لے لے تو یہ نہیں چلے گا۔ کیونکہ والدین کی خدمت کے بغیر محمد کا دین ادھورا ہے ۔اورمحمد کے ڑب ککا فیصلہ یہ ہے کہ اسے ادھورا دین منظو ر نہیں۔ ( ادخلوا فی السلم کافۃ ) اب ہمارا کیا فیصلہ ہے اسکا فیصلہ بھی کسی نے نہیں کرنا بلکہ ہم نے خود ہی کرنا ہے ۔